صفحات

بدھ، 6 دسمبر، 2017

لوڈ شیڈنگ میں سہاگ رات


بجلی دراصل شہر میں انجام ہجر ہے

یعنی سہاگ رات میں پیغام ہجر ہے

 

شادی ہوئی کس کی جو میرے قریب میں

’’کالی سہاگ رات‘‘ لکھی تھی نصیب میں

 

جس روشنی میں شادی ہوتی تھی چلی گئی

اٹھا نقاب حسن تو بجلی چلی گئی

 

دولہا ابھی تھا منتظر منظر جمال

آیا نہ ’’واپڈا‘‘ کو کنوارے کا کچھ خیال

 

دونوں کے درمیان جفا کار بن گیا

یہ واپڈا سماج کی دیوار بن گیا

 

مشعل نہ تھی چراغ نہ تھا اور دیا نہ تھا

پہلے سے بیوقوف نے ماچس لیا نہ تھا

 

جیسے کہ تار کول چمکتا ہو دھوپ میں

گوری دکھائی دیتی تھی کالی کے روپ میں

 

دل بجھ رہا تھا کشمکش انتظار سے

جیسے کہ یہ بھی جلتا ہو بجلی کے تار سے

 

پنکھا بھی تھا سکون میں ’’اے۔ سی‘‘ بھی بند تھا

گدا بھی مولٹی فوم کا گرمی پسند تھا

 

جدت شب وصال میں گویا جلا کی تھی

گرمی وہاں بلا کی نہیں کربلا کی تھی

 

اک ہاتھ دوجے ہاتھ کو آتا نہ تھا نظر

دولہا دلہن کو ڈھونڈ رہا تھا اِدھر اُدھر

 

تاریکیوں میں تاج محل ڈھونڈتا تھا وہ

بحر رجز میں بحر رمل ڈھونڈتا تھا وہ

 

دولہا میاں سو ہجر کی تنہائیوں میں تھے

مچھر دلہن کے خاص شناسائیوں میں تھے

 

رخسار ناک ہونٹ کے وہ قدر داں تھے

مچھر ہر اعتبار سے پورے جوان تھے

 

موقعہ جہاں جہاں بھی لگا کاٹتے رہے

معجون حسن جتنی ملی چاٹتے رہے

 

دولہا سے مچھروں کا شدید انتقام تھا

مچھر وہ کررہے تھے جو دولہا کا کام تھا

 

مچھر کو اقتدار حکومت کا جوش تھا

اور حزب اختلاف کا قائد خموش تھا

 

اس کشمکش میں صبح کا آغاز ہوگیا

دولہا غریب ہجر کی چوکھٹ پہ سو گیا

 

جب آسماں پہ صبح کی تنویر چھا گئی

سورج ہوا طلوع تو بجلی بھی آگئی

1 تبصرہ:

  1. یہ پوری غزل مجھے زبانی یاد ہے، لیکن کچھ اشعار پہلی مرتبہ سنے۔ شئر کرنے کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں