صفحات

پیر، 11 دسمبر، 2017

کلرک از سید محمد جعفری

کلرک



خالق نے  جب ازل میں بنایا کلرک کو
لوح و قلم کا جلوہ دِکھایا کلرک کو
کُرسی پہ پھر اُٹھایا بٹھایا کلرک کو
افسر کے ساتھ پِن سے لگایا کلرک کو
مٹی گدھے کی ڈال کر اُس کی سرِشت میں
داخل مشقتوں کو کِیا سرنوشت میں
چپڑاسی ساتھ خُلد میں جب لے گیا اُسے
حُوروں نے کچھ مذاق کِیے کچھ ملک ہنسے
ہاتف کی دفعتاً یہ صَدا آئی غیب سے
’’دیکھو اِسے جو دیدئہ عبرت نِگاہ ہے‘‘
آدم کا رف ڈرافٹ ہے،کب تک ہنسو گے تم
اَپروو ہو کر آیا تو سجدہ کرو گے تم


جنّت میں فائلیں ہیں نہ ہے کوئی ڈائری
حُوریں تو جانتی ہیں فقط طرزِ دلبری
غلماں سے کچھ کہو تو سُنائے کھری کھری
یہ انتظام ہے یہ ڈسپلن ہے دفتری
مَیں سوچتا ہوں کیا کروں ایسی بہشت کو
’’ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو‘‘
خُلدِ بریں کو ناز تھا اپنے مکین پر
اور یہ بھی تھے مٹے ہوئے اک حورِ عین پر
لالچ کی مہر کندہ تھی دل کے نگین پر
ٹی اے وصول کرنے کو اُترا زمین پر
ابلیس راستے میں مِلا کچھ سِکھا دیا
اُترا فلک سے تھرڈ میں انٹر لکھا دیا
رکھا قدم کلرک نے جس دم زمین پر
دیکھا ہر ایک چیز ہے قُدرت کے دین پر
بولا کہ مَیں تو زندہ رہوں گا روٹین پر
مجھ پر مشین ہوگی مَیں ہوں گا مشین پر
اِس آ ہنی صنم کی عبادت ہے مجھ پہ فرض
نوکر ہوں بادشاہ کا جیتا ہوں لے کے قرض


اے سیکریٹریٹ کی عمارت ذرا بتا
اُس وقت جب کہ جاتے ہیں افسر بھی بوکھلا
ہوتا ہے کون کشتیِ فائل کا ناخدا
افسر نہیں ہیں اِس کی حقیقت سے آشنا
پر ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان ہیں کلرک


دریائے ریڈ ٹیپ کا طوفان ہیں کلرک 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں