مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ
تو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
ساتھ اپنے ہے اب فوجِ الم اور زیادہ
کر تو بھی بلند آہ علم اور زیادہ
تیز اس نے جو کی تیغِ ستم اور زیادہ
مشتاقِ شہادت ہوئے ہم اور زیادہ
سرکٹ کے سر افراز ہیں ہم اور زیادہ
جوں شاخ بڑھے ہو کے قلم اور زیادہ
گر شرحِ جنوں کیجے رقم اور زیادہ
ہو چاک ابھی جیبِ قلم اور زیادہ
دیتا ہے وہ دم باز جو دم اور زیادہ
شیشے کی طرح پھولے ہیں ہم اور زیادہ
لذت سے محبت کی ہے ہر زخم جگر کو
ذوقِ نمک و درد و الم اور زیادہ
کرنے کو سیہ نہ ورقِ چرخ کو اے دل
نالے سے نہیں کوئی قلم اور زیادہ
کیا ہووے گا دو چار قدح سے مجھے ساقی
میں لوں گا ترے سر کی قسم اور زیادہ
گر میری طرح دوش پہ ہو بارِ محبت
ہو پشتِ فلک میں ابھی خم اور زیادہ
دشمن کی نہ جا سیدھی نگاہوں پہ کہ جوں تیغ
سیدھی ہے تو اک اُس میں ہے خم اور زیادہ
پیٹوں سر بستر پہ پڑا پاؤں کہاں تک
بس پاؤں نہ پھیلا شبِ غم اور زیادہ
وہ دل کو چرا کر جو لگے آنکھ چرانے
یاروں کا گیا اُن پہ بھرم اور زیادہ
دکھلائے جو وہ صید فگن چشم کی شوخی
ہو آہوئے رم دیدہ کو رم اور زیادہ
لیتے ہیں ثمر شاخِ ثمرور کو جھکا کر
جھکتے ہیں سخی وقتِ کرم اور زیادہ
اے خنجرِ خوں خوار نہ برش میں کمی کر
ہاں تجھ کو مرے سر کی قسم اور زیادہ
چالیس قدم ساتھ وہ تابوت کے آئے
کیا ہو جو بڑھیں چند قدم اور زیادہ
سرعت ہے ابھی نبض میں جوں موجِ رمِ برق
کیا ہو گا جو ہو گی تپِ غم اور زیادہ
کہتا ہے مرا شوقِ جراحت کہ صد افسوس
اس تیغِ دو دم میں نہیں دم اور زیادہ
جو کنجِ قناعت میں ہیں تقدیر پہ شاکر
ہے ذوق برابر انھیں کم اور زیادہ
x
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں