صفحات

اتوار، 10 دسمبر، 2017

یکسوئی از ساحر لدھیانوی

یکسوئی



عہدِ گُم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو
ایک آوارۂ منزل کو ستاتی کیوں ہو

وہ حسیں عہد جو شرمندہ ایفا نہ ہوا
اِس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو

زندگی شعلۂ بے باک بنا لو اپنی!
خود کو خاکسترِ خاموش بناتی کیوں ہو

میں تصوّف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل
میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو

ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو

میں سمجھتا ہوں تقدّس کو تمدّن کا فریب
تم رُسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو

تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں