صفحات

جمعہ، 15 دسمبر، 2017

بول...... از فیض احمد فیض


بول......


بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے

تیرا سُتواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے

دیکھ کہ آہن گر کی دکان میں
تُند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن

کھُلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اِک زنجیر کا دامن

بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں