تنہائی
پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا ، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزر
اجنبی خاک نے دُھندلا دیئے قدموں کے سُراغ
گُل کرو شمعیں ، بڑھا دو مَے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفّل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا
لافانی کلام ایک عظیم انسان کا
جواب دیںحذف کریں