صفحات

منگل، 12 دسمبر، 2017

اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا از فیض احمد فیض

تنہائی



پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا ، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزر
اجنبی خاک نے دُھندلا دیئے قدموں کے سُراغ
گُل کرو شمعیں ، بڑھا دو مَے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفّل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا

1 تبصرہ: