کیا کیا مصیبتیں ہیں دلِ پُر محن کے ساتھ
اک زخم تازہ روز ہے زخمِ کہن کے ساتھ
ہے اُن کا سادہ پن بھی تو اک بانکپن کے ساتھ
سیدھی سی بات بھی ہے تو کیا کیا پھبن کے ساتھ
ہوش و خرد گئے نگہِ سحر فن کے ساتھ
اب جو ہے اپنی بات سو دیوانہ پن کے ساتھ
تیرے تصورِ قدِ رعنا میں آج ہم
کیا کیا لپٹ کے روئے ہیں سرو چمن کے ساتھ
پایا درِ اثر نہ کہیں رات بھر پھری
سر مارتی یہ آہ سپہرِ کہن کے ساتھ
اللہ رے تابِ حسن کہ اس کا درِ بلاق
چشمک زنی کرے ہے سہیل یمن کے ساتھ
دستِ جنوں نہ دے تجھے ناخن خدا کہ تو
ٹکڑے اُڑا دے تن کے مرے پیرہن کے ساتھ
دیکھا نہ گل سے نکہتِ گل کر گئی سفر
خانہ بدوش کو نہیں اُلفت وطن کے ساتھ
افسردہ دل کے واسطے کیا چاندنی کا لطف
لپٹا پڑا ہے مردہ سا گویا کفن کے ساتھ
دوزخ میں بھی پڑیں تو نہ سیدھے ہوں کج سرشت
سو پیچ و تاب آگ میں بھی ہیں رسن کے ساتھ
منظور کب ہے تجھ کو یہ اے آفتابِ حسن
ہو کوئی تیرہ بخت ترا سایہ بن کے ساتھ
داغِ دلِ فسردہ پہ پھاہا نہیں نہ ہو
مطلب چراغِ مردہ کو کب ہے کفن کے ساتھ
جلد آ کہ مر نہ جائے کوئی خانماں خراب
ٹکرا کے اپنا سر درِ بیت الحزن کے ساتھ
مشکل ہے ذوق قیدِ تعلق سے چھوٹنا
جب تک کہ روح کو ہے علاقہ بدن کے ساتھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں