صفحات

اتوار، 10 دسمبر، 2017

زندگی سے ڈرتے ہو از ن م راشد

زندگی سے ڈرتے ہو


…زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی تو تم بھی ہو،زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی توتم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
آدمی زبان بھی ہے، آدمی بیان بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’’ان کہی‘‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
اُس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو

…پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’’بے ریا‘‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزومندی
یہ شب زباں بندی، ہے رہِ خداوندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو!

…شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک اُٹھّے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،

تم ابھی سے ڈرتے ہو! 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں