ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گۂ نماز میں
بلکہ خدا کو بھول جا سجدۂ بے نیاز میں
رازِ نشاطِ خلد ہے خندۂ دل نواز میں
غیب و شہود کے رموز نرگسِ نیم باز میں
آج وہ اضطرابِ شوق حد سے سوا گزر گیا
اور بھی جان پڑ گئی عشوۂ جاں گداز میں
اس سے زیادہ اور کیا شوخیِ نقشِ پا کہوں
برق سی اک چمک گئی آج سرِ نیاز میں
آتشِ گل سے ہر طرف دشت و چمن دہک اُٹھا
ایک شرارِ طور ہے خلوتیانِ راز میں
پردۂ دہر کچھ نہیں ایک ادائے شوق ہے
خاک اُٹھا کے ڈال دی دیدۂ امتیاز میں
سب ہے ادائے بے خودی ورنہ ادائے حسن کیا
ہوش کا جب گزر نہیں اس کی حریمِ ناز میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں