اس طپش کا ہے مزہ دل ہی کو حاصل ہوتا
کاش میں عشق میں سر تا بہ قدم، دل ہوتا
چین پیشانی اگر تیری نہ ہوتی زنجیر
نالہ دیوانہ تھا جو پا بہ سلاسل ہوتا
موت نے کر دیا لاچار وگرنہ انساں
ہے وہ خود بیں کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا
آپ، آئینۂ ہستی میں، ہے تو اپنا حریف
ورنہ یاں کون تھا جو تیرے مقابل ہوتا
سینۂ چرخ میں، ہرا اختر اگر دل ہے تو کیا
ایک دل ہوتا مگر درد کے قابل ہوتا
ہے تری عُقدہ کشائی تو یداللہ کے ہاتھ
ذوق وا کیوں نہ ترا عقدۂ مشکل ہوتا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں