خوبصورت موڑ
چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی اُمید رکھوں دِل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دِل کی دھڑکن لڑکھڑائے تیری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی اُلجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رُسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بُھولنا بہتر
تعلّق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے ...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں