ایک دن بالکل نہ میں اے چارہ گر اچھا ہوا
داغ اِدھر تازہ ہوا گر زخم اُدھر اچھا ہوا
کھینچ گیا میری طرف سے اور اس دلبر کا دل
واہ وا جذبِ محبت کا اثر اچھا ہوا
قتل کرتا ہے ترا بسمل سے یہ کہنا کہ لو
اب تو دامن بھی ہوا لو ہو سے تر اچھا ہوا
نامہ بر جاتا ہے جا جلدی چلی جان حزیں
دیر مت کر ساتھ تیرے ہم سفر اچھا ہوا
آئینہ خانہ میں عالم کے سمجھ لے یہ مثال
تا تجھے جانیں کہ یہ صاحب نظر اچھا ہوا
ہے برا تو ہی اگر آیا نظر تجھ کو برا
تو ہی اچھا ہے تجھے معلوم گر اچھا ہوا
ذوق کے مرنے کی سن کر پہلے تو کچھ رک گئے
پھر کہا تو یہ کہا منہ پھیر کر اچھا ہوا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں