صفحات

جمعرات، 7 دسمبر، 2017

ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں از ناصر کاظمی

ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں

بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں

یہاں تک بڑھ گئے آلام ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں

کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں

نگاہ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں

جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں