صفحات

منگل، 12 دسمبر، 2017

نثار میں تیری گلیوں کے....... از فیض احمد فیض

 نثار میں تیری گلیوں کے.......

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کے دستِ بہانہ جُو کے لیے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدّعی بھی ، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
چمک اُٹھے ہیں سَلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رُخ پر بکھر گئی ہو گی
غرض تصوّرِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایۂ دیوار و دَر میں جیتے ہیں

یونہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی رِیت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھُول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جُدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جُدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خُدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں