صفحات

جمعہ، 8 دسمبر، 2017

گئے دِنوں کا سراغ لے کر ِکدھر سے آیا ِکدھر گیا وُہ از ناصر کاظمی

گئے دِنوں کا سراغ لے کر ِکدھر سے آیا ِکدھر گیا وُہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وُہ

بس ایک موتی سی چھب دِکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وُہ

نہ اب وُہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اُداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دِل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وُہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دِن کڑا تھا گزر گیا وُہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دِل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں ُگزر گیا میں ٹھہر گیا وُہ

وُہ میکدے کو جگانے والا وُہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وُہ

وُہ ہجر کی رات کا ستارہ وُہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا ُسنا ہے کل رات مر گیا وُہ

وُہ رات کا بے نوا ُمسافر وُہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
ِتری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وُہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں