خودکشی سے پہلے
اُف یہ بے درد سیاہی یہ ہوا کے جھونکے
کس کو معلوم ہے اِس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
اِک نظر تیرے دریچے کی طرف دیکھ تو لوں
ڈوبتی آنکھوں میں پھر تابِ نظر ہو کہ نہ ہو
ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستاں کے دیئے
نیلگوں پردوں سے چھنتی ہیں شعاعیں اَب تک
اجنبی باہوں کے حلقے میں لچکتی ہوں گی
تیرے مہکے ہوئے بالوں کی رِدائیں اب تک
سرد ہوتی ہوئی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
ہاتھ پھیلائے بڑھے آتے ہیں بوجھل سائے
کون پونچھے مری آنکھوں کے سلگتے آنسو
کون اُلجھے ہوئے بالوں کی گرہ سلجھائے
آہ یہ غارِ ہلاکت، یہ دیئے کا محبس
عمر اپنی انہی تاریک مکانوں میں کٹی
زندگی فطرتِ بے حس کی پرانی تقصیر
ایک حقیقت تھی مگر چند فسانوں میں کٹی
کتنی آسائشیں ہنستی رہیں ایوانوں میں
کتنے دَر میری جوانی پہ سدا بند رہے
کتنے ہاتھوں میں بنا اطلس و کمخواب مگر
میرے ملبوس کی تقدیر میں پیوند رہے
ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے
وہی ظلمت ہے فضاؤں پہ ابھی تک طاری
جانے کب ختم ہو انساں کے لہو کی تقطیر
جانے کب نکھرے سیہ پوش فضا کا جوبن
جانے کب جاگے ستم خوردہ بشر کی تقدیر
ابھی روشن ہیں تیرے گرم شبستاں کے دیئے
آج میں موت کے غاروں میں اُتر جاؤں گا
اور دم توڑتی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
سرحدِ مرگِ مسلسل سے گزر جاؤں گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں