قطرہ دریاے آشنائی ہے
کیا تری شانِ کبریائی ہے
وہم کو بھی ترا نشاں نہ ملا
نارسائی سی نارسائی ہے
کون دل ہے جو درد مند نہیں
کیا ترے درد کی خدائی ہے
جلوۂ یار کا بھکاری ہوں
شش جہت کاسۂ گدائی ہے
مژدۂ ّجنتِ وصال ہے موت
زندگی محشرِ جدائی ہے
موت ہی ساتھ دے تو دے فانی
عمر کو عذرِ بے وفائی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں