صفحات

جمعرات، 7 دسمبر، 2017

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملیں

تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انسان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں

احمد فراز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں