صفحات

جمعہ، 29 دسمبر، 2017

علم بڑی دولت ہے از ابن انشا

ہمارا ملک ابن انشا

اخبار از ابن انشا

Bishan Singh mara nahin tha

امیر بچے کی دعا از مجید لاہوری

امیر بچے کی دعا 


لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی سیٹھ کی صورت ہو خدایا میری
’’لیاری کوارٹر‘‘ میں مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
میرے ’’چیمبر‘‘ میں اُجالا ہی اُجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے کلب کی زینت
جس طرح چاند سے ہو جاتی ہے شب کی زینت
زندگی ہو مری ’’قارون‘‘ کی صورت یارب
’’نیشنل بینک‘‘ سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام امیروں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے غریبوں سے عداوت کرنا
میرے اللہ! بھلائی سے بچانا مجھ کو
جو بُری راہ ہو، بس اس پہ چلانا مجھ کو

مولوی صاحب کا خواب از راجا مہدی علی خان

مولوی صاحب کا خواب


دیکھا مَیں نے جس کو چُھپ کے
اپنے حُجرے کی کھڑکی سے
جس کے لیے تعویذ کرائے
ندّی نالوں میں ڈلوائے
اس کے گھر میں جا پہنچا ہوں
بالکل اُس کے پاس کھڑا ہوں
گھر میں بیٹھی ہے وہ اکیلی
ماں ہے پاس، نہ کوئی سہیلی
پردہ اُس نے چھوڑ دیا ہے
بُرقعہ اُس کا دُور گِرا ہے
چہرے پر خوشبودار پسینہ
اَلّھڑ جوبن، باغی سینہ
گوری گوری چنچل باہیں
وصل کی خواہاں شوخ نگاہیں
سر پر لا کر ہاتھ حنائی
لے کر اک دل پھینک انگڑائی
کہتی ہے ’’چھوڑو قاضی واضی
میں بھی راضی، تم بھی راضی!‘‘

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے از ذوق

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہو عمرِ خضر بھی تو ہو معلوم وقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بدقمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
لیلیٰ کا ناقہ دشت میں تاثیر عشق سے
سن کر فغانِ قیس بجائے  ُحدی چلے
نازاں نہ ہوخرد پہ جو ہونا ہے ہو وہی
دانش تری نہ کچھ مری دانش وری چلے

جمعرات، 28 دسمبر، 2017

گمنام سپاہی

گمنام سپاہی


میں ایک گمنام سپاہی ہوں
مجھے نہیں معلوم میں نے کس کے لیے جاں دی
کس نے میرے نام کے تمغے اپنی چھاتی پہ سجائے
کس نے اپنی حکومت میری لاش پہ قائم کی
میں ایک گمنام سپاہی ہوں

ہر قومی دن پر بادشاہ میری فرضی قبر پر پھول چڑھاتے ہیں
میری اصلی قبر کہاں ہے یہ مجھے بھی معلوم نہیں
کیونکہ میں ایک گمنام سپاہی ہوں

ایک دن بالکل نہ میں اے چارہ گر اچھا ہوا از ذوق

ایک دن بالکل نہ میں اے چارہ گر اچھا ہوا
داغ اِدھر تازہ ہوا گر زخم اُدھر اچھا ہوا
کھینچ گیا میری طرف سے اور اس دلبر کا دل
واہ وا جذبِ محبت کا اثر اچھا ہوا
قتل کرتا ہے ترا بسمل سے یہ کہنا کہ لو
اب تو دامن بھی ہوا لو ہو سے تر اچھا ہوا
نامہ بر جاتا ہے جا جلدی چلی جان حزیں
دیر مت کر ساتھ تیرے ہم سفر اچھا ہوا
آئینہ خانہ میں عالم کے سمجھ لے یہ مثال
تا تجھے جانیں کہ یہ صاحب نظر اچھا ہوا
ہے برا تو ہی اگر آیا نظر تجھ کو برا
تو ہی اچھا ہے تجھے معلوم گر اچھا ہوا
ذوق کے مرنے کی سن کر پہلے تو کچھ رک گئے
پھر کہا تو یہ کہا منہ پھیر کر اچھا ہوا

وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا از ذوق

وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اُف نہیں کرتا
کیا قہر ہے، وقفہ ہے ابھی آنے میں اس کے
اور دم مرا، جانے میں، توقف نہیں کرتا
پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنوان
جب تک کہ وہ مضموں میں تصرف نہیں کرتا
اے ذوق تکلف میں، ہے تکلیف، سراسر
آرام میں ہے، وہ، جو تکلف نہیں کرتا

Muntakhab ul Hikayat 4

Muntakhab ul Hikayat 5

Muntakhab ul Hikayat 6

بدھ، 27 دسمبر، 2017

ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گۂ نماز میں از اصغر

ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گۂ نماز میں
بلکہ خدا کو بھول جا سجدۂ بے نیاز میں
رازِ نشاطِ خلد ہے خندۂ دل نواز میں
غیب و شہود کے رموز نرگسِ نیم باز میں
آج وہ اضطرابِ شوق حد سے سوا گزر گیا
اور بھی جان پڑ گئی عشوۂ جاں گداز میں
اس سے زیادہ اور کیا شوخیِ نقشِ پا کہوں
برق سی اک چمک گئی آج سرِ نیاز میں
آتشِ گل سے ہر طرف دشت و چمن دہک اُٹھا
ایک شرارِ طور ہے خلوتیانِ راز میں
پردۂ دہر کچھ نہیں ایک ادائے شوق ہے
خاک اُٹھا کے ڈال دی دیدۂ امتیاز میں
سب ہے ادائے بے خودی ورنہ ادائے حسن کیا
ہوش کا جب گزر نہیں اس کی حریمِ ناز میں

قطرہ دریاے آشنائی ہے از فانی

قطرہ دریاے آشنائی ہے
کیا تری شانِ کبریائی ہے
وہم کو بھی ترا نشاں نہ ملا
نارسائی سی نارسائی ہے
کون دل ہے جو درد مند نہیں
کیا ترے درد کی خدائی ہے
جلوۂ یار کا بھکاری ہوں
شش جہت کاسۂ گدائی ہے
مژدۂ ّجنتِ وصال ہے موت
زندگی محشرِ جدائی ہے
موت ہی ساتھ دے تو دے فانی
عمر کو عذرِ بے وفائی ہے

منتخب الحکایات 3

منتخب الحکایات 2

منتخب الحکایات 1

منگل، 26 دسمبر، 2017

کیا کیا مصیبتیں ہیں دلِ پُر محن کے ساتھ از ذوق

کیا کیا مصیبتیں ہیں دلِ پُر محن کے ساتھ
اک زخم تازہ روز ہے زخمِ کہن کے ساتھ
ہے اُن کا سادہ پن بھی تو اک بانکپن کے ساتھ
سیدھی سی بات بھی ہے تو کیا کیا پھبن کے ساتھ
ہوش و خرد گئے نگہِ سحر فن کے ساتھ
اب جو ہے اپنی بات سو دیوانہ پن کے ساتھ
تیرے تصورِ قدِ رعنا میں آج ہم
کیا کیا لپٹ کے روئے ہیں سرو چمن کے ساتھ
پایا درِ اثر نہ کہیں رات بھر پھری
سر مارتی یہ آہ سپہرِ کہن کے ساتھ
اللہ رے تابِ حسن کہ اس کا درِ بلاق
چشمک زنی کرے ہے سہیل یمن کے ساتھ
دستِ جنوں نہ دے تجھے ناخن خدا کہ تو
ٹکڑے اُڑا دے تن کے مرے پیرہن کے ساتھ
دیکھا نہ گل سے نکہتِ گل کر گئی سفر
خانہ بدوش کو نہیں اُلفت وطن کے ساتھ
افسردہ دل کے واسطے کیا چاندنی کا لطف
لپٹا پڑا ہے مردہ سا گویا کفن کے ساتھ
دوزخ میں بھی پڑیں تو نہ سیدھے ہوں کج سرشت
سو پیچ و تاب آگ میں بھی ہیں رسن کے ساتھ
منظور کب ہے تجھ کو یہ اے آفتابِ حسن
ہو کوئی تیرہ بخت ترا سایہ بن کے ساتھ
داغِ دلِ فسردہ پہ پھاہا نہیں نہ ہو
مطلب چراغِ مردہ کو کب ہے کفن کے ساتھ
جلد آ کہ مر نہ جائے کوئی خانماں خراب
ٹکرا کے اپنا سر درِ بیت الحزن کے ساتھ
مشکل ہے ذوق قیدِ تعلق سے چھوٹنا
جب تک کہ روح کو ہے علاقہ بدن کے ساتھ

مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ از ذوق

مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ
تو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
ساتھ اپنے ہے اب فوجِ الم اور زیادہ
کر تو بھی بلند آہ علم اور زیادہ
تیز اس نے جو کی تیغِ ستم اور زیادہ
مشتاقِ شہادت ہوئے ہم اور زیادہ
سرکٹ کے سر افراز ہیں ہم اور زیادہ
جوں شاخ بڑھے ہو کے قلم اور زیادہ
گر شرحِ جنوں کیجے رقم اور زیادہ
ہو چاک ابھی جیبِ قلم اور زیادہ
دیتا ہے وہ دم باز جو دم اور زیادہ
شیشے کی طرح پھولے ہیں ہم اور زیادہ
لذت سے محبت کی ہے ہر زخم جگر کو
ذوقِ نمک و درد و الم اور زیادہ
کرنے کو سیہ نہ ورقِ چرخ کو اے دل
نالے سے نہیں کوئی قلم اور زیادہ
کیا ہووے گا دو چار قدح سے مجھے ساقی
میں لوں گا ترے سر کی قسم اور زیادہ
گر میری طرح دوش پہ ہو بارِ محبت
ہو پشتِ فلک میں ابھی خم اور زیادہ
دشمن کی نہ جا سیدھی نگاہوں پہ کہ جوں تیغ
سیدھی ہے تو اک اُس میں ہے خم اور زیادہ
پیٹوں سر بستر پہ پڑا پاؤں کہاں تک
بس پاؤں نہ پھیلا شبِ غم اور زیادہ
وہ دل کو چرا کر جو لگے آنکھ چرانے
یاروں کا گیا اُن پہ بھرم اور زیادہ
دکھلائے جو وہ صید فگن چشم کی شوخی
ہو آہوئے رم دیدہ کو رم اور زیادہ
لیتے ہیں ثمر شاخِ ثمرور کو جھکا کر
جھکتے ہیں سخی وقتِ کرم اور زیادہ
اے خنجرِ خوں خوار نہ برش میں کمی کر
ہاں تجھ کو مرے سر کی قسم اور زیادہ
چالیس قدم ساتھ وہ تابوت کے آئے
کیا ہو جو بڑھیں چند قدم اور زیادہ
سرعت ہے ابھی نبض میں جوں موجِ رمِ برق
کیا ہو گا جو ہو گی تپِ غم اور زیادہ
کہتا ہے مرا شوقِ جراحت کہ صد افسوس
اس تیغِ دو دم میں نہیں دم اور زیادہ
جو کنجِ قناعت میں ہیں تقدیر پہ شاکر
ہے ذوق برابر انھیں کم اور زیادہ

x

بدھ، 20 دسمبر، 2017

جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے از راجہ مہدی علی خان

جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
تباہی تو ہمارے دل پہ آئی آپ کیوں روئے
ہمارا درد و غم ہے یہ اِسے کیوں آپ سہتے ہیں
یہ کیوں آنسو ہمارے آپ کی آنکھوں سے بہتے ہیں
غموں کی آگ ہم نے خود لگائی آپ کیوں روئے
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
بہت روئے مگر اب آپ کی خاطر نہ روئیں گے
نہ اپنا چین کھو کر آپ کا ہم چین کھوئیں گے
قیامت آپ کے اشکوں نے ڈھائی آپ کیوں روئے
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
نہ یہ آنسو رُکے تو دیکھیے پھر ہم بھی رو دیں گے
ہم اپنے آنسوئوں میں چاند تاروں کو ڈبو دیں گے
فنا ہو جائے گی ساری خدائی آپ کیوں روئے
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی از مومن

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
کہا ہے غیر نے تم سے مرا حال
کہے دیتی ہے بے باکی ادا کی
مجھے اے دل تری جلدی نے مارا
نہیں تقصیر اس دیر آشنا کی
جفا سے تھک گئے تو بھی نہ پوچھا
کہ تو نے کس توقع پر وفا کی
کہا اس بت سے جب مرتا ہے مومن
کہا میں کیا کروں مرضی خدا کی

منگل، 19 دسمبر، 2017

اس طپش کا ہے مزہ دل ہی کو حاصل ہوتا از ذوق

اس طپش کا ہے مزہ دل ہی کو حاصل ہوتا
کاش میں عشق میں سر تا بہ قدم، دل ہوتا
چین پیشانی اگر تیری نہ ہوتی زنجیر
نالہ دیوانہ تھا جو پا بہ سلاسل ہوتا
موت نے کر دیا لاچار وگرنہ انساں
ہے وہ خود بیں کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا
آپ، آئینۂ ہستی میں، ہے تو اپنا حریف
ورنہ یاں کون تھا جو تیرے مقابل ہوتا
سینۂ چرخ میں، ہرا اختر اگر دل ہے تو کیا
ایک دل ہوتا مگر درد کے قابل ہوتا
ہے تری عُقدہ کشائی تو یداللہ کے ہاتھ
ذوق وا کیوں نہ ترا عقدۂ مشکل ہوتا

یہ زُلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا از ساحر

یہ زُلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا
جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے
باقی بھی اِسی طرح گزر جائے تو اچھا
دُنیا کی نگاہوں میں برا کیا ہے بھلا کیا
یہ بوجھ اگر دِل سے اُتر جائے تو اچھا
ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا

جائیں تو جائیں کہاں از نساحر

جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں، درد بھرے دل کی زباں
جائیں تو جائیں کہاں
مایوسیوں کا مجمع ہے جی میں
کیا رہ گیا ہے اِس زندگی میں
رُوح میں غم، دل میں دُھواں
جائیں تو جائیں کہاں
اُن کا بھی غم ہے اپنا بھی غم ہے
اب دل کے بچنے کی اُمّید کم ہے
ایک کشتی سو طوفاں
جائیں تو جائیں کہاں

ایک ملاقات از ساحر

ایک ملاقات


تری تڑپ سے نہ تڑپا تھا میرا دل لیکن
ترے سکون سے بے چین ہو گیا ہوں میں
یہ جان کر تجھے کیا جانے، کتنا غم پہنچے
کہ آج تیرے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں
کسی کی ہو کے تو اِس طرح میرے گھر آئی
کہ جیسے پھر کبھی آئے تو گھر ملے نہ ملے
نظر اُٹھائی، مگر ایسی بے یقینی سے
کہ جس طرح کوئی پیشِ نظر ملے نہ ملے
تو مسکرائی، مگر مسکرا کے رُک سی گئی
کہ مسکرانے سے غم کی خبر ملے نہ ملے
رُکی تو ایسے کہ جیسے تری ریاضت کو
اب اِس ثمر سے زیادہ ثمر ملے نہ ملے
گئی تو سوگ میں ڈوبے قدم یہ کہہ کے گئے
سفر ہے شرط، شریکِ سفر ملے نہ ملے
تری تڑپ سے نہ تڑپا تھا میرا دل، لیکن
ترے سکون سے بے چین ہو گیا ہوں میں
یہ جان کر تجھے کیا جانے کتنا غم پہنچے
کہ آج تیرے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں

انتظار از ساحر

انتظار


چاند مدّھم ہے آسماں چُپ ہے 
نیند کی گود میں جہاں چُپ ہے
دُور وادی میں دُودھیا بادل
جُھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں
دل میں ناکام حسرتیں لے کر
ہم ترا انتظار کرتے ہیں
اِن بہاروں کے سائے میں آجا
پھر محبت جواں رہے نہ رہے
زندگی تیرے نامرادوں پر
کل تلک مہرباں رہے نہ رہے
روز کی طرح آج بھی تارے
صبح کی گرد میں نہ کھو جائیں
آ ترے غم میں جاگتی آنکھیں
کم سے کم ایک رات سو جائیں

چاند مدّھم ہے آسماں چُپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چُپ ہے

اتوار، 17 دسمبر، 2017

خودکشی سے پہلے از ساحر

خودکشی سے پہلے

اُف یہ بے درد سیاہی یہ ہوا کے جھونکے
کس کو معلوم ہے اِس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
اِک نظر تیرے دریچے کی طرف دیکھ تو لوں
ڈوبتی آنکھوں میں پھر تابِ نظر ہو کہ نہ ہو

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستاں کے دیئے
نیلگوں پردوں سے چھنتی ہیں شعاعیں اَب تک
اجنبی باہوں کے حلقے میں لچکتی ہوں گی
تیرے مہکے ہوئے بالوں کی رِدائیں اب تک
سرد ہوتی ہوئی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
ہاتھ پھیلائے بڑھے آتے ہیں بوجھل سائے
کون پونچھے مری آنکھوں کے سلگتے آنسو
کون اُلجھے ہوئے بالوں کی گرہ سلجھائے
آہ یہ غارِ ہلاکت، یہ دیئے کا محبس
عمر اپنی انہی تاریک مکانوں میں کٹی
زندگی فطرتِ بے حس کی پرانی تقصیر
ایک حقیقت تھی مگر چند فسانوں میں کٹی


کتنی آسائشیں ہنستی رہیں ایوانوں میں
کتنے دَر میری جوانی پہ سدا بند رہے
کتنے ہاتھوں میں بنا اطلس و کمخواب مگر
میرے ملبوس کی تقدیر میں پیوند رہے
ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے

وہی ظلمت ہے فضاؤں پہ ابھی تک طاری
جانے کب ختم ہو انساں کے لہو کی تقطیر
جانے کب نکھرے سیہ پوش فضا کا جوبن
جانے کب جاگے ستم خوردہ بشر کی تقدیر
ابھی روشن ہیں تیرے گرم شبستاں کے دیئے
آج میں موت کے غاروں میں اُتر جاؤں گا
اور دم توڑتی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
سرحدِ مرگِ مسلسل سے گزر جاؤں گا

جمعہ، 15 دسمبر، 2017

معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت از ذوق

معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت

ہیں داغِ محبت درم و دام محبت
مژدہ تجھے اے خواہش انعام محبت

نے زہد سے ہے کام نہ زاہد سے کہ ہم تو
ہیں بادہ کش عشق و مے آشام محبت

کی جس نے ذرا رسم محبت اسے مارا
پیغام قضا ہے ترا پیغام محبت

کہتی تھی وفا نوحہ کناں نعش پہ میری
سونپا کسے تو نے مجھے ناکام محبت

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کی سِناں کو
چڑھ سر کے بل اس زینے پہ تا بام محبت

متاعِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے از فیض احمد فیض

متاعِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں اُنگلیاں میں نے
زباں پہ مُہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے

بول...... از فیض احمد فیض


بول......


بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے

تیرا سُتواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے

دیکھ کہ آہن گر کی دکان میں
تُند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن

کھُلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اِک زنجیر کا دامن

بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!

رقیب سے ! از فیض احمد فیض

رقیب سے !


آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی اُلفت میں بھُلا رکھی دُنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سُود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی ، وہ رخسار ، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گِنواؤں تو گِنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جُز ترے اور سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی 
یاس و حرمان کے ، دُکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رُخِ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بِلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتواں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عُقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بِکتا ہے بازار میں مزدُور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہُو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

بدھ، 13 دسمبر، 2017

ضرورتِ رشتہ اور تصویریں از راجہ مہدی علی خان

ضرورتِ رشتہ اور تصویریں
(۱)
ممی اِس سے نہیں، توبہ! کروں گی قدر خاک اس کی
مجھے لگتا ہے ڈر اس سے بہت لمبی ہے ناک اس کی
ہوئی شادی تو پہلا کام؟ میں ڈائی وورس مانگوں گی
میں اُس کی ناک پر کیا اپنا اوور کوٹ ٹانگوں گی
نہیں بابا، نہیں بابا
(۲)
یہ اچکن پہنے بیٹھے ہیں غلط بولیں گے انگریزی
ہلاکو جیسی آنکھیں ہیں نگاہیں اِن کی چنگیزی
میں کوئی مُلک ہُوں جو مجھ پہ حملہ کرنے آئے ہو
میاں جائو! مَیں اِک تلوار ہوں کیوں مرنے آئے ہو
نہیں جچتے، نہیں جچتے
(۳)
’’وٹامن بی‘‘ کی کچھ اس میں کمی معلوم ہوتی ہے
میرے اللہ نبض اس کی تھمی معلوم ہوتی ہے
میں بیٹ کرتی ہوں امّی ہو گا یہ بیمار برسوں سے
بچارا مطمئن ہو گا کم از کم چار نرسوں سے
نہیں امّی، نہیں امّی
(۴)
بہت خط اس نے بھیجے ایک بھی بھیجا نہ لَو لیٹر
میں پچھلے ویک اِس سے کر چکی ہوں ڈراپ یہ میٹر
میاں تم مشرقی اور مغربی ہے خاندان اپنا
میں باز آئی محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا
نہیں جمتے، نہیں جمتے
(۵)
ممی غنڈہ ہے یہ اور نام ہے بی اے شریف اس کا
شراب اور بدمعاشی میں نہیں کوئی حریف اِس کا
اِدھر یہ ڈال کر ڈورے مجھے اپنا بنا لے گا
ہو تم بھی خوبصورت، یہ نظر تم پر بھی ڈالے گا
’’اری لڑکی، اری لڑکی‘‘
(۶)
یہ اس کے منھ پہ ’’مسٹر دُر پھٹے منھ‘‘ کس نے لِکھ ڈالا؟
یہ میرا کام تھا لیکن شرارت کر گئی خالہ
ذرا ٹھیرو میں اس کے ساتھ خالہ کو پھنسائوں گی
اِسی خالہ کو ’’بیگم دُر پھٹے مُنھ‘‘ میں بنائوں گی
’’اری لڑکی، اری لڑکی‘‘
(۷)
یہ ایل ایل بی ہے پر اللہ بچائے اِن وکیلوں سے
یہ ہر اِک بات منوا لے گا قانونی دلیلوں سے
مجھے ڈائی وو رس یہ بائی فورس دے سکتا ہے حیلوں سے
میرا گھر لُوٹ لے گا قرقیوں سے اور اپیلوں سے
نہیں دیکھو، پرے پھینکو
(۸)
یہ شاعر ہے، یہ ہر لڑکی کو آہیں بھر کے تکتا ہے
جب اُکتا جائے گا کہہ دے گا ’’میڈم تجھ میں سکتا ہے‘‘
کرے گا شاعری دن بھر، نہیں پیسہ کمائے گا
یہ بھوکا رہ کے راتوں کو گرہ مجھ پر لگائے گا
نہیں امّی، نہیں امّی
(۹)
ارے یہ ڈاکٹر نبضیں حسینوں کی ٹٹولے گا
گنے گا دھڑکنیں دل کی، گریبانوں کو کھولے گا
شریکِ زندگی بن کر میں جینے کو تو جی لوں گی
جو اس پر شک ہُوا میں ٹنکچر آیوڈین پی لوں گی
نہیں بابا، نہیں بابا

(۱۰)
ممی اب بَس کرو بَس بَس غلط ہیں سب یہ تدبیریں
محبت میں نہ کام آتیں ہیں تصویریں نہ تقریریں!
جو سچ پوچھو شرابِ عشق سِپ کرتی رہی ہُوں میں
وہی اچھا ہے جس سے کورٹ شِپ کرتی رہی ہوں میں
بہت اچھّا
بہت اچھّا

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا از ذوق

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا، نہیں آتا نہیں آتا

دیتا، دلِ مُضطر کو، تری کچھ تو نشانی
پر خط بھی ترے ہاتھ کا لکھا نہیں آتا

آتا ہے دم آنکھوں میں دم حسرتِ دیدار
پر لب پہ کبھی حرف تمنا نہیں آتا

ہستی سے زیادہ ہے کچھ آرام عدم میں
جو جاتا ہے یاں سے وہ دوبارا نہیں آتا

قسمت ہی سے لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ
سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا

منتخب الحکایات: حکایت نمبر ۲

منگل، 12 دسمبر، 2017

نثار میں تیری گلیوں کے....... از فیض احمد فیض

 نثار میں تیری گلیوں کے.......

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کے دستِ بہانہ جُو کے لیے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدّعی بھی ، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
چمک اُٹھے ہیں سَلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رُخ پر بکھر گئی ہو گی
غرض تصوّرِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایۂ دیوار و دَر میں جیتے ہیں

یونہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی رِیت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھُول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جُدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جُدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خُدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا از فیض احمد فیض

تنہائی



پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا ، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزر
اجنبی خاک نے دُھندلا دیئے قدموں کے سُراغ
گُل کرو شمعیں ، بڑھا دو مَے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفّل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے از فیض احمد فیض

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے 

ویراں ہے میکدہ ، خم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ رُوٹھ گئے دن بہار کے

اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

بھولے سے مسکرا تو دئے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے

پیر، 11 دسمبر، 2017

کلرک از سید محمد جعفری

کلرک



خالق نے  جب ازل میں بنایا کلرک کو
لوح و قلم کا جلوہ دِکھایا کلرک کو
کُرسی پہ پھر اُٹھایا بٹھایا کلرک کو
افسر کے ساتھ پِن سے لگایا کلرک کو
مٹی گدھے کی ڈال کر اُس کی سرِشت میں
داخل مشقتوں کو کِیا سرنوشت میں
چپڑاسی ساتھ خُلد میں جب لے گیا اُسے
حُوروں نے کچھ مذاق کِیے کچھ ملک ہنسے
ہاتف کی دفعتاً یہ صَدا آئی غیب سے
’’دیکھو اِسے جو دیدئہ عبرت نِگاہ ہے‘‘
آدم کا رف ڈرافٹ ہے،کب تک ہنسو گے تم
اَپروو ہو کر آیا تو سجدہ کرو گے تم


جنّت میں فائلیں ہیں نہ ہے کوئی ڈائری
حُوریں تو جانتی ہیں فقط طرزِ دلبری
غلماں سے کچھ کہو تو سُنائے کھری کھری
یہ انتظام ہے یہ ڈسپلن ہے دفتری
مَیں سوچتا ہوں کیا کروں ایسی بہشت کو
’’ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو‘‘
خُلدِ بریں کو ناز تھا اپنے مکین پر
اور یہ بھی تھے مٹے ہوئے اک حورِ عین پر
لالچ کی مہر کندہ تھی دل کے نگین پر
ٹی اے وصول کرنے کو اُترا زمین پر
ابلیس راستے میں مِلا کچھ سِکھا دیا
اُترا فلک سے تھرڈ میں انٹر لکھا دیا
رکھا قدم کلرک نے جس دم زمین پر
دیکھا ہر ایک چیز ہے قُدرت کے دین پر
بولا کہ مَیں تو زندہ رہوں گا روٹین پر
مجھ پر مشین ہوگی مَیں ہوں گا مشین پر
اِس آ ہنی صنم کی عبادت ہے مجھ پہ فرض
نوکر ہوں بادشاہ کا جیتا ہوں لے کے قرض


اے سیکریٹریٹ کی عمارت ذرا بتا
اُس وقت جب کہ جاتے ہیں افسر بھی بوکھلا
ہوتا ہے کون کشتیِ فائل کا ناخدا
افسر نہیں ہیں اِس کی حقیقت سے آشنا
پر ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان ہیں کلرک


دریائے ریڈ ٹیپ کا طوفان ہیں کلرک 

یہ دنیا از ساحر لدھیانوی

یہ دنیا


یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دُنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دُنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دُنیا
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
ہر اک جسم گھائل ہر اک رُوح پیاسی
نگاہوں میں اُلجھن دِلوں میں اُداسی
یہ دُنیا ہے یا عالم بدحواسی
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہاں اِک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مُردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو جیون سے ہے موت سَستی
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جوانی بھٹکتی ہے بدکار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جلا دو اِسے پھونک ڈالو یہ دُنیا
مِرے سامنے سے ہٹا لو یہ دُنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دُنیا
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے 

خوبصورت موڑ از ساحر لدھیانوی

خوبصورت موڑ




چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی اُمید رکھوں دِل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دِل کی دھڑکن لڑکھڑائے تیری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی اُلجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رُسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بُھولنا بہتر
تعلّق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے ... 

منتخب الحکایات: حکایت ۱

ہمارا ملک از ابن انشا

ایران میں کون رہتا ہے؟
ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے۔
انگلستان میں کون رہتا ہے؟
انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے۔
فرانس میں کون رہتا ہے؟
فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے۔
یہ کون سا ملک ہے؟
یہ پاکستان ہے۔
اس میں پاکستانی قوم رہتی ہو گی؟
اس میں سندھی قوم رہتی ہے۔
اس میں پنجابی قوم رہتی ہے۔
اس میں بنگالی قوم رہتی ہے۔
اس میں یہ قوم رہتی ہے۔
اس میں وہ قوم رہتی ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
پھر یہ الگ ملک کیوں بنایا تھا
غلطی ہو گئی معاف کر دیجیے آئندہ نہیں بنائیں گے۔

مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ از فیض احمد فیض

مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے 
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دُنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے 
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جا بجا بِکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لَوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن‘ مگر کیا کیجیے
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ 

اتوار، 10 دسمبر، 2017

مجھے وداع کر از ن م راشد

مجھے وداع کر

مجھے وداع کر
                اے میری ذات، پھر مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،
                لوگ جو ہزار سال سے
                                مرے کلام کو ترس گئے؟
مجھے وداع کر،
                میںتیرے ساتھ
                                اپنے آپ کے سیاہ غار میں
                                                بہت پناہ لے چکا
میں اپنے ہاتھ پائوں
دل کی آگ میں تپا چکا!

مجھے وداع کر
                کہ آب و گِل کے آنسوئوں
                                کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سُن سکوں
میں روز و شب کے دست پا کی نارسائی سُن سکوں!

مجھے وداع کر
                بہت ہی دیر…دیر جیسی دیر ہو گئی
                کہ اب گھڑی میں بیسویں صدی کی رات بج چکی
                شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
                ہزار سال سے جو نیچے بال میں زمین پر
                                مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خدائوں کی طرح…
ازل کے بے وفائوں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات

تو اپنے روز نوں کے پاس آ کے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
                یہ نیستی کی گَرد کی پکارہوں…
لہو کی دلدلوں میں
                حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!
تو اپنے روزنوں کے پاس آ کے دیکھ لے
کہ مشرقی اُفق پہ عارفوں کے خواب…
                                خوابِ قہوہ رنگ میں…
اُمید کا گزر نہیں!
کہ مغربی اُفق پہ مرگِ رنگ و نور پر
                                کسی کی آنکھ تر نہیں!

مجھے وداع کر
                مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں…
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
                تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی
                یہ بار اُن کا ہول ہے!
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال…کاغذوں کی بالیاں بنے ہوئے
حروف …بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
                وہیں یہ سب زمانہ باز
                                اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و در لپک رہے ہیں
                                بارشوں کی سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!

مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
                بوریوں میں ریت کی طرح…
مجھے، اے میری ذات،
                اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اِس زباں بریدہ کی پکار…اِس کی ہا و ہو…
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
                                [کاسۂ گرسنگی لیے]
کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟
میں اُن کے تشنہ باغیچوں میں
                                اپنے وقت کے دھلائے ہاتھ سے
                نئے درخت اُگائوں گا
میں اُن کے سیم و زر سے…اُن کے جسم و جاں سے…
کولتار کی تہیں ہٹائوں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
                اُن کے آستاں سے میں اُٹھائوں گا
اُنھی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیںؔ

مجھے وداع کر،
                کہ اپنے آپ میں
                میں اتنے خواب جی چکا
                                کہ حوصلہ نہیں
میں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چکا

                                کہ حوصلہ نہیں… 

زندگی سے ڈرتے ہو از ن م راشد

زندگی سے ڈرتے ہو


…زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی تو تم بھی ہو،زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی توتم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
آدمی زبان بھی ہے، آدمی بیان بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’’ان کہی‘‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
اُس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو

…پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’’بے ریا‘‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزومندی
یہ شب زباں بندی، ہے رہِ خداوندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو!

…شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک اُٹھّے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،

تم ابھی سے ڈرتے ہو! 

میرے بھی ہیں کچھ خواب از ن م راشد

میرے بھی ہیں کچھ خواب

 اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
                میرے بھی ہیں کچھ خواب
!اس دَور سے، اس دَور  کے سوکھے ہوئے دریائوں سے
،پھیلے ہوئے صحرائوں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے
ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس
!اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب 
               میرے بھی ہیں کچھ خواب 


اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
                میرے بھی ہیں کچھ خواب
!وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیٔ مرتبۂ و جاہ سے،
آلودگیٔ گردِ سرِ راہ سے معصوم
!جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
                خود زیست کا مفہوم



!اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
اے کاہنِ دانشور و عالی گہر و پیر
تو نے ہی بتائی ہمیں ہر خواب کی تعبیر
تو نے ہی سجھائی غمِ دلگیر کی تسخیر
ٹوٹی ترے ہاتھوں ہی سے ہر خوف کی زنجیر
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
               !میرے بھی ہیں کچھ خواب


 اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے
اجڑے ہوئے مذہب کے بناریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے
شیراز کے مجذوبِ تنک جام کے افکار کے نیچے
تہذیبِ نگونسار کے آلام کے انبار کے نیچے



! کچھ خواب ہیں آزاد مگر بڑھتے ہوئے نور سے مرعوب
نے حوصلۂ خوب ہے، نے ہمتِ ناخوب
گو ذات سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی اُنھیں محبوب
ہیں آپ ہی اس ذات کے جاروب                 
!ذات سے محجوب


 کچھ خواب ہیں جو گردشِ آلات سے جویندۂ تمکین
ہے جن کے لیے بندگیٔ قاضیٔ حاجات سے اس دہر کی تزئین
کچھ جن کے لیے غم کی مساوات سے انسان کی تأمین
کچھ خواب کہ جن کا ہوسِ جور ہے آئین
                !دنیا ہے نہ دین


 کچھ خواب ہیں پروردۂ انوار، مگر ان کی سحر گُم
جس آگ سے اٹھتا ہے محبت کا خمیر، اس کے شرر گُم
ہے گُل کی خبر ان کو مگر جُز کی خبر گم
یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبۂ دیدۂ ترہیچ
دل ہیچ ہے، سر اتنے برابر ہیں کہ سرہیچ                …عرضِ ہنر ہیچ
!اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
یہ خواب مرے خواب نہیں ہیںکہ مرے خواب ہیں کچھ اور
کچھ اور مرے خواب ہیں، کچھ اور مرا دَور
خوابوں کے نئے دَور میں نے مور و ملخ، نے اسد و ثور
نے لذّتِ تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہوسِ جور                …سب کے نئے طور


! اے عشقِ ازل گیر و ابدتاب
                میرے بھی ہیں کچھ خواب
!ہرخواب کی سوگند
!ہر چند کہ وہ خواب ہیں سربستہ و روبند
سینے میں چھپائے ہوئے گویائی دوشیزۂ لب خند
ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند
عشّاق کے لب ہائے ازل تشنہ کی پیوستگیٔ شوق کے مانند               
اے لمحۂ خورسند
 اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب ہیں آزادیٔ کامل کے نئے خواب
ہر سعیٔ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
                میرے بھی ہیں کچھ خواب
                میرے بھی ہیں کچھ خواب!

کبھی کبھی از ساحر لدھیانوی

کبھی کبھی


کبھی کبھی مِرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
تُو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمیں پہ بلایا گیا ہے میرے لیے


کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ یہ بدلتی نگاہیں میری امانت ہیں
یہ گیسوؤں کی گھنی چھاؤں ہے میری خاطر
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں


کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے بجتی ہیں شہنائیاں سی راہوں میں
سُہاگ رات ہے گھونگھٹ اُٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تُو شرما کے اپنی بانہوں میں


کبھی کبھی مِرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تُو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی
کہ اُٹھے گی مری طرف پیار کی نظر یوں ہی
میں جانتا ہوں کہ تُو غیر ہے مگر یوں ہی


کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے 

تاج محل از ساحر لدھیانوی

تاج محل


تاج تیرے لیے ایک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میرے محبوب کہیں اور مِلا کر مجھ سے


بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ اُلفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا


اَن گنت لوگوں نے دُنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے صادق نہ تھے جذبے اُن کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحِکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں


سینۂ دہر کے ناسُور ہیں کہنہ ناسُور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خُوں
میری محبوب! اُنہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل
یہ منقش در و دیوار، یہ محراب یہ طاق
اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق


میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے 

یکسوئی از ساحر لدھیانوی

یکسوئی



عہدِ گُم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو
ایک آوارۂ منزل کو ستاتی کیوں ہو

وہ حسیں عہد جو شرمندہ ایفا نہ ہوا
اِس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو

زندگی شعلۂ بے باک بنا لو اپنی!
خود کو خاکسترِ خاموش بناتی کیوں ہو

میں تصوّف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل
میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو

ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو

میں سمجھتا ہوں تقدّس کو تمدّن کا فریب
تم رُسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو

تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو