صفحات

منگل، 19 دسمبر، 2017

یہ زُلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا از ساحر

یہ زُلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا
جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے
باقی بھی اِسی طرح گزر جائے تو اچھا
دُنیا کی نگاہوں میں برا کیا ہے بھلا کیا
یہ بوجھ اگر دِل سے اُتر جائے تو اچھا
ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا

جائیں تو جائیں کہاں از نساحر

جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں، درد بھرے دل کی زباں
جائیں تو جائیں کہاں
مایوسیوں کا مجمع ہے جی میں
کیا رہ گیا ہے اِس زندگی میں
رُوح میں غم، دل میں دُھواں
جائیں تو جائیں کہاں
اُن کا بھی غم ہے اپنا بھی غم ہے
اب دل کے بچنے کی اُمّید کم ہے
ایک کشتی سو طوفاں
جائیں تو جائیں کہاں

ایک ملاقات از ساحر

ایک ملاقات


تری تڑپ سے نہ تڑپا تھا میرا دل لیکن
ترے سکون سے بے چین ہو گیا ہوں میں
یہ جان کر تجھے کیا جانے، کتنا غم پہنچے
کہ آج تیرے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں
کسی کی ہو کے تو اِس طرح میرے گھر آئی
کہ جیسے پھر کبھی آئے تو گھر ملے نہ ملے
نظر اُٹھائی، مگر ایسی بے یقینی سے
کہ جس طرح کوئی پیشِ نظر ملے نہ ملے
تو مسکرائی، مگر مسکرا کے رُک سی گئی
کہ مسکرانے سے غم کی خبر ملے نہ ملے
رُکی تو ایسے کہ جیسے تری ریاضت کو
اب اِس ثمر سے زیادہ ثمر ملے نہ ملے
گئی تو سوگ میں ڈوبے قدم یہ کہہ کے گئے
سفر ہے شرط، شریکِ سفر ملے نہ ملے
تری تڑپ سے نہ تڑپا تھا میرا دل، لیکن
ترے سکون سے بے چین ہو گیا ہوں میں
یہ جان کر تجھے کیا جانے کتنا غم پہنچے
کہ آج تیرے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں

انتظار از ساحر

انتظار


چاند مدّھم ہے آسماں چُپ ہے 
نیند کی گود میں جہاں چُپ ہے
دُور وادی میں دُودھیا بادل
جُھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں
دل میں ناکام حسرتیں لے کر
ہم ترا انتظار کرتے ہیں
اِن بہاروں کے سائے میں آجا
پھر محبت جواں رہے نہ رہے
زندگی تیرے نامرادوں پر
کل تلک مہرباں رہے نہ رہے
روز کی طرح آج بھی تارے
صبح کی گرد میں نہ کھو جائیں
آ ترے غم میں جاگتی آنکھیں
کم سے کم ایک رات سو جائیں

چاند مدّھم ہے آسماں چُپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چُپ ہے

اتوار، 17 دسمبر، 2017

خودکشی سے پہلے از ساحر

خودکشی سے پہلے

اُف یہ بے درد سیاہی یہ ہوا کے جھونکے
کس کو معلوم ہے اِس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
اِک نظر تیرے دریچے کی طرف دیکھ تو لوں
ڈوبتی آنکھوں میں پھر تابِ نظر ہو کہ نہ ہو

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستاں کے دیئے
نیلگوں پردوں سے چھنتی ہیں شعاعیں اَب تک
اجنبی باہوں کے حلقے میں لچکتی ہوں گی
تیرے مہکے ہوئے بالوں کی رِدائیں اب تک
سرد ہوتی ہوئی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
ہاتھ پھیلائے بڑھے آتے ہیں بوجھل سائے
کون پونچھے مری آنکھوں کے سلگتے آنسو
کون اُلجھے ہوئے بالوں کی گرہ سلجھائے
آہ یہ غارِ ہلاکت، یہ دیئے کا محبس
عمر اپنی انہی تاریک مکانوں میں کٹی
زندگی فطرتِ بے حس کی پرانی تقصیر
ایک حقیقت تھی مگر چند فسانوں میں کٹی


کتنی آسائشیں ہنستی رہیں ایوانوں میں
کتنے دَر میری جوانی پہ سدا بند رہے
کتنے ہاتھوں میں بنا اطلس و کمخواب مگر
میرے ملبوس کی تقدیر میں پیوند رہے
ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے

وہی ظلمت ہے فضاؤں پہ ابھی تک طاری
جانے کب ختم ہو انساں کے لہو کی تقطیر
جانے کب نکھرے سیہ پوش فضا کا جوبن
جانے کب جاگے ستم خوردہ بشر کی تقدیر
ابھی روشن ہیں تیرے گرم شبستاں کے دیئے
آج میں موت کے غاروں میں اُتر جاؤں گا
اور دم توڑتی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
سرحدِ مرگِ مسلسل سے گزر جاؤں گا

جمعہ، 15 دسمبر، 2017

معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت از ذوق

معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت

ہیں داغِ محبت درم و دام محبت
مژدہ تجھے اے خواہش انعام محبت

نے زہد سے ہے کام نہ زاہد سے کہ ہم تو
ہیں بادہ کش عشق و مے آشام محبت

کی جس نے ذرا رسم محبت اسے مارا
پیغام قضا ہے ترا پیغام محبت

کہتی تھی وفا نوحہ کناں نعش پہ میری
سونپا کسے تو نے مجھے ناکام محبت

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کی سِناں کو
چڑھ سر کے بل اس زینے پہ تا بام محبت

متاعِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے از فیض احمد فیض

متاعِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں اُنگلیاں میں نے
زباں پہ مُہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے