ایمبولنس کی سواری
یاد ہے وہ
سواری؟
وہی جس پر
تمھاری موت واقع ہوئی تھی ؟
ایمبولنس
میں ہم تین تھے
دوسنگت
دینے والے
اصل فنکار
کے ساتھ
موت کے سفر
میں انسان اکیلا ہے
تیز ہوتی
طبلے کی تھاپ
آواز کے
اتار چڑھاؤ کا اچانک انقطاع
خون کا منجمد
قطرہ
اور بس، بات ختم
پپوٹے
آنکھوں کو ڈھانپتے ہوئے
کفن کی
طرح،
دہانہ درد
کی شدت سے ساکت
ہمیں
اندازہ نہیں ہوا
تم پہلے ہی مر چکے تھے
ایمبولنس
سست
رفتاری سے چلتی رہی
ہر ٹریفک
سگنل پر رکتی
پیدل چلنے
والے
رکاوٹ پیدا کرتے ہوئے
ہمارے ذہنوں کی رفتار
خوف کے
باعث
بہت تیز تھی
تم بالکل
ساکت تھے
صرف تمھارا سرذرا سا ہلتا
لطیف طنز
میں
یاد ہے وہ
سواری؟
ایک ساتھ ، آخری بار
وہی جس پر
تمھاری موت واقع ہوئی ؟
تمھارے حلق
کے اندر
پتھر کا
پھول تھا
تمھارا خون
جامد
تمھاری نسیں وہ تاریں تھیں
جن میں برقی قوت زائل ہو چکی تھی
یاد ہے وہ
سواری؟
کبھی ہمیں
اس پر گفتگو کرنی چاہیے
کبھی ہم ایک ساتھ بیٹھیں گے
کچھ پیئیں گے اور بات کریں گے
اور تم
مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ گے
موت اپنا در بچہ کیسے بند کرتی ہے
کس طرح منفی احساس ہر شے پر چھا جاتا ہے
کیسے اس کا
کوندا آنکھوں کی روشنی سلب کرتا ہے
کس طرح اسے تجربہ گاہ میں تیار کرتے ہیں۔۔۔
کبھی ہم
بیٹھیں گے
بات کریں
گے
پورے ولولے
سے
مجھے وہ
سواری یاد ہے
اپنا
آدھا تنہا حصہ
اپنی آدھی
بے بسی
اپنا آدھا
خاموش وجود
اپنا آدھا
خالی پن
پوری دنیا
فورملین کی بو میں بسی تھی
دھوپ بہت قدیم لگتی تھی
وہ تمھیں اسٹریچر
پر اٹھائے لے جا رہے تھے
پھر انھوں نے تمھیں مردہ قرار دے دیا
مجھے
آوازوں کا تیز ہونا یاد ہے
مجھے
ہسپتال کی راہداری یاد ہے
مجھے لوگوں
کی انتہا درجے کی آہستہ روی یاد ہے
مجھے
انتہائی خوفزدہ بچے یاد ہیں
مجھے بتانے
سمجھانے کی کاوشیں
اور انھیں
ماننے سے انکار یاد ہے
مجھے
پھولوں کے چڑھاوے یاد ہیں
مجھے وہ سب یاد ہیں جو رقم کا حساب کر رہے تھے
مجھے مذاق
کرنے والے یاد ہیں
مجھے یاد
ہیں وہ جو روئے
اور جنھوں
نے تقریریں کیں
مجھے یاد
ہیں وہ جنھوں نے ” گیتا سے حوالے دیے
اور جنھوں
نے ضرب الامثال بیان کیں
جب تمھاری
چتا کے شعلے بلند ہورہے تھے،
مجھے وہ یاد ہیں جو خاموش تھے
غم سرطان
کی طرح
بڑھ سکتا
ہے
غم پرانی شراب کی طرح
پختہ ہوسکتا ہے
غم افیون
کا کام دے سکتا ہے
غم ، موت کا سایہ ہے
یاد پتوں
کو گراسکتی ہے
جیسے موسم خزاں
کا پیڑ
یاد، شراب
کی طرح
ہر چیز کو
دھندلا سکتی ہے
یاد، کسی
ایک واقعے کو
مقید کر
سکتی ہے
آئینوں کے
پنجرے میں
مجھے ماتم
کے لیے
ایک
وحشیانہ وقفہ درکار ہے
شدید صدمے
کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے
اپنی
بینائی بحال کرنے کے لیے
میں بغور
دیکھنا چاہتا ہوں
تمہاری موت کی تصدیق
کے اذیت
ناک لمحے کا
گم شده چهره
اس کا تصویری عکس
اس لہو کی
عظیم الشان لہر پر
اختیار چاہتا ہوں
جس کی حد سے اُدھر
وہ سمندر
ہے
جو خالی ہو
چکا ہے
میں اس
دھماکے کے مرکز میں
موجود
ہونا چاہتا ہوں
جو میری
دھجیاں اڑادے گا
مجھے ایک
ایک بات کی
پوری آگہی
درکار ہے
تمھاری موت
کے
صرف ونحو،
ساخت
فعل، فاعل اور مفعول
تمھاری طرف کی پیچیدگیاں ، ان کے خم
اسناد،
صلاحیتیں
یاد ہے وہ
سواری؟
وہی جس پر تمھاری موت واقع ہوئی ؟
مجھے صرف
لوگوں سے امڈی پڑتی
گلیاں یاد ہیں
مجھے صرف خالی ہوتی
گلیاں یاد ہیں
مجھے صرف
اپریل کے مہینے کے
اتوار کی
شاندار اور صاف ستھری دوپہر
یاد ہے
مجھے اپنی
آنکھوں میں چبھتا ہوا سورج
اور پکی
سڑک پر
اپنا ننگے
پاؤں چلنا یاد ہے
مجھے یہ
بھی یاد ہے کہ
بچوں کو کہانیاں کیسے سنائی جائیں
ایک واحد
چیز جو میں بھول گیا ہوں
وہ خاموشی
سے آنسو بہانا
یا وحشیانہ
غم میں
چلانا ہے
دوست تم نے
مجھے ایک اختیار سے
محروم کر دیا ہے
اب کوئی
دوسرا عطا کرو
ایسے مواقع
بھی ہوتے ہیں
جب دوست کا
ہونا
دشمن کے
ہونے سے زیادہ برا ہوتا ہے
میں مردہ
دوست کا کیا کروں گا ؟
میں صرف تمھارے ساتھ
زندگی کے اس کنارے پر بیٹھا
بحث کر سکتا ہوں
میں تمھیں
خط نہیں لکھ سکتا
تار نہیں بھیج سکتا
میں تمھارے
ساتھ کوئی حساب برابر نہیں کر سکتا
میں تم میں نقص نہیں نکال سکتا
میں صرف تم
پر مسلسل الزام تراشی کر سکتا ہوں
تمھیں مسلسل آزاد کیے جانے کے عمل میں رہ سکتا
ہوں
میں تنہا
ہوں
اور آسانی
سے چوٹ کھا سکتا ہوں
میں زندہ
ہوں
اور ایک
اور سواری لے رہا ہوں
مجھے وہ
پانی یاد ہے جو میں نے پیا
اور وہ سگریٹ جن کا کش لگایا
مجھے
چاولوں کا گرم نوالہ یاد ہے
مجھے اپنے
پیٹ میں درد اٹھتا یا د ہے
مجھے
ہمسائے کے گھر میں بجتا
گیت یاد ہے
مجھے کسی
کی ناشائستہ اشک شوئی یاد ہے
مجھے تیز شراب کے گھونٹ یاد ہیں
مجھے گوشت
یاد ہے
مجھے روٹی یاد ہے
مجھے نام
اور پتے یاد ہیں
ٹیلیفون نمبر یاد ہیں
مجھے سانس
لینا یاد ہے
اور کھانا
، اور پینا
اور ہم
بستری کرنا
اور بات
کرنا، چیخنا چلانا
سر گوشی
کرنا اور منہ بند کر لینا
بحث و تکرار کے لیے غور وفکر کرنا
غصہ کھانا
نظم
لکھنا
خطوط پر،
کاغذات پر دستخط کرنا
یاد ہے وہ
سواری
آخری جس پر ہم اکٹھے تھے
وہی جس پر تمھاری موت واقع ہوئی؟
اتوار کی
صبح تھی
اپریل کے
مہینے میں یاد ہے؟
ایک اپریل
ہر سال میں ہوتا ہے
اور ایک
اتوار ہر ہفتے میں
مگر دوست
ہر سال کم ہوتے جاتے ہیں
اور زندگی تاریک
تمھیں یاد
ہے وہ بدمست گفتگو
جو ایک روز ہم نے موت پر کی تھی ،
زندہ لوگوں
کی گفتگو؟
تمھیں
موسیقی کی وہ زبان یاد ہے
اور جو تم
نے
بے ترتیبی
سے ایک زبر دست تو ازن حاصل کرنے کی بات کی
اور عناصر
میں موجود آهنگ
نبض کی لے
کا تمام منطق پر حاوی ہونا
کُل تخلیق
کا دھڑکنا
اپنے دماغ
کی کچی بستی سے
ان کہکشاؤں تک
جن کے لیے
میں اپنے بازو وا کرتا ہوں
احساسات کے
اندھے اخراج سے
تمام اصناف
فن کے قتل عام تک
میرے گلتے ہوئے زخم کی پیپ سے
شفاف پانی
تک
جس میں
تمام تر زبان حل ہو جاتی ہے
اور خاموشی قلقلانے لگتی ہے
تکرار کی
بھینچی ہوئی مٹھی سے
پھولوں کی
کھلی معصومیت تک
بندوق کی
گولیوں سے محبوب کے بوسوں تک
لوک قصوں
سے گمبھیر مقالوں تک
یہ سیاہ
استعجابی نشان معلق ہے
اپنے نقطے
میں جس کے اندر تمہارا چہرہ ہے
مجھے کچھ
یاد نہیں
مجھے صرف
الفاظ یاد ہیں
رٹے ہوئے،
جیسے نظام شمسی
عادتاً،
جیسے دائرہ ء حیات
مجھے کچھ
یاد نہیں
مگر میرے
دوست، میں وعدہ کرتا ہوں
اس دیو
قامت لا موجودگی میں
میں اپریل
کا ایک اتوارتر اشوں گا
دو پہر
ہوگی، ماتم ہو گا
چلچلاتی گرمی ہوگی ، سناٹا ہوگا
ساکت ناریل
کے پیٹر ہوں گے
لکڑی ہوگی ، ایک لاش ہوگی اور آگ
شعلوں کے
اشلوک ہوں گے
سرخ اُپنشد، روشن نیلے مقام پر لکھا ہوا
پرندے
پرواز کرتے ہوئے ٹھہریں گے
جامد ہو جائیں گے
جانور بے
جان ہو کر گر پڑیں گے
مشینیں اور انسان کام کرنا بند کر دیں گے
لاکھوں
شعلوں کے نیچے
میری
آنکھیں سوجائیں گی
بڑے عذاب
بڑی تباہی کے
پھول کی
طرح
پھر مجھے
کچھ یاد نہیں ہوگا
میں اس سواری کے مرکز میں ہوں گا
جس پر تمھاری موت واقع ہوئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں