صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

آنندی (غلام عباس)

بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کرا دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔
بلدیہ کے ایک بھاری بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور درد مند سمجھے جاتے تھے، نہایت فصاحت و بلاغت سے تقریر کر رہے تھے۔
 ... اور پھر حضرات! آپ یہ بھی خیال فرمایئے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گاہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔ چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خریدوفروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاحبان! جب یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بنائو سنگھار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پر ان کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا  ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں اور قیمتی زیوروں کی فرمائشیں کرنے لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا پُرمسرت گھر، ان کا راحت کدہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔
... اور صاحبان! پھر آپ یہ بھی تو خیال فرمایئے کہ نہلانا قوم، جو درس گاہوں میں تعلیم پا رہے ہیں اور جن کی آئندہ ترقیوں سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور قیاس چاہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا سہرا ان ہی کے سر بندھے گا، انھیں بھی صبح و شام اسی بازار سے ہو کر آنا جانا پڑتا ہے۔ یہ قحبائیں، جو ہر وقت بارہ ابھرن سولہ سنگار کیے ہر راہرو پر بے حجابانہ نگاہ و مژہ کے تیروسناں برساتی اور اسے دعوت حسن پرستی دیتی ہیں، کیا انھیں دیکھ کر ہمارے بھولے بھالے ناتجربہ کار، جوانی کے نشے میں سرشار، سو دو زیاں سے بے پروا نونہالانِ قوم اپنے جذبات و خیالات اور اپنی اعلیٰ سیرت کو معصیت کے مسموم اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ صاحبان! کیا ان کا حسن زاہد فریب ہمارے نونہالان قوم کو جادۂ مستقیم سے بھٹکا کر ان کے دل میں گناہ کی پراسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کرکے ایک بے کلی، ایک اضطراب، ایک ہیجان برپا کر دیتا ہو گا ... 
اس موقع پر ایک رکن بلدیہ جو کسی زمانہ میں مدرس رہ چکے تھے، اور اعداد و شمار سے خاص شغف رکھتے تھے، بول اٹھے:
’’صاحبان! واضح رہے کہ امتحانوں میں ناکام رہنے والے طلبہ کا تناسب پچھلے پانچ سال کی نسبت ڈیوڑھا ہو گیا ہے‘‘
ایک رکن نے جو چشمہ لگائے تھے اور ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر اعزازی تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’حضرات ہمارے شہر سے روز بروز غیرت، شرافت، مردانگی، نکو کاری و پرہیز گاری اٹھتی جارہی ہے اور اس کے بجائے بے غیرتی، نامردی، بزدلی، بدمعاشی، چوری اور جعل سازی کا دور دورہ ہوتا جارہا ہے۔ منشیات کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، قتل و غارت، خودکشی اور دیوالہ نکلنے کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کا سبب محض ان زنانِ بازاری کا ناپاک وجود ہے کیونکہ ہمارے بھولے بھالے شہری ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو کر ہوش و خرد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی بارگاہ تک رسائی کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریق سے زر حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس سعی و کوشش میں جامۂ انسانیت سے باہر ہوجاتے ہیں اور نہایت قبیح افعال کا ارتکاب کر بیٹھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ جان عزیز ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور یا جیل خانوں میں پڑے سڑتے ہیں۔‘‘
ایک پنشن یافتہ معمر رکن، جو ایک وسیع خاندان کے سرپرست تھے اور دنیا کا سرد و گرم دیکھ چکے تھے اور اب کش مکشِ حیات سے تھک کر باقی ماندہ عمر سستانے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے سائے میں پنپتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے، تقریر کرنے اٹھے۔ ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فریاد کا انداز لیے ہوئے تھا۔ بولے: ’’صاحبان! رات رات پھر ان لوگوں کے طبلے کی تھاپ، ان کی گلے بازیاں، ان کے عشاق کی دھینگا مشتی، گالی گلوچ، شوروغل، ہا ہا ہا ہو ہو ہو سن سن کر آس پاس کے رہنے والے شرفاء کے کان پک گئے ہیں۔ ضیق میں جان آگئی ہے۔ رات کی نیند حرام ہے تو دن کا چین مفقود۔ علاوہ ازیں ان کے قرب سے ہماری بہو بیٹیوں کے اخلاق پر جو برا اثر پڑتا ہے ان کا اندازہ ہر صاحب اولاد خود کر سکتا ہے ...‘‘ 
آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرّا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ کہہ نہ سکے۔ سب اراکین بلدیہ کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان کا قدیمی مکان اس بازار حسن کے عین وسط میں واقع تھا۔
ان کے بعد ایک رکن بلدیہ نے، جو پرانی تہذیب کے علمبردار تھے اور آثار قدیمہ کو اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’حضرات! باہر سے جو سیاح اور ہمارے احباب اس مشہور اور تاریخی شہر کو دیکھنے آتے ہیں جب وہ اس بازار سے گزرتے ہیں اور اس کے متعلق استفسار کرتے ہیں تو یقین کیجیے کہ ہم پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔‘‘
اب صدر بلدیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھنگنا اور ہاتھ پائوں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھا جس کی وجہ سے بردبار آدمی معلوم ہوتے تھے، لہجہ میں حد درجہ متانت تھی۔ بولے: ’’حضرات میں اس امر میں قطعی طور پر آپ سے متفق ہوں کہ اس طبقہ کا وجود ہمارے شہر اور ہمارے تہذیب و تمدن کے لیے باعثِ صد عار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا تدارک کس طرح کیا جائے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا ذلیل پیشہ چھوڑ دیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
ایک صاحب بول اٹھے۔ ’’یہ عورتیں شادی کیوں نہیں کر لیتیں۔‘‘
اس پر ایک طویل فرمائشی قہقہہ پڑا اور ہال کی ماتمی فضا میں یکبارگی شگفتگی کے آثار پیدا ہوگئے۔ جب اجلاس میں خاموشی ہوئی تو صاحبِ صدر بولے۔ ’’حضرات یہ تجویز بارہا ان لوگوں کے سامنے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کا ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس کے خیال سے انھیں اپنے گھروں میں نہ گھسنے دیں گے اور مفلس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی دولت کے لیے ان سے شادی کرنے پر آمادہ ہوں گے، یہ عورتیں خود منہ نہیں لگائیں گی۔‘‘
اس پر ایک صاحب بولے: ’’بلدیہ کو ان کے نجی معاملوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بلدیہ کے سامنے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ لوگ چاہے جہنم میں جائیں مگر اس شہر کو خالی کر دیں۔‘‘
صدر نے کہا: ’’صاحبان یہ بھی آسان کام نہیں، ان کی تعداد دس بیس نہیں، سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مکانات ہیں۔‘‘
یہ مسئلہ کوئی مہینہ بھر تک بلدیہ کے زیر بحث رہا اور بالآخر تمام اراکین کی اتفاق رائے سے یہ امر قرار پایا کہ زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کو خرید لینا چاہیے اور انھیں رہنے کے لیے شہر سے کافی دور کوئی الگ تھلگ علاقہ دے دینا چاہیے۔ ان عورتوں نے بلدیہ کے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعض نے نافرمانی کرکے بھاری جرمانے اور قیدیں تک بھگتیں مگر بلدیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور وہ ناچار صبر کرکے رہ گئیں۔
اس کے بعد ایک عرصہ تک ان زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کی فہرستیں اور نقشے تیار ہوتے اور مکانوں کے گاہک پیدا کیے جاتے رہے۔ بیشتر مکانوں کو بذریعہ نیلام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک شہر میں اپنے پرانے ہی مکانوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اس عرصے میں وہ نئے علاقہ میں مکان وغیرہ بنوا سکیں۔
ان عورتوں کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا۔ پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی اور اس کے آگے کوس بھر کا کچا راستہ تھا۔ کسی زمانہ میں وہاں کوئی بستی ہو گی مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا جن میں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دہاڑے اُلّو بولتا تھا۔ اس علاقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گائوں تھے مگر کسی کا فاصلہ بھی یہاں سے دو ڈھائی میل سے کم نہ تھا۔ ان گائووں کے بسنے والے کسان دن کے وقت کھیتی باڑی کرتے یا یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے تو نکل آتے ورنہ عام طور پر اس شہر خموشاں میں آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی، بعض اوقات روز روشن ہی میں گیدڑ اس علاقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔ 
پانسو سے کچھ اوپر بیسواؤں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دل بستگی یا کسی اور وجہ سے شہر کے قریب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولت مند چاہنے والوں کی مستقل مالی سرپرستی کے بھروسے بادل ناخواستہ اس علاقے میں رہنے پر آمادہ ہو گئی تھیں، ورنہ باقی عورتوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یا تو اسی شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں گی یا بظاہر پارسائی کا جامہ پہن کر شہر کے شریف محلوں کے کونوں کھدروں میں جا چھپیں گی یا پھر اس شہر ہی کو چھوڑ، کہیں اور نکل جائیں گی۔
یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے ان کے دام انھیں اچھے وصول ہو گئے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ ان کے ملنے والے دل و جان سے ان کی مالی امداد کرنے کے لے تیار تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے عالی شان مکان بنوانے کی ٹھان لی۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ، جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی، منتخب کی گئی۔ زمین کے قطعے صاف کرائے اور چابکدست نقشہ نویسوں سے مکانوں کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔
دن بھر اینٹ، مٹی چونا، شہتیر، گارٹر اور دوسرا عمارتی سامان، لاریوں، چھکڑوں، خچروں، گدھوں اور انسانوں پر لد کر اس بستی میں آتا اور منشی حساب کتاب کی کاپیاں بغلوں میں دبائے انھیں گنواتے اور کاپیوں میں درج کرتے۔ میر صاحب معماروں کو کام کے متعلق ہدایات دیتے، معمار مزدوروں کو ڈانٹتے ڈپٹتے، مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے، مزدورنیوں کو چلّا چلّا کو پکارتے اور اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے بلاتے۔ غرض سارا دن ایک شور، ایک ہنگامہ رہتا۔ سارا دن آس پاس کے گائوں کے دیہاتی اپنے کھیتوں میں اور دیہاتنیں اپنے گھروں میں، ہوا کے جھونکوں کے ساتھ دور سے آتی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی آوازیں سنتی رہتیں۔
اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجد کے آثار تھے اور اس کے پاس ہی ایک کنواں تھا جو بند پڑا تھا۔ راج مزدوروں نے کچھ تو پانی حاصل کرنے اور بیٹھ کر سستانے کی غرض سے اور کچھ ثواب کمانے اور اپنے نمازی بھائیوں کی عبادت گزاری کے خیال سے سب سے پہلے اس کی مرمت کی۔ چونکہ یہ فائدہ بخش اور ثواب کا کام تھا، اس لیے کسی نے کچھ اعتراض نہ کیا۔ چنانچہ دو تین روز میں مسجد تیار ہو گئی۔
دن کو بارہ بجے جیسے ہی کھانا کھانے کی چھٹی ہوتی، دو ڈھائی سو راج، مزدور، میر عمارت، منشی اور ان بیسواؤں کے رشتہ دار یا کارندے جو تعمیر کی نگرانی پر مامور تھے، اس مسجد کے آس پاس جمع ہوجاتے اور اچھا خاصا میلہ سا لگ جاتا۔
ایک دن ایک دیہاتی بڑھیا جو پاس کے کسی گائوں میں رہتی تھی، اس بستی کی خبر سن کر آگئی، اس کے ساتھ ایک خورد سال لڑکا تھا۔ دونوں نے مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے گھٹیا سگرٹ بیڑی، چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھائیوں کا خوانچہ لگا دیا، بڑھیا کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھا کسان کہیں سے ایک مٹکا اٹھا لایا اور کنویں کے پاس اینٹوں کا ایک چھوٹا سا چبوترا بنا پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گلاس بیچنے لگا۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی، وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کر لے آیا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس بیٹھ کر، لے لو خربوزے شہد سے میٹھے خربوزے، کی صدا لگانے لگا۔ ایک شخص نے کیا کیا، گھر سے سری پائے پکا، دیگچی میں رکھ، خوانچہ میں لگا، تھوڑی سی روٹیاں، مٹی کے دو تین پیالے اور ٹین کا ایک گلاس لے، آ موجود ہوا اور اس بستی کے کارکنوں کو جنگل میں گھر کی ہنڈیا کا مزا چکھانے لگا۔ 
ظہر اور عصر کے وقت میر عمارت، معمار اور دوسرے لوگ مزدوروں سے کنویں سے پانی نکلوا نکلوا کر وضو کرتے نظر آتے۔ ایک شخص مسجد میں جا کر اذان دیتا، پھر ایک کو امام بنایا جاتا اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔ کسی گائوں کے ملّا کے کان میں جو یہ بھنک پڑی کہ فلاں مسجد میں امام کی ضرورت ہے، وہ دوسرے ہی دن علیٰ الصباح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف، پنجسورہ، رحل اور مسئلے مسائل کے چند چھوٹے چھوٹے رسالے رکھ آ موجود ہوا اور اس مسجد کی امامت باقاعدہ طور پر اسے سونپ دی گئی۔
ہر روز تیسرے پہر گائوں کا ایک کبابی سر پر اپنے سامان کا ٹوکرا اٹھائے آجاتا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس زمین پر چولہا بنا کباب، کلیجی، دل گردے سیخوں پر چڑھا بستی والوں کے ہاتھ بیچتا۔ ایک بھٹیاری نے جو یہ حال دیکھا تو اپنے میاں کو ساتھ لے مسجد کے سامنے میدان میں دھوپ سے بچنے کے لیے پھونس کا ایک چھپرّ ڈال، تنور گرم کرنے لگی۔ کبھی کبھی ایک نوجوان دیہاتی نائی پھٹی پرانی کسبت گلے میں ڈالے جوتی کی ٹھوکروں سے راستے کے روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر گشت کرتا دیکھنے میں آجاتا۔
ان بیسوائوں کے مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان کے رشتہ دار یا کارندے تو کرتے ہی تھے، کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے عشّاق کے ہمراہ خود بھی اپنے اپنے مکانوں کو بنتا دیکھنے آ جاتیں اور غروب آفتاب سے پہلے یہاں سے نہ جاتیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں سے آ جاتیں اور جب تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صدائوں سے برابر شور مچاتی رہتیں اور انھیں بات نہ کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے لفنگے اوباش، بے کار مباش کچھ کیا کرو، کے مصداق شہر سے پیدل چل کر، بیسوائوں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آ جاتے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہوجاتی۔ وہ ان سے ذرا ہٹ کر ان کے گردا گرد چکر لگاتے رہتے، فقرے کستے، بے تکے قہقہے لگاتے، عجیب عجیب شکلیں بنانے اور مجنونانہ حرکتیں کرتے۔ اس روز کبابی کی خوب بکری ہوتی۔
اس علاقے میں جہاں تھوڑے ہی دن پہلے ہو کا عام تھا، اب ہر طرف گہماگہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں اس علاقے کی ویرانی سے ان بیسوائوں کو یہاں آکر رہنے کے خیال سے جو وحشت ہوتی تھی، وہ بڑی حد تک جاتی رہی تھی اور اب وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مکانوں کی آرائش اور اپنے مرغوب رنگوں کے متعلق معماروں کو تاکیدیں کر جاتی تھیں۔
بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہو چکے تو ایک دن صبح کو بستی کے راج، مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس سے دھواں اٹھ رہا ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقیر لنگوٹ باندھے، چار ابرو کا صفایا کرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہا اور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینک رہا ہے۔ دوپہر کو وہ ایک ایک گھڑا لے کر کنویں پر آیا اور پانی بھر بھر کر مزار پر جانے اور اسے دھونے لگا ایک دفعہ جو آیا تو کنویں پر دو تین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزانگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا: ’’جانتے ہو وہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا! میرے باپ دادا ان کے مجاور تھے۔‘‘ اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک شاہ کی کچھ جلالی کراماتیں بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔
شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دو دیے اور سرسوں کا تیل لے آیا، اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائینتی چراغ روشن کر دیے۔ رات کو پچھلے پہر کبھی کبھی اس مزار سے اللہ ہُو کا مست نعرہ سنائی دے جاتا۔
چھ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ یہ چودہ مکان بن کر تیار ہو گئے۔ یہ سب کے سب دو منزلہ اور قریب قریب ایک ہی وضع کیے تھے۔ سات ایک طرف اور سات دوسری طرف۔ بیچ میں چوڑی چکلی سڑک تھی۔ ہر ایک مکان کے نیچے چار چار دکانیں تھیں۔ مکان کی بالائی منزل میں سڑک کے رخ وسیع برآمدہ تھا۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لیے کشتی نما شہ نشین بنائی گئی تھی جس کے دونوں سروں پر یا تو سنگ مر مر کے مور رقص کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے اور یا جل پریوں کے مجسمے تراشے گئے تھے جن کا آدھا دھڑ مچھلی کا اور آدھا انسان کا تھا۔ برآمدے کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لیے تھا، اس میں سنگ مر مر کے نازک نازک ستون بنائے گئے تھے۔ دیواروں پر خوش نما پچی کاری کی گئی تھی۔ فرش سبز چمکدار پتھر کا بنایا گیا تھا۔ جب سنگ مر مر کے ستونوں کے عکس اس فرش زمرّدیں پر پڑتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا سفید برّاق پروں والے راج ہنسوں نے اپنی لمبی لمبی گردنیں جھیل میں ڈبو دی ہیں۔
بدھ کا شبھ دن اس بستی میں آنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس روز اس بستی کی سب بیسوائوں نے مل کر بہت بھاری نیاز دلوائی۔ بستی کے کھلے میدان میں زمین صاف کرا کر شامیانے نصب کر دیے گئے۔ دیگیں کھڑکنے کی آواز اور گوشت کی گھی کی خوشبو بیس بیس کوس سے فقیروں اور کتوں کو کھینچ لائی۔ دوپہر ہوتے ہوتے پیر کڑک شاہ کے مزار کے پاس، جہاں لنگر تقسیم کیا جانا تھا، اس قدر فقیر جمع ہو گئے کہ عید کے روز کسی بڑے شہر کی جامع مسجد کے پاس بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ پیر کڑک شاہ کے مزار کو خوب صاف کروایا اور دھلوایا گیا اور اس پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی، اور اس مست فقیر کو نیا جوڑا سلوا کر پہنایا گیا جسے اس نے پہنتے ہی پھاڑ ڈالا۔
شام کو شامیانے کے نیچے دودھ سی اُجلی چاندنی کا فرش کر دیا گیا۔ گائو تکیے لگا دیے گئے پاندان، پیک دان، پیچوان اور گلاب پاش رکھ دیے گئے اور راگ رنگ کی محفل سجائی گئی۔ دور دور سے بہت سی بیسوائوں کو بلوایا گیا جو ان کی سہیلیاں یا برادری کی تھیں، ان کے ساتھ ان کے بہت سے ملنے والے بھی آئے جن کے لیے ایک الگ شامیانے میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا اور ان کے سامنے کے رخ چقیں ڈال دی گئیں۔ بے شمار گیسوں کی روشنی سے یہ جگہ بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ ان بیسوائوں کے توندل سیاہ فام سازندے زربفت اور کمخواب کی شیروانیاں پہنے، عطر میں بسے ہوئے بھوئے کانوں میں رکھے اِدھر اُدھر مونچھوں کو تائو دیتے پھرتے اور زرق برس لباسوں اور تتلی کے پر سے بھی باریک ساریوں میں ملبوس، غازوں اور خوشبوئوں میں بسی ہوئی نازنینیں اٹکھیلیوں سے چلتیں۔ رات بھر رقص وسرود کا ہنگامہ برپا رہا اور جنگل میں منگل ہو گیا۔
دو تین دن کے بعد جب اس جشن کی تھکاوٹ اتر گئی، تو یہ بیسوائیں سازوسامان کی فراہمی اور مکانوں کی آرائش میں مصروف ہوئیں۔ جھاڑ فانوس، ظروف بلّوری، قد آدم آئینے، نواڑی پلنگ، تصویریں اور قطعات نہری چوکھٹوں میں جڑے ہوئے لائے گئے اور قرینے سے کمروں میں لگائے گئے اور کوئی آٹھ روز میں جاکر یہ مکان کیل کانٹے سے لیس ہوئے۔ یہ عورتیں دن کا بیشتر حصہ تو استادوں سے رقص و سرود کی تعلیم لینے، غزلیں یاد کرنے، دھنیں بٹھانے، سبق پڑھنے، تختی لکھنے، سینے پرونے، کاڑھنے، گراموفون سننے، استادوں سے تاش اور کیرم کھیلنے، ضلع جگت، نوک جھونک سے جی بہلانے یا سونے میں گزار دیتیں اور تیسرے پہر غسل خانوں میں نہانے جائیں جہاں ان کے ملازموں نے دستی پمپوں سے پانی نکال کر ٹب بھر رکھے ہوتے۔ اس کے بعد وہ بنائو سنگار میں مصروف ہو جاتیں۔
جیسے ہی رات کا اندھیرا پھیلتا، یہ مکان گیسوں کی روشنی میں جگمگا اٹھتے جو جا بجا سنگ مر مر کے آدھے کھلے ہوئے کنولوں میں نہایت صفائی سے چھپائے گئے تھے اور ان مکانوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے کواڑوں کے شیشے جو پھول پتیوں کی وضع کے کاٹ کر جڑے گئے تھے، ان کی قوس قزح کے رنگوں کی سی روشنیاں دور سے جھلمل جھلمل کرتی ہوئی نہایت بھلی معلوم ہوتی۔ یہ بیسوائیں بنائو سنگار کیے برآمدوں میں ٹہلتیں، آس پاس والیوں سے باتیں کرتیں، ہنستیں کھلکھلاتیں۔ جب کھڑے کھڑے تھک جاتیں تو اندر کمرے میں چاندنی کے فرش پر گائو تکیوں سے لگ کر بیٹھ جاتیں۔ ان کے سازندے ساز ملاتے رہتے اور یہ چھالیا کترتی رہتیں۔ جب رات بھیگ جاتی تو ان کے ملنے والے ٹوکروں میں شراب کی بوتلیں اور پھل پھلاری لیے اپنے دوستوں کے ساتھ موٹروں یا تانگوں میں بیٹھ کر آتے۔ اس بستی میں ان کے قدم رکھتے ہی ایک خاص گہما گہمی اور چہل پہل ہونے لگتی۔ نغمہ و سرود، ساز کے سُر، رقص کرتی ہوئی نازنینوں کے گھنگرئوں کی آواز، قلقلِ مینا میں مل کر ایک عجیب سرور کی سی کیفیت پیدا کر دیتی۔ عیش و مستی کے ان ہنگاموں میں معلوم بھی نہ ہوتا اور رات بیت جاتی۔
ان بیسوائوں کو اس بستی میں آئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ دکانوں کے کرایہ دار پیدا ہو گئے جن کا کرایہ اس بستی کو آباد کرنے کے خیال سے بہت ہی کم رکھا گیا تھا۔ سب سے پہلے جو دکاندار آیا وہ وہی بڑھیا تھی جس نے سب سے پہلے مسجد کے سامنے درخت کے نیچے خوانچہ لگایا تھا۔ دکان کو پُر کرنے کے لیے بڑھیا اور اس کا لڑکا سگریٹوں کے بہت سے خالی ڈبے اٹھا لائے اور اسے منبر کے طاقوں میں سجا کر رکھ دیا۔ بوتلوں میں رنگ دار پانی بھر دیا گیا تاکہ معلوم ہو شربت کی بوتلیں ہیں۔
بڑھیا نے اپنی بساط کے مطابق کاغذی پھولوں اور سگرٹ کی خالی ڈبیوں سے بنائی ہوئی بیلوں سے دکان کی کچھ آرائش بھی کی۔ بعض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں بھی پرانے فلمی رسالوں سے نکال کر لئی سے دیواروں پر چپکا دیں۔ دکان کا اصل مال دو تین قسم کے سگرٹ کے تین تین چار چار پیکٹوں، بیڑی کے آٹھ دس بنڈلوں، دیا سلائی کی نصف درجن ڈبیوں، پانوں کی ایک ڈھولی، پینے کے تمباکو کی تین چار ٹکیوں اور موم بتی کے نصف بنڈل سے زیادہ نہ تھا۔
دوسری دکان میں ایک بنیا، تیسری میں حلوائی اور شیر فروش، چوتھی میں قصائی، پانچویں میں کبابی اور چھٹی میں ایک کنجڑا آ بسے۔ کنجڑا آس پاس کے دیہات سے سستے داموں چار پانچ قسم کی سبزیاں لے آتا اور یہاں خاصے منافع پر بیچ دیتا۔ ایک آدھ ٹوکرا پھلوں کا بھی رکھ لیتا۔ چونکہ دکان خاصی کھلی تھی، ایک پھول والا اس کا ساجھی بن گیا۔ وہ دن بھر پھولوں کے ہار، گجرے اور طرح طرح کے گہنے بناتا رہتا اور شام کو انھیں چنگیر میں ڈال ایک ایک مکان پر لے جاتا اور نہ صرف پھول ہی بیچ آتا بلکہ ہر جگہ ایک ایک دو دو گھڑی بیٹھ کے سازندوں سے گپ شپ بھی ہانک لیتا اور حقے کے دم بھی لگا آتا۔ جس دن تماش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی ہی میں کوٹھے پر چڑھ آتی اور گانا بجانا شروع ہوجاتا تو وہ سازندوں کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود گھنٹوں اٹھنے کا نام نہ لیتا، مزے سے گانے پر سر دھنتا اور بیوقوفوں کی طرح ایک ایک کی صورت تکتا رہتا۔ جس دن رات زیادہ گزر جاتی اور کوئی ہار بچ رہتا تو اسے اپنے گلے میں ڈال لیتا اور بستی کے باہر گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتا پھرتا۔
ایک دکان میں ایک بیسوا کا باپ اور بھائی، جو درزیوں کا کام جانتے تھے، سینے کی ایک مشین رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ایک حجام بھی آ گیا اور اپنے ساتھ ایک رنگریز کو بھی لیتا آیا۔ اس کی دکان کے باہر الگنی پر لٹکے ہوئے طرح طرح کے رنگوں کے لہریا دوپٹے ہوا میں لہراتے ہوئے آنکھوں کو بہت بھلے معلوم ہونے لگے۔
چند ہی روز گزرتے تھے کہ ایک ٹٹ پونجیے بساطی نے، جس کی دکان شہر میں چلتی نہ تھی بلکہ اسے دکان کا کرایہ نکالنا بھی مشکل ہوجاتا تھا، شہر کو خیر باد کہہ کر اس بستی کا رخ کیا۔ یہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے طرح طرح کے لونڈر، قسم قسم کے پائوڈر، صابن، کنگھیاں، بٹن، سوئی، دھاگا، لیس، فیتے، خوشبو دار تیل، رومال، منجن وغیرہ کی خوب بکری ہونے لگی۔
اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربیّانہ سلوک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی ٹٹ پونجیا دکاندار، کوئی بزاز، کوئی پنساری، کوئی نیچہ بند، کوئی نانبائی مندے کی وجہ سے یا شہر کے بڑھے ہوئے کرائے سے گھبرا کر اس بستی میں آ پناہ لیتا۔
ایک بڑے میاں عطار جو حکمت میں بھی کس قدر دخل رکھتے تھے، ان کا جی شہر کی گنجان آبادی اور حکیموں اور دواخانوں کی افراط سے جو گھبرایا تو وہ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے، شہر سے اٹھ آئے اور اس بستی میں ایک دکان کرایہ پر لے لی۔ سارا دن بڑے میاں اور ان کے شاگرد دوائوں کے ڈبوں، شربت کی بوتلوں اور مربّے، چٹنی اچار کے بویاموں کو الماریوں اور طاقوں میں اپنے اپنے ٹھکانے پر رکھتے رہے۔ ایک طاق میں طب اکبر، قرابا دین قادری اور دوسری طبی کتابیں جما کر رکھ دیں۔ کواڑوں کی اندرونی جانب اور دیواروں میں جو جگہ خالی بچی وہاں انھوں نے اپنے خاص الخاص مجربات کے اشتہار سیاہ روشنائی سے جلی لکھ کر اور دفتیوں پر چپکا کر آویزاں کر دیے۔ ہر روز صبح کو بیسوائوں کے ملازم گلاس لے لے آ موجود ہوتے اور شربت بزوری، شربت بنفشہ، شربت انار اور ایسے ہی اور نزہت بخش، روح افزا شربت و عرق، خمیرہ گائو زبان اور تقویت پہنچانے والے مربّے مع ورق ہائے نقرہ لے جاتے۔
جو دکانیں بچ رہیں، ان میں بیسوائوں کے بھائی بندوں اور سازندوں نے اپنی چارپائیاں ڈال دیں۔ دن بھر یہ لوگ ان دکانوں میں تاش، چوسر اور شطرنج کھیلتے، بدن پر تیل ملواتے، سبزی گھوٹتے، بٹیروں کی پالیاں کراتے، تیتروں سے سبحان تیری قدرت کی رٹ لگواتے اور گھڑا بجا بجا کر گاتے۔
ایک بیسوا کے سازندے نے ایک دکان خالی کر اپنے بھائی کو، جو ساز بنانا جانتا تھا، اس میں لا بٹھایا۔ دکان کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کیلیں ٹھونک کر ٹوٹی پھوٹی مرمت طلب سارنگیاں، ستار، طنبورے، دلربا وغیرہ ٹانگ دیے گئے۔ یہ شخص ستار بجانے میں بھی کمال رکھتا تھا۔ شام کو وہ اپنی دکان میں ستار بجاتا، جس کی میٹھی آواز سن کر آس پاس کے دکاندار اپنی دکانوں سے اٹھ اٹھ کر آ جاتے اور دیر تک بت بنے ستار سنتے رہتے۔ اس ستار نواز کا ایک شاگرد تھا جو ریلوے کے دفتر میں کلرک تھا۔ اسے ستار سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جیسے ہی دفتر سے چھٹی ہوتی سیدھا سائیکل اڑاتا ہوا اس بستی کا رخ کرتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دکان ہی میں بیٹھ کر مشق کیا کرتا۔ غرض اس ستار نواز کے دم سے بستی میں خاصی رونق رہنے لگی۔
مسجد کے ملّا جی، جب تک تو یہ بستی زیر تعمیر رہی، رات کو دیہات میں اپنے گھر چلے جاتے رہے۔ مگر اب جب کہ انھیں دونوں وقت مرغن کھانا بافراط پہنچنے لگا تو وہ رات کو بھی یہیں رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ بعض بیسوائوں کے گھروں سے بچے بھی مسجد میں آنے لگے جس سے ملّا جی کو روپے پیسے کی آمدنی بھی ہونے لگی۔
ایک شہر شہر گھومنے والی گھٹیا درجہ کی تھیٹریکل کمپنی کو جب زمین کے چڑھے ہوئے کرائے اور اپنی بے مائگی کے باعث شہر میں کہیں جگہ نہ ملی تو اس نے اس بستی کا رخ کیا اور ان بیسوائوں کے مکانوں سے کچھ فاصلہ پر میدان میں تنبو کھڑے کرکے ڈیرے ڈال دیے۔ اس کے ایکٹر اداکاری کے فن سے محض نابلد تھے۔ ان کے ڈریس پھٹے پرانے تھے جن کے بہت سے ستارے جھڑ چکے تھے اور یہ لوگ تماشے بھی بہت دقیانوسی دکھاتے تھے مگر اس کے باوجود یہ کمپنی چل نکلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹکٹ کے دام بہت کم تھے۔ شہر کے مزدوری پیشہ لوگ، کارخانوں میں کام کرنے والے اور غریب غربا جو دن بھر کی کڑی محنت و مشقت کی کسر شوروغل، خر مستیوں اور ادنیٰ عیاشیوں سے نکالنا چاہتے تھے، پانچ پانچ چھ چھ کی ٹولیاں بنا کر، گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے، ہنستے بولتے، بانسریاں اور الغوزے بجاتے، راہ چلتوں پر آوازے کستے، گالی گلوچ کرتے، شہر سے پیدل چل کر تھیٹر دیکھنے آتے اور لگے ہاتھوں بازار حسن کی سیر بھی کر جاتے۔ جب تک ناٹک شروع نہ ہوتا تھیٹر کا ایک مسخرہ تنبو کے باہر ایک اسٹول پر کھڑا کبھی کولہا ہلاتا، کبھی منہ پھلاتا، کبھی آنکھیں مٹکاتا عجیب عجیب حیا سوز حرکتیں کرتا جنھیں دیکھ کر یہ لوگ زور زور سے قہقہے لگاتے اور گالیوں کی صورت میں داد دیتے۔
رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی اس بستی میں آنے شروع ہوئے۔ چنانچہ شہر کے بڑے بڑے چوکوں میں تانگے والے صدائیں لگانے لگے۔ ’’آئو کوئی نئی بستی کو۔‘‘ شہر سے پانچ کوس تک جو پکی سڑک جاتی تھی اس پر پہنچ کر تانگے والے سواریوں سے انعام حاصل کرنے کے لالچ میں یا ان کی فرمائش پر تانگوں کی دوڑیں کراتے، منہ سے ہارن بجاتے، اور جب کوئی تانگہ آگے نکل جاتا تو اس کی سواریاں نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔ اس دوڑ میں غریب گھوڑوں کا برا حال ہو جاتا اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے بجائے خوشبو کے پسینے کی بدبو آنے لگتی۔
رکشا والے تانگے والوں سے کیوں پیچھے رہتے۔ وہ ان سے کم دام پر سواریاں بٹھا، طرارے بھرتے اور گھنگرو بجاتے اس بستی کو جانے لگے۔ علاوہ ازیں ہر ہفتے کی شام کو اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ ایک ایک سائیکل پر دو دو لدے، جوق جوق اس پر اسرار بازار کی سیر دیکھنے آتے جس سے ان کے خیال کے مطابق ان کے بڑوں نے خواہ مخواہ انھیں محروم کر دیا تھا۔
رفتہ رفتہ اس بستی کی شہرت چاروں طرف پھیلنے اور مکانوں اور دکانوں کی مانگ ہونے لگی۔ وہ بیسوائیں جو پہلے اس بستی میں آنے پر تیار نہ ہوتیں تھیں اب اس کی یہ دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگیں۔ کئی عورتوں نے تو جھٹ زمینیں خرید، ان بیسوائوں کے ساتھ اسی وضع قطع کے مکان بنوانے شروع کر دیے۔ علاوہ ازیں شہر کے بعض مہاجنوں نے بھی اس بستی کے آس پاس سستے داموں زمینیں خرید خرید کر کرایہ پر اٹھانے کے لیے چھوٹے چھوٹے کئی مکان بنوا ڈالے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فاحشہ عورتیں جو ہوٹلوں اور شریف محلّوں میں روپوش تھیں، مور و ملخ کی طرح اپنے نہاں خانوں سے باہر نکل آئیں اور ان مکانوں میں آباد ہو گئیں۔ بعض چھوٹے چھوٹے مکانوں میں اس بستی کے وہ دکاندار آ بسے جو عیال دار تھے اور رات کو دکانوں میں سو نہ سکتے تھے۔
اس بستی میں آبادی تو خاصی ہو گئی تھی مگر ابھی تک بجلی کی روشنی کا انتظام نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ان بیسوائوں اور بستی کے تمام رہنے والوں کی طرف سے سرکار کے پاس بجلی کے لیے درخواست بھیجی گئی جو تھوڑے دنوں بعد منظور کرلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ڈاک خانہ بھی کھول دیا گیا۔ ایک بڑے میاں ڈاک خانے کے باہر ایک صندوقچے میں لفافے، کارڈ، قلم، دوات رکھ بستی کے لوگوں کے خط پتر لکھنے لگے۔
ایک دفعہ بستی میں شرابیوں کی دو ٹولیوں میں فساد ہو گیا جس میں سوڈا واٹر کی بوتلوں، چاقوئوں اور اینٹوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور کئی لوگ سخت مجروح ہوئے۔ اس پر سرکار کو خیال آیا کہ اس بستی میں ایک تھانہ بھی کھول دینا چاہیے۔
تھیٹریکل کمپنی دو مہینے تک رہی اور اپنی بساط کے مطابق خاصا کمالے گئی۔ اس پر شہر کے ایک سینما کے مالک نے سوچا کہ کیوں نہ اس بستی میں بھی ایک سینما کھول دیا جائے۔ یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ اس نے جھٹ ایک موقع کی جگہ چن کر خرید لی اور جلد جلد تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ چند ہی مہینوں میں سینما ہال تیار ہو گیا۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا باغیچہ بھی لگوایا گیا تاکہ تماشائی اگر بائیسکوپ شروع ہونے سے پہلے آجائیں تو آرام سے باغیچہ میں بیٹھ سکیں۔ ان کے ساتھ بستی کے لوگ یونہی سستانے یا سیر دیکھنے کی غرض سے آ آکر بیٹھنے لگے۔ یہ باغیچہ خاصی سیر گاہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ سقّے کٹورا بجاتے اس باغیچے میں آنے اور پیاسوں کی پیاس بجھانے لگے۔ سر کی تیل مالش والے نہایت گھٹیا قسم کے تیز خوشبو والے تیل کی شیشیاں واسکٹ کی جیبوں میں ٹھونسے، کاندھوں پر میلا کچیلا تولیا ڈالے، دل پسند دل بہار کی مالش کی صدا لگاتے دردِ سر کے مریضوں کو اپنی خدمات پیش کرنے لگے۔
سینما کے مالک نے سینما ہال کی عمارت کی بیرونی جانب دو ایک مکان اور کئی دکانیں بھی بنوائیں۔ مکان میں تو ہوٹل کھل گیا جس میں رات کو قیام کرنے کے لیے کمرے بھی مل سکتے تھے اور دکانوں میں ایک سوڈا واٹر کی فیکٹری والا، ایک فوٹو گرافر، ایک سائیکل کی مرمت والا، ایک لانڈری والا، دو پنواڑی، ایک بوٹ شاپ والا اور ایک ڈاکٹر مع اپنے دواخانہ کے آرہے۔ ہوتے ہوتے پاس ہی ایک دکان میں کلال خانہ کھلنے کی اجازت مل گئی۔ فوٹو گرافر کی دکان کے باہر ایک کونے میں ایک گھڑی ساز نے آڈیرا جمایا اور ہر وقت محدّب شیشہ آنکھ پر چڑھائے گھڑیوں کے کل پرزوں میں غلطاں و بیچاں رہنے لگا۔
اس کے کچھ ہی دن بعد گلی میں نل، روشنی اور صفائی کے باقاعدہ انتظام کی طرف توجہ کی جانے لگی۔ سرکاری کارندے سرخ جھنڈیاں، جریبیں اور اونچ نیچ دیکھنے والے آلے لے کر آ پہنچے اور ناپ ناپ کر سڑکوں اور گلی کوچوں کی داغ بیل ڈالنے لگے اور بستی کی کچی سڑکوں پر سڑک کوٹنے والا انجن چلنے لگا ... 
اس واقعہ کو بیس برس گزر چکے ہیں۔ یہ بستی اب ایک بھرا پُرا شہر بن گئی ہے جس کا اپنا ریلوے اسٹیشن بھی ہے اور ٹائون ہال بھی، کچہری بھی اور جیل خانہ بھی۔ آبادی ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ شہر میں ایک کالج، دو ہائی اسکول، ایک لڑکوں کے لیے، ایک لڑکیوں کے لیے اور آٹھ پرائمری اسکول ہیں جن میں میونسپلٹی کی طرف سے مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ چھ سینما ہیں اور چار بنک جن میں سے دو دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کی شاخیں ہیں۔
شہر سے دو روزانہ، تین ہفتہ وار اور دس ماہانہ رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ان میں چار ادبی و معاشرتی و مذہبی، ایک صنعتی، ایک طبّی، ایک زنانہ اور ایک بچوں کا رسالہ ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں بیس مسجدیں، پندرہ مندر اور دھرم شالے، چھ یتیم خانے، پانچ اناتھ آشرم اور تین بڑے سرکاری اسپتال ہیں جن میں ایک صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔
شروع شروع میں کئی سال تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کی مناسبت سے ’’حُسن آباد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا، مگر بعد میں اسے نامناسب سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمیم کردی گئی یعنی بجائے ’’حُسن باد‘‘ کے ’’حَسن آباد‘‘ کہلانے لگا مگر یہ نام چل نہ سکا، کیونکہ عوام حُسن اور حَسن میں کچھ امتیاز نہ کرتے۔ آخر بڑی بڑی بوسیدہ کتابوں کی ورق گردانی اور پرانے نوشتوں کی چھان بین کے بعد اس کا اصلی نام دریافت کیا گیا جس سے یہ بستی آج سے سینکڑوں برس قبل اُجڑنے سے پہلے موسوم تھی اور وہ نام ہے ’’آنندی!‘‘
یوں تو سارا شہر بھرا پُرا، صاف ستھرا اور خوشنما ہے مگر سب سے خوبصورت، سب سے بارونق اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز وہی بازار ہے جس میں زنان بازاری رہتی ہیں۔
آنندی کے بلدیہ کا اجلاس زوروں پر ہے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہیں۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔
ایک فصیح البیان مقرر تقریر کر رہے ہیں۔ ’’معلوم نہیں وہ کیا مصلحت تھی جس کے زیر اثر اس ناپاک طبقے کو ہمارے اس قدیمی اور تاریخی شہر کے عین بیچوں بیچ رہنے کی اجازت دے دی گئی ...‘‘
اس مرتبہ ان عورتوں کے رہنے کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے باہر کوس دور تھا۔
۱۹۴۰ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں