ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔ چار برسوں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لیے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کے لیے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حد نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوئوں کی طرح ٹمٹمارہے ہیں۔
ترلوچن کے لیے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی۔ رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا اور قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت سے محروم۔ قریب قریب تین بجے تھے۔ ہوا بے حد ہلکی پھلکی تھی۔ ترلوچن پنکھے کی میکانکی ہوا کا عادی تھا جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی۔ صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا۔ رات بھر اس کو مارا پیٹا گیا ہے۔ پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، ترو تازگی چوس کر خوش ہورہا تھا جب وہ اُوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کررہا تھا۔ کسی حد تک ٹھنڈ ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔
کرپال کور اور اس کا سارا خاندان۔ محلے میں تھا۔ جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا۔ یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی۔ کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔ ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا ۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔ غالباًاڑتالیس گھنٹوں کا۔ اور ترلوچن لازماً مغلوب تھا آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک مسلمان تھے۔ اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ۔ مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جا سکتا تھا۔
کرپال کی ماں اندھی تھی۔باپ مفلوج۔ بھائی تھا۔ وہ کچھ عرصے سے دیولالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لیے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔
ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرنجن پر بہت غصہ آتا تھا۔ اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کردیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ ’’نرنجن یہ ٹھیکے ویکے ابھی رہنے دو۔ ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمھارا اگرچہ رہنا بہت ضروری ہے لیکن یہاں سے اُٹھ جائو اور میرے یہاں چلے آئو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیا کرتا ہے۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صرف اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرا دیا۔ ’’یار تم خواہ مخواہ فکر کرتے ہو۔ میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں۔ یہ امر تسر یا لاہور نہیں۔ بمبے ہے۔ بمبے تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں اور میں بارہ برس سے یہاں رہ رہا ہوں۔ بارہ برس سے۔‘‘
جانے نرنجن کو کیا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے۔ اگر فساد برپا بھی ہوں تو ان کا اثر خود بخود زائل ہوجاتا ہے، جیسے اس کے پاس چھومنتر ہے۔ یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی۔ مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔ محلہ بالکل محفوظ نہیں۔ وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کے لیے تیار تھا کہ کرپال کو اور اس کے ماں باپ قتل ہو چکے ہیں۔
اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ مرجاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لیے اچھا تھا۔ وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھاتھا کہ ترلوچن کے لیے میدان صاف ہوجاتا خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑاہی نہیں بہت بڑا کھنگھر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کی بجائے کھنگھر سنگھ کہتا۔
صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔ ترلوچن کیسوں سے بے نیاز سر میں بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کررہا تھا۔مگر اس کے اندر بے شمار اندیشے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔ کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ وہ یوں تو ہٹے کٹے کھنگھر سنگھ کی بہن تھی۔ مگر بہت ہی نرم و نازک لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی، وہ گھٹائو، وہ مردانہ پن نہیں تھا، جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنہیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔
اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔ عام سکھ دیہاتی لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح ، اور بدن چکنا تھا جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے۔ بے حد شرمیلی تھی۔
ترلوچن اسی کے گائوں کا تھا۔ مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا۔ پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اسکول سے فارغ ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہو گئی۔ اس دوران میں وہ کئی مرتبہ — لاتعداد مرتبہ اپنے گائوں گیا۔ مگر اس نے کرپال کور کے نام کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا۔ شاید اس لیے کہ وہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔
کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پُر تھا۔ برما، سنگاپور، ہانگ کانگ۔ پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔
ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی جو بُری نہیں تھی۔ خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہا دیئے روشن تھے اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔
کرپال کور کا سوچتے سوچتے، وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا۔ اس یہودی لڑکی کے بارے میں جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی۔ اس سے ترلوچن کو گوڈے گوڈے عشق ہو گیا تھا۔ ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔
جس دن اُس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا ، اسی دن اس کی مڈبھیڑ موذیل سے ہوئی جو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک طور پر دیوانی معلوم ہوئی تھی۔ کٹے ہوئے بھورے بال اس کے سر پر پریشان تھے۔ بیحد پریشان ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی تھی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی تھی۔ ڈھیلا ڈھالا لمبا سفید چغہ پہنے تھی۔ جس کے کھلے گریبان سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھیں۔ بانہیں جو کہ ننگی تھیں مہین مہین بالوں سے اَٹی ہوئی تھیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کے آئی ہے اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے۔ مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا۔ بیچ میں ایک تنگ گلی تھی۔ بہت ہی تنگ۔ جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا تو موذیل باہر نکلی۔ کھڑائوں پہنے تھی۔ ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا۔ موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔ ترلوچن بوکھلا گیا۔ جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا ۔ موذیل کی ایک کھڑائوں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔
جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اُس کے اوپر تھی۔ کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی، بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے اِدھر اُدھر تھیں اور۔۔۔۔جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل — ساری موذیل سے الجھاجیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔
جب ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی۔ موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرادی ۔ یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے۔‘‘ اور وہ اتری ہوئی کھڑائوں میں اپنا انگوٹھا اور اس کی ساتھ والی انگلی پھنساتی کوریڈور سے باہر چلی گئی۔
ترلوچن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو۔ لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی۔ لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی۔ وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سے کھاتی تھی، اس سے پیتی تھی۔ اس کے ساتھ سینما جاتی تھی، سارا سارا دن اس کے ساتھ جوہو پر نہاتی تھی لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے کچھ اور آگے بڑھنا چاہتا تو وہ اسے ڈانٹ دیتی کچھ اس طور پر سے گُھرکتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تھی۔ لاہور میں، برما میں ، سنگاپور میں ، وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لیے خرید لیا کرتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الھڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں ’’گوڈے گوڈے ‘‘ دھنس جائے گا وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی، اس کے کہنے پر فوراً سج بن کر سینما جانے پر تیار ہوجاتی تھی مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانا شروع کردیتی۔ کوئی اس کا شناسا نکل آتا تو زور سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لیے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔
ہوٹل میں بیٹھے ہیں۔ ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کے لیے پُرتکلف کھانے منگوائے ہیں مگر اس کو کوئی اپنا پرانا دوست نظر آگیا ہے اور وہ نوالہ چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔
ترلوچن بعض اوقات بھّنا جاتا تھا کیونکہ وہ اسے قطعی طورپر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناسائوں کے ساتھ چلی جاتی تھی اور کئی کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی۔ کبھی سر درد کا بہانہ ، کبھی پیٹ کی خرابی کا جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہو سکتا۔
جب اس سے ملاقات ہوتی تو وہ اس سے کہتی ۔ ’’تم سکھ ہو۔ یہ نازک باتیں تمھاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔‘‘
ترلوچن جل بھن جاتا اور پوچھتا۔ ’’کون سی نازک باتیں۔ تمھارے پرانے یاروں کی؟ ‘‘
موذیل دونوں ہاتھ اپنے چوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کردیتی اور کہتی ۔ ’’یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے ہو ۔ ہاں وہ میرے یار ہیں۔ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔ ‘‘
ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا ۔ ’’ اس طرح تمھاری میری کس طرح نبھے گی۔ ‘‘
موذیل زور کا قہقہہ لگاتی۔ ’’تم سچ مچ سکھ ہو۔ ایڈیٹ ، تم سے کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ نبھائو۔ اگر نبھانے کی بات ہے تو جائو اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔ میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔ ‘‘
ترلوچن نرم ہوجاتا۔ دراصل موذیل اس کی زبردست کمزوری بن گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی۔ معمولی عمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبور ہو کر اس نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔
عام طور پر توہین اور ہتک کا ردعمل انتقام ہوتا ہے مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ اس لیے اپنے دل و دماغ کی بہت سی آنکھیں میچ لی تھیں اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ اس کو موذیل پسند بھی۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا ۔ ’’گوڈے گوڈے‘‘ اس کے عشق میں دھنس گیا تھا۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی اس عشق کی دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔
دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا۔لیکن ثابت قدم رہا۔ آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی۔اپنے بازوئوں میںسمیٹ کر پوچھا ۔ ’’موذیل۔ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔ ‘‘
موذیل اس کے بازوئوں سے جدا ہو گئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیںاور گھنی پلکیں جھپکا کر کہا۔ ’’میں سکھ سے محبت نہیں کر سکتی۔ ‘‘
ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ’’موذیل ! تم ہمیشہ میرا مذاق اُڑاتی ہو۔ یہ میرا مذاق نہیں ، میری محبت کا مذاق ہے۔‘‘
موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا۔ ’’تم شیو کرالو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔ تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمھیں آنکھ ماریں گے۔ تم خوبصورت ہو۔‘‘
ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاںپڑ گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردیئے۔
موذیل نے ایک دم ’’پھوں پھوں‘‘ کی اور اس کی گرفت سے علیٰحدہ ہو گئی۔ ’’میں صبح اپنے دانتوںپر برش کر چکی ہوں۔ تم تکلیف نہ کرو۔ ‘‘
ترلوچن چلایا۔ ’’موذیل۔‘‘
موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آگئی تھیں ’’خدا کی قسم۔ تم اپنی ڈاڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلو اسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کر سکتے ہیں۔ بس تھوڑا سا پیٹرول لگانے کی ضرورت ہو گی۔‘‘
ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلوچن کی ڈاڑھی کھولنی شروع کردی۔اس میں جوپنیں لگی تھیں، وہ اس نے ایک ایک کرکے اپنے دانتوں تلے دبالیں۔
ترلوچن خوبصورت تھا جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اُگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کُھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدو خال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپالیے تھے۔ اس کو اس کا احساس تھا۔ مگر وہ ایک اطاعت شعار اور فرماں بردار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کردے جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔
جب ڈاڑھی پوری کُھلگئی اور اس کے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا۔ ’’یہ تم کیا کررہی ہو؟ ‘‘
دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی۔ ’’تمھارے بال بہت ملائم ہیں۔ میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو اسکرٹ صاف ہو سکے گا۔ ترلوچ۔ تم یہ مجھے دے دو۔ میں انہیں گوندھ کر اپنے لیے ایک فسٹ کلاس بٹوا بنائوں گی۔‘‘
اب ترلوچن کی ڈاڑھی میں چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔ وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا۔ میں نے آج تک تمھارے مذہب کا مذاق نہیں اڑایا۔ تم کیوں اڑاتی ہو۔ دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔ میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا۔ مگر صرف اس لیے کرتا رہا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔ کیا تمھیں اس کا پتہ نہیں۔‘‘
موذیل نے ترلوچن کی ڈاڑھی سے کھیلنا بند کردیا۔ ’’مجھے معلوم ہے۔ ‘‘
’’پھر‘‘۔ ترلوچن نے اپنی ڈاڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہ کیے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں۔ ’’تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی ، میں بھی قریب قریب یہی فیصلہ کر چکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔‘‘
ترلوچن اُچھل پڑا۔ ’’سچ؟ ‘‘
موذیل کے عنابی ہونٹ بڑی موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کُھلے اور اس کے سفید مضبوط دانت ایک لمحے کے لیے چپکے۔ ’’ہاں‘‘!
ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی ڈاڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ تو۔۔۔۔تو کب؟ ‘‘
موذیل الگ ہٹ گئی۔ ’’جب۔ تم اپنے یہ بال کٹوادو گے! ‘‘
ترلوچن میں اس وقت جو ہو سو ہو ، بنا تھا۔ اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا۔ ’’میں کل ہی کٹوا دوں گا۔ ‘‘
موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے گی۔ ’’تم بکواس کرتے ہو ترلوچ، تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ ‘‘
اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا۔ ’’تم دیکھ لو گی۔ ‘‘
’’دیکھ لوں گی۔ ‘‘ اور وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ ترلوچن کی مونچھوں کو چوما اور ’’پھوں پھوں‘‘ کرتی باہر نکل گئی۔
ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔ وہ کن کن اذیتوں سے گزرا اس کا تذکرہ فضول ہے۔ اس لیے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوادیئے اور ڈاڑھی بھی منڈوا دی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا۔ جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا۔ جس پر بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کے لیے غور کرنے پر مجبور ہوجاتی۔
ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی۔ اس نے ٹیرس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ جہاں ٹینکیوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے۔ مگر وہ آئے بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کو بھیجی کہ اس کی طبیعت ناساز ہے۔ تھوڑی کے لیے آجائے۔ موذیل آئی۔ ترلوچن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی، پھر ’’مائی ڈارلنگ ترلوچن‘‘ کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کا سارا چہرہ عنابی کردیا۔
اس نے ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی۔ اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔ موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی سکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کردیا۔ ترلوچن شرما گیا۔ اس نے سکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پر اس سے کہا۔ نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔
موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ باسی اور جگہ جگہ سے اُتری ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا ’’مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے ہی چلتا ہے۔
ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا۔ جب وہ اور موذیل دونوں ٹکرا گئے تھے اور آپس میں کچھ عجیب طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے۔ مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگالیا۔ ’’شادی کل ہو گی؟‘‘
’’ضرور۔‘‘ موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔
طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو۔ چونکہ سول میرج تھی۔ اس لیے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا۔ عدالتی کارروائی تھی۔ اس لیے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے۔ پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں۔ دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہوجانا تھا۔
موذیل ، فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا۔ بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا ، ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے۔ دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کے لیے وہیں رہے گی۔
ترلوچن پر کیا گذری؟ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بھول گیا۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہو گئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کے مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا۔ اس احساس سے اس کو یک گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔
لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کدکڑے لگاتی غائب ہوجاتی تھی۔
وہ بے حیا تھی۔ بے مروت تھی۔ اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ترلوچن کو پسند تھی۔ اس لیے کبھی کبھی وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کررہی ہے۔ اسی آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے۔ اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہو گی۔ حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔
وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا لیکن اپنی مرضی سے، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی۔ اس کو بہت سستی قسم کی چیزیں پسند آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کے ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مر مٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔
ترلوچن اب تک نہ سمجھا سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے کس آب و گِل سے بنی ہے۔ وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی، اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی۔ وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کو چڑانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی تھی۔ ’’تم سکھ ہو۔ مجھے تم سے نفرت ہے! ‘‘
ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی، برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر بھی نہیں تھا وہ کبھی دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی۔ دو ٹوک فیصلہ کردیتی۔ انڈر ویئر اس کو ناپسند تھے۔ اس لیے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی۔ ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا۔ مگر اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔
ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتی تھی۔ ’’یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔ اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کرلیا کرو۔ تم مجھے یہ بتائو کہ کونسا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہو سکتا ۔ یا جس میں سے تمھاری نگاہیں پار نہیں ہو سکتیں۔ مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔ تم سکھ ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سِلی سا انڈر ویئر پہنتے ہو جونیکر سے ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی تمھاری ڈاڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمھارے مذہب میں شامل ہے۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔ اتنے بڑے ہو گئے ہو اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمھارا مذہب انڈر ویئر میں چھپا بیٹھا ہے! ‘‘
ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نا درست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور ڈاڑھی کا صفایا کرادیا تھا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا اتنا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب ہی نہیں تھا۔
پانی کی ٹینکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا۔ موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا۔ کرپال کور۔ ایک پاکیزہ لڑکی جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین واردات بھی ہو چکی تھیں۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا مگر کرفیو کی کون پروا کرتا ہے۔ اس چالی کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کو ر ، اس کی ماں اور اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کر سکتے تھے۔
ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا۔ اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر وہ اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ فورٹ میں ایک باربر تھا وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا کہ ترشی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔ اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے کھڑائوں کی کرخت آواز سنائی دی اس نے سوچا کون ہو سکتاہے؟ بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں جو سب کی سب گھر میں کھڑائوں پہنتی تھیں۔ آواز قریب آتی گئی۔ یک لخت اس نے دوسری ٹینکی کے پاس موذیل کو دیکھا جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا کرتا پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔ اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا اس کے آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔
ترلوچن پانی کے نل پر سے اٹھا۔ اس نے سوچا۔ ’’یہ ایکاایکی کہاں سے نمودار ہو گئی۔ اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟
موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔ اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔ ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے ۔ وہ زور سے کھانسا۔ موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا ردعمل بالکل خفیف تھا۔ کھڑائوں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی ڈاڑھی دیکھنے لگی۔ ’’تم پھر سکھ بن گئے ترلوچن؟‘‘
ڈاڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔
موذیلؔنے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا۔ ’’اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بلو سکرٹ صاف کر سکے۔مگر وہ تو وہیں دیولالی میں رہ گئی ہے۔‘‘
ترلوچن خاموش رہا۔
موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی۔ ’’بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟ ‘‘
ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا تاہم اس نے صبح کے ملگجے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایک طرف وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی۔ ترلوچن نے اس سے پوچھا۔ بیمار رہی ہو؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘موذیل نے اپنے ترشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سے جھٹکا دیا۔
’’پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟ ‘‘
’’میں ڈائٹنگ کررہی ہوں۔‘‘ موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑائوں فرش کے ساتھ بجانے لگی۔ ’’تم گویا کہ۔ اب پھر۔ نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔ ‘‘
ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔ ’’ہاں! ‘‘
’’مبارک ہو۔ ‘‘ موذیل نے ایک کھڑائوں پیر سے اتار لی اور پانی کے نل پر بجانے گی۔ کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کردی۔‘‘
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’ہاں! ‘‘
’’مبارک ہو۔ اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’یہ بہت بُری بات ہے۔ ‘‘ موذیل کھڑائوں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی۔ ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اٹھ کر اس کی ڈاڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چھیڑا ۔ ’’کیا اس لڑکی نے تمھیںیہ بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘
ترلوچن بڑی اُلجھن محسوس کررہا تھا جیسے کنگھا کرتے کرتے اس کی ڈاڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں۔ جب اس نے ’’نہیں‘‘ کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔
موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گائوں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکرے کردیئے ہیں۔
مسکرانے کے بعد وہ ہنسی۔ ’’تم اب یہ ڈاڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو۔ میں تم سے شادی کرلوں گی۔‘‘
ترلوچن کے جی میں آئی کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طبیعت کنواری لڑکی سے محبت کررہا ہے اور اسی سے شادی کرے گا۔ موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے۔ بد صورت ہے، بے وقوف ہے۔ بے مروت ہے مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا۔ اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا۔ ’’موذیل! میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ میرے گائوں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔ جو مذہب کی پابند ہے۔ اسی کے لیے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘
موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑائوں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا۔ ’’وہ مذہب کی پابند ہے تو تمھیں کیسے قبول کرے گی؟ ۔ کیا اسے معلوم ہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟ ‘‘
اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔ ڈاڑھی میں تمھارے دیولالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کردی تھی۔ محض انتقامی طور پر۔اس کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی۔ مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ہوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔ مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔ ‘‘ ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔
موذیل نے لمبا کرتا اٹھا کر اپنی گوری دبیز ران کھجانی شروع کی۔ ’’یہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔ مگر یہ کم بخت مچھر یہاں بھی موجود ہے۔ دیکھنا کس زور سے کاٹا ہے۔‘‘
ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔ ’’کب ہورہی ہے تمھاری شادی؟ ‘‘
’’ابھی کچھ پتہ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ترلوچن سخت متفکر ہو گیا۔
چند لمحات تک خاموش رہی۔ اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکر کا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔ ترلوچن۔ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی۔ خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنادیا۔ موذیل ہنسی۔ ’’تم اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ جائو اس کو لے آئو۔ ایسی کیا مشکل ہے؟‘‘
’’مشکل!۔ موذیل تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔ کسی بھی معاملے کی نزاکت۔ تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمھارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں پانی کے نل کے ساتھ ماری۔ ’’افسوس بی ڈیمڈ۔ سِلی ایڈیٹ۔ تم یہ سوچو کہ تمھاری اس۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔اس محلے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔۔۔۔ تم بیٹھ گئے جو تعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔ تمھارے میرے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ تم ایک سِلی قسم کے آدمی ہو۔ اور بہت ڈرپوک، مجھے نڈر مرد چاہیے۔ لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔چلو آئو، تمھاری اس کور کو لے آئیں! ‘‘
اس نے ترلوچن کا بازو پکڑلیا۔ ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا۔ ’’کہاں سے؟ ‘‘
’’وہیں سے جہاں وہ ہے۔ میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں۔ چلو آئو میرے ساتھ۔‘‘
’’سنو تو۔ کرفیو ہے۔‘‘
موذیل کے لیے نہیں۔ چلو آئو۔‘‘
’’ترلوچن کو بازو سے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی تھی جو نیچے سیڑھیوں کی طرف کُھلتا تھا۔ دروازہ کھول کر وہ اترنے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی ڈاڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔
ترلوچن نے پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘
موذیل نے کہا ۔ ’’یہ تمھاری ڈاڑھی ۔ لیکن خیر ٹھیک ہے۔ اتنی بڑی نہیں ہے۔ ننگے سر چلو گے تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھ ہو۔
’’ننگے سر! ترلوچن نے کسی قدر بوکھلا کر کہا۔ میں ننگے سر نہیں جائوں گا۔‘‘
موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘
ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی ’’تم سمجھتی نہیں ہو۔ میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔ ‘‘
’’کیوں ٹھیک نہیں۔‘‘
’’تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔ وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں۔ میں اس پر یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں دروازے کی دہلیز پر ماری۔ ’’تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ گدھے کہیں کے۔۔۔۔اس کی جان کا سوال ہے۔ کیا نام ہے ۔ تمھاری اس کور کا جس سے تم محبت کرتے ہو۔
ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’موذیل۔ وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔ اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔
موذیل چڑھ گئی۔ ’’اوہ۔ تمھاری محبت بی ڈیمڈ۔ میں پوچھتی ہوں۔ کیا سارے سکھ تمھارے طرح کے بیوقوف ہوتے ہیں۔ اس کی جان کا خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔ اور شاید وہ اپنا انڈر ویئر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔‘‘
ترلوچن نے کہا۔ ’’وہ تو میں ہر وقت پہننے ہوتا ہوں۔‘‘
’’بہت اچھا کرتے ہو۔ مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی ہی میاں بھائی رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے دادا اور بڑے بڑے موالی۔ تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کردیئے جائو گے۔‘‘
ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا۔ ’’مجھے اس کی پروا نہیں۔ اگر میں تمھارے ساتھ وہاں جائوں تو پگڑی پہن کر جائوں گا۔ میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا! ‘‘
موذیل جھنجھلا گئی۔ اس زور سے اس نے پیچ و تاب کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بِھڑبِھڑ گئیں۔ ’’گدھے۔ تمھاری محبت ہی کہاں رہے گی جب تم نہ ہو گے۔ تمھاری وہ۔ کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔ جب وہ بھی نہ رہے گی اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔ تم سکھ ہو۔ خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو! ‘‘
ترلوچون بھننا گیا۔ ’’بکواس نہ کرو! ‘‘
موذیل زور سے ہنسی ۔ مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانہیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جُھول کر کہا ۔ ڈارلنگ چلو۔ جیسے تمھاری مرضی۔ جائو پگڑی پہن آئو میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی۔ ترلوچن نے اسے روکا ’’تم کپڑے نہیں پہنو گی! ‘‘
موذیل نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔ ’’نہیں۔ چلے گا اسی طرح۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اُتر گئی۔ ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھی اس کی کھڑائوں کی چوبی آواز سنتا رہا۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا۔ جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی۔ اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کرکے نیچے اُتر گیا۔
باہر فٹ پاتھ پر موذیل پر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کیے سگریٹ پی رہی تھی۔ بالکل مردانہ انداز میں جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منھ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا۔ ترلوچن نے غصے میں کہا ’’تم بہت ذلیل ہو۔‘‘
موذیل مسکرائی۔ ’’یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ اس سے پہلے اس کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں۔‘‘ پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا۔ ’’یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے تمھارے کیس ہیں۔‘‘
بازار بالکل سنسان تھا۔ ایک طرف ہوا چل رہی تھی اور وہ بھی بہت دھیرے دھیرے۔ جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے۔ بتیاں روشن تھیں مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی عام طور پر اس وقت ٹرینیں چلنی شروع ہوجاتی تھیں اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری ہوجاتی تھی، اچھی خاصی گہماگہمی ہوتی تھی پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گذرا ہے نہ گذرے گا۔‘‘
موذیل آگے آگے تھی۔ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑائوں کھٹ کھٹ کررہی تھی۔ یہ آواز اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی۔ ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑائوں ہی اتار کر کوئی دوسری چیز پہن سکتی تھی۔ اس نے چاہا کہ موذیل سے کہے کھڑائوں اُتار دو اور ننگے پائوں چلو۔ مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی۔ اس لیے خاموش رہا۔
ترلوچن سخت خوفزدہ تھا۔ کوئی پتا کھڑکتا تو اس کا دل دھک سے رہ جاتا تھا۔ مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جارہی تھی۔ سگریٹ کا دھواں اُڑاتی جیسے وہ بڑی بے فکری سے چہل قدم کررہی ہے۔
چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گرجی۔ ’’اے۔ کدھر جارہا ہے۔ ‘‘
ترلوچن سہم گیا۔ موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئی اور بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر کہا۔ ’’اوہ — تم ہم کو پہچانا نہیں تم نے — موذیل ...... پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ادھر اس باجو۔ ہمارا بہن رہتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر لے کر جارہا ہے۔۔۔۔‘‘
سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور ایک سگریٹ نکال کر اس کو دیا۔ لو پیئو۔
سپاہی نے سگریٹ لے لیا۔ موذیل نے اپنے منھ سے سلگا ہوا سگریٹ نکالا اور اس سے کہا ۔ ’’ہیر از لائٹ! ‘‘
سپاہی نے سگریٹ کا کش لیا۔ موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔ جس میں سے گزر کر انھیں محلے جانا تھا۔
ترلوچن خاموش تھا۔ مگر وہ محسوس کررہا تھا کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کرکے ایک عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس کررہی ہے۔ خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا۔ وہ جب جوہو پر اس کے ساتھ ہوتی تو اس کے لیے ایک مصیبت بن جاتی تھی۔ سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دُور تک نکلی جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ کہیں وہ ڈوب نہ جائے جب واپس آتی تو اس کا جسم نیلوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔
موذیل آگے آگے تھی۔ ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے ڈر ڈر کے اِدھر اُدھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل میں سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہوجائے۔ موذیل رُک گئی۔ جب ترلوچن پاس آیا تو اُس نے سمجھانے کے انداز میں اس سے کہا کہ ترلوچ ڈیئر۔ اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔ تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔ سچ کہتی ہوں۔ یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔‘‘
ترلوچن خاموش رہا۔
جب وہ گلی طے کرکے دوسری گلی میں پہنچے ۔ جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی، جس میں کرپال کور رہتی تھی تو موذیل چلتے چلتے ایک دم رُک گئی۔ کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مارواڑی کی دُکان لُوٹی جارہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اس نے اس معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا، کوئی بات نہیں۔ چلو آئو۔‘‘
دونوں چلنے لگے۔ ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اُٹھائے چلا آرہا تھا۔ ترلوچن سے ٹکرا گیا۔ پرات گر گئی۔ اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکھ ہے۔ اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا ۔ کہ موذیل آگئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چُور رہے ۔ اس نے زور سے اس آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا۔ اے کیا کرتا ہے۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔ ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔ پھر وہ ترلوچن سے مخاطب ہوئی، ’’کریم، اٹھائو، پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔‘‘
اس آدمی نے نیفے میں سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنکھوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا۔ ’’عیش کر سالی۔ عیش کر۔‘‘ پھر اس نے پرات اٹھائی اور یہ جا ، وہ جا۔
ترلوچن بڑ بڑایا۔ ’’کیسی ذلیل حرکت کی ہے حرامزادے نے! ‘‘
موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔ ’’کوئی ذلیل حرکت نہیں۔ سب چلتا ہے۔۔۔۔آئو۔‘‘
اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔ ترلوچن نے بھی قدم تیز کردیئے۔
یہ گلی طے کرکے دونوں اس محلے میں پہنچ گئے۔ جہاں کرپال کور رہتی تھی۔ موذیل نے پوچھا۔ کس گلی میں جانا ہے؟ ‘‘
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’تیسری گلی میں۔ نکڑ والی بلڈنگ! ‘‘
موذیل نے اس طرف چلنا شروع کردیا۔ یہ راستہ بالکل خاموش تھا۔ آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے تک کے رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔ ایک آدمی بڑی تیزی سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر کے بعد تین آدمی نکلے۔ فٹ پاتھ پر انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئے۔ موذیل ٹھٹک گئی۔ اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہوجائے۔ پھر اس نے ہولے سے کہا۔ ’’ترلوچن ڈیئر۔ یہ پگڑی اتار دو! ‘‘
ترلوچن نے جواب دیا ’’میں یہ کسی صورت میں بھی نہیں اتار سکتا! ‘‘
موذیل جھنجھلا گئی۔ ’’تمھاری مرضی۔ لیکن تم دیکھتے نہیں، سامنے کیا ہورہا ہے۔ ‘‘
سامنے جو کچھ ہورہا تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ صاف گڑ بڑ ہورہی تھی اور بڑی پُراسرار قسم کی ۔ دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی۔ ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی تو اس نے ترلوچن سے کہا۔ ’’دیکھو، ایسا کرو۔ میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔ تم میرے پیچھے آنا۔ بڑی تیزی سے جیسے تم میرا پیچھا کررہے ہو۔ سمجھے۔ مگر یہ سب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔ ‘‘
موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑائوں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی ، ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ چند لمحوں میں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔ سیڑھیوں کے پاس ترلوچن ہانپ رہا تھا۔ مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس نے ترلوچن سے پوچھا۔ ’’کون سا مالا؟‘‘
ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’دوسرا۔‘‘
’’چلو ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ ترلوچن اُس کے پیچھے ہولیا۔ زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ کر اس کا خون خشک ہورہا تھا۔
دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی۔ موذیل دور سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔
ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منھ لگا کر آواز دی۔ ’’مہنگا سنگھ جی۔ مہنگا سنگھ جی! ‘‘
اندر سے مہین آوا ز آئی۔ ’’کون؟ ‘‘
’’ترلوچن! ‘‘
دروازے دھیرے سے کھلا۔ ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا وہ لپک کر آئی۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔ موذیل نے اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا جو بے حد سہمی ہوئی تھی۔ موذیل نے اس کو ایک لمحے کے لیے غور سے دیکھا پتلے پتلے نقش تھے۔ ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا ۔ موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔
ترلوچن سرخ ہو گیا۔
موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا ۔ ’’ڈرو نہیں، ترلوچن تمھیں لینے آیا ہے۔‘‘
کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہو گئی۔
ترلوچن نے اس سے کہا۔ سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہوجائیں۔ اور ماتاجی سے بھی۔ لیکن جلدی کرو۔ ‘‘
اتنے میں اُوپر کی منزل پر بلند آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیخ رہا ہے اور دھینگا مشتی ہورہی ہے۔
کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ بلند ہوئی۔ اسے پکڑ لیا انھوں نے ! ‘‘
ترلوچن نے پوچھا۔ ’’کسے ؟‘‘
کرپال کور جواب دینے ہی والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی۔ ’’پکڑ لیا تو اچھا ہوا تم یہ کپڑے اتارو۔ ‘‘
کرپال کور ابھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آناً فاناً اس کی قمیض اُتار کر ایک طرف رکھ دی۔ کرپال کور نے اپنی بانہوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور وحشت زدہ ہو گئی۔ ترلوچن نے منھ دوسری طرف موڑ لیا۔ موذیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتا اتار ا اور اس کو پہنا دیا۔ خود وہ ننگ دھڑنگ تھی جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا ازاربند ڈھیلا کیا اور اس کی شلوار اُتار کر ، ترلوچن سے کہنے لگی۔ ’’جائو، اسے لے جائو۔ لیکن ٹھہرو۔ ‘‘
یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دیئے اور کہا، ’’جائو۔ جلدی نکل جائو۔ ‘‘
ترلوچن نے اس سے کہا ۔ آئو ’’مگر فوراً ہی رک گیا۔ پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی۔ اس کی بانہوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔
’’تم جاتے کیوں نہیں ہو؟ ‘‘ موذیل کے لہجے میں چڑ چڑاپن تھا۔
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔ ‘‘
’’جہنم میں جائیں وہ۔ تم اسے لے جائو۔ ‘‘
’’اور تم ؟ ‘‘
’’میں آجائوں گی۔ ‘‘
ایک دم اُوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے۔ دروازے کے پاس آکر انھوں نے کوٹنا شروع کردیا۔ جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔
کرپال کور کی اندھی ماں اور اس کا مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراہ رہے تھے۔
موذیل نے کچھ سوچا اور بالوں کو خفیف جھٹکا دے کر اس نے ترلوچن سے کہا ۔ ’’سنو اب صرف ایک ہی ترکیب میری سمجھ میں آتی ہے۔ میں دروازہ کھولتی ہوں۔۔۔۔‘‘
کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی نکلتی دب گئی۔ ’’دروازہ۔ ‘‘
موذیل ترلوچن سے مخاطب رہی۔ ’’میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔ تم میرے پیچھے بھاگنا۔ میں اُوپر چڑھ جائوں گی۔ تم بھی اُوپر چلے آنا۔ یہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے پھر پوچھا۔ ’’پھر؟ ‘‘
موذیل نے کہا۔ ’’یہ تمھاری۔ کیا نام ہے اس کا۔ موقع پا کر نکل جائے۔ اس لباس میں اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔ ‘‘
ترلوچن نے جلدی جلد کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی۔ موذیل زور سے چلائی۔ دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری۔
سب بوکھلا گئے اُٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ ترلوچن اس کے پیچھے بھاگا۔ سب ایک طرف ہٹ گئے۔
موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔کھڑائوں اس کے پیروں میں تھی۔ وہ لوگ جو دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے تھے سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے ۔ موذیل کا پائوں پھسلا ۔ اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی، لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آرہی۔ پتھریلے فرش پر۔
ترلوچن ایک دم نیچے اُترا۔ جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ منھ سے خون بہہ رہا تھا کانوں کے رستے بھی خون نکل رہا تھا۔ وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے اردگرد جمع ہو گئے۔ کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے۔ سب خاموش تھا اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔
ترلوچن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی ’’موذیل۔ موذیل۔‘‘
موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں جو لال بوٹی ہورہی تھیں اور مسکرائی۔
ترلوچن نے اپنی پگڑی اتاری اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا۔ موذیل پھر مسکرائی اور آنکھ مار کر اس نے ترلوچن سے منھ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جائو دیکھو۔ میرا انڈر ویئر وہاں ہے کہ نہیں۔ میرا مطلب ہے وہ۔۔۔۔‘‘
ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھنا نہ چاہا۔ اس پر موذیل نے غصے میں کہا، ’’تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ جائو دیکھ کر آئو۔‘‘
ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔ موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا یہ میاں بھائی ہے ...... لیکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔ میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔ ‘‘
ترلوچن واپس آگیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتادیا کہ کرپال کور جا چکی ہے۔۔۔۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منھ سے بہہ نکلا۔ ’’اوہ ڈیم اٹ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اَٹی ہوئی کلائی سے اپنا منھ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔ آل رائٹ ڈارلنگ ۔۔۔ بائی بائی۔ ‘‘
ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔
موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔ ’’لے جائو اس کو۔ اپنے اس مذہب کو۔ ’’اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں