منگو کوچوان اپنے اڈے میںبہت عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہورہا ہے، استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی: ’’دیکھ لینا گاما چودھری! تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘
اور جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا: ’’ولایت میں اور کہاں؟‘‘
اسپین میں جنگ چھڑی۔ اور جب ہر شخص کو پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے، دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔ اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگا چلاتے ہوئے، اپنی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔
اس روز شام کے قریب جب وہ اڈے میں آیا تو اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حقے کا دور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا:
’’یہ کسی پیر کی بد دعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقو چھریاں چلتی رہتی ہیں اور میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بد دعا دی تھی: ’’جا، تیرے ہندستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے ...... اور دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حقے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی: ’’یہ کانگرسی ہندستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہوگا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہوگی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آجائے گا، یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے۔ لیکن ہندستان سد اغلام رہے گا۔ ہاں میں یہ کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بد دعا بھی دی تھی کہ ہندستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اسے متلی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آجاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو!
جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مکدر رہتی۔ اور وہ شام کو اڈے میں آکر ہل مارکہ سگریٹ پیتے یا حقے کے کش لگاتے ہوئے اس ’’گورے‘‘ کو جی بھر کر سنایا کرتا۔
’’......‘‘ یہ موٹی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا: ’’آگ لینے آئے تھے۔ اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے، یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں......‘‘
اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا، وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا:
’’شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی ...... جیسے کوڑھ ہورہا ہے ...... بالکل مردار ...... ایک دھپے کی مار، اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملعون کی کھوپڑی کے پرزے اڑا دوں لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردود کو مارنا اپنی ہتک ہے......‘‘ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوجاتا اور ناک کو خاکی قمیص کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بڑبڑانے لگ جاتا:
’’قسم ہے بھگوان کی، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آگیا ہوں۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں، رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم، جان میں جان آجائے۔‘‘
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
دو مار واڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے، گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کررہے تھے:
’’سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندستان میں نیا قانون چلے گا ...... کیا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘
’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی۔ مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندستانیوں کو آزادی مل جائے گی۔‘‘
’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا؟‘‘
’’یہ پوچھنے کی بات ہے۔ کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘
ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابل بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اور چابک سے بہت بری طرح پیٹا کرتا تھا مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال، ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کرکے، گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہوئے بڑے پیار سے کہتا: ’’چل بیٹا ...... ذرا ہوا سے باتیں کرکے دکھا دے۔‘‘
مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسی پی کر ایک بڑی ڈکار لی۔ اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے، ایسے ہی بلند آواز میں کہا: ’’ہت تیری ایسی تیسی۔‘‘
شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلاف معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہوگیا۔ آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا ...... بہت بڑی خبر، اور اس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہورہا تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے، اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آرہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لاکر کھڑا کردیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کرکے غور و فکر کررہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے ان مارواڑیوں کو گالی دی ...... ’’غریبوں کی کھٹیا میں گھسے ہوئے کھٹمل ...... نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔‘‘
وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچتی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں ...... سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی بلوں میں ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں گی۔
جب نتھو گنجا، پگڑی بغل میں دبائے، اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا: ’’لاہاتھ ادھر ...... ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہوجائے ...... تیری اس گنجی کھوپری پر بال اگ آئیں۔‘‘
اور یہ کہہ کر منگو نے بڑے مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کردیں۔ دوران گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا: ’’تو دیکھتا رہ، کیا بنتا ہے، یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کرکے رہے گا۔‘‘
استاد منگو موجودہ سویٹ نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے ’’روس والے بادشاہ‘‘ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملادیا اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں، وہ انہیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ‘‘ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کردیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں، یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے، تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا۔
ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کررہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک، دوسرے سے کہہ رہا تھا:
’’جدید آئین کا دوسرا حصہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ ایسی فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریے کے اعتبار سے بھی یہ فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘
ان بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی چونکہ اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے، اس لیے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا: یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو برا سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا: ’’ٹوڈی بچے!‘‘
جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچہ ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کرکے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز وہ گورنمنٹ کالج کے تین طلبہ کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جارہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سنا:
’’نئے آئین نے میری امیدیں بڑھا دی ہیں اگر ...... صاحب اسمبلی کے ممبر ہوگئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی۔‘‘
’’ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی۔ شاید اسی گڑ بڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آجائے ۔‘‘
’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
’’وہ بے کار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان میں کچھ تو کمی ہوگی۔‘‘
اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی اور وہ اس کو ایسی ’’چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔’’ نیا قانون…!‘‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا: ’’یعنی کوئی نئی چیز!‘‘ اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ نیا ساز آجاتا جو اس نے دو برس ہوئے چودھری خدا بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر جب وہ نیا تھا، جگہ جگہ لوہے کی نکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا، وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی ’’نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔
پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کرچکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلاف معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیرمعمولی طور پر مسرور تھی ...... وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھیں، اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں ۳۱؍مارچ کو چودھری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنے میں خریدی تھی۔
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز، کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھرو کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی ...... ان میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں ۔ لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔
’’ابھی بہت سویرا ہے، دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں۔‘‘ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا:’’ ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘
جب اس کا تانگا گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلبہ کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے، خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انارکلی میں تھا۔ بازاروں کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی تھیں۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی۔ منہاری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔ اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی ...... وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
جب استاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری میں گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہوگا۔ مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اسی غیر مغلوب خواہش کے زیر اثر اُس نے کئی بار اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا:
’’تو ہر وقت مردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اٹھ ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہوسکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچہ جن دے گی؟‘‘
استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگادئی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی: ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور تم پیاس سے بے حال ہورہے ہو۔‘‘
کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی تھا اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔
انارکلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا اور دل میں خیال کیا:
’’چلو یہ بھی اچھا ہوا ...... شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتا چل جائے۔‘‘
چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر، بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا اور پچھلی نشست کے گدے پر بیٹھ گیا ...... جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وہ، عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر، پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر، اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد، بڑی دھیمی چال چلنا شروع کردیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے۔
گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سست تھی جس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا اسی طرح استاد منگو کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہورہے تھے۔
وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کررہا تھا اور اس قابل غور بات کو آئین جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کررہا تھا۔ وہ اس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے، سڑک کے اس طرف، دور بجلی کے کھمبے کے پاس، ایک ’’گورا‘‘ کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ سے بلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، استاد منگو کو گوروں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہوگئے۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا: ان کے پیسے چھوڑنا بھی بے وقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کردیے ہیں، ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہییں، چلو چلتے ہیں۔
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگا موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکنے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگا ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا:
’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا۔ ’صاحب بہادر‘ کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ، نیچے کی طرف کھچ گیا اور پاس ہی، گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر، ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آرہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہوگئی۔ گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھا۔ اور اپنے اندر اس نے اس ’’گورے ‘‘ کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب ’’گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا، مڑ کر تانگے کے پائدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں۔
استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اترنے والا تھا، اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرے ذرے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے ...... اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا ہے گویا وہ استاد منگو کے اس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا: ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘
’’وہی ہے۔‘‘ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔
’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہوگیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا، وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور اس خوامخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی، اسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کردیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اڑا دیے ہوتے، مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہوگیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔
استاد منگو نے، پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے، گورے سے کہا: ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا ’’ہیرا منڈی۔‘‘
’’کرایہ پانچ روپے ہوگا۔‘‘ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔
یہ سن کر گورا حیران ہوگیا۔ وہ چلایا: ’’پانچ روپے۔ کیا تم…؟‘‘
’’ہاں، ہاں، پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔’’ کیوں جاتے ہو یا بے کار باتیں بناؤگے؟‘‘
استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہوگیا۔
گورا، پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر، استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کرچکا تھا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا ۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسا کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر کو اٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اتر کر اسے دھڑ ادھڑ پیٹنا شروع کردیا۔
ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس کی چیخ پکار نے استاد منگو کی باہوں کا کام اور بھی تیز کردیا ۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا:
’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ...... پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ...... اب ہمارا راج ہے بچہ!‘‘
لوگ جمع ہوگئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے، گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہورہی تھی، منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے، حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر، وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا:
’’وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ...... اب نیا قانون ہے میاں ...... نیا قانون!‘‘
اور بے چارہ گورا، اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ، بے وقوفوں کے مانند، کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون، نیا قانون‘‘ چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
’’نیا قانون، نیاقانون، کیا بک رہے ہو ...... قانون وہی ہے، پرانا!‘‘
اور اس کو حوالات میں بند کردیا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں