لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ...... آپ مسلمان ہیں یقین کریں، میں جو کچھ کہوں گا، سچ کہوں گا۔ پاکستان کا اِس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ قائدِاعظم جناح کے لیے میں جان دینے کے لیے تیّار ہوں لیکن میں سچ کہتا ہوں اس معاملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، آپ اتنی جلدی نہ کیجیے ...... مانتا ہوں، اِن دنوں ّہلڑ کے زمانے میں آپ کو فرصت نہیں لیکن آپ خدا کے لیے میری پوری بات تو سن لیجیے ...... میں نے ُتکارام کو ضرور مارا ہے اور جیسا کہ آپ کہتے ہیں، تیز چھری سے اُس کا پیٹ چاک کیا ہے مگر اِس لیے نہیں کہ وہ ہندو تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اِس لیے نہیں مارا تو پھر کس لیے مارا ...... لیجیے میں ساری داستان ہی آپ کو سنا دیتا ہوں:
پڑھیے کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ...... کس کافر کو معلوم تھا کہ میں اِس لفڑے میں پھنس جائوں گا۔ پچھلے ہندو مسلم فساد میں َمیں نے تین ہندو مارے تھے لیکن آپ یقین مانیے وہ مارنا کچھ اور ہے یہ مارنا بالکل کچھ اور ہے۔ خیر، آپ سنیے کہ ُہوا کیا۔ میں نے اِس ُتکارام کو کیوں مارا۔
کیوں صاحب، عورت ذات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ...... میں تو سمجھتا ہوں بزرگوں نے ٹھیک کہا ہے ...... اس کے چلتروں سے خدا ہی بچائے ...... پھانسی سے بچ گیا تو دیکھیے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں، پھر کبھی کسی عورت کے نزدیک نہیں جائوں گا ...... لیکن صاحب، عورت بھی اکیلی سزاوار نہیں۔ مرد سالے بھی کم نہیں ہوئے، بس کسی عورت کو دیکھا اور ریشہ خطمی ہو گئے۔ خدا کو جان دینی ہے انسپکٹر صاحب، رُکما کو دیکھ کر میرا بھی یہی حال ہوا تھا۔
اب کوئی مجھ سے پوچھے: بندئہ خدا تو ایک پینتیس روپے کا ملازم، تجھے بھلا عشق سے کیا کام۔ کرایہ وصول کر اور چلتا بن۔ لیکن آفت یہ ہوئی صاحب کہ ایک دن، جب میں سولہ نمبر کی کھولی کا کرایہ وصول کرنے گیا اور دروازہ ُٹھوکا تو اندر سے رُکمابائی نکلی۔ یوں میں رُکمابائی کو کئی دفعہ دیکھ چکا تھا لیکن اُس دن کم بخت نے بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور ایک پتلی دھوتی لپیٹ رکھی تھی۔ جانے کیا ہوا مجھے، جی چاہا اُس کی دھوتی اتار کر زور زور سے مالش شروع کر دوں۔ بس صاحب، اُسی روز سے اس بندئہ نابکار نے اپنا دل، دماغ سب کچھ اُس کے حوالے کر دیا۔
کیا عورت تھی! ...... بدن تھا پتھر کی طرح سخت، مالش کرتے کرتے ہانپنے لگ گیا تھا مگر وہ اپنے باپ کی بیٹی یہی کہتی رہی: ’’تھوڑی دیر اور ...‘‘
شادی شدہ؟ ...... جی ہاں، شادی شدہ تھی اور خان چوکیدار نے کہا تھا کہ اُس کا ایک یار بھی ہے۔ لیکن آپ سارا قصہ ہی سن لیجیے ...... یاروار سب ہی اُس میں آجائیں گے۔
جی ہاں، بس اُس روز سے عشق کا بھوت میرے سر پر سوار ہو گیا۔ وہ بھی کچھ کچھ سمجھ گئی تھی کیونکہ کبھی کبھی کن اَنکھیوں سے میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی تھی ...... لیکن خداگواہ ہے، جب بھی وہ مسکرائی، میرے بدن میں خوف کی ایک تھرتھری سے دوڑ گئی۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ معشوق کو پاس دیکھنے کا ’’وہ‘‘ ہے ...... لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا ...... لیکن آپ شروع ہی سے سنیے:
وہ تو میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ رکمابائی سے میری آنکھ لڑ گئی تھی۔ اب دن رات میں سوچتا تھا کہ اُسے پٹایا کیسے جائے۔ کمبخت اُس کا خاوند، ہر وقت کھولی میں بیٹھا لکڑی کے کھلونے بناتا رہتا تھا۔ کوئی چانس ملتا ہی نہیں تھا۔
ایک دن بازار میں َمیں نے اُس کے خاوند کو، جس کا نام ...... خدا آپ کا بھلا کرے کیا تھا؟ جی ہاں ...... گردھاری ...... لکڑی کے کھلونے چادر میں باندھے لے جاتے دیکھا تو میں نے جھٹ سے سولہ نمبر کی کھولی کا رُخ کیا۔ دھڑکتے ہوئے دل سے میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا۔ رکمابائی نے میری طرف گھور کے دیکھا۔ خدا کی قسم میری روح لرز گئی۔ بھاگ گیا ہوتا وہاں سے، لیکن اُس نے مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
جب اندر گیا تو اس نے کھولی کا دروازہ بند کر کے مجھ سے کہا: ’’بیٹھ جائو۔‘‘ میں بیٹھ گیا تو اس نے میرے پاس آ کر کہا: ’’دیکھو میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو۔ لیکن جب تک گردھاری زندہ ہے تمہاری مراد پوری نہیں ہو سکتی۔‘‘
میں اٹھ کھڑا ُہوا ...... اسے بالکل پاس دیکھ کر میرا خون گرم ہو گیا تھا۔ کنپٹیاں ٹھک ٹھک کر رہی تھیں۔ کم بخت نے آج بھی بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور وہی پتلی دھوتی لپیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اُسے بازوئوں سے پکڑ لیا اور دبا کر کہا: ’’مجھے کچھ معلوم نہیں، تم کیا کہہ رہی ہو۔‘‘ اُف! اُس کے بازوئوں کے پٹھے کس قدر سخت تھے ...... سچ عرض کرتا ہوں، میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کس قسم کی عورت تھی۔
خیر آپ داستان سنیے:
میں اور زیادہ گرم ہو گیا اور اُسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ ’’گردھاری جائے جہنم میں ...... تمہیں میری بننا ہو گا۔‘‘
رُکما نے مجھے اپنے جسم سے الگ کیا اور کہا: ’’دیکھو تیل لگ جائے گا۔‘‘ میں نے کہا: ’’لگنے دو۔‘‘ اور پھر اُسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا ...... یقین مانیے، اگر اُس وقت آپ مارے کوڑوں کے میری پیٹھ کی چمڑی ادھیڑ دیتے تب بھی میں اسے علاحدہ نہ کرتا۔ لیکن کم بخت نے ایسا ُپچکارا کہ جہاں اُس نے مجھے پہلے بٹھایا تھا، خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا وہ سوچ کیا رہی ہے۔ گردھاری سالا باہر ہے، ڈر کس بات کا ہے ...... تھوڑی دیر کے بعد جب مجھ سے رہا نہ گیا تھا تو میں نے اس سے کہا: ’’رکما، ایسا اچھا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔‘‘ اس نے بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا: ’’اِس سے بھی اچھا موقع ملے گا ...... لیکن تم یہ بتائو جو کچھ میں کہوں گی کرو گے؟‘‘ ...... صاحب، میرے سر پر تو بھوت سوار تھا، میں نے جوش میں آ کر کہا: ’’تمہارے لیے میں پندرہ آدمی قتل کرنے کو تیّار ہوں۔‘‘ یہ سن کر وہ مسکرائی۔ ’’مجھے وشواس ہے۔‘‘ خدا کی قسم، ایک بار پھر میری روح لرز گئی لیکن میں نے سوچا شاید زیادہ جوش آنے پر ایسا ہوا ہے۔
بس وہاں میں تھوڑی دیر اور بیٹھا۔ پیار اور محبت کی باتیں کیں، اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے بھجیے کھائے اور چپکے سے باہر نکل آیا۔ گو وہ سلسلہ نہ ہوا، لیکن صاحب، ایسے سلسلے پہلے ہی دن تھوڑے ہوتے ہیں، میں نے سوچا: پھر سہی۔
دس دن گزر گئے۔ ٹھیک گیارہویں دن، رات کے دو بجے، جی ہاں دو ہی کا عمل تھا ...... کسی نے مجھے آہستہ سے جگایا۔ میں، نیچے سیڑھیوں کے پاس جو جگہ ہے نا، وہاں سوتا ہوں۔ آنکھیں کھول کر میں نے دیکھا: ارے رکما بائی! میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں آہستہ سے پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘ اس نے ہولے سے کہا: ’’آئو میرے ساتھ‘‘ ...... میں ننگے پائوں اُس کے ساتھ ہو لیا۔ اس نے کھولی کا دروازہ کھولا، ہم دونوں اندر داخل ہوئے، بالکل اندھیرا تھا، میں نے اور کچھ نہ سوچا اور وہیں کھڑے کھڑے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ اس نے میرے کان میں کہا: ’’ابھی ٹھہرو۔‘‘ پھر بتی روشن کی، میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ سامنے چٹائی پر کوئی سو رہا ہے۔ منہ پر کپڑا ہے۔ میں نے اشارے سے پوچھا: ’’یہ کیا؟‘‘ رکما نے کہا: ’’بیٹھ جائو۔‘‘ میں اُلّو کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ میرے پاس آئی اور بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر اس نے ایسی بات کہی جس کو سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے ...... بالکل برف ہو گیا صاحب ...... کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ...... جانتے ہیں رکما نے مجھ سے کیا کہا؟۔۔۔۔
پڑھیے کلمہ لاالہ الااﷲ محمدرسول اﷲ ...... میں نے اپنی زندگی میں ایسی عورت نہیں دیکھی ...... کمبخت نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا ...... ’’میں نے گردھاری کو مار ڈالا ہے‘‘ ...... آپ یقین کیجیے اُس نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہٹّے کٹّے آدمی کو قتل کیا تھا ...... کیا عورت تھی صاحب ...... مجھے جب بھی وہ رات یاد آتی ہے، قسم خداوند پاک کی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ...... اس نے مجھے وہ چیز دکھائی جس سے اس ظالم نے گردھاری کا گلا گھونٹا تھا۔ بجلی کے تاروں کی ُگندھی ہوئی ایک مضبوط رسّی سی تھی، لکڑی پھنسا کر اس نے زور سے کچھ ایسے پیچ دیے تھے کہ بے چارے کی زبان اور آنکھیں باہر نکل آئی تھیں ...... کہتی تھی: بس یوں ُچٹکیوں میں کام تمام ہو گیا تھا۔
کپڑا اٹھا کر جب اس نے گردھاری کی شکل دکھائی تو میری ہڈّیاں تک برف ہو گئیں لیکن وہ عورت جانے کیا تھی، وہیں لاش کے سامنے اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ قرآن کی قسم میرا خیال تھا کہ ساری عمر کے لیے نامرد ہو گیا ہوں۔ مگر صاحب، جب اس کا گرم گرم پنڈا میرے بدن کے ساتھ لگا اور اس نے ایک عجیب و غریب قسم کا پیار کیا، تو اﷲ جانتا ہے، چودہ طبق روشن ہو گئے۔ زندگی بھر وہ رات مجھے یاد رہے گی ...... سامنے لاش پڑی تھی لیکن رکما اور میں، دونوں اُس سے غافل، ایک دوسرے کے اندر دھنسے ہوئے تھے۔
صبح ہوئی تو ہم دونوں نے مل کر گردھاری کی لاش کے تین ٹکڑے کیے، اوزار اُس کے موجود تھے اس لیے زیادہ تکلیف نہ ہوئی۔ ٹھک ٹھک کافی ہوئی تھی پر لوگوں نے سمجھا ہو گا: گردھاری کھلونے بنا رہا ہے ...... آپ پوچھیں گے: بندئہ خدا تم نے ایسے گھنائونے کام میں کیوں حصہ لیا، پولیس میں رپٹ کیوں نہ لکھوائی ...... صاحب، عرض یہ ہے کہ اُس کمبخت نے مجھے ایک ہی رات میں اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اگر وہ مجھ سے کہتی تو شاید میں نے پندرہ آدمیوں کا خون بھی کر ہی دیا ہوتا۔ یاد ہے نا، میں نے ایک دفعہ، اُس سے جوش میں آ کر کیا کہا تھا ...... ؟
اب مصیبت یہ تھی کہ لاش کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے۔ رکما کچھ بھی ہو، آخر عورت ذات تھی۔ میں نے اس سے کہا: ’’جانِ من تم کچھ فکر نہ کرو۔ فی الحال ان ٹکڑوں کو ٹرنک میں بند کر دیتے ہیں۔ جب رات آئے گی تو میں اُٹھا کر لے جائوں گا۔‘‘ اب خدا کا کرنا ایسا ہوا صاحب کہ اُس روز ُہلڑ ہوا، پانچ چھ علاقوں میں خوب مارا ماری ہوئی، گورنمنٹ نے چھتیس گھنٹے کا کرفیو لگا دیا۔ میں نے کہا: عبدالکریم کچھ بھی ہو، لاش آج ہی ٹھکانے لگا دو ...... چنانچہ دو بجے اُٹھا ...... اوپر سے ٹرنک لیا۔ خدا کی پناہ، کتنا وزن تھا۔ مجھے ڈر تھا، رستے میں کوئی پیلی پگڑی والا ضرور ملے گا اور کرفیو آرڈر کی خلاف ورزی میں دھر لے گا۔ مگر صاحب، جسے اﷲ رکھے اُسے کون چکھے۔ جس بازار سے گزرا، اُس میں سنّاٹا تھا۔ ایک جگہ ...... بازار کے پاس، مجھے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں ٹرنک کھولا اور لاش کے ٹکڑے نکال کر اندر ڈیوڑھی میں ڈال دیے اور واپس چلا آیا۔
قربان اُس کی قدرت کے، صبح پتہ چلا کہ ہندوئوں نے اُس مسجد کو آگ لگا دی۔ میرا خیال ہے گردھاری اُس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گیا ہو گا کیونکہ اخباروں میں کسی لاش کا ذکر نہیں تھا۔ اب صاحب، بقول شخصے، میدان خالی تھا۔ میں نے رکما سے کہا: چالی میں مشہور کر دو کہ گردھاری باہر کام سے گیا ہے، میں رات کو دو ڈھائی بجے آجایا کروں گا اور عیش کیا کریں گے ...... مگر اُس نے کہا: ’’نہیں عبدل، اتنی جلدی نہیں۔ ابھی ہم کو کم از کم پندرہ بیس روز تک نہیں ملنا چاہیے۔‘‘ بات معقول تھی اس لیے میں خاموش رہا۔
سترہ روز گزر گئے ...... کئی بار ڈرائونے خوابوں میں گردھاری آیا لیکن میں نے کہا: سالے، مرکھپ چکا ہے، اب میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اٹھارہویں روز صاحب، میں اُسی طرح سیڑھیوں کے پاس چارپائی پر سو رہا تھا کہ رکما رات کے بارہ ... بارہ نہیں تو ایک ہو گا، آئی اور مجھے اوپر لے گئی۔
چٹائی پر ننگی لیٹ کر اس نے مجھ سے کہا: ’’عبدل میرا بدن دُکھ رہا ہے، ذرا چمپی کر دو۔‘‘ میں نے فوراً تیل لیا اور مالش کرنے لگا لیکن آدھے گھنٹے میں ہی کانپنے لگا۔ میرے پسینے کی کئی بوندیں اُس کے چکنے بدن پر گریں۔ لیکن اس نے یہ نہ کہا: بس کرو عبدل، تم تھک گئے ہو۔ آخر مجھے ہی کہنا پڑا: ’’رکما بھئی اب خلاص۔۔۔۔‘‘ وہ مسکرائی ...... میرے خدا، کیا مسکراہٹ تھی! تھوڑی دیر دم لینے کے بعد میں چٹائی پر بیٹھ گیا [لیٹ گیا؟] اس نے اٹھ کر بتی بجھائی اور میرے ساتھ لیٹ گئی۔ چمپی کر کر کے میں اس قدر تھک گیا تھا کہ کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ رکما کے سینے پر ہاتھ رکھا اور سو گیا۔
جانے کیا بجا تھا۔ میں ایک دم ہڑبڑا کے اٹھا۔ گردن میں کوئی سخت سخت سی چیز دھنس رہی تھی۔ فوراً مجھے اُس تار والی رسّی کا خیال آیا لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر سکوں، رکما میری چھاتی پر چڑھ بیٹھی۔ ایک دو ایسے مروڑے دیے کہ میری گردن کڑ کڑ بول اٹھی۔ میں نے شور مچانا چاہا لیکن آواز میرے پیٹ میں ہی رہی۔ اس کے بعد میں بیہوش ہو گیا۔
میرا خیال ہے، چار بجے ہوں گے، آہستہ آہستہ مجھے ہوش آنا شروع ہوا۔ گردن میں بہت زور کا درد تھا۔ میں ویسے ہی دم سادھے پڑا رہا اور ہولے ہولے ہاتھ سے رسّی کے مروڑے کھولنے شروع کیے ...... ایک دم آوازیں آنے لگیں، میں نے سانس روک لیا۔ کمرے میں ُگھپ اندھیرا تھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی، پر کچھ نظر نہ آیا۔ جو آوازیں آ رہی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا دو آدمی کشتی لڑ رہے ہیں۔ رُکما ہانپ رہی تھی ...... ہانپتے ہانپتے اس نے کہا: ’’ ُتکارام، بتّی جلا دو۔‘‘ ُتکارام نے ڈرتے ہوئے [ڈرے ہوئے؟] لہجے میں کہا: ’’نہیں نہیں رُکما نہیں ...‘‘ رکما بولی: ’’بڑے ڈرپوک ہو ...... صبح اِس کے تین ٹکڑے کر کے لے جائو گے کیسے؟......‘‘ میرا بدن بالکل ٹھنڈا ہو گیا۔ ُتکارام نے کیا جواب دیا، رکما نے پھر کیا کہا، اس کا مجھے کچھ ہوش نہیں۔ پتہ نہیں کب، ایک دم روشنی ہوئی اور میں آنکھیں جھپکتا اُٹھ بیٹھا۔ ُتکارام کے منہ سے زور کی چیخ نکلی اور وہ دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔ رکما نے جلدی سے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی ...... صاحب، میں آپ سے کیا بیان کروں، میری حالت کیا تھی، آنکھیں کھلی تھیں، دیکھ رہا تھا، ُسن رہا تھا لیکن ہلنے جلنے کی بالکل سکت نہیں تھی۔
یہ ُتکارام میرے لیے کوئی نیا آدمی نہیں تھا۔ ہماری چالی میں اکثر آم بیچنے آیا کرتا تھا۔ رکما نے اُس کو کیسے پھنسایا، اس کا مجھے علم نہیں۔
رُکما میری طرف گھور گھور کے دیکھ رہی تھی، جیسے اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں۔ وہ مجھے مار چکی تھی لیکن میں اس کے سامنے زندہ بیٹھا تھا۔ وہ مجھ پر جھپٹنے کو تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور بہت سے آدمیوں کی آوازیں آئیں۔ رکما نے جھٹ میرا بازو پکڑا اور گھسیٹ کر مجھے غسل خانے کے اندر ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے دروازہ کھولا۔ پڑوس کے آدمی تھے، انہوں نے رکما سے پوچھا: ’’خیریت ہے، ابھی ابھی ہم نے چیخ کی آواز سنی تھی۔‘‘ رُکما نے جواب دیا: ’’میری تھی۔ مجھے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ دروازہ کھول کر باہر نکلی تو دیوار کے ساتھ ٹکرا گئی اور ڈر کر منہ سے چیخ نکل گئی۔‘‘ پڑوس کے آدمی یہ سن کر چلے گئے۔ رکما نے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی ...... اب مجھے اپنی جان کی فکر ہوئی۔ آپ یقین مانیے، یہ سوچ کر کہ وہ ظالم مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی، ایک دم میرے اندر مقابلے کی بے پناہ طاقت آ گئی۔ بلکہ میں نے ارادہ کر لیا کہ رکما کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ غسل خانے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بڑی کھڑکی کے پٹ کھولے، باہر جھانک رہی ہے۔ میں ایک دم لپکا۔ چوتڑوں پر سے اوپر اُٹھایا اور باہر دھکیل دیا۔ یہ سب، یوں چٹکیوں میں ہوا۔ دھپ سی آواز آئی اور میں دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔ ساری رات میں چارپائی پر لیٹا، اپنی گردن پر جو بُری طرح زخمی ہو رہی تھی ...... آپ نشان دیکھ سکتے ہیں ...... تیل مل مل کر سوچتا رہا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا ...... اُس نے پڑوسیوں سے کہا تھا کہ اُسے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ مکان کے اُس طرف جہاں میں نے اُسے گرایا تھا، جب اس کی لاش دیکھی جائے گی تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ سوتے میں چلی ہے اور کھڑکی سے باہر گر پڑی ہے ...... خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔ گردن پر میں نے رومال باندھ لیا تھا تاکہ زخم دکھائی نہ دیں۔ نو بج گئے، بارہ ہو گئے مگر رکما کی لاش کی کوئی بات ہی نہ ہوئی۔ جدھر میں نے اس کو گرایا تھا ایک تنگ گلی ہے، دو بلڈنگوں کے درمیان۔ دونوں طرف دروازے ہیں تاکہ لوگ اندر داخل ہو کر پیشاب پاخانہ نہ کریں۔ پھر بھی دونوں بلڈنگوں کی کھڑکیوں میں سے پھینکا ہوا کچرا کافی جمع ہو جاتا ہے جو ہر روز صبح سویرے بھنگن اٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں نے سوچا شاید بھنگن نہیں آئی، آئی ہوتی تو اُس نے دروازہ کھولتے ہی رکما کی لاش دیکھی ہوتی اور شور برپا کر دیا ہوتا۔ قصہ کیا تھا؟ میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو جلدی اس بات کا پتہ چل جائے۔ دو بج گئے تو میں نے جی کڑا کر کے خود ہی دروازہ کھولا۔ لاش تھی نہ کچرا۔ یا مظہرالعجائب! رکما گئی کہاں؟ ...... قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں، مجھے اُس پھانسی کے پھندے سے بچ نکلنے کا اتنا تعجب نہیں ہو گا جتنا کہ رکما کے غائب ہونے کا ہے۔ تیسری منزل سے میں نے اُسے نیچے گرایا تھا۔ پتھروں کے فرش پر۔ بچی کیسے ہو گی ...... لیکن پھر سوال ہے کہ اس کی لاش کون اٹھا کر لے گیا۔ عقل نہیں مانتی۔ لیکن صاحب، کچھ پتہ نہیں وہ ڈائن زندہ ہی ہو ...... چالی میں تو یہی مشہور ہے کہ یا تو کسی مسلمان نے گھر ڈال لیا ہے یا مار ڈالا ہے ...... واﷲاعلم بالصواب ...... مار ڈالا ہے تو اچھا کیا ...... گھر ڈال لیا ہے تو جو حشر اُس غریب کا ہو گا، آپ جانتے ہی ہیں ...... خدا بچائے صاحب۔
اب ُتکارام کی بات ُسنیے: اِس واقعے کے ٹھیک بیس روز بعد وہ مجھ سے ملا اور پوچھنے لگا: ’’بتائو رکما کہاں ہے؟‘‘ ...... میں نے کہا: ’’مجھے کچھ علم نہیں۔‘‘ کہنے لگا: ’’نہیں، تم جانتے ہو‘‘ ...... میں نے جواب دیا: ’’بھائی قرآن مجید کی قسم، مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘ ...... بولا: ’’نہیں، تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم نے اسے مار ڈالا ہے۔ میں پولیس میں رپٹ لکھوانے والا ہوں کہ پہلے تم نے گردھاری کو مارا، پھر رکما کو‘‘ ...... یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، لیکن صاحب، میرے پسینے چھوٹ گئے۔ بہت دیر تک کچھ سمجھ میں نہ آیا، کیا کروں۔ ایک ہی بات سوجھی کہ اُس کو ٹھکانے لگا دوں ...... آپ ہی سوچیے، اِس کے علاوہ اور علاج بھی کیا تھا ...... چنانچہ صاحب، اُسی وقت چھپ کر چھری تیز کی اور ُتکارام کو ڈھونڈنے نکل پڑا ...... اتفاق کی بات ہے، شام کو چھ بجے وہ مجھے، اسٹریٹ کے ناکے پر موتری کے پاس مل گیا۔ موسمبیوں کی خالی ٹوکری باہر رکھ کر وہ پیشاب کرنے کے لیے اندر گیا۔ میں بھی لپک کر اُس کے پیچھے۔ دھوتی کھول ہی رہا تھا کہ میں نے زور سے پکارا: ’’ ُتکارام!‘‘ ...... پلٹ کر اُس نے میری طرف دیکھا۔ چھری میرے ہاتھ ہی میں تھی۔ ایک دم اس کے پیٹ میں ُبھونک دی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی باہر نکلتی ہوئی انتڑیاں تھامیں، اور دوہرا ہو کر گر پڑا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باہر نکل کر نو دو گیارہ ہو جاتا مگر میری بیوقوفی دیکھیے، بیٹھ کر اس کی نبض دیکھنے لگا کہ آیا مرا ہے یا نہیں۔ میں نے اتنا سنا تھا کہ نبض ہوتی ہے، انگوٹھے کی طرف، یا دوسری طرف، یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیر لگ گئی، اتنے میں کانسٹیبل، پتلون کے بٹن کھولتے کھولتے اندر آیا اور میں دھر لیا گیا۔ بس صاحب یہ ہے پوری داستان ...... پڑھیے کلمہ لاالہ الااﷲ محمدرسول اﷲ، جو میں نے رتّی بھر بھی جھوٹ بولا ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں