صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

پُھندنے (منٹو)

کوٹھی سے ملحقہ وسیع و عریض باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے ایک بلّی نے بچے دیئے تھے جو بلّا کھا گیا تھا۔ پھر ایک کتیا نے بچے دیئے تھے جو بڑے بڑے ہو گئے تھے اور دن رات کوٹھی کے اندر باہر بھونکتے اور گندگی بکھیرتے رہتے تھے۔ ان کو زہر دے دیا گیا تھا۔ ایک ایک کرکے سب مر گئے تھے۔ ان کی ماں بھی۔ ان کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی یقینی تھی۔
جانے کتنے برس گزر چکے تھے۔ کوٹھی سے ملحقہ باغ کی جھاڑیاں سیکڑوں ہزاروں مرتبہ کتری بیونتی، کاٹی چھانٹی جا چکی تھیں۔ کئی بلیوں اور کتیوں نے ان کے پیچھے بچے دیئے تھے جن کا نام و نشان بھی نہ رہا تھا۔ اس کی اکثر بدعادت مرغیاں وہاں انڈے دے دیا کرتی تھیں۔ جن کو ہر صبح اٹھا کر وہ اندر لے جاتی تھی۔
اسی باغ میں کسی آدمی نے ان کی نوجوان ملازمہ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اس کے گلے میں اس کا پھندنوں والا سرخ ریشمی ازار بند جو اس نے دو روز پہلے پھیری والے سے آٹھ آنے میں خریدا تھا پھنسا ہوا تھا۔ اس زو ر سے قاتل نے پیچ دیئے تھے کہ اس کی آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔
اس کو دیکھ کر اس کو اتنا تیز بخار چڑھا تھا کہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور شاید ابھی تک بے ہوش تھی۔ لیکن نہیں، ایسا کیونکر ہو سکتا تھا اس لیے کہ اس قتل کے دیر بعد مرغیوں نے انڈے، نہیں بلیوں نے بچے دیئے تھے اور ایک شادی ہوئی تھی۔ کتیا تھی جس کے گلے میں لال دوپٹہ تھا۔ مکیشی، جھلمل جھلمل کرتا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہیں تھیں، اندر دھنسی ہوئی تھیں۔
باغ میں بینڈ بجا تھا۔ سرخ وردیوں والے سپاہی آئے تھے جو رنگ برنگی مشکیں بغلوں میں دبا کر منھ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے تھے۔ ان کی وردیوں کے ساتھ کئی پھندنے لگے تھے۔ جنہیں اٹھا اٹھا کر لوگ اپنے ازاربندوں میں لگاتے جاتے تھے۔ پر جب صبح ہوئی تھی تو ان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ سب کو زہر دے دیا گیا تھا۔
دلہن کو جانے کیا سوجھی، کم بخت نے جھاڑیوں کے پیچھے نہیں، اپنے بستر پر صرف ایک بچہ دیا۔ جو بڑا گل گوتھنا، لال پُھندنا تھا۔ اس کی ماں مر گئی، باپ بھی۔ دونوں کو بچے نے مارا۔ اس کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی ان دونوں کے ساتھ ہوتی۔
سرخ وردیوں والے سپاہی بڑے بڑے پھندنے لٹکائے جانے کہاں غائب ہوئے کہ پھر نہ آئے۔ باغ میں بلّے گھومتے تھے، جو اسے گھورتے تھے۔ اس کو چھیچھڑوں کی بھری ہوئی ٹوکری سمجھتے تھے حالانکہ ٹوکری میں نارنگیاں تھیں۔
ایک دن اس نے اپنی دو نارنگیاں نکال کے آئینے کے سامنے رکھ دیں۔ اس کے پیچھے ہو کے اس نے ان کو دیکھا مگر نظر نہ آئیں۔ اس نے سوچا اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی ہیں۔ مگر وہ اس کے سوچتے سوچتے ہی بڑی ہو گئیں اور اس نے ریشمیں کپڑے میں لپیٹ کر آتش دان پر رکھ دیں۔
اب کتے بھونکنے لگے۔ نارنگیاں فرش پر لڑھکنے لگیں۔ کوٹھی کے ہر فرش پر اُچھلیں، ہر کمرے میں کودیں اور اچھلتی کودتی بڑے بڑے باغوں میں بھاگنے دوڑنے لگیں۔ کتے ان سے کھیلتے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔
جانے کیا ہوا، ان کتوں میں دو زہر کھا کے مر گئے۔ جو باقی بچے وہ ان کی ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کھا گئی۔ یہ اس نوجوان کی جگہ آئی تھی۔ جس کوکسی آدمی نے قتل کردیا تھا۔ گلے میں اس کے پھندنوں والے ازار بند کا پھندا ڈال کر۔
اس کی ماں تھی۔ ادھیڑ عمر کی ملازمہ سے عمر میں چھ سات برس بڑی۔ اس کی طرح ہٹی کٹی نہیں تھی۔ ہر روز صبح شام موٹر میں سیر کو جاتی تھی اور بد عادت مرغیوں کی طرح دور دراز باغوں میں جھاڑیوں کے پیچھے انڈے دیتی تھی۔ ان کو وہ خود اٹھا کے لاتی تھی نہ ڈرائیور۔
آملیٹ بناتی تھی جس کے داغ کپڑوں پر پڑجاتے تھے۔ سوکھ جاتے تو ان کو باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے پھینک دیتی تھی۔ جہاں سے چیلیں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔
ایک دن اس کی سہیلی آئی۔ پاکستان میل، موٹر نمبر ۹۶۱۲ پی ایل۔ بڑی گرمی تھی۔ ڈیڈی پہاڑ پر تھے۔ ممی سیر کرنے گئی ہوئی تھیں۔ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی بلائوز اتاری اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اس کے دودھ ابلے ہوئے تھے، جو آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہو گئے۔ اس کے دودھ ٹھنڈے تھے جو آہستہ آہستہ ابلنے لگے۔ آخر دونوں دودھ ہل ہل کر کنگنے ہو گئے اور کھٹی لسی بن گئے۔
اس سہیلی کا بینڈ بج گیا۔ مگر وہ وردی والے سپاہی پھندنے نچاتے نہ آئے۔ ان کی جگہ پیتل کے برتن تھے، چھوٹے اور بڑے جن سے آوازیں نکلتی تھیں۔ گرجدار اور دھیمی۔ دھیمی اور گرجدار۔
یہ سہیلی جب پھر ملی تو اس نے بتایا کہ وہ بدل گئی ہے۔ سچ مچ بدل گئی تھی۔ اس کے اب دو پیٹ تھے۔ ایک پرانا، دوسرا نیا، ایک کے اوپر دوسرا چڑھا ہوا تھا۔ اس کے دودھ پھٹے ہوئے تھے۔ 
پھر اس کے بھائی کا بینڈ بجا۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ بہت روئی۔ اس کے بھائی نے اس کو بہت دلاسا دیا۔ بے چاری کو اپنی شادی یاد آگئی تھی۔
رات بھر اس کے بھائی اور اس کی دلہن کی لڑائی ہوتی رہی، وہ روتی رہی، وہ ہنستا رہا۔ صبح ہوئی تو ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ اس کے بھائی کو دلاسا دینے کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔ دلہن کو نہلایا گیا۔ اس کی شلوار میں اس کا لال پھندنوں والا ازاربند پڑا تھا۔ معلوم نہیں یہ دلہن کے گلے میں کیوں نہ باندھا گیا۔
اس کی آنکھیں بہت موٹی تھیں۔ اگر گلا زور سے گھونٹا جاتا تو وہ ذبح کیے ہوئے بکرے کی آنکھوں کی طرح باہر نکل آتیں۔ اور اس کو بہت تیز بخار چڑھتا، مگر پہلا تو ابھی تک اترا نہیں۔ ہو سکتا ہے اتر گیا ہو اور یہ نیا بخار ہو جس میں وہ ابھی تک بے ہوش ہے۔
اس کی ماں موٹر ڈرائیوری سیکھ رہی ہے۔ باپ ہوٹل میں رہتا ہے۔ کبھی کبھی آتا ہے اور اپنے لڑکے سے مل کر چلا جاتا ہے۔ لڑکا کبھی کبھی اپنی بیوی کو گھر بلا لیتا ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کو دو تین روز کے بعد کوئی یاد ستاتی ہے تو رونا شروع کردیتی ہے۔ وہ اسے دلاسا دیتا ہے، وہ اسے پچکارتی ہے اور دلہن چلی جاتی ہے۔
اب وہ اور دلہن بھابی دونوں سیر کو جاتی ہیں۔ سہیلی بھی پاکستان میل۔ موٹر نمبر ۹۶۱۲ پی ایل۔ سیر کرتے کرتے اجنتا جا نکلتی ہیں جہاں تصویریں بنانے کا کام سکھایا جاتا ہے۔ تصویریں دیکھ کر تینوں تصویر بن جاتی ہیں۔ رنگ ہی رنگ، لال، پیلے، ہرے، نیلے۔ سب کے سب چیخنے والے ہیں۔ ان کو ان رنگوں کا خالق چپ کراتا ہے۔ اس کے لمبے لمبے بال ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں میں اوورکوٹ پہنتا ہے۔ اچھی شکل و صورت کا ہے۔ اندر باہر ہمیشہ کھڑائوں استعمال کرتا ہے۔ اپنے رنگوں کو چپ کرانے کے بعد خود چیخنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو یہ تینوں چپ کراتی ہیں اور بعد میں خود چلانے لگتی ہیں۔ 
تینوں اجنتا میں مجرد آرٹ کے سیکڑوں نمونے بناتی رہیں۔ ایک کی ہر تصویر میں عورت کے دو پیٹ ہوتے ہیں، مختلف رنگوں کے۔ دوسری کی تصویروں میں عورت ادھیڑ عمر کی ہوتی ہے، ہٹی کٹی۔ تیسری کی تصویروں میں پھندنے ہی پھندنے۔ ازار بندوں کا گچھا۔
مجرد تصویریں بنتی رہیں۔ مگر تینوں کے دودھ سوکھتے رہے۔ بڑی گرمی تھی، اتنی کہ تینوں پسینے میں شرابور تھیں۔ خس لگے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے بلائوز اتارے اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئیں۔ پنکھا چلتا رہا۔ دودھوں میں ٹھنڈک پیدا ہوئی نہ گرمی۔
اس کی ممی دوسرے کمرے میں تھی۔ ڈرائیور اس کے بدن سے موبل آئل پونچھ رہا تھا۔
ڈیڈی ہوٹل میں تھا۔ جہاں اس کی لیڈی اسٹینوگرافر اس کے ماتھے پر یوڈی کلون مل رہی تھی۔
ایک دن اس کا بھی بینڈ بج گیا۔ اجاڑ باغ پھر بارونق ہو گیا۔ گملوں اور دروازوں کی آرائش اجنتا اسٹوڈیو کے مالک نے کی تھی۔ بڑی بڑی گہری لپ اسٹکیں، اس کے بکھیرے ہوئے رنگ دیکھ کر اڑ گئیں ایک جو زیادہ سیاہی مائل تھی، اتنی اڑی کہ وہیں گر کر اس کی شاگرد ہو گئی۔
اس کے عروسی لباس کا ڈیزائن بھی اس نے تیار کیا تھا۔ اس نے اس کی ہزاروں سمتیں پیدا کردی تھیں۔ عین سامنے دیکھو تو وہ مختلف رنگ کے ازاربندوں کا بنڈل معلوم ہوتی تھی۔ ذرا ادھر ہٹ جائو تو پھلوں کی ٹوکری تھی۔ ایک طرف ہوجائو تو کھڑکی پر پڑا ہوا پھلکاری کا پردہ۔عقب میں چلے جائو تو کچلے ہوئے تربوزوں کا ڈھیر۔ ذرا زاویہ بدل کر دیکھو تو ٹماٹر ساس سے بھرا ہوا مرتبان۔ اوپر سے دیکھو تو یگانہ آرٹ، نیچے سے دیکھو تو میرا جی کی مبہم شاعری۔
فن شناس نگاہیں عش عش کر اٹھیں۔ دلہا اس قدر متاثر ہوا تھا کہ شادی کے دوسرے روز ہی اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ بھی مجرد آرٹسٹ بن جائے گا۔ چنانچہ اپنی بیوی کے ساتھ وہ اجنتا گیا۔ جہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہورہی ہے اور وہ چند روز سے اپنی ہونے والی دلہن ہی کے ہاں رہتا ہے۔
اس کی ہونے والی دلہن وہی گہرے رنگ کی لپ اسٹک تھی جو دوسری لپ اسٹکوں کے مقابلے میں زیادہ سیاہی مائل تھی۔ شروع شروع میں چند مہینے تک اس کے شوہر کو اس سے اور مجرد آرٹ سے دلچسپی رہی۔ لیکن جب اجنتا اسٹوڈیو بند ہو گیا اور اس مالک کی کہیں سے بھی سن گن نہ ملی تو اس نے نمک کا کاروبار شروع کردیا۔ جو بہت نفع بخش تھا۔
اس کاروبار کے دوران میں اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔ جس کے دودھ سوکھے ہوئے نہیں تھے۔ یہ اس کو پسند آگئے۔ بینڈ نہ بجا، لیکن شادی ہو گئی۔ پہلی اپنے برش اٹھا کر لے گئی اور الگ رہنے لگی۔
یہ ناچاقی پہلے تو دونوں کے لیے تلخی کا موجب ہوئی۔ لیکن بعد میں ایک عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی سہیلی نے جو دوسرا شوہر تبدیل کرنے کے بعد سارے یورپ کا چکر لگا آئی تھی اور اب دق کی مریض تھی اس مٹھاس کو کیوبک آرٹ میں پینٹ کیا۔ صاف شفاف چینی کے بے شمار کیوب تھا جو تھوہر کے پودوں کے درمیان اس انداز سے اُوپر تلے رکھے تھے کہ ان سے دو شکلیں بن گئی تھیں۔ ان پر شہد کی مکھیاں بیٹھی رس چوس رہی تھیں۔ 
اس کی دوسری سہیلی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی۔ جب اس کو یہ المناک خبر ملی تو وہ بے ہوش ہو گئی، معلوم نہیں بے ہوشی نئی تھی یا وہی پرانی جو بڑے تیز بخار کے بعد ظہور میں آئی تھی۔
اس کا باپ یوڈی کلون میں تھا۔ جہاں اس کا ہوٹل اس کی لیڈی اسٹینو گرافر کا سر سہلاتا تھا۔ 
اس کی ممی نے گھر کا سارا حساب کتاب ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کے حوالے کردیا تھا۔ اب اس کو ڈرائیونگ آگئی تھی مگر بہت بیمار ہو گئی تھی مگر پھر بھی اس کو ڈرائیور کے بن ماں کے پلّے کا بہت خیال تھا۔ وہ اس کو اپنا موبل آئل پلاتی تھی۔
اس کی بھابی اور اس کے بھائی کی زندگی بہت ادھیڑ اور ہٹی کٹی ہو گئی تھی۔ دونوں آپس میں بڑے پیار سے ملتے تھے کہ اچانک ایک رات جبکہ ملازمہ اور اس کا بھائی گھر کا حساب کررہے تھے، اس کی بھابی نمودار ہوئی وہ مجرد تھی۔ اس کے ہاتھ میں قلم تھا نہ برش۔ لیکن اس نے دونوں کا حساب صاف کردیا۔
صبح کمرے میں سے جمے ہوئے لہو کے دو بڑے بڑے پھندنے نکلے جو اس کی بھابی کے گلے میں لگا دیئے گئے۔
اب وہ قدرے ہوش میں آئی۔ خاوند سے ناچاقی کے باعث اس کی زندگی تلخ ہو کر بعد میں عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس نے اس کو تھوڑا سا تلخ بنانے کی کوشش کی اور شراب پینا شروع کی مگر ناکام رہی، اس لیے کہ مقدار کم تھی۔ اس نے مقدار بڑھا دی۔ حتیٰ کہ وہ اس میں ڈبکیاں لینے لگی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اب غرق ہوئی اور اب غرق ہوئی مگر وہ سطح پر ابھر آتی تھی۔ منھ سے شراب پونچھتی ہوئی اور قہقہے لگاتی ہوئی۔
صبح کو جب اُٹھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ رات بھر اس کے جسم کا ذرہ ذرہ دھاڑیں مار مار کر روتا رہا ہے۔ اس کے وہ سب بچے جو پیدا ہو سکتے تھے، ان قبروں میں جو اُن کے لیے بن سکتی تھیں، اس دودھ کے لیے جو ان کا ہو سکتا تھا، بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ مگر اس کے دودھ کہاں تھے۔ وہ تو جنگلی بلّے پی چکے تھے۔
وہ اور زیادہ پیتی کہ اتھاہ سمندر میں ڈوب جائے مگر اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ ذہین تھی۔ پڑھی لکھی تھی۔ جنسی موضوعات پر بغیر کسی تصنع کے بے تکلف گفتگو کرتی تھی۔ مردوں کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی رات کی تنہائی میں اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنی کسی بد عادت مرغی کی طرح جھاڑیوں کے پیچھے جائے اور ایک انڈا دے آئے۔
بالکل کھوکھلی ہو گئی۔ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تو اس سے لوگ دور رہنے لگے۔ وہ سمجھ گئی، چنانچہ وہ ان کے پیچھے نہ بھاگی اور اکیلی گھر میں رہنے لگی۔ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتی، شراب پیتی اور جانے کیا سوچتی رہتی۔ رات کو بہت کم سوتی تھی۔ کوٹھی کے ارد گرد گھومتی رہتی تھی۔
سامنے کوارٹر میں ڈرائیور کا بن ماں کا بچہ موبل آئل کے لیے روتا رہتا تھا مگر اس کی ماں کے پاس ختم ہو گیا تھا۔ ڈرائیور نے ایکسی ڈنٹ کردیا تھا۔ موٹر گیراج میں اور اس کی ماں ہسپتال میں پڑی تھی۔ جہاں اس کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی تھی۔ دوسری کاٹی جانے والی تھی۔
وہ کبھی کبھی کوارٹر کے اندر جھانک کر دیکھتی تو اس کو محسوس ہوتا کہ اس کے دودھوں کی تلچھٹ میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی ہے مگر اس بدذائقہ شے سے تو اس کے بچے کے ہونٹ بھی تر نہ ہوتے۔
اس کے بھائی نے کچھ عرصے سے باہر رہنا شروع کردیا تھا۔ آخر ایک دن اس کا خط سوئٹزرلینڈ سے آیا کہ وہ وہاں اپنا علاج کرا رہا ہے نرس بہت اچھی ہے ہسپتال سے نکلتے ہی وہ اس سے شادی کرنے والا ہے۔
ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ نے تھوڑا زیور، کچھ نقدی اور بہت سے کپڑے جو اس کی ممی کے تھے چرائے اور چند روز کے بعد غائب ہو گئی۔ اس کے بعد اس کی ماں آپریشن ناکام ہونے کے باعث ہسپتال میں مر گئی۔
اس کا باپ جنازے میں شامل ہوا۔ اس کے بعد اس نے اس کی صورت نہ دیکھی۔
اب وہ بالکل تنہا تھی۔ جتنے نوکر تھے، اس نے علیحدہ کردیئے، ڈرائیور سمیت۔ اس کے بچے کے لیے اس نے ایک آیا رکھ دی۔ کوئی بوجھ سوائے اس کے خیالوں کے باقی نہ رہا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ آہستہ آہستہ اسے ان سے بھی چھٹکارا مل جائے۔ کبھی کبھار اگر کوئی اس سے ملنے آتا تو وہ اندر سے چلا اٹھتی تھی۔ ’’چلے جائو جو کوئی بھی تم ہو چلے جائو۔ میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔‘‘
سیف میں اس کو اپنی ماں کے بے شمار قیمتی زیورات ملے تھے۔ اس کے اپنے بھی تھے۔ جن سے اس کو کوئی رغبت نہ تھی۔ مگر اب وہ رات کو گھنٹوں آئینے کے سامنے ننگی بیٹھ کر یہ تمام زیور اپنے بدن پر سجاتی اور شراب پی کر کَن سُری آواز میں فحش گانے گاتی تھی۔ آس پاس اور کوئی کوٹھی نہیں تھی۔ اس لیے اسے مکمل آزادی تھی۔
اپنے جسم کو تو وہ کئی طریقوں سے ننگا کر چکی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اپنی روح کو بھی ننگا کردے۔ مگر اس میں وہ زبردست حجاب محسوس کرتی تھی۔ اس جواب کو دبانے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ اس کی سمجھ میں آتا تھا کہ پئے اور خوب پئے اور اس حالت میں اپنے ننگے بدن سے مدد لے۔ مگر یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا کہ وہ آخری حد تک ننگا ہو کر ستر پوش ہو گیا تھا۔
تصویریں بنا بنا کر وہ تھک چکی تھی۔ ایک عرصے اس کا پینٹنگ کا سامان صندوقچے میں بند پڑا تھا۔ لیکن ایک دن اس نے سب رنگ نکالے اور بڑے بڑے پیالوں میں گھولے۔ تمام برش دھو دھا کر ایک طرف رکھے اور آئینے کے سامنے ننگی کھڑی ہو گئی اور اپنے جسم پر نئے خدو خال بنانے شروع کیے۔ اس کی یہ کوشش اپنے وجود کو مکمل طور پر عریاں کرنے کی تھی۔
وہ اپنا سامنا حصہ ہی پینٹ کر سکتی تھی۔ دن بھر وہ اس میں مصروف رہی۔ بن کھائے پئے، آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بدن پر مختلف رنگ جماتی اور ٹیڑھے بنگے خطوط بناتی رہی۔ اس کے برش میں اعتماد تھا۔ آدھی رات کے قریب اس نے دور ہٹ کر اپنا بغور جائزہ لے کر اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد اس نے تمام زیورات ایک ایک کرکے اپنے رنگوں سے لتھڑے ہوئے جسم پر سجائے اور آئینے میں ایک بار پھر غور سے دیکھا، کہ ایک دم آہٹ ہوئی۔
اس نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک آدمی چُھرا ہاتھ میں لیے، منھ پر ڈھاٹا باندھے کھڑا تھا جیسے حملہ کرنا چاہتا ہے مگر جب وہ مڑی تو حملہ آور کے حلق سے چیخ بلند ہوئی۔ چُھرا اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ افراتفری کے عالم میں کبھی ادھر کا رُخ کیا کبھی ادھر کا۔ آخر جو رستہ ملا اس میں سے بھاگ نکلا۔
وہ اس کے پیچھے بھاگی چیختی، پکارتی۔ ’’ٹھہرو۔ ٹھہرو میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی۔ ٹھہرو۔‘‘
مگر چور نے اس کی ایک نہ سنی اور دیوار پھاند کر غائب ہو گیا۔ مایوس ہو کر واپس آئی۔ دروازے کی دہلیز کے پاس چور کا خنجر پڑا تھا۔ اس نے اسے اٹھالیا اور اندر چلی گئی۔ اچانک اس کی نظریں آئینے سے دوچار ہوئیں۔ جہاں اس کا دل تھا۔ وہاں اس نے میان نما چمڑے کے رنگ کا خول سا بنایا ہوا تھا۔ اس نے اس پر خنجر رکھ کر دیکھا۔ خول بہت چھوٹا تھا۔ اس نے خنجر پھینک دیا اور بوتل میں سے شراب کے چار پانچ بڑے گھونٹ پی کر ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔ وہ کئی بوتلیں خالی کر چکی تھی۔ کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔
دیر تک ٹہلنے کے بعد وہ پھر آئینے کے سامنے آئی۔ اس کے گلے میں ازاربند نما گلوبند تھا، جس کے بڑے بڑے پھندنے تھے۔ یہ اس نے برش سے بنایا تھا۔
دفعتہ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ گلوبند تنگ ہونے لگا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے گلے کے اندر دھنستا جارہا ہے۔ وہ خاموش کھڑی آئینے میں آنکھیں گاڑے رہی جو اسی رفتار سے باہر نکل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے کی تمام رگیں پھولنے لگیں۔ پھر ایک دم سے اس نے چیخ ماری اور اوندھے منھ فرش پر گر پڑی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں