صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

کھول دو (منٹو)

امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گئے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ اِدھر اُدھر بھٹک گئے۔ صبح دس بجے، کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہو گئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا۔ لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اس کے ہوش و حواس شل تھے۔ اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اس کے وجود کے رنگ و ریشے میں اُتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں۔ لوٹ، آگ۔ بھاگم بھاگ۔ اسٹیشن۔ گولیاں ...... رات اور سکینہ۔۔۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔
پورے تین گھنٹے وہ سکینہ سکینہ پکارتا کیمپ کی خاک چھانتا رہا۔ مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا کوئی پتا نہ ملا۔ چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی تھی۔ کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا کوئی ماں، کوئی بیوی اور کوئی بیٹی۔ سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گیا اور حافظے پر زور دے کر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی۔ لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جم جاتا۔ جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکتا۔
سکینہ کی ماں مر چکی تھی۔ اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا۔ لیکن سکینہ کہاں تھی جس کے متعلق اس کی ماں نے روتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے چھوڑو۔ اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جائو۔‘‘
سکینہ اس کے ساتھ ہی تھی۔ دونوں ننگے پائوں بھاگ رہے تھے۔ سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے اس نے رکنا چاہا تھا مگر سکینہ نے چلا کر کہا تھا ’’ابا جی۔ چھوڑیئے۔‘‘ لیکن اس نے دوپٹہ اٹھالیا تھا۔۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی ابھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔ سکینہ کا وہی دوپٹہ تھا۔۔۔۔ لیکن سکینہ کہاں تھی؟
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا؟ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی؟ رات میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش ہو گیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کر لے گئے؟
سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ سراج الدین نے رونا چاہا مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔
چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج الدین ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ نوجوان تھے۔ جن کے پاس لاری تھی۔ بندوقیں تھیں۔ سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔ ’’گورا رنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی ...... عمر سترہ برس کے قریب ہے ...... آنکھیں بڑی بڑی۔۔۔ بال سیاہ، داہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لائو۔ تمہارا خدا بھلا کرے گا۔‘‘
رضا کار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہو گی۔
آٹھوں نوجوانو ںنے کوشش کی۔ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر وہ امر تسر گئے۔ کئی عورتوں کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا۔ دس روز گزر گئے مگر انہیں سکینہ کہیں نہ ملی۔
ایک روز اسی خدمت کے لیے لاری پر امر تسر جارہے تھے کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہیں ایک لڑکی دکھائی دی۔ لاری کی آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کردیا رضا کاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک کھیت میں انہوں نے لڑکی کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو بہت خوبصورت تھی۔ داہنے گال پر موٹا تل تھا۔ ایک لڑکے نے اس سے کہا۔ ’’گھبرائو نہیں۔ کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟‘‘
لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہو گیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسا دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اور اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانو ں نے ہر طرح سکینہ کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا۔ دودھ پلایا اور لاری میں بٹھا دیا۔ ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا۔ کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کررہی تھی اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔
کئی دن گزر گئے۔ سراج الدین کی سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی۔ وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر لگاتا رہتا۔ لیکن کہیں سے بھی اس کی بیٹی کا پتہ نہ چلا۔ رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا جنہوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند دنوں ہی میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔
ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا۔ ’’بیٹا میری سکینہ کا پتہ چلا؟‘‘
سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ’’چل جائے گا، چل جائے گا۔‘‘ اور لاری چلا دی۔ سراج الدین نے ایک بار پھر ان نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔
شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا۔ اس کے پاس ہی کچھ گڑ بڑ سی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لارہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں، سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔لوگوں نے لڑکی کو اسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے کچھ دیر وہ ایسے ہی اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ کمرے میں دفعتہ روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا۔ ’’سکینہ!‘‘
ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ 
سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا۔ ’’جی میں۔۔۔جی میں۔۔۔ اس کا باپ ہوں!‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا۔ ’’کھڑکی کھول دو۔‘‘
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔ ’’زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں