فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جو سفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوراں ہوتے ہیں مگر یہ ریستوراں اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی رنڈیاں بستی ہیں
ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ بھی سمجھئے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر ’’پلے ہاؤس‘‘ آتا ہے۔ اُدھر دن بھر ہاؤ ہو رہتی ہے۔ سنیما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سنیما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے تھے۔ ’’آؤ آؤ — دو آنے میں — فسٹ کلاس کھیل — دو آنے میں!‘‘
بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرنے والے بیٹھے ہوتے تھے۔ جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو ہر وقت انہیں تیل مالش کی ضرودرت ہوتی ہے۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بجے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلا سکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقینا سنتے رہیں گے، ’’پی — پی — پی —‘‘
یہ ’’پی‘‘ چمپی کا مخفف ہے۔
فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے، لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے۔ جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلہ لگی دوکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ وسن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر آٹھ آنے سے آٹھ روپیہ تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک — ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔
یہودی، پنجابی، مرہٹی، کشمیری، گجراتی، بنگالی، اینگلوانڈین، فرانسیسی، چینی، جاپانی، غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہوسکتی ہے — یہ عورتیں کیسی ہوتی ہیں — معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھئے — بس عورتیں ہوتی ہیں — اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔
اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔ بعض تو ریستوراں چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے — معلوم نہیں کیا —
اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کر رہا ہوں اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رامپوریوں پر مشتمل تھی۔
اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا۔ ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔
آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو آپ مشکل سے یقین کریں گے کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مر رہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اور اس کا نام تھا ممد بھائی۔
ممد بھائی رامپور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھگیت، گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا۔ لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔
میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مصلح ہو کر اس پر ٹوٹ پڑیں تو وہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کر دیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔
اس کے ہاتھ کی یہ صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا۔ لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوچکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی — صرف گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھیں، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں۔ کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ کود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خوردسال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کر لیا کرتا تھا۔
مجھے معلوم نہیں کہ اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پیتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانا تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جتا ہوتا تھا۔ اس کو وہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا کر یا کسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے پر واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ کر گتکے اور بنوٹ کی کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔
میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارداڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہوگیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کر دیئے اور ان سے کہا، ’’دیکھو اگر عاشق حسین کو کچھ ہوگیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔‘‘ عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا، ’’منٹو صاحب! ممد بھائی فرشتہ ہے فرشتہ — جب اس نے ڈاکٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔
ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر ہمیشہ اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر وہ باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔
ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا۔ بہرحال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔
اس قسم کا آدمی جو ہرکولس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔
میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اور رات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہو کر واپس آکر فوراً سو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہوسکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گذار کر ممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں۔ مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا۔ اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔
ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوئنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ ایک آدمی رہتا تھا۔ اس کو پونا میں نوکری مل گئی تھی، اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جا رہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا وہ میرے لیے ناکافی تھا اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔
میں بہت سخت جان ہوں۔ دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہوا کرتی۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ کس قسم کا بخار تھا۔ انفلوئنزا تھا، ملیریا تھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے۔ تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔
دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا۔ مگر کوئی نہ آیا۔ آنا بھی کسے تھا — میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے — دو تین یا چار اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا بھی علم نہیں ہوسکتا تھا — اور پھر وہاں بمبئی میں کون کسی کو پوچھتا ہے — کوئی مرے یا جئے — ان کی بلا سے۔
میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ کود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی، میں نے خیال کیا کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں ’’باہر والا‘‘ کہتے ہیں، ہوگا۔ بڑی مریل آواز میں کہا، ’’آجاؤ۔‘‘
دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔
اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی نے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔
وہ اندر آیا اور اپنی قیصرولیم جیس مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔ اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے۔ عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔
قیصرولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے آدمی نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا، ’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کر دی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس مونچھوں والے آدمی سے صرف اتنا کہا، ’’آپ کون ہیں؟‘‘
اس نے مختصر سا جواب دیا، ’’ممد بھائی۔‘‘
میں اٹھ کر بیٹھ گیا، ’’ممد بھائی — تو — تو آپ ممد بھائی ہیں — مشہور دادا —‘‘
میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا، ’’ہاں ومٹو بھائی — میں ممد ہوں — یہاں کا مشہور دادا — مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو — سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے۔ جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔‘‘
میںجواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا، ’’ارے کیا نام ہے تیرا — جا بھاگ کے جا! اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا — سمجھ گئے نا! اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے، ایک دم جلدی آ — ایک دم — سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ اور دیکھ، سالے سے کہنا سب دوائیں لیتا آئے۔‘‘
ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا، میں اس کو دیکھ رہا تھا — وہ تمام داستانیں میرے بخار آلودہ دماغ میں چل پھر رہی تھیں جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا — لیکن گڈمڈ صورت میں کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم و نازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا کہ اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔
کھولی میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ میں نے ممد بھائی سے کہا کہ وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے مگر اس نے انکار کر دیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا — ’’ٹھیک ہے — ہم کھڑے رہیں گے۔‘‘
پھر اس نے ٹہلتے ہوئے — حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پائجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا — میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر چمک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔ یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے سب صاف ہوگئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔
اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کس قدر ہوشمند حالت میں اس سے کہا، ’’ممد بھائی — یہ چھری تم اس طرح اپنے نیفے میں — یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو۔ اتنی تیز ہے تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘
ممد نے خنجر سے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا، ’’ومٹو بھائی — یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیز ہے۔ مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی۔‘‘
چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھا سکتا ہے۔
ڈاکٹر آگیا — اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو — اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچین انداز میں سلام کیا اور پوچھا کیا معمالہ ہے۔ جو معاملہ تھا وہ ممد بھائی نے بیان کر دیا۔ مختصر لیکن کڑے الفاظ میں۔ جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومنٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔
ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔ سیٹیسوسکوپ لگا کر میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈپریشر دیکھا۔ مجھ سے بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا، ’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے، ملیریا ہے — میں انجکشن لگا دیتا ہوں —‘‘
ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اراتے ہوئے کہ، ’’میں کچھ نہیں جانتا، انجکشن دینا ہے تو دے دو، لیکن اگر اسے کچھ ہوگیا تو —‘‘
ڈاکٹر کانپ گیا، ’’نہیں ممد بھائی — سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
ممد بھائی نیخنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا، ’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔
’’ٹھہرو — ٹھہرو۔‘‘
ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھ دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا، ’’کیوں؟‘‘
’’بس میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔ یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔
ڈاکٹر پنٹو نے میرے کو نیند کا انجکشن لگایا، بڑے سلیقے سے ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا، ’’دس روپے۔‘‘ میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممدو بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔
ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کو دیکھا اور گرج کر کہا، ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’فیس دے رہا ہوں۔‘‘
ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا، ’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘
ڈاکٹر پنٹو بوکھلا گیا، ’’میں کب لے رہا ہوں، یہ دے رہے ہیں۔‘‘
’’سالا — ہم سے فیس لیتے ہو — واپس کرو یہ نوٹ، ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔
ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کر دیا اور بیگ بند کر کے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔
ممد بھائی نے اپنی ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرا دیا، ’’ومٹو بھائی! — یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔ تمہاری قسم اپنی مونچھیں منڈوا دیتا۔ اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔‘‘
تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا، ’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘
ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں، ’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا — ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے — اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے، وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے — کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت میں ہے، کون بری حالت میں — تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘
میں نے ازراہِ تفنن پوچھا، ’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘
’’سالا — ہم کیا نہیں جانتے — تم امرت سرکار رہنے والا ہے۔ کشمیری ہے — یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے — تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازادر میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے کے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔‘‘
میں پانی پانی ہوگیا۔
ممد بھائی نے اپنی کرفت مونچھوں پر باریک انگلی پھیری اور مسکرا کر کہا، ’’ومٹو بھائی! کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیئے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا — اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔‘‘
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا۔ کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا، جس کے باعث کانوں میں شائین شائیں ہو رہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر کوئی مجھے نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی — میں صرف اتنا کہہ سکا، ’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے — تم خوش رہو۔‘‘
ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔
ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا، ’’نہیں مسٹر ومٹو! ممد بھائی کا معاملہ ہے، میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔‘‘
میں نے سوچا، یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے، یعنی خوفناک قسم کا! جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرأت نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کر رہا ہے۔
بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا تھا کبھی شام کو۔ اپنے چھے سات شاگردوں کے ساتھ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ گے۔
پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔
جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر بھی پچیس تیس کے درمیان ہوگی۔ پتلی پتلی بانہیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا سا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب گلی کے لوگوں نے بتایا تھا۔
اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں۔ اس نے کسی کو قتل کیا تھا۔ میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے۔ مگر میں یہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔
لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن میں جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑھے رہتا ہے؟
مین جب اچھا ہوگیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں اس سے پوچھا، ’’ممد بھائی — آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘
ممد بھائی نے اپنے کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا، ’’ومٹو بھائی، بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انہیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا ہے۔ گھوڑا دبا دیا اور ٹھاہ، اس میں کیا مزا ہے؟ — یہ چیز — یہ خنجر — یہ چھری — یہ چاقو — مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم — یہ وہ ہے — تم کیا کہا کرتے ہو — ہاں — آرٹ — اس میں آرٹ آتا ہے میری جان — جس کو چاقو چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے، پستول کیا ہے — کھلونا ہے — جو نقصان پہنچا سکا ہے — پر اس میں کیا لطف آتا ہے — کچھ بھی نہیں — تم یہ خنجر دیکھو — اس کی تیز دھار کو دیکھو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے انوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھرا، ’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا — بس یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو — بندوق پستول سب بکواس ہے۔‘‘
ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا لیکن جب میں اس کا ذکر کرتا تو وہ ناراض ہوجاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔
جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم تھا۔ ایک حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کو کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھا جو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔
وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیں آتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔
اس کی مونچھوں کا ایک اک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا — مجھے کسی نے بتایا تھا کہ ممد بھائی ہر روز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔
میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا — یا اس کا خنجر جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں؟
ممد بھائی یوں و اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتا تھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا سپر مانتی تھیں۔ چوں کہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔
میری اس کی بڑی دوستی ہوگئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کھاتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے، کیا وجہ ہوسکتی تھی؟
میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اس عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے۔ اس کو کل ایک آدمی نے خراب کر دیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کر دی۔ شیرین بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس نے کہا، ’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کام کیا ہے — لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو‘‘ — ممد بھائی نے ایک موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا، ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ — اس نے کہا، ’’میں یہ چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔‘‘
ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیں پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا، ’’جا — تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘
اور اس کا کام ہوگیا — دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھے گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہوگیا۔
ممد بھائی گرفتار تو ہوگیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابکدستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی انسپکٹر سب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کر باہر آیا تو اس نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طور پر اٹھی ہوئی تھیں، اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔
چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی، لیکن اس نے خود کہا، ’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا — چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا — ایک دم مڑ گیا۔ اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہوگیا — لیکن مرگیا — ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔‘‘
آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ یہ سن کر میرا ردعمل کیا ہوگا۔ یعنی اس کا افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔
مقدمہ چلتا تھا — اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں، لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا ہی نہیں تھا۔
وہ بہت فکرمند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہوگئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہوگیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا، ’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا، پر کورٹ میں نہیں جاؤں گا — سالی معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔‘‘
عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انہوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معمالہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مکالف جذبہ پیدا کر سکتی ہیں۔
جیس کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز ’’دادا‘‘ دکھائی نہ دیتا۔
اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہوگئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری اس کی ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔
آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے۔ اس لیے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا، ’’ممد بھائی — تم کو کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔ مجسٹریٹ تم کو اندر کر دے گا۔‘‘
اور وہ سوچتا تھا — ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کو قتل کیا ہے یا اس نے — لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں، جو پہلی مرتبہ خون آشنا ہوا تھا، یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہوچکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا، ’’ممد بھائی یہ کیا؟‘‘
’’کچھ نہیں، ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہوگیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔ یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کر وہ ضرور تم کو سزا دے گا۔ اب بولو میں کیا کروں؟‘‘
میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا، ’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے — تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوں گی — سچ پوچھو تو جو کچھ ہوگا، تمہارے خلاف نہیں — مونچھوں کے خلاف ہوگا۔‘‘
’’تو میں منڈوا دوں؟‘‘ ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھری —
میں نے اس سے پوچھا، ’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’میرا خیال جو کچھ بھی ہے وہ تم نہ پوچھو — لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انہیں منڈوا دوں، تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوا دوں۔ ومٹو بھائی —‘‘
میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا، ’’ہاں اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوا دو — عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔‘‘
دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں — اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔ لیکن صرف دوسروں کے مشورے پر۔
مسٹر ایف ایچ ٹیل کی عدلات میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا، اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی۔ لیکن مجسٹریٹ نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کر دیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اپنا تمام حساب کتاب طے کر کے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔
عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوتی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں — مگر وہاں کوئی بال ہی نہ تھا۔
شام کو اسے جب بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تو اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی — مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔
اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا، ’’کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘
اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا، ’’سالا اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔‘‘
مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جاچکا ہے، ’’کوئی بات نہیں ممد بھائی یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی۔‘‘
اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں، ’’سالا — اپن کو یہ غم نہیں — یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں — یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘
پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کی مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا، ’[سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔‘‘
مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہوگیا، ’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو صاحب، — ہم سچ کہتا ہے۔ خدا کی قسم ہمین پھانسی لگا دیتے — پر — یہ بیوقوفی تو ہم نے خود کی — آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا — سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے دو ہتڑ اپنے منہ پر مارا، ’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر — سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا — اب جا اپنی ماں کے ......‘‘
اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے سکھائی دیتے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں