برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے ّپتے اِسی طرح نہا رہے تھے۔ ساگوان کے اُس اِسپرنگوں والے پلنگ پر جو اَب کھڑکی کے پاس سے ذرا ادھر کو سرکا دیا گیا تھا، ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔
کھڑکی کے باہر پیپل کے ّپتے رات کے دو دھیالے اندھیرے میں ُجھمکوں کی طرح تھر تھرا رہے تھے اور نہارہے تھے اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کی چمٹی( ہوئی؟) تھی۔ شام کے قریب، دن بھر ایک انگریزی اخبار کی تمام خبریں اشتہار پڑھنے کے بعد، جب وہ بالکنی میں ذرا تفریح کی خاطر آکھڑا ہوا تھا تو اُس نے اِس گھاٹن لڑکی کو جو غالباً ساتھ والے رسیّوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے درخت کے نیچے کھڑی تھی، کھانس کھنکار کر اپنی طرف متوجّہ کیا تھا اور آخر میں ہاتھ کے اشارے سے اِسے اوپر بلایا تھا۔
وہ کئی دنوں سے شدید قسم کی تنہائی محسوس کررہا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی قریب قریب تمام کرسچین چھوکریاں جو پہلے سستے داموں پر مل جاتی تھیں، عورتوں کی اگزالری فورس میں بھرتی ہوگئی تھیں۔ اُن میں سے بعض نے فورٹ کے علاقے میں ڈانسنگ اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی ...... رندھیر بہت اداس ہوگیا تھا۔ اس کی اداسی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کرسچین چھوکریاں نایاب ہوگئی تھیں۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ رندھیر جو فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذّب، تعلیم یافتہ، صحت مند اور خوب صورت تھا، صرف اس لیے اس پر فورٹ کے اکثر قحبہ خانوں کے دروازے بند کردیے گئے تھے کہ اُس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔
جنگ سے پہلے رندھیر، ناگ پاڑہ اور تاج ہوٹل کے گردو نواح کی کئی کرسچین لڑکیوں سے جسمانی ملاقات کرچکا تھا، اُسے اچھّی طرح معلوم تھا کہ ایسی ملاقات کے آداب سے وہ، اُن کرسچین لونڈوں کے مقابلے میں، کہیں زیادہ واقفیت رکھتا ہے جن سے یہ لڑکیاں فیشن کے طور پر رومانس لڑاتی ہیں اور بعد میں کسی چغد سے شادی کرلیتی ہیں۔
رندھیرنے، محض دل ہی دل میں ہیزل سے اُس کی تازہ تازہ پیدا شدہ رعونت کا بدلہ لینے کی خاطر، اِس گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بلایا تھا۔ ہیزل اُس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اور ہر روز صبح کو وردی پہن کر اور اپنے کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویے پر جما کر باہر نکلتی تھی اور اِس انداز سے چلتی تھی کہ گویا فٹ پاتھ پر تمام جانے والے اُس کے قدموں کے آگے ٹاٹ کی طرح بچھتے چلے جائیں گے۔
رندھیر نے سوچا تھا کہ آخر وہ کیوں ان کرسچین چھوکریوں کی طرف اتنا راغب ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے جسم کی تمام قابلِ نمائش چیزوں کی اچھّی طرح نمائش کرتی ہیں، کسی قسم کی جھجک محسوس کیے بغیر اپنے ایّام کی بے ترتیبی کا ذکر کردیتی ہیں، اپنے پرانے معاشقوں کا حال سناتی ہیں، جب ڈانس کی دُھن سنتی ہیں تو اپنی ٹانگیں تھرکانا شروع کردیتی ہیں ...... یہ سب ٹھیک ہے لیکن کوئی عورت بھی ان تمام خوبیوں کی حامل ہوسکتی ہے۔
رندھیر نے جب گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بلایا تھا تو اسے ہرگز ہرگز یقین نہیں تھا کہ وہ اس کو اپنے ساتھ سلائے گا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد جب اس نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ خیال کیا تھا کہیں ایسا نہ ہو، بے چاری کو نمونیا ہوجائے، تو رندھیر نے اُس سے کہا تھا: ’’یہ کپڑے اتار دو، سردی لگ جائے گی۔‘‘
وہ اس کا مطلب سمجھ گئی تھی ۔ کیونکہ اُس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گئے تھے مگر بعد میں جب رندھیر نے اُسے اپنی سفید دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا کاشٹا کھولا جس کا میل بھیگنے کے باعث اور زیادہ ابھر آیا تھا ...... کاشٹا کھول کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے سفید دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اُس نے اپنی پھنسی پھنسی چولی اتارنے کی کوشش شروع کی جس کے دونوں کناروں کو ملا کر اُس نے ایک گانٹھ دے رکھی تھی۔ یہ گانٹھ اُس کے تندرست سینے کے ننھّے مگر میلے گڑھے میں جذب سی ہوگئی تھی۔
دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گرہ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بارش کے پانی سے بہت زیادہ مضبوط ہوگئی تھی۔ جب تھک کر ہار گئی تو اُس نے مرہٹی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا۔ جس کا مطلب یہ تھا: میں کیا کروں، نہیں کھلتی۔
رندھیر اُس کے پاس بیٹھ گیا اور گرہ کھولنے لگا۔ تھک ہار کر اُس نے ایک ہاتھ میں چولی کا ایک ِسرا پکڑا، دوسرے ہاتھ میں دوسرا، اور زور سے کھینچا۔ گرہ ایک دم پھسلی، رندھیر کے ہاتھ زور میں اِدھر اُدھر ہٹے اور دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں نمودار ہوئیں۔ رندھیر نے ایک لخطے کے لیے خیال کیا کہ اس کے اپنے ہاتھ نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر نرم نرم گندھی ہوئی مٹی کو، چابک دست کمھار کی طرح دوپیالوں کی شکل دے دی ہے۔
اُس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدراہٹ، وہی جاذبیّت، وہی طراوت، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمھار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ تازہ ّکچے برتنوں میں ہوتی ہے۔
مٹ میلے رنگ کی اُن جوان چھاتیوں میں جو بالکل بے داغ تھیں، ایک عجیب قسم کی چمک محلول تھی۔ سیاہی مائل گندمی رنگ کے نیچے دھندلی روشنی کی ایک تہہ سی تھی جس نے یہ عجیب و غریب چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہونے کے باوجود چمک نہیں تھی۔ اُس کے سینے پر چھاتیوں کے یہ اُبھار، دِیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی کے اندر جل رہے ہوں۔
برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے کپکپا رہے تھے۔ اُس گھاٹی [؟گھاٹن] لڑکی کے دونوں کپڑے جو پانی سے شرابور ہوچکے تھے، ایک غلیظ ڈھیری کی شکل میں فرش پر پڑے تھے اور وہ رندھیر کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ اس کے ننگے اور میلے بدن کی گرمی، رندھیر کے جسم میں وہ کیفیت پیدا کررہی تھی جو سخت سردیوں میں نائیوں کے غلیظ مگر گرم حماّم میں نہاتے وقت محسوس ہوا کرتی تھی [؟ ہے]۔
ساری رات وہ رندھیر کے ساتھ چمٹی رہی۔ دونوں گویا ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے تھے۔ انہوں نے بمشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی۔ کیونکہ جو کچھ انہیں کہنا سننا تھا: سانسوں، ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہوتا رہا تھا ۔ رندھیر کے ہاتھ ساری رات اُس کی چھاتیوں پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے مسام جو اُن کے ارد گرد ایک کالے دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے، اُس ہوائی لمس سے بھی جاگ اٹھتے اور اُس گھاٹن لڑکی کے سارے جسم میں ایسا ارتعاش پیدا ہوجاتا کہ رندھیر خود بھی ایک لخطے کے لیے کپکپا اٹھتا۔
ایسی کپکپاہٹوں سے رندھیر کا سیکڑوں مرتبہ تعارف ہوچکا تھا۔ وہ اس کی لذّت سے اچھّی طرح آشنا تھا۔ کئی لڑکیوں کے نرم اور سخت سینوں کے ساتھ اپنا سینہ ملا کر وہ ایسی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ بھی رہ چکا تھا جو بالکل الھڑ تھیں اور اُس کے ساتھ لپٹ کر گھر کی وہ تمام باتیں سنا دیا کرتی تھیں جو کسی غیر کو نہیں سنانا چاہییں۔ وہ ایسی لڑکیوں سے بھی جسمانی رشتہ قائم کرچکا تھا جو ساری مشقّت خود کرتی تھیں اور اُسے کوئی تکلیف نہیں دیتی تھیں۔ مگر یہ گھاٹن لڑکی جو املی کے درخت کے نیچے بھیگی ہوئی کھڑی تھی اور جس کو اُس نے اشارے سے اوپر بلالیا تھا، بہت ہی مختلف تھی۔
ساری رات رندھیر کو اُس کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بو آتی رہی تھی۔ اُس بو کو جو بیک وقت خوش بو اور بدبو تھی، وہ تمام رات پیتا رہا تھا: اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے، اس کے بالوں سے، اس کے پیٹ سے، ہر جگہ سے، یہ بو جو بدبو بھی تھی اور خوش بوبھی، رندھیر کے ہر سانس میں موجود ہوتی تھی۔ تمام رات وہ سوچتا رہا تھا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز ہرگز اتنی زیادہ قریب نہ ہوتی، اگر اس کے ننگے بدن سے یہ بو نہ اُڑتی …یہ بوجو اس کے دل ودماغ کے ہر سلوٹ میں رینگ گئی تھی، اس کے تمام پرانے اور نئے خیالوں میں رچ گئی تھی۔
اس بو‘ نے اس لڑکی کو اور رندھیر کو ایک رات کے لیے آپس میں حل کردیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر داخل ہوگئے تھے۔ عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے: جہاں پہنچ کر وہ ایک خالص انسانی لذّت میں تبدیل ہوگئے تھے۔ ایسی لذّت جو لمحاتی ہونے کے باوجود دائمی تھی جو مائلِ پرواز ہونے کے باوجود ساکن اور جامد تھی…وہ دونوں ایک ایسا پنچھی بن گئے تھے جو آسمان کی نیلاہٹوں میں اُڑتا اُڑتا غیر متحرّک دکھائی دیتا ہے۔
اُس بو کو جو اس گھاٹن لڑکی کے ہر مسام سے باہر نکلتی تھی، رندھیر اچھّی طرح سمجھتا تھا حالانکہ وہ اُس کا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔ جس طرح بعض اوقات مٹّی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی باس پیدا ہوتی ہے…لیکن نہیں، وہ بو کچھ اور ہی قسم کی تھی۔ اُس میں لونڈر اور عطر کا مصنوعی پن نہیں تھا، وہ بالکل اصلی تھی … عورت اور مرد کے باہمی تعلّقات کی طرح اصلی اور ازلی۔
رندھیر کو پسینے کی بو سے سخت نفرت تھی۔ وہ نہانے کے بعد عام طور پر اپنی بغلوں وغیرہ میں خوشبو پوڈر لگاتا تھا یا کوئی ایسی دوا استعمال کرتا تھا جس سے پسینے کی بو دب جائے، لیکن حیرت ہے کہ اس نے کئی بار ...... ہاں، کئی بار، اُس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما اور اسے بالکل ِگھن نہ آئی بلکہ عجیب طرح کی لذّت محسوس ہوئی۔ اُس کی بغلوں کے نرم نرم بال پسینے کے باعث گیلے ہورہے تھے۔ اُن سے بھی وہی بو نکلتی تھی جو غایت درجہ قابلِ فہم ہونے کے باوجود ناقابلِ فہم تھی۔ رندھیر کو ایسا لگتا تھا کہ وہ اس بو کو جانتا ہے، پہچانتا ہے، اس کا مطلب بھی سمجھتا ہے، لیکن کسی اور کو سمجھا نہیں سکتا۔
برسات کے یہی دن تھے ...... یہی، کھڑکی کے باہر جب اس نے دیکھا تھا تو پیپل کے پتّے لرز لرز کر نہا رہے تھے۔ ہوا میں سرسراہٹیں اور پھڑ پھڑاہٹیں گھلی ہوئی تھیں۔ اندھیرا تھا مگر اُس میں دبی دبی، دھندلی سی روشنی بھی سموئی ہوئی تھی جیسے بارش کے قطروں کے ساتھ لگ کر تاروں کی تھوڑی تھوڑی روشنی اتر آئی ہے … برسات کے یہی دن تھے جب رندھیر کے اِس کمرے میں ساگوان کا صرف ایک پلنگ ہوتا تھا مگر اب اُس کے ساتھ ہی ایک دوسرا بھی پڑا تھا اور کونے میں ایک نئی ڈریسنگ ٹیبل بھی موجود تھی۔ دن یہی برسات کے تھے، موسم بھی بالکل ایسا ہی تھا، بارش کے قطروں کے ساتھ تاروں کی تھوڑی تھوڑی روشنی بھی اتر رہی تھی، مگر فضا میں ِحنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہوئی تھی۔
دوسرا پلنگ خالی تھا۔ اُس پلنگ پر جس پر رندھیر اوندھے منہ لیٹا کھڑکی کے باہر پیپل کے لرزتے ہوئے ّپتوں پر بارش کے قطروں کا رقص دیکھ رہا تھا، ایک گوری ِچٹّی لڑکی اپنے ستر کو ننگے جسم سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے غالباً سوگئی تھی ...... اس کی لال ریشمی شلوار دوسرے پلنگ پر پڑی تھی، اُس کے گہرے سرخ ازار بند کا ایک ُپھندنا نیچے لٹک رہا تھا۔ اُس پلنگ پر اُس کے دوسرے اُترے ہوئے کپڑے بھی پڑے تھے۔ اس کی سنہرے پھولوں والی قمیص، انگیا، جانگیا اور دوپٹّا ...... سب کا رنگ سرخ تھا، بے حد سرخ، یہ سب کپڑے حنا کے عطر کی تیز خوش بو میں بسے ہوئے تھے۔
لڑکی کے سیاہ بالوں میں مقیش کے ذرّے گرد کی طرح جمے ہوئے تھے۔ چہرے پر: غازے، سرخی اور مقیش کے اُن ذرّات نے مل جل کر ایک عجیب و غریب رنگ پیدا کردیا تھا: بے جان سا، اُڑا اُڑا، اور اس کے گورے سینے پر انگیا کے ّکچے رنگ نے جابجا لال لال دھبّے ڈال دیے تھے۔
چھاتیاں دودھ کی طرح سفید تھیں جس میں تھوڑی تھوڑی نیلاہٹ بھی ہوتی ہے۔ بغلوں کے بال مُنڈے ہوئے تھے جس کے باعث وہاں سُرمئی غبار سا پیدا ہوگیا تھا۔ رندھیر کئی بار اس لڑکی کی طرف دیکھ کر سوچ چکا تھا: کیا ایسا نہیں لگتا جیسے میں نے ابھی ابھی کیلیں اکھیڑ کر اِسے لکڑی کے بند بکس میں سے نکالا ہے، کتابوں اور چینی کے برتنوں کی طرح۔ کیونکہ جس طرح کتابوں پر داب کے نشان ہوتے ہیں اور چینی کے برتنوں پر ہلنے جلنے سے خراشیں آجاتی ہیں، ٹھیک اُسی طرح اس لڑکی کے بدن پر کئی جگہ ایسے نشان تھے۔
جب رندھیر نے اس کی تنگ اور چست انگیا کی ڈوریاں کھولی تھیں پیٹھ پر اور سامنے سینے کے نرم نرم گوشت پر، ُجھرّیاں سی بنی ہوئی تھیں اور کمر کے ارد گرد کس کر بندھے ہوئے ازاربند کا نشان ...... وزنی اور نکیلے جڑاؤ نیکلیس سے اُس کے سینے پر کئی جگہ خراشیں پیدا ہوگئی تھیں جیسے ناخنوں سے بڑے زور کے ساتھ کھجایا گیا ہے۔ برسات کے وہی دن تھے، پیپل کے نرم نرم کومل ّپتوں پر بارش کے قطرے گرنے سے ویسی ہی آواز پیدا ہورہی تھی جیسی کہ رندھیر اُس روز تمام رات سنتا رہا [رہا تھا؟]۔ موسم بہت خوش گوار تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، لیکن اُس میں حنا کے عطر کی تیز خوش بو ُگھلی ہوئی تھی۔
رندھیر کے ہاتھ بہت دیر تک اِس گوری چِٹّی لڑکی کے کچیّ دودھ ایسے سفید سینے پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔ اُس کی انگلیوں نے اِس گورے گورے جسم میں کئی ارتعاش دوڑتے ہوئے محسوس کیے تھے۔ اِس نرم نرم جسم کے کئی گوشوں میں اُسے سِمٹی ہوئی کپکپاہٹوں کا بھی پتہ چلا تھا۔ جب اُس نے اپنا سینہ اِس کے سینے کے ساتھ ملایا تو رندھیر کے جسم کے ہر مسام نے اُس لڑکی کے چھڑے ہوئے تاروں کی آواز سنی ...... لیکن وہ ُپکار، کہاں تھی؟ وہ ُپکار جو اُس نے گھاٹن لڑکی کے جسم کی بو میں سونگھی تھی ...... وہ ُپکار جو دودھ کے پیاسے ّبچے کے رونے سے کہیں زیادہ قابلِ فہم تھی ...... وہ ُپکار جو َصوتی حدود سے نکل کر بے آواز ہوگئی تھی۔
رندھیر، سلاخوں والی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اُس کے بہت قریب پیپل کے ّپتے لرز رہے تھے، مگر وہ ان کی لرزشوں کے اُس پار، دور ...... بہت دور، دیکھنے کی کوشش کررہا تھا؛ جہاں اُسے مٹ میلے بادلوں میں ایک عجیب قسم کی دھندلی روشنی گھلی ہوئی دکھائی دیتی تھی جیسے [؟جیسی] اُس گھاٹن لڑکی کے سینے میں اُسے نظر آئی تھی، ایسی روشنی جوراز کی بات کی طرح ُچھپی ہوئی مگر ظاہر تھی۔
رندھیر کے پہلو میں ایک گوری چِٹّی لڑکی جس کا جسم دودھ اور گھی مِلے آٹے کی طرح ملائم تھا، لیٹی تھی ...... اُس کے سوئے ہوئے جسم سے ِحنا کے عطر کی خوش بو آرہی تھی۔ جو اَب تھکی تھکی معلوم ہوتی تھی۔ رندھیر کو یہ دم توڑتی اور حالتِ نزع کو پہنچی ہوئی خوش بو بہت ناگوار معلوم ہوئی، اس میں کچھ کھٹاس سی تھی، ایک عجیب قسم کی کھٹاس جس طرح بد ہضمی کی ڈکاروں میں ہوتی ہے ...... اداس، بے رنگ، بے کیف۔
رندھیر نے اپنے پہلو میں لیٹی ہوئی لڑکی کی طرف دیکھا: جس طرح پھٹے ہوئے دودھ میں سفید سفید بے جان ُپھٹکیاں بے رنگ پانی میں ساکن ہوتی ہیں، اُسی طرح اس لڑکی کی نسوانیت اُس کے وجود میں ٹھہری ہوئی تھی، سفید سفید دھبّوں کی صورت میں ...... اصل میں رندھیر کے دل و دماغ میں وہ بو بسی ہوئی تھی جو اُس گھاٹن لڑکی کے جسم سے بغیر کسی بیرونی کوشش کے باہر نکل رہی تھی۔ وہ بو جو ِحنا کے عطر سے کہیں زیادہ ہلکی پھلکی اور دور رس تھی، جس میں سونگھے جانے کا اضطراب نہیں تھا، جو خود بخود ناک کے رستے داخل ہو کر اپنی صحیح منزل پر پہنچ گئی تھی۔
رندھیر نے آخری کوشش کرتے ہوئے اُس لڑکی کے دودھیالے جسم پر ہاتھ پھیرا، مگر اُسے کوئی کپکپاہٹ محسوس نہ ہوئی ...... اُس کی نئی نویلی بیوی جو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی لڑکی تھی، جس نے بی اے تک تعلیم پائی تھی اور اپنے کالج میں سیکڑوں لڑکوں کے دل کی دھڑکن تھی: رندھیر کی نبض تیز نہ کرسکی ...... وہ ِحنا کی مرتی ہوئی خوش بو میں اُس بو کی جستجو کرتا رہا جو برسات کے اِن ہی دنوں میں جب کہ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے بارش میں نہار رہے تھے، اُسے گھاٹن لڑکی کے میلے جسم سے آئی تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں