صفحات

پیر، 26 فروری، 2018

یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا از فانی بدایونی

یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
اُس بزم میں ہشیار ہوا بھی نہیں جاتا
کہتے ہو کہ ہم وعدۂ پرسش نہیں کرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں جاتا
آتے میں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا
جاتے ہوئے کھاتے ہو مری جان کی قسمیں
اب جان سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
کیا  خاکِ رہِ یار ہوا بھی نہیں جاتا
دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
ـظالم سے جفا کار ہوا بھی نہیں جاتا

جمعرات، 22 فروری، 2018

الیکشن کا زمانہ از مجید لاہوری

الیکشن کا زمانہ


اے مِلتِ بیضا! ترا خادم ہوں پرانا
افسوس کہ تُو نے مرے رُتبے کو نہ جانا
ہر کوہ کو ناپا ہے ہر اک دشت کو چھانا
انگریز نے لوہا مری چترائی۱؎ کا مانا
پھر خیر سے آیا ہے الیکشن کا زمانہ
میں خان بہادر ہوں مجھے بھول نہ جانا
عُہدوں کا ہمیشہ ہی طلب گار رہا ہوں
کرسی کا بہرحال پرستار رہا ہوں
سب جانتے ہیں حامیٔ سرکار رہا ہوں
حاکم ہو کوئی اس کا وفادار رہا ہوں
پھر خیر سے آیا ہے الیکشن کا زمانہ
میں خان بہادر ہوں مجھے بھول نہ جانا
چندہ بھی دیا جنگ میں بھرتی بھی کرائی
دادا نے میرے، مکیّ پہ گولی بھی چلائی
اور باپ نے انگریز سے جاگیر بھی پائی
ہمت نے میری جیتی تھی جرمن کی لڑائی
پھر خیر سے آیا ہے الیکشن کا زمانہ
میں خان بہادر ہوں مجھے بھول نہ جانا

’’ہوٹل میں‘‘ مجید لاہوری

’’ہوٹل میں‘‘


ہر خوشی ہوٹل میں ہے ہر لگژری ہوٹل میں ہے
کون سی شے ہے کہ جس شے کی کمی ہوٹل میں ہے
چاند، تالے، پھول نغمے، رنگ، نکہت، چاندنی
سچ تو یہ ہے اک بہارِ زندگی ہوٹل میں ہے
مے بھی ہے موجود اور حوریں بھی ہیں، غلمان بھی
تیری جنت میں جو ہے، زاہد وہی ہوٹل میں ہے
اڑ گئے تھے دیکھ کر جس چیز کو، موسیٰ کے ہوش
وہ نہیں، لیکن جھلک اس چیز کی ہوٹل میں ہے
پردۂ محمل میں لیلیٰ ہے نہ مجنوں دشت میں
حسن بھی ہوٹل میں ہے اور عشق بھی ہوٹل میں ہے
رہ گیا ہے اب ڈنر تک ساری تقریروں کا زور
قوم ہے ہوٹل سے باہر لیڈری ہوٹل میں ہے
رشک آتا ہے مجھے بھی ان کی قسمت پر مجید
خوش ہیں سب بیرے کہ ان کی نوکری ہوٹل میں ہے

بدھ، 21 فروری، 2018

تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے از ساحر لدھیانوی

تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے
اپنے پہ بھروسہ ہے تو اِک داؤ لگا لے
ڈرتا ہے زمانے کی نگاہوں سے بھلا کیوں
انصاف ترے ساتھ ہے الزام اُٹھا لے
کیا خاک وہ جینا ہے جو اپنے ہی لیے ہو
خود مٹ کے کسی اور کو مٹنے سے بچا لے
ٹوٹے ہوئے پتوار ہیں کشتی کے تو غم کیا
ہاری ہوئی بانہوں کو ہی پتوار بنا لے

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں از فیض احمد فیض

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہیں اگر حالات وہاں ، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

پیر، 19 فروری، 2018

یورپ کا بین الاقوامی قانون از راجا ظفر علی خان

یورپ کا بین الاقوامی قانون


یورپ والو! تم تو سمجھتے ہی نہیں ہو انسان ہمیں
اور جو سمجھتے بھی ہو تو شاید جانتے ہو نادان ہمیں
عدل تمھارا ہے زرِ مغرب جو ہے ملمع مشرق کو
کہہ نہ سکیں گو کچھ بھی زباں سے لیکن ہوگئے کان ہمیں
طبلِ نمود بجا کر نازاں اپنے نام پر آپ ہوئے
آپ کو لمن الملک مبارک اور علیھا فان ہمیں
آپ ہیں گورے ہم نہیں کالے آپ کو شاید ہے یہ خیال
چونکہ ہے کالی اس لیے پیاری ہو ہیں سکتی جان ہمیں
آپ کو ہم سے عار ہو لیکن ایک ہیں ہم اس فرق کے ساتھ
آپ کو اپنی جان ہے پیاری اور عزیز ایمان ہمیں
ایک طرف یہ صدمۂ مطلق تم نے مراقش چھین لیا
ایک طرف یہ خوف معلق داغ نہ دے ایران ہمیں
قدسیوں نے کل نور کی یہ گت چھیڑی چنگِ بصیرت پر
وجد میں رہ رہ کر لے آئی جس کی رسیلی تان ہمیں
ہم کو ہمارے حال پہ چھوڑے، آئے ہم اس تہذیب سے باز
کچھ نہیں یورپ سے ہمیں مطلب، چاہیے پاکستان ہمیں


بدھ، 24 جنوری، 2018

رقیب سے ! از فیض احمد فیض

رقیب سے !

آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی اُلفت میں بھُلا رکھی دُنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سُود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی ، وہ رخسار ، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گِنواؤں تو گِنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جُز ترے اور سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے ، دُکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رُخِ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بِلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتواں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عُقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بِکتا ہے بازار میں مزدُور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہُو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں از منیر نیازی

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں مَیں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اُسے آواز دینی ہو اُسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

گھر بنانا چاہتا ہوں از منیر نیازی

گھر بنانا چاہتا ہوں

گھر بنانا چاہتا ہوں میرا گھر کوئی نہیں
دامنِ کہسار میں یا ساحلِ دریا کے پاس
اونچی اونچی چوٹیوں پر سرحدِ صحرا کے پاس
متفق آبادیوں میں، وُسعتِ تنہا کے پاس
روزِ روشن کے کنارے یا شبِ یلدا کے پاس
اس پریشانی میں میرا راہبر کوئی نہیں
خواہشیں ہی خواہشیں ہیں اور ہنر کوئی نہیں
گھر بنانا چاہتا ہوں میرا گھر کوئی نہیں

سر وادی سینا

سر وادی سینا

پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت
اے دیدہ بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے
گلزار ارم پرتو صحرا عدم ہے
پندار جنوں
حوصلہ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
اے دیدہ بینا
پھر دل کو مصفا کرو اس لوح پہ شاید
مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہی
تائید ستم مصلحت مفتی دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
اور سنو
کہ شاید یہ نور صیقل ہے اس صحیفے کا حرف اول
جو ہر کس و ناقص زمیں پر
دل گدایان اجمعیں پر اتر رہا ہے فلک سے اب کے
سنو کہ سر پہ لم یزل کے ہمی تمہی بندگان بے بس
علیم بھی ہیں خبیر بھی ہیں
سنو کہ ہم بے زبان و بے کس بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں

وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ

وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حِکم کے سر اُوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اور راج کرے گی خلقِ خُدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

             امریکہ۔ جنوری۱۹۷۹ء

جمعہ، 19 جنوری، 2018

فیملی پلاننگ

فیملی پلاننگ


یہاں ناکے پہ ناکہ چل رہا ہے
وہاں ڈاکے پہ ڈاکا چل رہا ہے

یہاں ہو رہی ہیں فیملی پلاننگ کی کوششیں
اور وہاں کاکے پہ کاکا چل رہا ہے

انور شعور

hikayat 57

hikayat 56

hikayat 55

hikayat 54

hikayat 53

hikayat 52

hikayat 51

hikayat 50

hikayat 49

hikayat 48

Wallah Aalam

Wallah Aalam

جمعرات، 11 جنوری، 2018

hikayat 38

Hikayat 37

Hikayat 37

hikayat 36

Ibn e Insha

hikayat 35

hikayat 35

Hikayat 34

Hikayat 34

پیر، 1 جنوری، 2018

ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی از ذوق

ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی
چھوڑے گی یہ، نہ، بال برابر، لگی ہوئی
میرے دل گرفتہ کی واشد، ہو کس طرح
ہیہات، یاں گرہ ہے گرہ پر لگی ہوئی
کھٹکے گی، بعد مرگ بھی اس کی مژہ کی نوک
وہ پھانس ہے کلیجے کے اندر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاک سار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دل بر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خوں کوئی رکتی ہے تیری تیغ
بے ڈھب ہے اس کو چاٹ ستم گر لگی ہوئی
بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا
گزری ہے اس کی راہ گزر پر لگی ہوئی
عیسیٰ اگرچہ پاس ہے ممکن نہیں شفا
خورشید کو وہ تپ ہے فلک پر لگی ہوئی
کرتی ہے زیرِ برقع فانوس تاک جھانک
پروانے سے ہے شمع مقرر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خم مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
منہ سے لگا ہوا ہے اگر جام مے تو کیا
دل سے ہے یادِ ساقی کوثر لگی ہوئی
اے ذوق اتنا دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

شوق مستی میں، ہے گل گشتِ چمن کا، ہم کو از ذوق

شوق مستی میں، ہے گل گشتِ چمن کا، ہم کو
چاہیے، جائے عصا، گردن مینا، ہم کو
رکھ مکدر نہ بس اے چرخ اب اتنا ہم کو
ہم نے مانا کہ کیا خاک سے پیدا ہم کو
ہم وہ مجنوں ہیں کہ گردِ رم آہو کی طرح
بھاگے ہے، دور ہی سے دیکھ کے، صحرا ہم کو
کس سے، تدبیر درستی ہو، ہماری جوں زلف
کہ شکستوں سے بنایا ہے، سراپا، ہم کو
جا بہ جا، نام تو، جوں نقش نگیں، چھوڑ گیا
خاک گم ہو کے گیا ڈھونڈنے، عنقا، ہم کو
اور ہمدرد کہاں، ہو نہ ہو، اے حضرتِ دل
درد اب تم کو ہمارا ہو تمہارا، ہم کو
آن پہنچی، سرگردابِ فنا، کشتی عمر
ہر نفس بادِ مخالف کا، ہے، جھونکا، ہم کو
ہر قدم، پاؤں میں سر رکھتے ہیں، خار سردشت
اے جنوں، تو نے، ہے کانٹوں میں گھسیٹا ہم کو
کرتے، جوں کوہ، نہیں ہم تو سخن میں، سبقت
پر، وہ کچھ ہم سے سنے گا، جو کہے گا، ہم کو
ہم، گئے جس کی طرف، جوں گل بازی، اس نے
پاس آنے نہ دیا، دور ہی پھینکا، ہم کو
ایک دم، عمر طبیعی ہے یہاں، مثلِ حباب
فکرِ امروز ہے، نے ہے غم فردا، ہم کو
جتنے عاشق ہیں، بہم ایک کا ہے ایک عزیز
شمع سے، چاہیے ہے، خون کا دعویٰ، ہم کو
مل گئیں، خاک میں، جو صورتیں ان کا ہے خیال
کیوں نہ فانوس خیالی ہو بگولا، ہم کو
ہم نہ کہتے تھے کہ ذوق اس کی تو زلفوں کو، نہ چھیڑ
اب وہ برہم ہے تو ہے تجھ کو قلق یا، ہم کو