جمعرات، 1 مارچ، 2018
پیر، 26 فروری، 2018
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا از فانی بدایونی
جمعرات، 22 فروری، 2018
الیکشن کا زمانہ از مجید لاہوری
الیکشن کا زمانہ
’’ہوٹل میں‘‘ مجید لاہوری
’’ہوٹل میں‘‘
بدھ، 21 فروری، 2018
تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے از ساحر لدھیانوی
اپنے پہ بھروسہ ہے تو اِک داؤ لگا لے
ڈرتا ہے زمانے کی نگاہوں سے بھلا کیوں
انصاف ترے ساتھ ہے الزام اُٹھا لے
کیا خاک وہ جینا ہے جو اپنے ہی لیے ہو
خود مٹ کے کسی اور کو مٹنے سے بچا لے
ٹوٹے ہوئے پتوار ہیں کشتی کے تو غم کیا
ہاری ہوئی بانہوں کو ہی پتوار بنا لے
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں از فیض احمد فیض
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
پیر، 19 فروری، 2018
یورپ کا بین الاقوامی قانون از راجا ظفر علی خان
یورپ کا بین الاقوامی قانون
یورپ والو! تم تو سمجھتے ہی نہیں ہو انسان ہمیں
اور جو سمجھتے بھی ہو تو شاید جانتے ہو نادان ہمیں
عدل تمھارا ہے زرِ مغرب جو ہے ملمع مشرق کو
کہہ نہ سکیں گو کچھ بھی زباں سے لیکن ہوگئے کان ہمیں
طبلِ نمود بجا کر نازاں اپنے نام پر آپ ہوئے
آپ کو لمن الملک مبارک اور علیھا فان ہمیں
آپ ہیں گورے ہم نہیں کالے آپ کو شاید ہے یہ خیال
چونکہ ہے کالی اس لیے پیاری ہو ہیں سکتی جان ہمیں
آپ کو ہم سے عار ہو لیکن ایک ہیں ہم اس فرق کے ساتھ
آپ کو اپنی جان ہے پیاری اور عزیز ایمان ہمیں
ایک طرف یہ صدمۂ مطلق تم نے مراقش چھین لیا
ایک طرف یہ خوف معلق داغ نہ دے ایران ہمیں
قدسیوں نے کل نور کی یہ گت چھیڑی چنگِ بصیرت پر
وجد میں رہ رہ کر لے آئی جس کی رسیلی تان ہمیں
ہم کو ہمارے حال پہ چھوڑے، آئے ہم اس تہذیب سے باز
کچھ نہیں یورپ سے ہمیں مطلب، چاہیے پاکستان ہمیں
بدھ، 7 فروری، 2018
منگل، 6 فروری، 2018
منگل، 30 جنوری، 2018
پیر، 29 جنوری، 2018
بدھ، 24 جنوری، 2018
رقیب سے ! از فیض احمد فیض
رقیب سے !
آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی اُلفت میں بھُلا رکھی دُنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سُود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی ، وہ رخسار ، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گِنواؤں تو گِنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جُز ترے اور سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے ، دُکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رُخِ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بِلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتواں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عُقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بِکتا ہے بازار میں مزدُور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہُو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
اتوار، 21 جنوری، 2018
ہفتہ، 20 جنوری، 2018
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں از منیر نیازی
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اُسے آواز دینی ہو اُسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
گھر بنانا چاہتا ہوں از منیر نیازی
گھر بنانا چاہتا ہوں
سر وادی سینا
سر وادی سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت
اے دیدہ بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے
گلزار ارم پرتو صحرا عدم ہے
پندار جنوں
حوصلہ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
اے دیدہ بینا
پھر دل کو مصفا کرو اس لوح پہ شاید
مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہی
تائید ستم مصلحت مفتی دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
اور سنو
کہ شاید یہ نور صیقل ہے اس صحیفے کا حرف اول
جو ہر کس و ناقص زمیں پر
دل گدایان اجمعیں پر اتر رہا ہے فلک سے اب کے
سنو کہ سر پہ لم یزل کے ہمی تمہی بندگان بے بس
علیم بھی ہیں خبیر بھی ہیں
سنو کہ ہم بے زبان و بے کس بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں
وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ
وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حِکم کے سر اُوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اور راج کرے گی خلقِ خُدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
امریکہ۔ جنوری۱۹۷۹ء