شوق مستی میں، ہے گل گشتِ چمن کا، ہم کو
چاہیے، جائے عصا، گردن مینا، ہم کو
رکھ مکدر نہ بس اے چرخ اب اتنا ہم کو
ہم نے مانا کہ کیا خاک سے پیدا ہم کو
ہم وہ مجنوں ہیں کہ گردِ رم آہو کی طرح
بھاگے ہے، دور ہی سے دیکھ کے، صحرا ہم کو
کس سے، تدبیر درستی ہو، ہماری جوں زلف
کہ شکستوں سے بنایا ہے، سراپا، ہم کو
جا بہ جا، نام تو، جوں نقش نگیں، چھوڑ گیا
خاک گم ہو کے گیا ڈھونڈنے، عنقا، ہم کو
اور ہمدرد کہاں، ہو نہ ہو، اے حضرتِ دل
درد اب تم کو ہمارا ہو تمہارا، ہم کو
آن پہنچی، سرگردابِ فنا، کشتی عمر
ہر نفس بادِ مخالف کا، ہے، جھونکا، ہم کو
ہر قدم، پاؤں میں سر رکھتے ہیں، خار سردشت
اے جنوں، تو نے، ہے کانٹوں میں گھسیٹا ہم کو
کرتے، جوں کوہ، نہیں ہم تو سخن میں، سبقت
پر، وہ کچھ ہم سے سنے گا، جو کہے گا، ہم کو
ہم، گئے جس کی طرف، جوں گل بازی، اس نے
پاس آنے نہ دیا، دور ہی پھینکا، ہم کو
ایک دم، عمر طبیعی ہے یہاں، مثلِ حباب
فکرِ امروز ہے، نے ہے غم فردا، ہم کو
جتنے عاشق ہیں، بہم ایک کا ہے ایک عزیز
شمع سے، چاہیے ہے، خون کا دعویٰ، ہم کو
مل گئیں، خاک میں، جو صورتیں ان کا ہے خیال
کیوں نہ فانوس خیالی ہو بگولا، ہم کو
ہم نہ کہتے تھے کہ ذوق اس کی تو زلفوں کو، نہ چھیڑ
اب وہ برہم ہے تو ہے تجھ کو قلق یا، ہم کو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں