صفحات

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

سر وادی سینا

سر وادی سینا

پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت
اے دیدہ بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے
گلزار ارم پرتو صحرا عدم ہے
پندار جنوں
حوصلہ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
اے دیدہ بینا
پھر دل کو مصفا کرو اس لوح پہ شاید
مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہی
تائید ستم مصلحت مفتی دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
اور سنو
کہ شاید یہ نور صیقل ہے اس صحیفے کا حرف اول
جو ہر کس و ناقص زمیں پر
دل گدایان اجمعیں پر اتر رہا ہے فلک سے اب کے
سنو کہ سر پہ لم یزل کے ہمی تمہی بندگان بے بس
علیم بھی ہیں خبیر بھی ہیں
سنو کہ ہم بے زبان و بے کس بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں