ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی
چھوڑے گی یہ، نہ، بال برابر، لگی ہوئی
میرے دل گرفتہ کی واشد، ہو کس طرح
ہیہات، یاں گرہ ہے گرہ پر لگی ہوئی
کھٹکے گی، بعد مرگ بھی اس کی مژہ کی نوک
وہ پھانس ہے کلیجے کے اندر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاک سار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دل بر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خوں کوئی رکتی ہے تیری تیغ
بے ڈھب ہے اس کو چاٹ ستم گر لگی ہوئی
بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا
گزری ہے اس کی راہ گزر پر لگی ہوئی
عیسیٰ اگرچہ پاس ہے ممکن نہیں شفا
خورشید کو وہ تپ ہے فلک پر لگی ہوئی
کرتی ہے زیرِ برقع فانوس تاک جھانک
پروانے سے ہے شمع مقرر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خم مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
منہ سے لگا ہوا ہے اگر جام مے تو کیا
دل سے ہے یادِ ساقی کوثر لگی ہوئی
اے ذوق اتنا دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں