صفحات

جمعرات، 22 فروری، 2018

’’ہوٹل میں‘‘ مجید لاہوری

’’ہوٹل میں‘‘


ہر خوشی ہوٹل میں ہے ہر لگژری ہوٹل میں ہے
کون سی شے ہے کہ جس شے کی کمی ہوٹل میں ہے
چاند، تالے، پھول نغمے، رنگ، نکہت، چاندنی
سچ تو یہ ہے اک بہارِ زندگی ہوٹل میں ہے
مے بھی ہے موجود اور حوریں بھی ہیں، غلمان بھی
تیری جنت میں جو ہے، زاہد وہی ہوٹل میں ہے
اڑ گئے تھے دیکھ کر جس چیز کو، موسیٰ کے ہوش
وہ نہیں، لیکن جھلک اس چیز کی ہوٹل میں ہے
پردۂ محمل میں لیلیٰ ہے نہ مجنوں دشت میں
حسن بھی ہوٹل میں ہے اور عشق بھی ہوٹل میں ہے
رہ گیا ہے اب ڈنر تک ساری تقریروں کا زور
قوم ہے ہوٹل سے باہر لیڈری ہوٹل میں ہے
رشک آتا ہے مجھے بھی ان کی قسمت پر مجید
خوش ہیں سب بیرے کہ ان کی نوکری ہوٹل میں ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں