صفحات

بدھ، 21 فروری، 2018

تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے از ساحر لدھیانوی

تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے
اپنے پہ بھروسہ ہے تو اِک داؤ لگا لے
ڈرتا ہے زمانے کی نگاہوں سے بھلا کیوں
انصاف ترے ساتھ ہے الزام اُٹھا لے
کیا خاک وہ جینا ہے جو اپنے ہی لیے ہو
خود مٹ کے کسی اور کو مٹنے سے بچا لے
ٹوٹے ہوئے پتوار ہیں کشتی کے تو غم کیا
ہاری ہوئی بانہوں کو ہی پتوار بنا لے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں