صفحات

ہفتہ، 8 اپریل، 2023

ایمبولنس کی سواری Ambulance Ki Sawari


 

ایمبولنس کی سواری

 

یاد ہے وہ سواری؟

وہی جس پر تمھاری موت واقع ہوئی تھی ؟

 

ایمبولنس میں ہم تین تھے

دوسنگت دینے والے

اصل فنکار کے ساتھ

 

موت کے سفر میں انسان اکیلا ہے

 

تیز ہوتی طبلے کی تھاپ

آواز کے اتار چڑھاؤ کا اچانک انقطاع

 

خون کا منجمد قطرہ

اور بس،  بات ختم

 

پپوٹے آنکھوں کو ڈھانپتے ہوئے

کفن کی طرح،

دہانہ درد کی شدت سے ساکت

 

ہمیں اندازہ نہیں ہوا

 تم پہلے ہی مر چکے تھے

 

ایمبولنس

سست رفتاری سے چلتی رہی

ہر ٹریفک سگنل پر رکتی

پیدل چلنے والے

 رکاوٹ پیدا کرتے ہوئے

 ہمارے ذہنوں کی رفتار

خوف کے باعث

 بہت تیز تھی

تم بالکل ساکت تھے

 صرف تمھارا سرذرا سا ہلتا

لطیف طنز میں

 

یاد ہے وہ سواری؟

 ایک ساتھ ، آخری بار

وہی جس پر تمھاری موت واقع ہوئی ؟

 

تمھارے حلق کے اندر

پتھر کا پھول تھا

 

تمھارا خون جامد

 تمھاری نسیں وہ تاریں تھیں

 جن میں برقی قوت زائل ہو چکی تھی

یاد ہے وہ سواری؟

 

کبھی ہمیں اس پر گفتگو کرنی چاہیے

 کبھی ہم ایک ساتھ بیٹھیں گے

 کچھ پیئیں گے اور بات کریں گے

اور تم مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ گے

 موت اپنا در بچہ کیسے بند کرتی ہے

 کس طرح منفی احساس ہر شے پر چھا جاتا ہے

کیسے اس کا کوندا آنکھوں کی روشنی سلب کرتا ہے

 کس طرح اسے تجربہ گاہ میں تیار کرتے ہیں۔۔۔

 

کبھی ہم بیٹھیں گے

بات کریں گے

پورے ولولے سے

 

مجھے وہ سواری یاد ہے

اپنا آدھا تنہا حصہ

اپنی آدھی بے بسی

اپنا آدھا خاموش وجود

اپنا آدھا خالی پن

 

پوری دنیا فورملین کی بو میں بسی تھی

 دھوپ بہت قدیم لگتی تھی

وہ تمھیں اسٹریچر پر اٹھائے لے جا رہے تھے

 پھر انھوں نے تمھیں مردہ قرار دے دیا

 

مجھے آوازوں کا تیز ہونا یاد ہے

مجھے ہسپتال کی راہداری یاد ہے

مجھے لوگوں کی انتہا درجے کی آہستہ روی یاد ہے

مجھے انتہائی خوفزدہ بچے یاد ہیں

مجھے بتانے سمجھانے کی کاوشیں

اور انھیں ماننے سے انکار یاد ہے

مجھے پھولوں کے چڑھاوے یاد ہیں

 مجھے وہ سب یاد ہیں جو رقم کا حساب کر رہے تھے

مجھے مذاق کرنے والے یاد ہیں

مجھے یاد ہیں وہ جو روئے

اور جنھوں نے تقریریں کیں

مجھے یاد ہیں وہ جنھوں نے ” گیتا سے حوالے دیے

اور جنھوں نے ضرب الامثال بیان کیں

جب تمھاری چتا کے شعلے بلند ہورہے تھے،

 مجھے وہ یاد ہیں جو خاموش تھے

 

غم سرطان کی طرح

بڑھ سکتا ہے

 غم پرانی شراب کی طرح

 پختہ ہوسکتا ہے

غم افیون کا کام دے سکتا ہے

 غم ، موت کا سایہ ہے

 

یاد پتوں کو گراسکتی ہے

جیسے موسم خزاں کا پیڑ

یاد، شراب کی طرح

ہر چیز کو دھندلا سکتی ہے

یاد، کسی ایک واقعے کو

مقید کر سکتی ہے

آئینوں کے پنجرے میں

 

مجھے ماتم کے لیے

ایک وحشیانہ وقفہ درکار ہے

شدید صدمے کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے

اپنی بینائی بحال کرنے کے لیے

 

میں بغور دیکھنا چاہتا ہوں

 تمہاری موت کی تصدیق

کے اذیت ناک لمحے کا

 گم شده چهره

 اس کا تصویری عکس

اس لہو کی عظیم الشان لہر پر

 اختیار چاہتا ہوں

 جس کی حد سے اُدھر

وہ سمندر ہے

جو خالی ہو چکا ہے

 

میں اس دھماکے کے مرکز میں

موجود ہونا چاہتا ہوں

جو میری دھجیاں اڑادے گا

مجھے ایک ایک بات کی

پوری آگہی درکار ہے

تمھاری موت کے

صرف ونحو، ساخت

 فعل، فاعل اور مفعول

 تمھاری طرف کی پیچیدگیاں ، ان کے خم

اسناد، صلاحیتیں

 

یاد ہے وہ سواری؟

 وہی جس پر تمھاری موت واقع ہوئی ؟

مجھے صرف لوگوں سے امڈی پڑتی

 گلیاں یاد ہیں

 مجھے صرف خالی ہوتی

 گلیاں یاد ہیں

 

مجھے صرف اپریل کے مہینے کے

اتوار کی شاندار اور صاف ستھری دوپہر

یاد ہے

 

مجھے اپنی آنکھوں میں چبھتا ہوا سورج

اور پکی سڑک پر

اپنا ننگے پاؤں چلنا یاد ہے

 

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ

 بچوں کو کہانیاں کیسے سنائی جائیں

 

ایک واحد چیز جو میں بھول گیا ہوں

وہ خاموشی سے آنسو بہانا

یا وحشیانہ غم میں

چلانا ہے

 

دوست تم نے مجھے ایک اختیار سے

 محروم کر دیا ہے

اب کوئی دوسرا عطا کرو

 

ایسے مواقع بھی ہوتے ہیں

جب دوست کا ہونا

دشمن کے ہونے سے زیادہ برا ہوتا ہے

 

میں مردہ دوست کا کیا کروں گا ؟

 میں صرف تمھارے ساتھ

 زندگی کے اس کنارے پر بیٹھا

 بحث کر سکتا ہوں

 

میں تمھیں خط نہیں لکھ سکتا

 تار نہیں بھیج سکتا

میں تمھارے ساتھ کوئی حساب برابر نہیں کر سکتا

 میں تم میں نقص نہیں نکال سکتا

میں صرف تم پر مسلسل الزام تراشی کر سکتا ہوں

 تمھیں مسلسل آزاد کیے جانے کے عمل میں رہ سکتا ہوں

میں تنہا ہوں

اور آسانی سے چوٹ کھا سکتا ہوں

میں زندہ ہوں

اور ایک اور سواری لے رہا ہوں

 

مجھے وہ پانی یاد ہے جو میں نے پیا

 اور وہ سگریٹ جن کا کش لگایا

 

مجھے چاولوں کا گرم نوالہ یاد ہے

 

مجھے اپنے پیٹ میں درد اٹھتا یا د ہے

 

مجھے ہمسائے کے گھر میں بجتا

گیت یاد ہے

 

مجھے کسی کی ناشائستہ اشک شوئی یاد ہے

 مجھے تیز شراب کے گھونٹ یاد ہیں

 

مجھے گوشت یاد ہے

 مجھے روٹی یاد ہے

مجھے نام اور پتے یاد ہیں

 ٹیلیفون نمبر یاد ہیں

 

مجھے سانس لینا یاد ہے

اور کھانا ، اور پینا

اور ہم بستری کرنا

اور بات کرنا، چیخنا چلانا

سر گوشی کرنا اور منہ بند کر لینا

 بحث و تکرار کے لیے غور وفکر کرنا

غصہ کھانا

نظم لکھنا

خطوط پر، کاغذات پر دستخط کرنا

 

یاد ہے وہ سواری

 آخری جس پر ہم اکٹھے تھے

 وہی جس پر تمھاری موت واقع ہوئی؟

 

اتوار کی صبح تھی

اپریل کے مہینے میں یاد ہے؟

 

ایک اپریل ہر سال میں ہوتا ہے

اور ایک اتوار ہر ہفتے میں

مگر دوست ہر سال کم ہوتے جاتے ہیں

 اور زندگی تاریک

 

تمھیں یاد ہے وہ بدمست گفتگو

 جو ایک روز ہم نے موت پر کی تھی ،

زندہ لوگوں کی گفتگو؟

 

تمھیں موسیقی کی وہ زبان یاد ہے

اور جو تم نے

بے ترتیبی سے ایک زبر دست تو ازن حاصل کرنے کی بات کی

اور عناصر میں موجود آهنگ

نبض کی لے کا تمام منطق پر حاوی ہونا

کُل تخلیق کا دھڑکنا

 

اپنے دماغ کی کچی بستی سے

 ان کہکشاؤں تک

جن کے لیے میں اپنے بازو وا کرتا ہوں

احساسات کے اندھے اخراج سے

تمام اصناف فن کے قتل عام تک

 میرے گلتے ہوئے زخم کی پیپ سے

شفاف پانی تک

جس میں تمام تر زبان حل ہو جاتی ہے

 اور خاموشی قلقلانے لگتی ہے

 

تکرار کی بھینچی ہوئی مٹھی سے

پھولوں کی کھلی معصومیت تک

بندوق کی گولیوں سے محبوب کے بوسوں تک

لوک قصوں سے گمبھیر مقالوں تک

یہ سیاہ استعجابی نشان معلق ہے

اپنے نقطے میں جس کے اندر تمہارا چہرہ ہے

 

مجھے کچھ یاد نہیں

مجھے صرف الفاظ یاد ہیں

 

رٹے ہوئے، جیسے نظام شمسی

عادتاً، جیسے دائرہ ء حیات

 

مجھے کچھ یاد نہیں

 

مگر میرے دوست، میں وعدہ کرتا ہوں

اس دیو قامت لا موجودگی میں

میں اپریل کا ایک اتوارتر اشوں گا

دو پہر ہوگی، ماتم ہو گا

 چلچلاتی گرمی ہوگی ، سناٹا ہوگا

ساکت ناریل کے پیٹر ہوں گے

 لکڑی ہوگی ، ایک لاش ہوگی اور آگ

 

شعلوں کے اشلوک ہوں گے

 سرخ اُپنشد، روشن نیلے مقام پر لکھا ہوا

 

پرندے پرواز کرتے ہوئے ٹھہریں گے

 جامد ہو جائیں گے

جانور بے جان ہو کر گر پڑیں گے

 مشینیں اور انسان کام کرنا بند کر دیں گے

لاکھوں شعلوں کے نیچے

میری آنکھیں سوجائیں گی

 

بڑے عذاب بڑی تباہی کے

پھول کی طرح

 

پھر مجھے کچھ یاد نہیں ہوگا

 میں اس سواری کے مرکز میں ہوں گا

 جس پر تمھاری موت واقع ہوئی

 

منگل، 12 اپریل، 2022

Firangi ka Jo me darban hota | Viewers' Digest | فرنگی کا جو میں دربان ہوتا

فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
 تو جینا کس قدر آسان ہوتا 
 مرے بچے بھی امریکا میں پڑھتے
 میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا 
 مری انگلش بلا کی چست ہوتی 
بلا سے جو نہ اردودان ہوتا 
 جھکا کے سر کو ہو جاتا جو سر میں 
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا 
 زمینیں میری ہو صوبے میں ہوتیں
 میں واللہ صدرِ پاکستان ہوتا

منگل، 8 مارچ، 2022

پاکستان کی صف اول کی اداکارہ کے ساتھ شاپنگ مال میں سرعام۔۔۔

 پاکستان کی صفِ اول کی اداکارہ عزت مآب محترمہ ۔۔۔ صاحبہ کے ساتھ پچھلے دنوں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جس نے ان کا پورا ایک دن برباد کر دیا۔

وہ ہوا کچھ یوں کہ محترمہ ایک شاپنگ مال میں مزے سے اپنا مال اڑا رہی تھیں (شاپنگ کرتے ہوئے) کہ کسی خاتون نے ان کو متوجہ کرنے کے لیے ان کے بالوں کو چھونے کی گستاخی کر لی۔ جو شدید ردعمل محترمہ کی طرف سے آیا اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک قابل گردن زدنی جرم ہے اور اس جرم کی سزا خاتون کو ضرور ملنی چاہیے۔ انھوں نے فرمایا کہ خاتون کی طرف سے ان کے بالوں کو (سر کے)  چھوئے جانے کی وجہ سے ان  (اداکارہ) کا پورا دن خراب ہو گیا۔ اس سے آگے انھوں نے فرمایا کہ اگر مذکورہ خاتون ان کے پری چہرے کو ہاتھ لگانے کی گستاخی کر بیٹھتیں تو شاید ان کا پورا ہفتہ ہی خراب گزرتا۔

یہ تمام اعتراضات بالکل درست ہیں۔ کسی خاتون کو بغیر اجازت چھونا حتیٰ کہ دیکھنا بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔ چھونے والی خاتون کو یقیناً اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔

لیکن ان کو سزا دلوانے کے ساتھ ساتھ مذکورہ اداکارہ کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے، گو کہ اس کے لیے انھیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی کیوں کہ راقم نے ان کی ایک ایسی تصویر بھی دیکھی ہے جس میں کوئی دوسرا شخص بھی بآسانی، بلا جد و جہد ایسا کر سکتا ہے۔

پہلے تو اداکارہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فنکار ایک public figure  ہوتا ہے اس لیے اسے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اگر آپ باپردہ یا با حجاب ہو کر (خاص کر شٹل کاک برقعے میں)  بازاروں میں گھومیں تو میں 100% ضمانت دینے کو تیار ہوں کہ چھونا تو درکنار کوئی آپ کی جانب نظر بھر کر بھی نہیں دیکھے گا۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ بعض اوقات ان کا لباس بھی ایسا ہوتا ہے جو لباس کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ عوام کا یہ رویہ بھی فنکار سے برداشت نہیں ہوتا۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ داد وصول کرنا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ ایسے بے شمار مناظر اسکرین پر نظر آتے ہیں جس میں مختلف مرد اداکار مذکورہ اداکارہ کو چھو تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ دیکھ کر عوام کا بھی اعتماد بڑھتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ ان کو چھو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

اب محترمہ اداکارہ سمیت ہم سب کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ عوام کو ایسی حرکتیں کرنے کی خود دعوت دی جاتی ہے بقول قابل اجمیری:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اس سے آپ پورے معاشرے پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اور ٹی وی پر ڈراموں میں ہیجان خیز لباس زیب تن کر کے جذباتی مناظر دکھانے کی وجہ سے بھی ہمارے معاشرے میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

 

اس لیے اس تحریر پر اسلامی انتہا پسندی کی مہر ثبت کرنے سے پہلے اس مسئلے پر ذرا غور فرما لیجیے۔

 

 

جمعرات، 9 ستمبر، 2021

اقوالِ یوسفی



  1. اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔ چراغ تلے
  2.  مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں۔ خاکم بدہن
  3.  دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتا ہے۔ آب گم
  4.  بیوی کو پیرس ڈھو کر لے جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ایورسٹ سر کرنے نکلے اور تھرماس میں گھر سے برف کی ڈلی رکھ کر لے جائے۔ خاکم بدہن
  5.  مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔ خاکم بدہن
  6.  پہاڑ اور ادھیڑ عورت دراصل آئل پینٹنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ انھیں ذرا فاصلے سے دیکھنا چاہیے۔ خاکم بدہن
  7.  عورت کی ایڑھی ہٹائو تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی۔ زرگزشت
  8.  ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوبصورتی کا راز ایک ہی ہے۔۔۔سفید رنگ۔ چراغ تلے
  9.  مرد کی پسند وہ پل صراط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔چراغ تلے
  10.  یورپ کی اور ہماری خواتین میں بڑا فرق ہے۔ یورپ میں جو لڑکی دور سے سترہ برس کی معلوم ہوتی ہے وہ قریب پہنچ کر ستر برس کی نکلتی ہے اور ہمارے ہاں جو خاتون دور سے ستر برس کی دکھائی پڑتی ہے وہ نزدیک آنے پر سترہ برس کی نکلتی ہے۔ خاکم بدہن
  11.  محبت اندھی ہوتی ہے۔ چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں ، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہووے ہے۔ آب گم جوان لڑکی کی ایڑھی میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ چلتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ آب گم
  12.  انسان خطائے نسواں کا پتلا ہے۔ آب گم 
  13. جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے، پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہو گی۔ آب گم
  14.  داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے۔ دل اور جوانی۔ آب گم
  15.  کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے۔ دور سے کھڑے کھڑے داد دینے کے لیے، بغل میں دبا کر لے جانے کے لیے نہیں۔ زرگزشت
  16.  چالیس کے پیٹے میں آنے کے بعد دال، کھٹائی، ہم عمروں کی صحبت اور آئینے سے پرہیز لازم ہے۔ زرگزشت
  17.  بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے اور چٹیا پہ ہاتھ رکھ کے سونا پڑتا ہے۔ زرگزشت

منگل، 7 ستمبر، 2021

بدلے بدلے مرے غم خوار نظر آتے ہیں | شکیل بدایونی




بدلے بدلے مرے غم خوار نظر آتے ہیں
 مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں

 کشتئ غیرت‌ احساس سلامت یا رب
 آج طوفان کے آثار نظر آتے ہیں

 انقلاب آیا نہ جانے یہ چمن میں کیسا
 غنچہ و گل مجھے تلوار نظر آتے ہیں

 جن کی آنکھوں سے چھلکتا تھا کبھی رنگ خلوص
 ان دنوں مائل تکرار نظر آتے ہیں

 جو سنا کرتے تھے ہنس ہنس کے کبھی نامۂ شوق
 اب مری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں

 ان کے آگے جو جھکی رہتی ہیں نظریں اپنی
 اس لیے ہم ہی خطاوار نظر آتے ہیں

 دشمن خوئے وفا رسم محبت کے حریف
 وہی کیا اور بھی دو چار نظر آتے ہیں

 جنس نایاب محبت کی خدا خیر کرے
 بوالہوس اس کے خریدار نظر آتے ہیں

 وقت کے پوجنے والے ہیں پجاری ان کے
 کوئی مطلب ہو تو غم خوار نظر آتے ہیں

 جائزہ دل کا اگر لو تو وفا سے خالی
 شکل دیکھو تو نمک خوار نظر آتے ہیں

 روز روشن میں اگر ان کو دکھاؤ تارے
 وہ یہ کہہ دیں گے کہ سرکار نظر آتے ہیں

 ہم نہ بدلے تھے نہ بدلے ہیں نہ بدلیں گے شکیلؔ
 ایک ہی رنگ میں ہر بار نظر آتے ہیں

شکیل بدایونی

جمعرات، 26 اگست، 2021

کراچی ٹریفک پولیس کا لاجواب ٹوکن سسٹم

پاکستان کا شمار دنیا کے ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں ہوتا ہے اور کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں۔ کراچی میں پورے پاکستان سے تلاشِ معاش میں آنے والے افراد بستے ہیں جن میں ہر قوم قبیلے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ ہے۔ ایسے شہر کا ٹریفک نظام چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لیکن خوش قسمتی سے ہمارے شہر کی ٹریفک پولیس میں موجود ’’باصلاحیت‘‘ فرہادوں کی تندہی کی وجہ سے یہ نظام موثر انداز میں چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے عرصے میں کچھ حقائق سامنے آئے جو مجھ جیسے کم عقل کو حیران کر دینے کے لیے کافی تھے۔ پچھلے مہینے میرا گزر کراچی کی مصروف ترین سڑک شارع فیصل سے گزرنا ہوا۔ اس سڑک پر کئی ٹریفک سیکشنز موجود ہیں، اور سرکار نے اہلکاروں کو گشت کے لیے کاریں فراہم کر رکھی ہیں۔ یہ کاریں گشت تو کم ہی کرتی ہیں اکثر مہینے کے اواخر اور اوائل میں کسی ایک مقام پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد گزرنے والی گاڑیوں کو ٹوکن کا اجرا شروع کیا جاتا ہے۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ گزرنے والی گاڑیوں کو بلاوجہ روکا جاتا ہے ۔ رکنے کے بعد اس پر کوئی بھی الزام دھر دیا جاتا ہے مثلاً غلط ڈرائیونگ وغیرہ اور چالان کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اگر وہ پرانا ڈرائیور ہوتا ہے جو اس نظام سے واقفیت رکھتا ہو تو وہ فوراً بولتا ہے کہ مجھے ٹوکن دے دو۔ اس کے بعد اس کی گاڑی کا نمبر ایک رجسٹر میں درج کر کے اسے ۲۰۰ روپے کے عوض ایک ٹوکن جاری کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد چاہے اس کی گاڑی چوری کی ہو، وہ غلط ڈرائیونگ کرے، کوئی ایکسیڈنٹ کر دے، اس ٹریفک سیکشن کی حدود میں اسے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ایسی کئی ویڈیوز منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ ذیل میں دیے گئے ویڈیو لنک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ٹریفک اہلکار کراچی ایئرپورٹ پر کھلے عام رشوت وصول کر رہا ہے۔ کیا اعلیٰ حکام ان حقائق سے بے خبر ہیں؟ اور اگر وہ واقعی بے خبر ہیں تو انھیں اس عہدے پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ یعنی وہ اس عہدے کے اہل ہی نہیں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ سرکاری گاڑی میں ایسی مجرمانہ حرکت کرنے کی ان کی ہمت کیسے ہوتی ہے۔ اور وہ اس کا ثبوت یعنی وہ رجسٹر بھی اپنی گاڑی میں رکھتے ہیں۔ خوفِ خدا تو بہت پیچھے رہ گیا کیا انھیں اپنے اعلیٰ حکام سے بھی خوف نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ صرف اسی گاڑی کو روکا جائے جس نے کوئی غلطی کی ہے اور اس غلطی کے مطابق اس کا چالان کر دیا جائے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، کمرشل گاڑیوں کے ان ڈرائیور حضرات جنھیں پورا شہر گھومنا ہوتا ہے پولیس سے بچنے کا ایک بڑا عمدہ حل نکالتے ہیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہی چوکی پر جا کر ازخود بلا جرم ۳۰۰ روپے کا چالان کٹوا لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پورا دن اسی چالان پر پورے شہر میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں، کیونکہ جس طرح نکاح پر نکاح نہیں کیا جا سکتا اسی طرح چالان پر چالان نہیں کیا جا سکتا۔ ٹریفک پولیس سے ہر بااصول فرد نالاں ہے چاہے وہ موٹر سائیکل چلاتا ہو یا ٹرک۔ کئی ایک واقعات ہیں اگر تحریر کرنے بیٹھوں تو کاغذ کم پڑ جائیں۔ میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ گاڑٰ کی دستاویزات اپنے ساتھ رکھنا فضول ہے کیوں کہ اگر کسی ٹریفک والے نے آپ کو روک لیا ہے تو چائے پانی لیے بغیر وہ آپ کو جانے نہیں دے گا۔ اب چاہے آپ کے پاس تمام کاغذات ہوں یا کچھ بھی نہ ہو۔ تبدیلی سرکار کو آئے تین سال گزر گئے لیکن غالب کی غزل یاد آتی ہے: کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا / Charagh Samnay Walay Makan Mein Bhi Na Tha

 

 چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
 یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

 جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
 وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا

 یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
 یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

 ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
 نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا

 جمالؔ پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ
 اسے بھی یاد نہ تھا میرے دھیان میں بھی نہ تھا

 جمال احسانی

بدھ، 25 اگست، 2021

Ravindra Kaushik / Major Nabi Ahmed Shakir

۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو اپنی آزادی سے ہی پاکستان اپنے پڑوسی ملک بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اس وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۴۸ ، ۱۹۶۵ ، ۱۹۷۱ اور ۱۹۹۹ میں جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں کے علاوہ بھی یہ دونوں ممالک ہمہ وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بھارت اپنے جاسوس پاکستان بھیجتا رہتا ہے لیکن پاکستانی خفیہ ادارےاس طرف سے ہمیشہ چوکس رہتے ہیں اور بھارت کے ان مذموم مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ پاکستان میں گرفتار ہونے والے مشہور بھارتی ایجنٹوں میں کشمیر سنگھ، سربجیت سنگھ، کلبھوشن یادو اور رویندرا کوشک عرف نبی احمد شاکر شامل ہیں۔ رویندرا کوشک ۱۱ اپریل ۱۹۵۲ کو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر سری گنگا نگر میں پیدا ہوا اور وہیں سے گریجویشن کا امتحا ن پاس کیا۔ اسے بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا ، اور اسی شوق کی تسکین کے لیے وہ اسٹیج پر اداکاری کیا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک ڈرامہ فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے وہ لکھنو گیا اور وہیں سے را کی نظر میں آگیا۔ اس فیسٹیول میں را کے افسران بھی موجود تھا جو اس کی اداکاری سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے اس کو خفیہ را ایجنٹ بن کر پاکستان میں کام کرنے کی پیشکش کر دی۔ رویندرا نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اس کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔ دو سال کی اس بھرپور تربیت کے دوران اس کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی دی گئیں۔اور اسے پوری طرح مسلمان ظاہر کرنے کے لیے اس کی ختنہ بھی کی گئی۔ اسے پاکستان کے بارے میں مکمل معلومات دی گئیں اور اسے پاکستان کے راستوں کے بارے میں بتایا گیا۔ چونکہ اس کا تعلق راجستھان سے تھا اس لیے وہ پنجابی زبان پر بھی پورا عبور رکھتا تھا جو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ۱۹۷۵ میں ۲۳ سال کی عمر میں وہ نبی احمد شاکر کے نقلی نام (cover name)سے پاکستان میں داخل ہو گیا۔ پاکستان آ کر وہ جامعہ کراچی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور LLBکا امتحان پاس کر لیا۔ اس کے بعد اس نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گیا۔ اور بحیثیت کلرک فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اس نے فوج میں رہتے ہوئے ہی دوبارہ کمیشن کے لیے کوشش کی اور اس بار کامیاب ہو گیا۔ اور فوج میں میجر کے عہدے تک پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے پاک فوج کی ایک یونٹ میں درزی کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک شخص کی بیٹی امانت سے شادی بھی کر لی جس سے اس کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ جو بالآخر ۲۰۱۳ میں مر گیا۔ ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۳ تک پاک فوج میں بحیثیت افسر ملازمت کرتے ہوئے اس نے بہت سی قیمتی خفیہ معلومات بھارت کو پہنچائیں۔ جس پر اسے اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایس بی چوہان نے بلیک ٹائیگر کا لقب دیا۔ ستمبر ۱۹۸۳ میں بھارت نے ایک چھوٹے عہدے کے ایجنٹ عنایت مسیح کو رویندرا سے رابطہ کرنے کے لیے بھیجا ۔ لیکن عنایت مسیح کو پاکستانی خفیہ ایجنسیISI کے Joint Counterintelligence Bureauنے گرفتار کر لیا۔ اور اسی وجہ سے رویندرا کوشک کا پردہ فاش ہو گیا۔ اس کے بعد رویندرا کو گرفتار کر کے اس سے دو سال تک تفتیش کی جاتی رہی۔ ۱۹۸۵ میں اس کو سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن بعد ازاں اس کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ اسے ۱۶ سال تک پاکستان کی مختلف جیلوں بشمول کوٹ لکھپت، میانوالی اور سیالکوٹ جیل میں رکھا گیا۔ اس دوران وہ بھارت میں مقیم اپنے خاندان کو خفیہ طور کچھ خطوط بھیجنے میں کامیاب ہو گیا۔ جن میں اس نے اپنی گرتی ہوئی صحت اور اپنے ساتھ جیلوں میں پیش آنےو الے حالات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ایک خط میں اس نے اپنی بھارتی حکومت سے شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کیا بھارت جیسے بڑے دیش کے لیے قربانی دینے والوں کو یہی ملتا ہے؟‘‘ بالآخر نومبر ۲۰۰۱ میں تپ دق اور امراضِ قلب میں مبتلا ہو کر یہ جاسوس میانوالی جیل میں مر گیا۔ رویندرا کے خاندان والوں کے مطابق بھارت نے نہ صرف اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس کی کوئی مدد بھی نہیں کی۔

منگل، 24 اگست، 2021

ثروت گیلانی نے راکھی باندھی!




ایک لڑکی کی شادی مچھیروں میں ہو گئی۔ جب وہ پہلے دن ان کی بستی میں آی تو اسے بہت بد بو محسوس ہوئی لیکن چند دنوں بعد اس نے لوگوں سے کہا کہ میں نے اس بستی کی بدبو ختم کردی۔ ماحول کے اثرات ضرور قبول کرنے چاہییں لیکن اس حد تک نہیں کہ اس ماحول کی برائیاں آپ کو برائیاں ہی نہ لگیں۔

 معروف ٹی وی اداکارہ محترمہ ثروت گیلانی صاحبہ نے اپنے ہندو باورچی گنیش کو راکھی باندھ کران کے ساتھ رکھشا بندھن کا تہوار منایا! مسلمان ہوتے ہوئے اس تہوار کو باقاعدہ انداز میں منانے کی ضرورت انھیں کیوں پیش آئی۔ مانا کہ اقلیتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ہمیں ان حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور انھیں ادا بھی کرنا چاہیے۔ لیکن ان کے تہوار اپنانا تو سراسر غلط ہے۔

 یہ حرکت کر کے انھوں نے پاکستان کی بنیاد بننے والے دو قومی نظریے پر کاری ضرب لگانے کی ناکام کوشش کی ہے یونی وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہیں کہ ہم ہندوئوں کے ساتھ بھی اس حد تک گھل مل کر رہ سکتے ہیں۔ اس حرکت سے ان کی اپنے مذہب سے دوری کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ تہوار منا رہی ہیں، اگر وہ کسی غیر ملک میں ہوتیں تو شاید اپنا مذہب ہی تبدیل کر چکی ہوتیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد کتنے کمزور ہیں۔

 یہ بہت اچھی بات ہے کہ انھوں نے ایک ہندو کو اپنے گھر میں ملازمت دی لیکن اس کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے عقائد اپنا لینا کس حد تک درست ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی ہندو یا عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم نے عید کے موقعے پر مسلمانوں کے ساتھ نمازِ عید ادا کی ہے۔ نہیں! ایسا کبھی نہیں ہوا۔ محترمہ کی اس حرکت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے ان کا جھکائو کس طرف ہے۔ یہ تہوار مناتے ہوئے ان کا ننھا صاحبزادہ بھی پاکستان کا پرچم لیے ان کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اس کو کیا تربیت مل رہی ہے، یہی کہ ہم رکھشا بندھن منا سکتے ہیں۔ یعنی وہ بھی اسی ڈگر پر چلے گا اور ممکن ہے کہ دو یا تین نسلوں کے بعد ان کا مذہب ہی تبدیل ہو جائے۔ ایسا واقعات رونما ہو چکے ہیں اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔

اگر انھیں ہندو مذہب سے اتنا ہی لگائو ہے تو انھیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ انھیں کس مذہب کی پیروی کرنی ہے۔۔۔۔

پیر، 23 اگست، 2021

Ayesha Akram herself is responsible for Minar Pakistan tragedy!

You must have seen the video of the tragic incident that took place on August 14, 2021 at Minar Pakistan.

Regarding the motives of Ayesha Akram behind this incident, it can be said at present that she made this move to gain cheap fame.

But the biggest culprit of this tragedy is Ayesha Akram herself and that  mob also who is not even worthy to be called a human being.

The first thing is that the lady herself sent a message through Tik Tok and invited her followers there. At the beginning of the video, it can be seen that the lady arrives at The Greater Iqbal Park in a very good mood. She looks at the crowd and starts flying kisses.

She doesn't mind when people around her surround her to take pictures with her, and she happily takes selfies with them. One person even puts his hand on her chest and makes a picture. Which they have no objection to. When you allow a man to put his hand on your chest, then why would a man refrain from going further.

On this occasion, a famous couplet of Akbar Allahabadi comes to mind:

تہذیب مغربی میں ہے بوسے تلک معاف 


اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے

And in the end, the people there tore the lady's clothes and snatched her jewellery.

What this mob did was completely wrong and they should be punished for this crime. But the question is how this turn came. In a society where even a goat is not safe and raped by five people which is on record. The dead bodies are not safe. In 2008, a deceased was raped inside a grave in Karachi. A few weeks earlier, a similar incident took place in Lahore in which the culprit was killed in a police encounter. So in this environment, Ms. Ayesha first attracted the male crowd and provoked them, as a result of which this incident took place. Therefore, the first FIR should be filed against Ayesha for harassing men with flying kisses. In addition, he has sought to garner sympathy and gain international fame and attention through the tragedy. In which our media is also giving their full support. Was she the only woman in the whole Iqbal Park? No, there were many other women but why did all this happen to them? Because that's what she wanted.

Zahra Bibi, the first Pakistani taxi driver recipient of awards from the United Kingdom and the United States, was also interviewed on the occasion, in which she said that she has been driving a taxi for the last 35 years but no such incident has happened to her. She even said that once she was taking a taxi to Swat when she was stopped by the Taliban on the way and she introduced herself. The Taliban said that you will definitely stay here on your return. And on her return they filled his whole car with rations and various things and said that whenever you vist here you must take these gifts from us. He said that no man could look at a woman with a dirty eye unless she wanted to.

The majority of our country is blaming the mob of these 400 people and demanding their punishment but not saying anything to Tik Toker Ayesha which is completely wrong. Ayesha's mistake caused this incident to happen.

سانحہ مینار پاکستان کی ذمے دار خود عائشہ اکرم ہی ہے!


 14اگست 2021ء کو مینار پاکستان پر پیش آنے والے افسوسناک واقعے کی ویڈیو آپ نے دیکھی ہی ہو گی۔ اس واقعے کے پیچھے عائشہ اکرم کے کیا مقاصد تھے ان کے متعلق تو فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے یہ حرکت کی۔
 لیکن اس سانحے کی سب سے بڑی ذمے دار خود عائشہ اکرم ہے اور اس کے بعد وہ ہجوم جو وہاں موجود اور وہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔
 پہلی بات تو یہ کہ محترمہ نے خود ٹک ٹاک کے ذریعے پیغام دے کر اپنے فالوئرز کو دعوت دے کر وہاں بلوایا۔ ویڈیو کے آغاز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت اچھے موڈ میں محترمہ کی گریٹر اقبال پارک میں آمد ہوتی ہے۔ وہ ہجوم کو دیکھ کر فلائنگ کسسز کرنے لگتی ہیں۔ جب وہاں موجود لوگ ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لیے انھیں گھیر لیتے ہیں تو بھی انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور وہ بخوشی ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک شخص ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنواتا ہے۔ جس پر انھیں کوئی اعترض نہیں ہوتا۔ جب آپ نے کسی مرد کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھنے کی اجازت دے دی تو پھر مرد مزید آگے بڑھنے سے کیوں کر باز رہے گا۔
 اس موقعے پر اکبر الہٰ آبادی کا شعر یاد آتا ہے کہ:
 تہذیب مغربی میں ہے بوسے تلک معاف
 اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے
 اور بالآخر یہی ہوا کہ وہاں موجود افراد نے محترمہ کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے اور زیورات چھین لیے۔
 اس ہجوم نے جو کچھ کیا وہ سراسر غلط تھا اور انھیں اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نوبت کیسے آئی ۔ اس معاشرے میں جہاں ایک بے زبان بکری تک محفوظ نہیں اور اس کے ساتھ بھی پانچ افراد نے زیادتی کر دی جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ میتیں محفوظ نہیں۔ 2008 میں کراچی میں ایک میت کے ساتھ قبرستان میں قبر کے اندر زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد کچھ ہفتے پہلے لاہور میں بھی اس قسم کا واقعہ رونما ہوا جس کا مجرم پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ تو اس ماحول میں محترمہ عائشہ نے انھیں پہلے تو اپنی طرف متوجہ کیا اور اکسایا جس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس لیے سب سے پہلیFIRعائشہ کے خلاف کٹنی چاہیے کہ انھوں نے فلاینگ کسسز کر کے مردوں کو ہراساں کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس سانحے کے ذریعے ہمدردی سمیٹنے اور بین الاقوامی شہرت اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں ہمارا میڈیا بھی انکا پورا پورا ساتھ دے رہا ہے۔ کیا پورے اقبال پارک میں یہی اکلوتی خاتون تھیں؟ نہیں وہاں کئی اور خواتین بھی موجود تھیں لیکن یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ کیونکہ وہ خود یہی کچھ چاہتی تھیں۔
 اس موقعے پر برطانیہ اور امریکا سے ایوارڈز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خاتون زہرہ بی بی کا بھی انٹرویو لیا گیا جس میں انھوں نے بتایا کہ گزشتہ 35برسوں سے وہ ٹیکسی چلا رہی ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ وہ ٹیکسی لے کر سوات جا رہی تھیں تو راستے میں انھیں طالبان نے روکا جس پر انھوں نے اپنا تعارف کروایا۔ طالبان نے کہا کہ واپسی پر آپ یہاں ضرور رکیے گا۔ اور واپسی پر انھوں نے ان کی پوری گاڑی راشن اور مختلف چیزوں سے بھر دی اور کہا کہ آئندہ جب بھی یہاں آئیں تو ہم سے یہ تحائف ضرور لے کر جائیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب تک عورت خود نہ چاہے کوئی مرد اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
 ہمارے ملک کی اکثریت اس ۴۰۰ افراد کے ہجوم پر تو ملامت کر رہی ہے اور انکو سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے لیکن عائشہ ٹک ٹاکر کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ سب سے بڑی غلطی ہی عائشہ کی ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔

منگل، 18 مئی، 2021

ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...! از عنایت علی خان

 ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...!


زباں پر جب مریضِ ہجر فریا دِلی لایا
وفورِ غم سے یوں تڑپا عناصر کو ترس آیا
زمیں سے آہ اٹھی اور فلک نے خون برسایا
اثر تو چارہ گر پر بھی ہوا لیکن یہ فرمایا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مجھے ہمسائے کے گھر میں جونہی شعلے نظر آئے
تو قبل اس سے کہ یہ آتش مرے گھر تک پہنچ جائے
بہ عجلت تھانے اور فائر بریگیڈ فون کھڑکائے
مگر دونوں جگہ سے یہ جواب لا جواب آئے
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

ابھی پچھلے دنوں جب ایک تاجر ہو گیا اغوا
اور اس اغوا کا اخباروں میں شدت سے ہوا چرچا
خود اس کے گھر میں تو گویا قیامت ہو گئی برپا
رپٹ لکھوانے تھانے پہنچے تو ایس ایچ او بولا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مِرا اک دوست مدت بعد مجھ سے ملنے آیا کل
یہیں دل کا پڑا دورہ تو میں بھی ہو گیا بیکل
وہ بولا تیسرا دورہ ہے دل کے وارڈ میں لے چل
وہاں پہنچے تو بولا ڈاکٹر کچھ سوچ کو اک پل
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

اور اُس دولھا کا قصہ آپ نے بھی تو سنا ہو گا
اسے جب آرسی مصحف کی خاطر گھر میں بلوایا
کہ لڑکا اندر آئے اور دلھن کا دیکھ لے چہرا
تو دروازے پہ پہنچا اور یہ کہہ کر پلٹ آیا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!