traffic token system لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
traffic token system لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جمعرات، 26 اگست، 2021
کراچی ٹریفک پولیس کا لاجواب ٹوکن سسٹم
پاکستان کا شمار دنیا کے ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں ہوتا ہے اور کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں۔ کراچی میں پورے پاکستان سے تلاشِ معاش میں آنے والے افراد بستے ہیں جن میں ہر قوم قبیلے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ ہے۔ ایسے شہر کا ٹریفک نظام چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لیکن خوش قسمتی سے ہمارے شہر کی ٹریفک پولیس میں موجود ’’باصلاحیت‘‘ فرہادوں کی تندہی کی وجہ سے یہ نظام موثر انداز میں چل رہا ہے۔
اس سلسلے میں پچھلے عرصے میں کچھ حقائق سامنے آئے جو مجھ جیسے کم عقل کو حیران کر دینے کے لیے کافی تھے۔ پچھلے مہینے میرا گزر کراچی کی مصروف ترین سڑک شارع فیصل سے گزرنا ہوا۔ اس سڑک پر کئی ٹریفک سیکشنز موجود ہیں، اور سرکار نے اہلکاروں کو گشت کے لیے کاریں فراہم کر رکھی ہیں۔
یہ کاریں گشت تو کم ہی کرتی ہیں اکثر مہینے کے اواخر اور اوائل میں کسی ایک مقام پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد گزرنے والی گاڑیوں کو ٹوکن کا اجرا شروع کیا جاتا ہے۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ گزرنے والی گاڑیوں کو بلاوجہ روکا جاتا ہے ۔ رکنے کے بعد اس پر کوئی بھی الزام دھر دیا جاتا ہے مثلاً غلط ڈرائیونگ وغیرہ اور چالان کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اگر وہ پرانا ڈرائیور ہوتا ہے جو اس نظام سے واقفیت رکھتا ہو تو وہ فوراً بولتا ہے کہ مجھے ٹوکن دے دو۔ اس کے بعد اس کی گاڑی کا نمبر ایک رجسٹر میں درج کر کے اسے ۲۰۰ روپے کے عوض ایک ٹوکن جاری کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد چاہے اس کی گاڑی چوری کی ہو، وہ غلط ڈرائیونگ کرے، کوئی ایکسیڈنٹ کر دے، اس ٹریفک سیکشن کی حدود میں اسے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
ایسی کئی ویڈیوز منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ ذیل میں دیے گئے ویڈیو لنک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ٹریفک اہلکار کراچی ایئرپورٹ پر کھلے عام رشوت وصول کر رہا ہے۔
کیا اعلیٰ حکام ان حقائق سے بے خبر ہیں؟ اور اگر وہ واقعی بے خبر ہیں تو انھیں اس عہدے پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ یعنی وہ اس عہدے کے اہل ہی نہیں۔
میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ سرکاری گاڑی میں ایسی مجرمانہ حرکت کرنے کی ان کی ہمت کیسے ہوتی ہے۔ اور وہ اس کا ثبوت یعنی وہ رجسٹر بھی اپنی گاڑی میں رکھتے ہیں۔ خوفِ خدا تو بہت پیچھے رہ گیا کیا انھیں اپنے اعلیٰ حکام سے بھی خوف نہیں آتا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ صرف اسی گاڑی کو روکا جائے جس نے کوئی غلطی کی ہے اور اس غلطی کے مطابق اس کا چالان کر دیا جائے۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے، کمرشل گاڑیوں کے ان ڈرائیور حضرات جنھیں پورا شہر گھومنا ہوتا ہے پولیس سے بچنے کا ایک بڑا عمدہ حل نکالتے ہیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہی چوکی پر جا کر ازخود بلا جرم ۳۰۰ روپے کا چالان کٹوا لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پورا دن اسی چالان پر پورے شہر میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں، کیونکہ جس طرح نکاح پر نکاح نہیں کیا جا سکتا اسی طرح چالان پر چالان نہیں کیا جا سکتا۔
ٹریفک پولیس سے ہر بااصول فرد نالاں ہے چاہے وہ موٹر سائیکل چلاتا ہو یا ٹرک۔ کئی ایک واقعات ہیں اگر تحریر کرنے بیٹھوں تو کاغذ کم پڑ جائیں۔ میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ گاڑٰ کی دستاویزات اپنے ساتھ رکھنا فضول ہے کیوں کہ اگر کسی ٹریفک والے نے آپ کو روک لیا ہے تو چائے پانی لیے بغیر وہ آپ کو جانے نہیں دے گا۔ اب چاہے آپ کے پاس تمام کاغذات ہوں یا کچھ بھی نہ ہو۔
تبدیلی سرکار کو آئے تین سال گزر گئے لیکن غالب کی غزل یاد آتی ہے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)