صفحات

منگل، 8 مارچ، 2022

پاکستان کی صف اول کی اداکارہ کے ساتھ شاپنگ مال میں سرعام۔۔۔

 پاکستان کی صفِ اول کی اداکارہ عزت مآب محترمہ ۔۔۔ صاحبہ کے ساتھ پچھلے دنوں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جس نے ان کا پورا ایک دن برباد کر دیا۔

وہ ہوا کچھ یوں کہ محترمہ ایک شاپنگ مال میں مزے سے اپنا مال اڑا رہی تھیں (شاپنگ کرتے ہوئے) کہ کسی خاتون نے ان کو متوجہ کرنے کے لیے ان کے بالوں کو چھونے کی گستاخی کر لی۔ جو شدید ردعمل محترمہ کی طرف سے آیا اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک قابل گردن زدنی جرم ہے اور اس جرم کی سزا خاتون کو ضرور ملنی چاہیے۔ انھوں نے فرمایا کہ خاتون کی طرف سے ان کے بالوں کو (سر کے)  چھوئے جانے کی وجہ سے ان  (اداکارہ) کا پورا دن خراب ہو گیا۔ اس سے آگے انھوں نے فرمایا کہ اگر مذکورہ خاتون ان کے پری چہرے کو ہاتھ لگانے کی گستاخی کر بیٹھتیں تو شاید ان کا پورا ہفتہ ہی خراب گزرتا۔

یہ تمام اعتراضات بالکل درست ہیں۔ کسی خاتون کو بغیر اجازت چھونا حتیٰ کہ دیکھنا بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔ چھونے والی خاتون کو یقیناً اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔

لیکن ان کو سزا دلوانے کے ساتھ ساتھ مذکورہ اداکارہ کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے، گو کہ اس کے لیے انھیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی کیوں کہ راقم نے ان کی ایک ایسی تصویر بھی دیکھی ہے جس میں کوئی دوسرا شخص بھی بآسانی، بلا جد و جہد ایسا کر سکتا ہے۔

پہلے تو اداکارہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فنکار ایک public figure  ہوتا ہے اس لیے اسے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اگر آپ باپردہ یا با حجاب ہو کر (خاص کر شٹل کاک برقعے میں)  بازاروں میں گھومیں تو میں 100% ضمانت دینے کو تیار ہوں کہ چھونا تو درکنار کوئی آپ کی جانب نظر بھر کر بھی نہیں دیکھے گا۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ بعض اوقات ان کا لباس بھی ایسا ہوتا ہے جو لباس کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ عوام کا یہ رویہ بھی فنکار سے برداشت نہیں ہوتا۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ داد وصول کرنا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ ایسے بے شمار مناظر اسکرین پر نظر آتے ہیں جس میں مختلف مرد اداکار مذکورہ اداکارہ کو چھو تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ دیکھ کر عوام کا بھی اعتماد بڑھتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ ان کو چھو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

اب محترمہ اداکارہ سمیت ہم سب کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ عوام کو ایسی حرکتیں کرنے کی خود دعوت دی جاتی ہے بقول قابل اجمیری:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اس سے آپ پورے معاشرے پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اور ٹی وی پر ڈراموں میں ہیجان خیز لباس زیب تن کر کے جذباتی مناظر دکھانے کی وجہ سے بھی ہمارے معاشرے میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

 

اس لیے اس تحریر پر اسلامی انتہا پسندی کی مہر ثبت کرنے سے پہلے اس مسئلے پر ذرا غور فرما لیجیے۔

 

 

جمعرات، 9 ستمبر، 2021

اقوالِ یوسفی



  1. اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔ چراغ تلے
  2.  مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں۔ خاکم بدہن
  3.  دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتا ہے۔ آب گم
  4.  بیوی کو پیرس ڈھو کر لے جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ایورسٹ سر کرنے نکلے اور تھرماس میں گھر سے برف کی ڈلی رکھ کر لے جائے۔ خاکم بدہن
  5.  مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔ خاکم بدہن
  6.  پہاڑ اور ادھیڑ عورت دراصل آئل پینٹنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ انھیں ذرا فاصلے سے دیکھنا چاہیے۔ خاکم بدہن
  7.  عورت کی ایڑھی ہٹائو تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی۔ زرگزشت
  8.  ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوبصورتی کا راز ایک ہی ہے۔۔۔سفید رنگ۔ چراغ تلے
  9.  مرد کی پسند وہ پل صراط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔چراغ تلے
  10.  یورپ کی اور ہماری خواتین میں بڑا فرق ہے۔ یورپ میں جو لڑکی دور سے سترہ برس کی معلوم ہوتی ہے وہ قریب پہنچ کر ستر برس کی نکلتی ہے اور ہمارے ہاں جو خاتون دور سے ستر برس کی دکھائی پڑتی ہے وہ نزدیک آنے پر سترہ برس کی نکلتی ہے۔ خاکم بدہن
  11.  محبت اندھی ہوتی ہے۔ چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں ، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہووے ہے۔ آب گم جوان لڑکی کی ایڑھی میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ چلتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ آب گم
  12.  انسان خطائے نسواں کا پتلا ہے۔ آب گم 
  13. جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے، پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہو گی۔ آب گم
  14.  داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے۔ دل اور جوانی۔ آب گم
  15.  کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے۔ دور سے کھڑے کھڑے داد دینے کے لیے، بغل میں دبا کر لے جانے کے لیے نہیں۔ زرگزشت
  16.  چالیس کے پیٹے میں آنے کے بعد دال، کھٹائی، ہم عمروں کی صحبت اور آئینے سے پرہیز لازم ہے۔ زرگزشت
  17.  بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے اور چٹیا پہ ہاتھ رکھ کے سونا پڑتا ہے۔ زرگزشت

منگل، 7 ستمبر، 2021

بدلے بدلے مرے غم خوار نظر آتے ہیں | شکیل بدایونی




بدلے بدلے مرے غم خوار نظر آتے ہیں
 مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں

 کشتئ غیرت‌ احساس سلامت یا رب
 آج طوفان کے آثار نظر آتے ہیں

 انقلاب آیا نہ جانے یہ چمن میں کیسا
 غنچہ و گل مجھے تلوار نظر آتے ہیں

 جن کی آنکھوں سے چھلکتا تھا کبھی رنگ خلوص
 ان دنوں مائل تکرار نظر آتے ہیں

 جو سنا کرتے تھے ہنس ہنس کے کبھی نامۂ شوق
 اب مری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں

 ان کے آگے جو جھکی رہتی ہیں نظریں اپنی
 اس لیے ہم ہی خطاوار نظر آتے ہیں

 دشمن خوئے وفا رسم محبت کے حریف
 وہی کیا اور بھی دو چار نظر آتے ہیں

 جنس نایاب محبت کی خدا خیر کرے
 بوالہوس اس کے خریدار نظر آتے ہیں

 وقت کے پوجنے والے ہیں پجاری ان کے
 کوئی مطلب ہو تو غم خوار نظر آتے ہیں

 جائزہ دل کا اگر لو تو وفا سے خالی
 شکل دیکھو تو نمک خوار نظر آتے ہیں

 روز روشن میں اگر ان کو دکھاؤ تارے
 وہ یہ کہہ دیں گے کہ سرکار نظر آتے ہیں

 ہم نہ بدلے تھے نہ بدلے ہیں نہ بدلیں گے شکیلؔ
 ایک ہی رنگ میں ہر بار نظر آتے ہیں

شکیل بدایونی

جمعرات، 26 اگست، 2021

کراچی ٹریفک پولیس کا لاجواب ٹوکن سسٹم

پاکستان کا شمار دنیا کے ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں ہوتا ہے اور کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں۔ کراچی میں پورے پاکستان سے تلاشِ معاش میں آنے والے افراد بستے ہیں جن میں ہر قوم قبیلے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ ہے۔ ایسے شہر کا ٹریفک نظام چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لیکن خوش قسمتی سے ہمارے شہر کی ٹریفک پولیس میں موجود ’’باصلاحیت‘‘ فرہادوں کی تندہی کی وجہ سے یہ نظام موثر انداز میں چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے عرصے میں کچھ حقائق سامنے آئے جو مجھ جیسے کم عقل کو حیران کر دینے کے لیے کافی تھے۔ پچھلے مہینے میرا گزر کراچی کی مصروف ترین سڑک شارع فیصل سے گزرنا ہوا۔ اس سڑک پر کئی ٹریفک سیکشنز موجود ہیں، اور سرکار نے اہلکاروں کو گشت کے لیے کاریں فراہم کر رکھی ہیں۔ یہ کاریں گشت تو کم ہی کرتی ہیں اکثر مہینے کے اواخر اور اوائل میں کسی ایک مقام پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد گزرنے والی گاڑیوں کو ٹوکن کا اجرا شروع کیا جاتا ہے۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ گزرنے والی گاڑیوں کو بلاوجہ روکا جاتا ہے ۔ رکنے کے بعد اس پر کوئی بھی الزام دھر دیا جاتا ہے مثلاً غلط ڈرائیونگ وغیرہ اور چالان کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اگر وہ پرانا ڈرائیور ہوتا ہے جو اس نظام سے واقفیت رکھتا ہو تو وہ فوراً بولتا ہے کہ مجھے ٹوکن دے دو۔ اس کے بعد اس کی گاڑی کا نمبر ایک رجسٹر میں درج کر کے اسے ۲۰۰ روپے کے عوض ایک ٹوکن جاری کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد چاہے اس کی گاڑی چوری کی ہو، وہ غلط ڈرائیونگ کرے، کوئی ایکسیڈنٹ کر دے، اس ٹریفک سیکشن کی حدود میں اسے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ایسی کئی ویڈیوز منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ ذیل میں دیے گئے ویڈیو لنک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ٹریفک اہلکار کراچی ایئرپورٹ پر کھلے عام رشوت وصول کر رہا ہے۔ کیا اعلیٰ حکام ان حقائق سے بے خبر ہیں؟ اور اگر وہ واقعی بے خبر ہیں تو انھیں اس عہدے پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ یعنی وہ اس عہدے کے اہل ہی نہیں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ سرکاری گاڑی میں ایسی مجرمانہ حرکت کرنے کی ان کی ہمت کیسے ہوتی ہے۔ اور وہ اس کا ثبوت یعنی وہ رجسٹر بھی اپنی گاڑی میں رکھتے ہیں۔ خوفِ خدا تو بہت پیچھے رہ گیا کیا انھیں اپنے اعلیٰ حکام سے بھی خوف نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ صرف اسی گاڑی کو روکا جائے جس نے کوئی غلطی کی ہے اور اس غلطی کے مطابق اس کا چالان کر دیا جائے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، کمرشل گاڑیوں کے ان ڈرائیور حضرات جنھیں پورا شہر گھومنا ہوتا ہے پولیس سے بچنے کا ایک بڑا عمدہ حل نکالتے ہیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہی چوکی پر جا کر ازخود بلا جرم ۳۰۰ روپے کا چالان کٹوا لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پورا دن اسی چالان پر پورے شہر میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں، کیونکہ جس طرح نکاح پر نکاح نہیں کیا جا سکتا اسی طرح چالان پر چالان نہیں کیا جا سکتا۔ ٹریفک پولیس سے ہر بااصول فرد نالاں ہے چاہے وہ موٹر سائیکل چلاتا ہو یا ٹرک۔ کئی ایک واقعات ہیں اگر تحریر کرنے بیٹھوں تو کاغذ کم پڑ جائیں۔ میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ گاڑٰ کی دستاویزات اپنے ساتھ رکھنا فضول ہے کیوں کہ اگر کسی ٹریفک والے نے آپ کو روک لیا ہے تو چائے پانی لیے بغیر وہ آپ کو جانے نہیں دے گا۔ اب چاہے آپ کے پاس تمام کاغذات ہوں یا کچھ بھی نہ ہو۔ تبدیلی سرکار کو آئے تین سال گزر گئے لیکن غالب کی غزل یاد آتی ہے: کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا / Charagh Samnay Walay Makan Mein Bhi Na Tha

 

 چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
 یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

 جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
 وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا

 یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
 یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

 ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
 نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا

 جمالؔ پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ
 اسے بھی یاد نہ تھا میرے دھیان میں بھی نہ تھا

 جمال احسانی

بدھ، 25 اگست، 2021

Ravindra Kaushik / Major Nabi Ahmed Shakir

۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو اپنی آزادی سے ہی پاکستان اپنے پڑوسی ملک بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اس وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۴۸ ، ۱۹۶۵ ، ۱۹۷۱ اور ۱۹۹۹ میں جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں کے علاوہ بھی یہ دونوں ممالک ہمہ وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بھارت اپنے جاسوس پاکستان بھیجتا رہتا ہے لیکن پاکستانی خفیہ ادارےاس طرف سے ہمیشہ چوکس رہتے ہیں اور بھارت کے ان مذموم مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ پاکستان میں گرفتار ہونے والے مشہور بھارتی ایجنٹوں میں کشمیر سنگھ، سربجیت سنگھ، کلبھوشن یادو اور رویندرا کوشک عرف نبی احمد شاکر شامل ہیں۔ رویندرا کوشک ۱۱ اپریل ۱۹۵۲ کو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر سری گنگا نگر میں پیدا ہوا اور وہیں سے گریجویشن کا امتحا ن پاس کیا۔ اسے بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا ، اور اسی شوق کی تسکین کے لیے وہ اسٹیج پر اداکاری کیا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک ڈرامہ فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے وہ لکھنو گیا اور وہیں سے را کی نظر میں آگیا۔ اس فیسٹیول میں را کے افسران بھی موجود تھا جو اس کی اداکاری سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے اس کو خفیہ را ایجنٹ بن کر پاکستان میں کام کرنے کی پیشکش کر دی۔ رویندرا نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اس کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔ دو سال کی اس بھرپور تربیت کے دوران اس کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی دی گئیں۔اور اسے پوری طرح مسلمان ظاہر کرنے کے لیے اس کی ختنہ بھی کی گئی۔ اسے پاکستان کے بارے میں مکمل معلومات دی گئیں اور اسے پاکستان کے راستوں کے بارے میں بتایا گیا۔ چونکہ اس کا تعلق راجستھان سے تھا اس لیے وہ پنجابی زبان پر بھی پورا عبور رکھتا تھا جو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ۱۹۷۵ میں ۲۳ سال کی عمر میں وہ نبی احمد شاکر کے نقلی نام (cover name)سے پاکستان میں داخل ہو گیا۔ پاکستان آ کر وہ جامعہ کراچی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور LLBکا امتحان پاس کر لیا۔ اس کے بعد اس نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گیا۔ اور بحیثیت کلرک فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اس نے فوج میں رہتے ہوئے ہی دوبارہ کمیشن کے لیے کوشش کی اور اس بار کامیاب ہو گیا۔ اور فوج میں میجر کے عہدے تک پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے پاک فوج کی ایک یونٹ میں درزی کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک شخص کی بیٹی امانت سے شادی بھی کر لی جس سے اس کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ جو بالآخر ۲۰۱۳ میں مر گیا۔ ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۳ تک پاک فوج میں بحیثیت افسر ملازمت کرتے ہوئے اس نے بہت سی قیمتی خفیہ معلومات بھارت کو پہنچائیں۔ جس پر اسے اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایس بی چوہان نے بلیک ٹائیگر کا لقب دیا۔ ستمبر ۱۹۸۳ میں بھارت نے ایک چھوٹے عہدے کے ایجنٹ عنایت مسیح کو رویندرا سے رابطہ کرنے کے لیے بھیجا ۔ لیکن عنایت مسیح کو پاکستانی خفیہ ایجنسیISI کے Joint Counterintelligence Bureauنے گرفتار کر لیا۔ اور اسی وجہ سے رویندرا کوشک کا پردہ فاش ہو گیا۔ اس کے بعد رویندرا کو گرفتار کر کے اس سے دو سال تک تفتیش کی جاتی رہی۔ ۱۹۸۵ میں اس کو سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن بعد ازاں اس کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ اسے ۱۶ سال تک پاکستان کی مختلف جیلوں بشمول کوٹ لکھپت، میانوالی اور سیالکوٹ جیل میں رکھا گیا۔ اس دوران وہ بھارت میں مقیم اپنے خاندان کو خفیہ طور کچھ خطوط بھیجنے میں کامیاب ہو گیا۔ جن میں اس نے اپنی گرتی ہوئی صحت اور اپنے ساتھ جیلوں میں پیش آنےو الے حالات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ایک خط میں اس نے اپنی بھارتی حکومت سے شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کیا بھارت جیسے بڑے دیش کے لیے قربانی دینے والوں کو یہی ملتا ہے؟‘‘ بالآخر نومبر ۲۰۰۱ میں تپ دق اور امراضِ قلب میں مبتلا ہو کر یہ جاسوس میانوالی جیل میں مر گیا۔ رویندرا کے خاندان والوں کے مطابق بھارت نے نہ صرف اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس کی کوئی مدد بھی نہیں کی۔

منگل، 24 اگست، 2021

ثروت گیلانی نے راکھی باندھی!




ایک لڑکی کی شادی مچھیروں میں ہو گئی۔ جب وہ پہلے دن ان کی بستی میں آی تو اسے بہت بد بو محسوس ہوئی لیکن چند دنوں بعد اس نے لوگوں سے کہا کہ میں نے اس بستی کی بدبو ختم کردی۔ ماحول کے اثرات ضرور قبول کرنے چاہییں لیکن اس حد تک نہیں کہ اس ماحول کی برائیاں آپ کو برائیاں ہی نہ لگیں۔

 معروف ٹی وی اداکارہ محترمہ ثروت گیلانی صاحبہ نے اپنے ہندو باورچی گنیش کو راکھی باندھ کران کے ساتھ رکھشا بندھن کا تہوار منایا! مسلمان ہوتے ہوئے اس تہوار کو باقاعدہ انداز میں منانے کی ضرورت انھیں کیوں پیش آئی۔ مانا کہ اقلیتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ہمیں ان حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور انھیں ادا بھی کرنا چاہیے۔ لیکن ان کے تہوار اپنانا تو سراسر غلط ہے۔

 یہ حرکت کر کے انھوں نے پاکستان کی بنیاد بننے والے دو قومی نظریے پر کاری ضرب لگانے کی ناکام کوشش کی ہے یونی وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہیں کہ ہم ہندوئوں کے ساتھ بھی اس حد تک گھل مل کر رہ سکتے ہیں۔ اس حرکت سے ان کی اپنے مذہب سے دوری کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ تہوار منا رہی ہیں، اگر وہ کسی غیر ملک میں ہوتیں تو شاید اپنا مذہب ہی تبدیل کر چکی ہوتیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد کتنے کمزور ہیں۔

 یہ بہت اچھی بات ہے کہ انھوں نے ایک ہندو کو اپنے گھر میں ملازمت دی لیکن اس کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے عقائد اپنا لینا کس حد تک درست ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی ہندو یا عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم نے عید کے موقعے پر مسلمانوں کے ساتھ نمازِ عید ادا کی ہے۔ نہیں! ایسا کبھی نہیں ہوا۔ محترمہ کی اس حرکت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے ان کا جھکائو کس طرف ہے۔ یہ تہوار مناتے ہوئے ان کا ننھا صاحبزادہ بھی پاکستان کا پرچم لیے ان کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اس کو کیا تربیت مل رہی ہے، یہی کہ ہم رکھشا بندھن منا سکتے ہیں۔ یعنی وہ بھی اسی ڈگر پر چلے گا اور ممکن ہے کہ دو یا تین نسلوں کے بعد ان کا مذہب ہی تبدیل ہو جائے۔ ایسا واقعات رونما ہو چکے ہیں اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔

اگر انھیں ہندو مذہب سے اتنا ہی لگائو ہے تو انھیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ انھیں کس مذہب کی پیروی کرنی ہے۔۔۔۔