جمعہ، 29 دسمبر، 2017
امیر بچے کی دعا از مجید لاہوری
امیر بچے کی دعا
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی سیٹھ کی صورت ہو خدایا میری
’’لیاری کوارٹر‘‘ میں مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
میرے ’’چیمبر‘‘ میں اُجالا ہی اُجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے کلب کی زینت
جس طرح چاند سے ہو جاتی ہے شب کی زینت
زندگی ہو مری ’’قارون‘‘ کی صورت یارب
’’نیشنل بینک‘‘ سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام امیروں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے غریبوں سے عداوت کرنا
میرے اللہ! بھلائی سے بچانا مجھ کو
جو بُری راہ ہو، بس اس پہ چلانا مجھ کو
مولوی صاحب کا خواب از راجا مہدی علی خان
مولوی صاحب کا خواب
دیکھا مَیں نے جس کو چُھپ کے
اپنے حُجرے کی کھڑکی سے
جس کے لیے تعویذ کرائے
ندّی نالوں میں ڈلوائے
اس کے گھر میں جا پہنچا ہوں
بالکل اُس کے پاس کھڑا ہوں
گھر میں بیٹھی ہے وہ اکیلی
ماں ہے پاس، نہ کوئی سہیلی
پردہ اُس نے چھوڑ دیا ہے
بُرقعہ اُس کا دُور گِرا ہے
چہرے پر خوشبودار پسینہ
اَلّھڑ جوبن، باغی سینہ
گوری گوری چنچل باہیں
وصل کی خواہاں شوخ نگاہیں
سر پر لا کر ہاتھ حنائی
لے کر اک دل پھینک انگڑائی
کہتی ہے ’’چھوڑو قاضی واضی
میں بھی راضی، تم بھی راضی!‘‘
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے از ذوق
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہو عمرِ خضر بھی تو ہو معلوم وقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بدقمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
لیلیٰ کا ناقہ دشت میں تاثیر عشق سے
سن کر فغانِ قیس بجائے ُحدی چلے
نازاں نہ ہوخرد پہ جو ہونا ہے ہو وہی
دانش تری نہ کچھ مری دانش وری چلے
جمعرات، 28 دسمبر، 2017
گمنام سپاہی
گمنام سپاہی
میں ایک گمنام سپاہی ہوں
مجھے نہیں معلوم میں نے کس کے لیے جاں دی
کس نے میرے نام کے تمغے اپنی چھاتی پہ سجائے
کس نے اپنی حکومت میری لاش پہ قائم کی
میں ایک گمنام سپاہی ہوں
ہر قومی دن پر بادشاہ میری فرضی قبر پر پھول چڑھاتے ہیں
میری اصلی قبر کہاں ہے یہ مجھے بھی معلوم نہیں
کیونکہ میں ایک گمنام سپاہی ہوں
ایک دن بالکل نہ میں اے چارہ گر اچھا ہوا از ذوق
ایک دن بالکل نہ میں اے چارہ گر اچھا ہوا
داغ اِدھر تازہ ہوا گر زخم اُدھر اچھا ہوا
کھینچ گیا میری طرف سے اور اس دلبر کا دل
واہ وا جذبِ محبت کا اثر اچھا ہوا
قتل کرتا ہے ترا بسمل سے یہ کہنا کہ لو
اب تو دامن بھی ہوا لو ہو سے تر اچھا ہوا
نامہ بر جاتا ہے جا جلدی چلی جان حزیں
دیر مت کر ساتھ تیرے ہم سفر اچھا ہوا
آئینہ خانہ میں عالم کے سمجھ لے یہ مثال
تا تجھے جانیں کہ یہ صاحب نظر اچھا ہوا
ہے برا تو ہی اگر آیا نظر تجھ کو برا
تو ہی اچھا ہے تجھے معلوم گر اچھا ہوا
ذوق کے مرنے کی سن کر پہلے تو کچھ رک گئے
پھر کہا تو یہ کہا منہ پھیر کر اچھا ہوا
وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا از ذوق
وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اُف نہیں کرتا
کیا قہر ہے، وقفہ ہے ابھی آنے میں اس کے
اور دم مرا، جانے میں، توقف نہیں کرتا
پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنوان
جب تک کہ وہ مضموں میں تصرف نہیں کرتا
اے ذوق تکلف میں، ہے تکلیف، سراسر
آرام میں ہے، وہ، جو تکلف نہیں کرتا
سبسکرائب کریں در:
تبصرے (Atom)