صفحات

منگل، 26 دسمبر، 2017

کیا کیا مصیبتیں ہیں دلِ پُر محن کے ساتھ از ذوق

کیا کیا مصیبتیں ہیں دلِ پُر محن کے ساتھ
اک زخم تازہ روز ہے زخمِ کہن کے ساتھ
ہے اُن کا سادہ پن بھی تو اک بانکپن کے ساتھ
سیدھی سی بات بھی ہے تو کیا کیا پھبن کے ساتھ
ہوش و خرد گئے نگہِ سحر فن کے ساتھ
اب جو ہے اپنی بات سو دیوانہ پن کے ساتھ
تیرے تصورِ قدِ رعنا میں آج ہم
کیا کیا لپٹ کے روئے ہیں سرو چمن کے ساتھ
پایا درِ اثر نہ کہیں رات بھر پھری
سر مارتی یہ آہ سپہرِ کہن کے ساتھ
اللہ رے تابِ حسن کہ اس کا درِ بلاق
چشمک زنی کرے ہے سہیل یمن کے ساتھ
دستِ جنوں نہ دے تجھے ناخن خدا کہ تو
ٹکڑے اُڑا دے تن کے مرے پیرہن کے ساتھ
دیکھا نہ گل سے نکہتِ گل کر گئی سفر
خانہ بدوش کو نہیں اُلفت وطن کے ساتھ
افسردہ دل کے واسطے کیا چاندنی کا لطف
لپٹا پڑا ہے مردہ سا گویا کفن کے ساتھ
دوزخ میں بھی پڑیں تو نہ سیدھے ہوں کج سرشت
سو پیچ و تاب آگ میں بھی ہیں رسن کے ساتھ
منظور کب ہے تجھ کو یہ اے آفتابِ حسن
ہو کوئی تیرہ بخت ترا سایہ بن کے ساتھ
داغِ دلِ فسردہ پہ پھاہا نہیں نہ ہو
مطلب چراغِ مردہ کو کب ہے کفن کے ساتھ
جلد آ کہ مر نہ جائے کوئی خانماں خراب
ٹکرا کے اپنا سر درِ بیت الحزن کے ساتھ
مشکل ہے ذوق قیدِ تعلق سے چھوٹنا
جب تک کہ روح کو ہے علاقہ بدن کے ساتھ

مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ از ذوق

مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ
تو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
ساتھ اپنے ہے اب فوجِ الم اور زیادہ
کر تو بھی بلند آہ علم اور زیادہ
تیز اس نے جو کی تیغِ ستم اور زیادہ
مشتاقِ شہادت ہوئے ہم اور زیادہ
سرکٹ کے سر افراز ہیں ہم اور زیادہ
جوں شاخ بڑھے ہو کے قلم اور زیادہ
گر شرحِ جنوں کیجے رقم اور زیادہ
ہو چاک ابھی جیبِ قلم اور زیادہ
دیتا ہے وہ دم باز جو دم اور زیادہ
شیشے کی طرح پھولے ہیں ہم اور زیادہ
لذت سے محبت کی ہے ہر زخم جگر کو
ذوقِ نمک و درد و الم اور زیادہ
کرنے کو سیہ نہ ورقِ چرخ کو اے دل
نالے سے نہیں کوئی قلم اور زیادہ
کیا ہووے گا دو چار قدح سے مجھے ساقی
میں لوں گا ترے سر کی قسم اور زیادہ
گر میری طرح دوش پہ ہو بارِ محبت
ہو پشتِ فلک میں ابھی خم اور زیادہ
دشمن کی نہ جا سیدھی نگاہوں پہ کہ جوں تیغ
سیدھی ہے تو اک اُس میں ہے خم اور زیادہ
پیٹوں سر بستر پہ پڑا پاؤں کہاں تک
بس پاؤں نہ پھیلا شبِ غم اور زیادہ
وہ دل کو چرا کر جو لگے آنکھ چرانے
یاروں کا گیا اُن پہ بھرم اور زیادہ
دکھلائے جو وہ صید فگن چشم کی شوخی
ہو آہوئے رم دیدہ کو رم اور زیادہ
لیتے ہیں ثمر شاخِ ثمرور کو جھکا کر
جھکتے ہیں سخی وقتِ کرم اور زیادہ
اے خنجرِ خوں خوار نہ برش میں کمی کر
ہاں تجھ کو مرے سر کی قسم اور زیادہ
چالیس قدم ساتھ وہ تابوت کے آئے
کیا ہو جو بڑھیں چند قدم اور زیادہ
سرعت ہے ابھی نبض میں جوں موجِ رمِ برق
کیا ہو گا جو ہو گی تپِ غم اور زیادہ
کہتا ہے مرا شوقِ جراحت کہ صد افسوس
اس تیغِ دو دم میں نہیں دم اور زیادہ
جو کنجِ قناعت میں ہیں تقدیر پہ شاکر
ہے ذوق برابر انھیں کم اور زیادہ

x

بدھ، 20 دسمبر، 2017

جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے از راجہ مہدی علی خان

جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
تباہی تو ہمارے دل پہ آئی آپ کیوں روئے
ہمارا درد و غم ہے یہ اِسے کیوں آپ سہتے ہیں
یہ کیوں آنسو ہمارے آپ کی آنکھوں سے بہتے ہیں
غموں کی آگ ہم نے خود لگائی آپ کیوں روئے
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
بہت روئے مگر اب آپ کی خاطر نہ روئیں گے
نہ اپنا چین کھو کر آپ کا ہم چین کھوئیں گے
قیامت آپ کے اشکوں نے ڈھائی آپ کیوں روئے
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
نہ یہ آنسو رُکے تو دیکھیے پھر ہم بھی رو دیں گے
ہم اپنے آنسوئوں میں چاند تاروں کو ڈبو دیں گے
فنا ہو جائے گی ساری خدائی آپ کیوں روئے
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی از مومن

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
کہا ہے غیر نے تم سے مرا حال
کہے دیتی ہے بے باکی ادا کی
مجھے اے دل تری جلدی نے مارا
نہیں تقصیر اس دیر آشنا کی
جفا سے تھک گئے تو بھی نہ پوچھا
کہ تو نے کس توقع پر وفا کی
کہا اس بت سے جب مرتا ہے مومن
کہا میں کیا کروں مرضی خدا کی

منگل، 19 دسمبر، 2017

اس طپش کا ہے مزہ دل ہی کو حاصل ہوتا از ذوق

اس طپش کا ہے مزہ دل ہی کو حاصل ہوتا
کاش میں عشق میں سر تا بہ قدم، دل ہوتا
چین پیشانی اگر تیری نہ ہوتی زنجیر
نالہ دیوانہ تھا جو پا بہ سلاسل ہوتا
موت نے کر دیا لاچار وگرنہ انساں
ہے وہ خود بیں کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا
آپ، آئینۂ ہستی میں، ہے تو اپنا حریف
ورنہ یاں کون تھا جو تیرے مقابل ہوتا
سینۂ چرخ میں، ہرا اختر اگر دل ہے تو کیا
ایک دل ہوتا مگر درد کے قابل ہوتا
ہے تری عُقدہ کشائی تو یداللہ کے ہاتھ
ذوق وا کیوں نہ ترا عقدۂ مشکل ہوتا