صفحات

جمعہ، 15 دسمبر، 2017

بول...... از فیض احمد فیض


بول......


بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے

تیرا سُتواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے

دیکھ کہ آہن گر کی دکان میں
تُند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن

کھُلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اِک زنجیر کا دامن

بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!

رقیب سے ! از فیض احمد فیض

رقیب سے !


آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی اُلفت میں بھُلا رکھی دُنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سُود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی ، وہ رخسار ، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گِنواؤں تو گِنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جُز ترے اور سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی 
یاس و حرمان کے ، دُکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رُخِ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بِلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتواں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عُقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بِکتا ہے بازار میں مزدُور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہُو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

بدھ، 13 دسمبر، 2017

ضرورتِ رشتہ اور تصویریں از راجہ مہدی علی خان

ضرورتِ رشتہ اور تصویریں
(۱)
ممی اِس سے نہیں، توبہ! کروں گی قدر خاک اس کی
مجھے لگتا ہے ڈر اس سے بہت لمبی ہے ناک اس کی
ہوئی شادی تو پہلا کام؟ میں ڈائی وورس مانگوں گی
میں اُس کی ناک پر کیا اپنا اوور کوٹ ٹانگوں گی
نہیں بابا، نہیں بابا
(۲)
یہ اچکن پہنے بیٹھے ہیں غلط بولیں گے انگریزی
ہلاکو جیسی آنکھیں ہیں نگاہیں اِن کی چنگیزی
میں کوئی مُلک ہُوں جو مجھ پہ حملہ کرنے آئے ہو
میاں جائو! مَیں اِک تلوار ہوں کیوں مرنے آئے ہو
نہیں جچتے، نہیں جچتے
(۳)
’’وٹامن بی‘‘ کی کچھ اس میں کمی معلوم ہوتی ہے
میرے اللہ نبض اس کی تھمی معلوم ہوتی ہے
میں بیٹ کرتی ہوں امّی ہو گا یہ بیمار برسوں سے
بچارا مطمئن ہو گا کم از کم چار نرسوں سے
نہیں امّی، نہیں امّی
(۴)
بہت خط اس نے بھیجے ایک بھی بھیجا نہ لَو لیٹر
میں پچھلے ویک اِس سے کر چکی ہوں ڈراپ یہ میٹر
میاں تم مشرقی اور مغربی ہے خاندان اپنا
میں باز آئی محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا
نہیں جمتے، نہیں جمتے
(۵)
ممی غنڈہ ہے یہ اور نام ہے بی اے شریف اس کا
شراب اور بدمعاشی میں نہیں کوئی حریف اِس کا
اِدھر یہ ڈال کر ڈورے مجھے اپنا بنا لے گا
ہو تم بھی خوبصورت، یہ نظر تم پر بھی ڈالے گا
’’اری لڑکی، اری لڑکی‘‘
(۶)
یہ اس کے منھ پہ ’’مسٹر دُر پھٹے منھ‘‘ کس نے لِکھ ڈالا؟
یہ میرا کام تھا لیکن شرارت کر گئی خالہ
ذرا ٹھیرو میں اس کے ساتھ خالہ کو پھنسائوں گی
اِسی خالہ کو ’’بیگم دُر پھٹے مُنھ‘‘ میں بنائوں گی
’’اری لڑکی، اری لڑکی‘‘
(۷)
یہ ایل ایل بی ہے پر اللہ بچائے اِن وکیلوں سے
یہ ہر اِک بات منوا لے گا قانونی دلیلوں سے
مجھے ڈائی وو رس یہ بائی فورس دے سکتا ہے حیلوں سے
میرا گھر لُوٹ لے گا قرقیوں سے اور اپیلوں سے
نہیں دیکھو، پرے پھینکو
(۸)
یہ شاعر ہے، یہ ہر لڑکی کو آہیں بھر کے تکتا ہے
جب اُکتا جائے گا کہہ دے گا ’’میڈم تجھ میں سکتا ہے‘‘
کرے گا شاعری دن بھر، نہیں پیسہ کمائے گا
یہ بھوکا رہ کے راتوں کو گرہ مجھ پر لگائے گا
نہیں امّی، نہیں امّی
(۹)
ارے یہ ڈاکٹر نبضیں حسینوں کی ٹٹولے گا
گنے گا دھڑکنیں دل کی، گریبانوں کو کھولے گا
شریکِ زندگی بن کر میں جینے کو تو جی لوں گی
جو اس پر شک ہُوا میں ٹنکچر آیوڈین پی لوں گی
نہیں بابا، نہیں بابا

(۱۰)
ممی اب بَس کرو بَس بَس غلط ہیں سب یہ تدبیریں
محبت میں نہ کام آتیں ہیں تصویریں نہ تقریریں!
جو سچ پوچھو شرابِ عشق سِپ کرتی رہی ہُوں میں
وہی اچھا ہے جس سے کورٹ شِپ کرتی رہی ہوں میں
بہت اچھّا
بہت اچھّا

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا از ذوق

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا، نہیں آتا نہیں آتا

دیتا، دلِ مُضطر کو، تری کچھ تو نشانی
پر خط بھی ترے ہاتھ کا لکھا نہیں آتا

آتا ہے دم آنکھوں میں دم حسرتِ دیدار
پر لب پہ کبھی حرف تمنا نہیں آتا

ہستی سے زیادہ ہے کچھ آرام عدم میں
جو جاتا ہے یاں سے وہ دوبارا نہیں آتا

قسمت ہی سے لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ
سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا

منتخب الحکایات: حکایت نمبر ۲

منگل، 12 دسمبر، 2017

نثار میں تیری گلیوں کے....... از فیض احمد فیض

 نثار میں تیری گلیوں کے.......

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کے دستِ بہانہ جُو کے لیے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدّعی بھی ، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
چمک اُٹھے ہیں سَلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رُخ پر بکھر گئی ہو گی
غرض تصوّرِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایۂ دیوار و دَر میں جیتے ہیں

یونہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی رِیت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھُول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جُدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جُدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خُدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں