صفحات

منگل، 12 دسمبر، 2017

اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا از فیض احمد فیض

تنہائی



پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا ، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزر
اجنبی خاک نے دُھندلا دیئے قدموں کے سُراغ
گُل کرو شمعیں ، بڑھا دو مَے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفّل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے از فیض احمد فیض

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے 

ویراں ہے میکدہ ، خم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ رُوٹھ گئے دن بہار کے

اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

بھولے سے مسکرا تو دئے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے

پیر، 11 دسمبر، 2017

کلرک از سید محمد جعفری

کلرک



خالق نے  جب ازل میں بنایا کلرک کو
لوح و قلم کا جلوہ دِکھایا کلرک کو
کُرسی پہ پھر اُٹھایا بٹھایا کلرک کو
افسر کے ساتھ پِن سے لگایا کلرک کو
مٹی گدھے کی ڈال کر اُس کی سرِشت میں
داخل مشقتوں کو کِیا سرنوشت میں
چپڑاسی ساتھ خُلد میں جب لے گیا اُسے
حُوروں نے کچھ مذاق کِیے کچھ ملک ہنسے
ہاتف کی دفعتاً یہ صَدا آئی غیب سے
’’دیکھو اِسے جو دیدئہ عبرت نِگاہ ہے‘‘
آدم کا رف ڈرافٹ ہے،کب تک ہنسو گے تم
اَپروو ہو کر آیا تو سجدہ کرو گے تم


جنّت میں فائلیں ہیں نہ ہے کوئی ڈائری
حُوریں تو جانتی ہیں فقط طرزِ دلبری
غلماں سے کچھ کہو تو سُنائے کھری کھری
یہ انتظام ہے یہ ڈسپلن ہے دفتری
مَیں سوچتا ہوں کیا کروں ایسی بہشت کو
’’ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو‘‘
خُلدِ بریں کو ناز تھا اپنے مکین پر
اور یہ بھی تھے مٹے ہوئے اک حورِ عین پر
لالچ کی مہر کندہ تھی دل کے نگین پر
ٹی اے وصول کرنے کو اُترا زمین پر
ابلیس راستے میں مِلا کچھ سِکھا دیا
اُترا فلک سے تھرڈ میں انٹر لکھا دیا
رکھا قدم کلرک نے جس دم زمین پر
دیکھا ہر ایک چیز ہے قُدرت کے دین پر
بولا کہ مَیں تو زندہ رہوں گا روٹین پر
مجھ پر مشین ہوگی مَیں ہوں گا مشین پر
اِس آ ہنی صنم کی عبادت ہے مجھ پہ فرض
نوکر ہوں بادشاہ کا جیتا ہوں لے کے قرض


اے سیکریٹریٹ کی عمارت ذرا بتا
اُس وقت جب کہ جاتے ہیں افسر بھی بوکھلا
ہوتا ہے کون کشتیِ فائل کا ناخدا
افسر نہیں ہیں اِس کی حقیقت سے آشنا
پر ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان ہیں کلرک


دریائے ریڈ ٹیپ کا طوفان ہیں کلرک 

یہ دنیا از ساحر لدھیانوی

یہ دنیا


یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دُنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دُنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دُنیا
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
ہر اک جسم گھائل ہر اک رُوح پیاسی
نگاہوں میں اُلجھن دِلوں میں اُداسی
یہ دُنیا ہے یا عالم بدحواسی
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہاں اِک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مُردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو جیون سے ہے موت سَستی
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جوانی بھٹکتی ہے بدکار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جلا دو اِسے پھونک ڈالو یہ دُنیا
مِرے سامنے سے ہٹا لو یہ دُنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دُنیا
یہ دُنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے 

خوبصورت موڑ از ساحر لدھیانوی

خوبصورت موڑ




چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی اُمید رکھوں دِل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دِل کی دھڑکن لڑکھڑائے تیری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی اُلجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رُسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بُھولنا بہتر
تعلّق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے ... 

منتخب الحکایات: حکایت ۱

ہمارا ملک از ابن انشا

ایران میں کون رہتا ہے؟
ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے۔
انگلستان میں کون رہتا ہے؟
انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے۔
فرانس میں کون رہتا ہے؟
فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے۔
یہ کون سا ملک ہے؟
یہ پاکستان ہے۔
اس میں پاکستانی قوم رہتی ہو گی؟
اس میں سندھی قوم رہتی ہے۔
اس میں پنجابی قوم رہتی ہے۔
اس میں بنگالی قوم رہتی ہے۔
اس میں یہ قوم رہتی ہے۔
اس میں وہ قوم رہتی ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
پھر یہ الگ ملک کیوں بنایا تھا
غلطی ہو گئی معاف کر دیجیے آئندہ نہیں بنائیں گے۔