صفحات

جمعرات، 26 اگست، 2021

کراچی ٹریفک پولیس کا لاجواب ٹوکن سسٹم

پاکستان کا شمار دنیا کے ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں ہوتا ہے اور کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں۔ کراچی میں پورے پاکستان سے تلاشِ معاش میں آنے والے افراد بستے ہیں جن میں ہر قوم قبیلے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ ہے۔ ایسے شہر کا ٹریفک نظام چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لیکن خوش قسمتی سے ہمارے شہر کی ٹریفک پولیس میں موجود ’’باصلاحیت‘‘ فرہادوں کی تندہی کی وجہ سے یہ نظام موثر انداز میں چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے عرصے میں کچھ حقائق سامنے آئے جو مجھ جیسے کم عقل کو حیران کر دینے کے لیے کافی تھے۔ پچھلے مہینے میرا گزر کراچی کی مصروف ترین سڑک شارع فیصل سے گزرنا ہوا۔ اس سڑک پر کئی ٹریفک سیکشنز موجود ہیں، اور سرکار نے اہلکاروں کو گشت کے لیے کاریں فراہم کر رکھی ہیں۔ یہ کاریں گشت تو کم ہی کرتی ہیں اکثر مہینے کے اواخر اور اوائل میں کسی ایک مقام پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد گزرنے والی گاڑیوں کو ٹوکن کا اجرا شروع کیا جاتا ہے۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ گزرنے والی گاڑیوں کو بلاوجہ روکا جاتا ہے ۔ رکنے کے بعد اس پر کوئی بھی الزام دھر دیا جاتا ہے مثلاً غلط ڈرائیونگ وغیرہ اور چالان کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اگر وہ پرانا ڈرائیور ہوتا ہے جو اس نظام سے واقفیت رکھتا ہو تو وہ فوراً بولتا ہے کہ مجھے ٹوکن دے دو۔ اس کے بعد اس کی گاڑی کا نمبر ایک رجسٹر میں درج کر کے اسے ۲۰۰ روپے کے عوض ایک ٹوکن جاری کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد چاہے اس کی گاڑی چوری کی ہو، وہ غلط ڈرائیونگ کرے، کوئی ایکسیڈنٹ کر دے، اس ٹریفک سیکشن کی حدود میں اسے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ایسی کئی ویڈیوز منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ ذیل میں دیے گئے ویڈیو لنک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ٹریفک اہلکار کراچی ایئرپورٹ پر کھلے عام رشوت وصول کر رہا ہے۔ کیا اعلیٰ حکام ان حقائق سے بے خبر ہیں؟ اور اگر وہ واقعی بے خبر ہیں تو انھیں اس عہدے پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ یعنی وہ اس عہدے کے اہل ہی نہیں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ سرکاری گاڑی میں ایسی مجرمانہ حرکت کرنے کی ان کی ہمت کیسے ہوتی ہے۔ اور وہ اس کا ثبوت یعنی وہ رجسٹر بھی اپنی گاڑی میں رکھتے ہیں۔ خوفِ خدا تو بہت پیچھے رہ گیا کیا انھیں اپنے اعلیٰ حکام سے بھی خوف نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ صرف اسی گاڑی کو روکا جائے جس نے کوئی غلطی کی ہے اور اس غلطی کے مطابق اس کا چالان کر دیا جائے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، کمرشل گاڑیوں کے ان ڈرائیور حضرات جنھیں پورا شہر گھومنا ہوتا ہے پولیس سے بچنے کا ایک بڑا عمدہ حل نکالتے ہیں۔ وہ گھر سے نکلتے ہی چوکی پر جا کر ازخود بلا جرم ۳۰۰ روپے کا چالان کٹوا لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پورا دن اسی چالان پر پورے شہر میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں، کیونکہ جس طرح نکاح پر نکاح نہیں کیا جا سکتا اسی طرح چالان پر چالان نہیں کیا جا سکتا۔ ٹریفک پولیس سے ہر بااصول فرد نالاں ہے چاہے وہ موٹر سائیکل چلاتا ہو یا ٹرک۔ کئی ایک واقعات ہیں اگر تحریر کرنے بیٹھوں تو کاغذ کم پڑ جائیں۔ میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ گاڑٰ کی دستاویزات اپنے ساتھ رکھنا فضول ہے کیوں کہ اگر کسی ٹریفک والے نے آپ کو روک لیا ہے تو چائے پانی لیے بغیر وہ آپ کو جانے نہیں دے گا۔ اب چاہے آپ کے پاس تمام کاغذات ہوں یا کچھ بھی نہ ہو۔ تبدیلی سرکار کو آئے تین سال گزر گئے لیکن غالب کی غزل یاد آتی ہے: کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا / Charagh Samnay Walay Makan Mein Bhi Na Tha

 

 چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
 یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

 جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
 وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا

 یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
 یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

 ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
 نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا

 جمالؔ پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ
 اسے بھی یاد نہ تھا میرے دھیان میں بھی نہ تھا

 جمال احسانی

بدھ، 25 اگست، 2021

Ravindra Kaushik / Major Nabi Ahmed Shakir

۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو اپنی آزادی سے ہی پاکستان اپنے پڑوسی ملک بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اس وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۴۸ ، ۱۹۶۵ ، ۱۹۷۱ اور ۱۹۹۹ میں جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں کے علاوہ بھی یہ دونوں ممالک ہمہ وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بھارت اپنے جاسوس پاکستان بھیجتا رہتا ہے لیکن پاکستانی خفیہ ادارےاس طرف سے ہمیشہ چوکس رہتے ہیں اور بھارت کے ان مذموم مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ پاکستان میں گرفتار ہونے والے مشہور بھارتی ایجنٹوں میں کشمیر سنگھ، سربجیت سنگھ، کلبھوشن یادو اور رویندرا کوشک عرف نبی احمد شاکر شامل ہیں۔ رویندرا کوشک ۱۱ اپریل ۱۹۵۲ کو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر سری گنگا نگر میں پیدا ہوا اور وہیں سے گریجویشن کا امتحا ن پاس کیا۔ اسے بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا ، اور اسی شوق کی تسکین کے لیے وہ اسٹیج پر اداکاری کیا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک ڈرامہ فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے وہ لکھنو گیا اور وہیں سے را کی نظر میں آگیا۔ اس فیسٹیول میں را کے افسران بھی موجود تھا جو اس کی اداکاری سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے اس کو خفیہ را ایجنٹ بن کر پاکستان میں کام کرنے کی پیشکش کر دی۔ رویندرا نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اس کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔ دو سال کی اس بھرپور تربیت کے دوران اس کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی دی گئیں۔اور اسے پوری طرح مسلمان ظاہر کرنے کے لیے اس کی ختنہ بھی کی گئی۔ اسے پاکستان کے بارے میں مکمل معلومات دی گئیں اور اسے پاکستان کے راستوں کے بارے میں بتایا گیا۔ چونکہ اس کا تعلق راجستھان سے تھا اس لیے وہ پنجابی زبان پر بھی پورا عبور رکھتا تھا جو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ۱۹۷۵ میں ۲۳ سال کی عمر میں وہ نبی احمد شاکر کے نقلی نام (cover name)سے پاکستان میں داخل ہو گیا۔ پاکستان آ کر وہ جامعہ کراچی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور LLBکا امتحان پاس کر لیا۔ اس کے بعد اس نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گیا۔ اور بحیثیت کلرک فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اس نے فوج میں رہتے ہوئے ہی دوبارہ کمیشن کے لیے کوشش کی اور اس بار کامیاب ہو گیا۔ اور فوج میں میجر کے عہدے تک پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے پاک فوج کی ایک یونٹ میں درزی کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک شخص کی بیٹی امانت سے شادی بھی کر لی جس سے اس کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ جو بالآخر ۲۰۱۳ میں مر گیا۔ ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۳ تک پاک فوج میں بحیثیت افسر ملازمت کرتے ہوئے اس نے بہت سی قیمتی خفیہ معلومات بھارت کو پہنچائیں۔ جس پر اسے اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایس بی چوہان نے بلیک ٹائیگر کا لقب دیا۔ ستمبر ۱۹۸۳ میں بھارت نے ایک چھوٹے عہدے کے ایجنٹ عنایت مسیح کو رویندرا سے رابطہ کرنے کے لیے بھیجا ۔ لیکن عنایت مسیح کو پاکستانی خفیہ ایجنسیISI کے Joint Counterintelligence Bureauنے گرفتار کر لیا۔ اور اسی وجہ سے رویندرا کوشک کا پردہ فاش ہو گیا۔ اس کے بعد رویندرا کو گرفتار کر کے اس سے دو سال تک تفتیش کی جاتی رہی۔ ۱۹۸۵ میں اس کو سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن بعد ازاں اس کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ اسے ۱۶ سال تک پاکستان کی مختلف جیلوں بشمول کوٹ لکھپت، میانوالی اور سیالکوٹ جیل میں رکھا گیا۔ اس دوران وہ بھارت میں مقیم اپنے خاندان کو خفیہ طور کچھ خطوط بھیجنے میں کامیاب ہو گیا۔ جن میں اس نے اپنی گرتی ہوئی صحت اور اپنے ساتھ جیلوں میں پیش آنےو الے حالات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ایک خط میں اس نے اپنی بھارتی حکومت سے شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کیا بھارت جیسے بڑے دیش کے لیے قربانی دینے والوں کو یہی ملتا ہے؟‘‘ بالآخر نومبر ۲۰۰۱ میں تپ دق اور امراضِ قلب میں مبتلا ہو کر یہ جاسوس میانوالی جیل میں مر گیا۔ رویندرا کے خاندان والوں کے مطابق بھارت نے نہ صرف اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس کی کوئی مدد بھی نہیں کی۔

منگل، 24 اگست، 2021

ثروت گیلانی نے راکھی باندھی!




ایک لڑکی کی شادی مچھیروں میں ہو گئی۔ جب وہ پہلے دن ان کی بستی میں آی تو اسے بہت بد بو محسوس ہوئی لیکن چند دنوں بعد اس نے لوگوں سے کہا کہ میں نے اس بستی کی بدبو ختم کردی۔ ماحول کے اثرات ضرور قبول کرنے چاہییں لیکن اس حد تک نہیں کہ اس ماحول کی برائیاں آپ کو برائیاں ہی نہ لگیں۔

 معروف ٹی وی اداکارہ محترمہ ثروت گیلانی صاحبہ نے اپنے ہندو باورچی گنیش کو راکھی باندھ کران کے ساتھ رکھشا بندھن کا تہوار منایا! مسلمان ہوتے ہوئے اس تہوار کو باقاعدہ انداز میں منانے کی ضرورت انھیں کیوں پیش آئی۔ مانا کہ اقلیتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ہمیں ان حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور انھیں ادا بھی کرنا چاہیے۔ لیکن ان کے تہوار اپنانا تو سراسر غلط ہے۔

 یہ حرکت کر کے انھوں نے پاکستان کی بنیاد بننے والے دو قومی نظریے پر کاری ضرب لگانے کی ناکام کوشش کی ہے یونی وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہیں کہ ہم ہندوئوں کے ساتھ بھی اس حد تک گھل مل کر رہ سکتے ہیں۔ اس حرکت سے ان کی اپنے مذہب سے دوری کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ تہوار منا رہی ہیں، اگر وہ کسی غیر ملک میں ہوتیں تو شاید اپنا مذہب ہی تبدیل کر چکی ہوتیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد کتنے کمزور ہیں۔

 یہ بہت اچھی بات ہے کہ انھوں نے ایک ہندو کو اپنے گھر میں ملازمت دی لیکن اس کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے عقائد اپنا لینا کس حد تک درست ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی ہندو یا عیسائی یا کسی بھی غیر مسلم نے عید کے موقعے پر مسلمانوں کے ساتھ نمازِ عید ادا کی ہے۔ نہیں! ایسا کبھی نہیں ہوا۔ محترمہ کی اس حرکت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے ان کا جھکائو کس طرف ہے۔ یہ تہوار مناتے ہوئے ان کا ننھا صاحبزادہ بھی پاکستان کا پرچم لیے ان کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اس کو کیا تربیت مل رہی ہے، یہی کہ ہم رکھشا بندھن منا سکتے ہیں۔ یعنی وہ بھی اسی ڈگر پر چلے گا اور ممکن ہے کہ دو یا تین نسلوں کے بعد ان کا مذہب ہی تبدیل ہو جائے۔ ایسا واقعات رونما ہو چکے ہیں اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔

اگر انھیں ہندو مذہب سے اتنا ہی لگائو ہے تو انھیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ انھیں کس مذہب کی پیروی کرنی ہے۔۔۔۔

پیر، 23 اگست، 2021

Ayesha Akram herself is responsible for Minar Pakistan tragedy!

You must have seen the video of the tragic incident that took place on August 14, 2021 at Minar Pakistan.

Regarding the motives of Ayesha Akram behind this incident, it can be said at present that she made this move to gain cheap fame.

But the biggest culprit of this tragedy is Ayesha Akram herself and that  mob also who is not even worthy to be called a human being.

The first thing is that the lady herself sent a message through Tik Tok and invited her followers there. At the beginning of the video, it can be seen that the lady arrives at The Greater Iqbal Park in a very good mood. She looks at the crowd and starts flying kisses.

She doesn't mind when people around her surround her to take pictures with her, and she happily takes selfies with them. One person even puts his hand on her chest and makes a picture. Which they have no objection to. When you allow a man to put his hand on your chest, then why would a man refrain from going further.

On this occasion, a famous couplet of Akbar Allahabadi comes to mind:

تہذیب مغربی میں ہے بوسے تلک معاف 


اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے

And in the end, the people there tore the lady's clothes and snatched her jewellery.

What this mob did was completely wrong and they should be punished for this crime. But the question is how this turn came. In a society where even a goat is not safe and raped by five people which is on record. The dead bodies are not safe. In 2008, a deceased was raped inside a grave in Karachi. A few weeks earlier, a similar incident took place in Lahore in which the culprit was killed in a police encounter. So in this environment, Ms. Ayesha first attracted the male crowd and provoked them, as a result of which this incident took place. Therefore, the first FIR should be filed against Ayesha for harassing men with flying kisses. In addition, he has sought to garner sympathy and gain international fame and attention through the tragedy. In which our media is also giving their full support. Was she the only woman in the whole Iqbal Park? No, there were many other women but why did all this happen to them? Because that's what she wanted.

Zahra Bibi, the first Pakistani taxi driver recipient of awards from the United Kingdom and the United States, was also interviewed on the occasion, in which she said that she has been driving a taxi for the last 35 years but no such incident has happened to her. She even said that once she was taking a taxi to Swat when she was stopped by the Taliban on the way and she introduced herself. The Taliban said that you will definitely stay here on your return. And on her return they filled his whole car with rations and various things and said that whenever you vist here you must take these gifts from us. He said that no man could look at a woman with a dirty eye unless she wanted to.

The majority of our country is blaming the mob of these 400 people and demanding their punishment but not saying anything to Tik Toker Ayesha which is completely wrong. Ayesha's mistake caused this incident to happen.

سانحہ مینار پاکستان کی ذمے دار خود عائشہ اکرم ہی ہے!


 14اگست 2021ء کو مینار پاکستان پر پیش آنے والے افسوسناک واقعے کی ویڈیو آپ نے دیکھی ہی ہو گی۔ اس واقعے کے پیچھے عائشہ اکرم کے کیا مقاصد تھے ان کے متعلق تو فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے یہ حرکت کی۔
 لیکن اس سانحے کی سب سے بڑی ذمے دار خود عائشہ اکرم ہے اور اس کے بعد وہ ہجوم جو وہاں موجود اور وہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔
 پہلی بات تو یہ کہ محترمہ نے خود ٹک ٹاک کے ذریعے پیغام دے کر اپنے فالوئرز کو دعوت دے کر وہاں بلوایا۔ ویڈیو کے آغاز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت اچھے موڈ میں محترمہ کی گریٹر اقبال پارک میں آمد ہوتی ہے۔ وہ ہجوم کو دیکھ کر فلائنگ کسسز کرنے لگتی ہیں۔ جب وہاں موجود لوگ ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لیے انھیں گھیر لیتے ہیں تو بھی انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور وہ بخوشی ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک شخص ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنواتا ہے۔ جس پر انھیں کوئی اعترض نہیں ہوتا۔ جب آپ نے کسی مرد کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھنے کی اجازت دے دی تو پھر مرد مزید آگے بڑھنے سے کیوں کر باز رہے گا۔
 اس موقعے پر اکبر الہٰ آبادی کا شعر یاد آتا ہے کہ:
 تہذیب مغربی میں ہے بوسے تلک معاف
 اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے
 اور بالآخر یہی ہوا کہ وہاں موجود افراد نے محترمہ کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے اور زیورات چھین لیے۔
 اس ہجوم نے جو کچھ کیا وہ سراسر غلط تھا اور انھیں اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نوبت کیسے آئی ۔ اس معاشرے میں جہاں ایک بے زبان بکری تک محفوظ نہیں اور اس کے ساتھ بھی پانچ افراد نے زیادتی کر دی جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ میتیں محفوظ نہیں۔ 2008 میں کراچی میں ایک میت کے ساتھ قبرستان میں قبر کے اندر زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد کچھ ہفتے پہلے لاہور میں بھی اس قسم کا واقعہ رونما ہوا جس کا مجرم پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ تو اس ماحول میں محترمہ عائشہ نے انھیں پہلے تو اپنی طرف متوجہ کیا اور اکسایا جس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس لیے سب سے پہلیFIRعائشہ کے خلاف کٹنی چاہیے کہ انھوں نے فلاینگ کسسز کر کے مردوں کو ہراساں کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس سانحے کے ذریعے ہمدردی سمیٹنے اور بین الاقوامی شہرت اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں ہمارا میڈیا بھی انکا پورا پورا ساتھ دے رہا ہے۔ کیا پورے اقبال پارک میں یہی اکلوتی خاتون تھیں؟ نہیں وہاں کئی اور خواتین بھی موجود تھیں لیکن یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ کیونکہ وہ خود یہی کچھ چاہتی تھیں۔
 اس موقعے پر برطانیہ اور امریکا سے ایوارڈز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خاتون زہرہ بی بی کا بھی انٹرویو لیا گیا جس میں انھوں نے بتایا کہ گزشتہ 35برسوں سے وہ ٹیکسی چلا رہی ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ وہ ٹیکسی لے کر سوات جا رہی تھیں تو راستے میں انھیں طالبان نے روکا جس پر انھوں نے اپنا تعارف کروایا۔ طالبان نے کہا کہ واپسی پر آپ یہاں ضرور رکیے گا۔ اور واپسی پر انھوں نے ان کی پوری گاڑی راشن اور مختلف چیزوں سے بھر دی اور کہا کہ آئندہ جب بھی یہاں آئیں تو ہم سے یہ تحائف ضرور لے کر جائیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب تک عورت خود نہ چاہے کوئی مرد اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
 ہمارے ملک کی اکثریت اس ۴۰۰ افراد کے ہجوم پر تو ملامت کر رہی ہے اور انکو سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے لیکن عائشہ ٹک ٹاکر کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ سب سے بڑی غلطی ہی عائشہ کی ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔