یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
اُس بزم میں ہشیار ہوا بھی نہیں جاتا
کہتے ہو کہ ہم وعدۂ پرسش نہیں کرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں جاتا
آتے میں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا
جاتے ہوئے کھاتے ہو مری جان کی قسمیں
اب جان سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
کیا خاکِ رہِ یار ہوا بھی نہیں جاتا
دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
ـظالم سے جفا کار ہوا بھی نہیں جاتا