صفحات

اتوار، 10 دسمبر، 2017

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا از فانی بدایونی

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز ِکونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا

ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا 

جمعہ، 8 دسمبر، 2017

کزن

دنیا میں عجب ڈھنگ کا کردار کزن ہے
ہر گام پہ ہر سمت نمودار کزن ہے
حالاں کہ نہ جن نہ بھوت نہ اوتار کزن ہے
اس دور میں ہر موڑ پہ درکار کزن ہے


کہتے ہیں کہ سب رشتوں کا شاہکار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے


مانا کہ بھوت نہیں بلکہ بشر ہے
پر یہ کسے معلوم کہ مادہ ہے کہ نر ہے
حوا کی وہ دختر کہ آدم کا پسر ہے
گلفام کی بیوی ہے کہ گلنار کا بر ہے


وہ جنس جو جنس ہے پر اسرار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے


اس جنس کے پردے میں ساجن ہے کہ سجنیا
پگڑی کہیں چمکے ہے نہ چھنکے ہے کنگنیا
بس لفظ کزن بول خود گول ہے دنیا
لیکن وہ حقیقت میں کزن ہے کہ کزنیا


اس راز کے اظہار سے انکار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

اور اس رشتے کے پہلو کے پلٹن کا یہ عالم
سالے کا کزن سالے کے سالے کا ہے باہم
ڈھونڈو جو کبھی ایک سو خود ہو فراہم
لگتا ہے کزن عرش سے گرتے ہیں دھما دھم
اس رشتے کا ہر تار لگاتار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

لڑکی جو کوئی بوائے فرینڈ اپنا بنا لے
جل جل کے کریں طعنہ زنی دیکھنے والے
وہ شوخ پھر اک نسخۂ اکسیر نکالے
یہ کہہ کے وہ تنقید کے طوفان کو ٹالے


وہ دوست نہیں میرا خبردار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے


اور اس رشتے میں حائل نہیں بچپن نہ بڑھاپا
دو سال کا پپو ہو یا دس بچوں کے پاپا
رنڈوا ہو یا بیاہتا ہو یا کنوارہ سراپا
دوشیزہ ہو بیاہی ہو یا بیوہ بڑی آپا


شادی کا نہ عمر کا غمخوار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

کہہ کہہ کے کزن لوگوں کو کیوں دیتے ہو چکر
کیا شرم ہے کہنے میں بھائی بہن برادر
انگریزی کے اس لفظ میں دھوکہ ہے سراسر
احمق ہی بننے کے سب انداز ہیں اظہر


اپریل کا یہ فول میرے یار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے


’’شام کو راستے پر‘‘ از میراجی

’’شام کو راستے پر‘‘



رات کے عکس تخیل سے ملاقات ہو جس کا مقصود
کبھی دروازے سے آتا ہے کبھی کھڑکی سے
اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے
اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں
وہ تصور میں مرے عکس ہے ہر شخص کا ہر انساں کا
کبھی بھر لیتا ہے اک بھولی سی محبوبۂ نادان کا بہروپ کبھی
ایک چالاک جہاں دیدہ و بے باک ستمگر بن کر
دھوکا دینے کے لیے آتا ہے بہکاتا ہے
اور جب وقت گزر جائے تو چھپ جاتا ہے
مری آنکھوں میں مگر چھایا ہے بادل بن کر
ایک دیوار کا روزن اسی روزن سے نکل کر کرنیں
مری آنکھوں سے لپٹتی ہیں مچل اٹھتی ہیں
آرزوئیں دل غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے سے
اور میں سوچتا ہوں نور کے اس پردے میں
کون بے باک ہے اور بھولی سی محبوبہ کون
سوچ کو روک ہے دیوار کی وہ کیسے چلے
کیسے جا پہنچے کسی خلوت محجوب کے مخمور صنم خانے می
وہ صنم خانہ جہاں بیٹھے ہیں دو بت خاموش
اور نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتے ہیں
ذہن کو ان کے دھندلکے نے بنایا ہے اک ایسا عکاس
جو فقط اپنے ہی من مانے مناظر کو گرفتار کرے
میں کھڑا دیکھتا ہوں سوچتا ہوں جب دونوں
چھوڑ کر دل کے صنم خانے کو گھر جائیں گے
صحن میں تلخ حقیقت کو کھڑا پائیں گے
ایک سوچے گا مری جیب یہ دنیا یہ سماج
ایک دیکھے گا وہاں اور ہی تیاری ہے
مجھ کو الجھن ہے یہ کیوں میں تو نہیں ہوں موجود
رات کی خلوت محجوب کے مخمور صنم خانے میں
مری آنکھوں کو نظر آتا ہے روزن کا دھواں
اور دل کہتا ہے یہ دود دل سوختہ ہے
ایک گھنگھور سکوں ایک کڑی تنہائی
میرا اندوختہ ہے
مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ دنیا مٹ جائے
مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ بیکار سماج
اپنی پابندی سے دم گھٹ کے فسانہ بن جائے
مری آنکھوں میں تو مرکوز ہے روزن کا سماں
اپنی ہستی کو تباہی سے بچانے کے لیے
میں اسی روزن بے رنگ میں گھس جاؤں گا
لیکن ایسے تو وہی بت نہ کہیں بن جاؤں
جو نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتا ہے
چھوڑ کر جس کو صنم خانے کی محجوب فضا
گھر کے بیباک المناک سیہ خانے میں
آرزوؤں پہ ستم دیکھنا ہے گھلنا ہے
میں تو روزن میں نہیں جاؤں گا دنیا مٹ جائے
اور دم گھٹ کے فسانہ بن جائے
سنگ دل خون سکھاتی ہوئی بیکار سماج
میں تو اک دھیان کی کروٹ لے کر
عشق کے طائر آوارہ کا بہروپ بھروں گا پل میں
اور چلا جاؤں گا اس جنگل میں
جس میں تو چھوڑ کے اک قلب فسردہ کو اکیلے چل دی
راستہ مجھ کو نظر آئے نہ آئے پھر کیا
ان گنت پیڑوں کے میناروں کو
میں تو چھوتا ہی چلا جاؤں گا
اور پھر ختم نہ ہوگی یہ تلاش
جستجو روزن دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی
میں ہوں آزاد مجھے فکر نہیں ہے کوئی
ایک گھنگھور سکوں ایک کڑی تنہائی
مرا اندوختہ ہے



میرا جی 

وُہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ُہوے از ناصر کاظمی

وُہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ُہوے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ُہوے

وُہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ُہوے

مَیں اُن کی راہ دیکھتا ُہوں رات بھر!
وُہ روشنی دِکھانے والے کیا ُہوے

یہ کون لوگ ہیں ِمرے اِدھر اُدھر
وُہ دوستی نبھانے والے کیا ُہوے

عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ُہوے

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اُٹھانے والے کیا ُہوے

پھر ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے از ناصر کاظمی

پھر ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد  آئے

پھر ُکونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رُت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے ُسونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو مَیں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دِن بھر تو مَیں دُنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دِیواروں سے دُھوپ ڈھلی تم یاد آئے

گئے دِنوں کا سراغ لے کر ِکدھر سے آیا ِکدھر گیا وُہ از ناصر کاظمی

گئے دِنوں کا سراغ لے کر ِکدھر سے آیا ِکدھر گیا وُہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وُہ

بس ایک موتی سی چھب دِکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وُہ

نہ اب وُہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اُداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دِل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وُہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دِن کڑا تھا گزر گیا وُہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دِل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں ُگزر گیا میں ٹھہر گیا وُہ

وُہ میکدے کو جگانے والا وُہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وُہ

وُہ ہجر کی رات کا ستارہ وُہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا ُسنا ہے کل رات مر گیا وُہ

وُہ رات کا بے نوا ُمسافر وُہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
ِتری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وُہ

غم ہے یا خوشی ہے ُتو از ناصر کاظمی

غم ہے یا خوشی ہے ُتو
میری زندگی ہے ُتو

آفتوں کے دَور میں
چین کی گھڑی ہے ُتو

میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے ُتو

مَیں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے ُتو

دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے ُتو

میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے ُتو

مَیں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے ُتو

ناصرؔ اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے ُتو