صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

پُھندنے (منٹو)

کوٹھی سے ملحقہ وسیع و عریض باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے ایک بلّی نے بچے دیئے تھے جو بلّا کھا گیا تھا۔ پھر ایک کتیا نے بچے دیئے تھے جو بڑے بڑے ہو گئے تھے اور دن رات کوٹھی کے اندر باہر بھونکتے اور گندگی بکھیرتے رہتے تھے۔ ان کو زہر دے دیا گیا تھا۔ ایک ایک کرکے سب مر گئے تھے۔ ان کی ماں بھی۔ ان کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی یقینی تھی۔
جانے کتنے برس گزر چکے تھے۔ کوٹھی سے ملحقہ باغ کی جھاڑیاں سیکڑوں ہزاروں مرتبہ کتری بیونتی، کاٹی چھانٹی جا چکی تھیں۔ کئی بلیوں اور کتیوں نے ان کے پیچھے بچے دیئے تھے جن کا نام و نشان بھی نہ رہا تھا۔ اس کی اکثر بدعادت مرغیاں وہاں انڈے دے دیا کرتی تھیں۔ جن کو ہر صبح اٹھا کر وہ اندر لے جاتی تھی۔
اسی باغ میں کسی آدمی نے ان کی نوجوان ملازمہ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اس کے گلے میں اس کا پھندنوں والا سرخ ریشمی ازار بند جو اس نے دو روز پہلے پھیری والے سے آٹھ آنے میں خریدا تھا پھنسا ہوا تھا۔ اس زو ر سے قاتل نے پیچ دیئے تھے کہ اس کی آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔
اس کو دیکھ کر اس کو اتنا تیز بخار چڑھا تھا کہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور شاید ابھی تک بے ہوش تھی۔ لیکن نہیں، ایسا کیونکر ہو سکتا تھا اس لیے کہ اس قتل کے دیر بعد مرغیوں نے انڈے، نہیں بلیوں نے بچے دیئے تھے اور ایک شادی ہوئی تھی۔ کتیا تھی جس کے گلے میں لال دوپٹہ تھا۔ مکیشی، جھلمل جھلمل کرتا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہیں تھیں، اندر دھنسی ہوئی تھیں۔
باغ میں بینڈ بجا تھا۔ سرخ وردیوں والے سپاہی آئے تھے جو رنگ برنگی مشکیں بغلوں میں دبا کر منھ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے تھے۔ ان کی وردیوں کے ساتھ کئی پھندنے لگے تھے۔ جنہیں اٹھا اٹھا کر لوگ اپنے ازاربندوں میں لگاتے جاتے تھے۔ پر جب صبح ہوئی تھی تو ان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ سب کو زہر دے دیا گیا تھا۔
دلہن کو جانے کیا سوجھی، کم بخت نے جھاڑیوں کے پیچھے نہیں، اپنے بستر پر صرف ایک بچہ دیا۔ جو بڑا گل گوتھنا، لال پُھندنا تھا۔ اس کی ماں مر گئی، باپ بھی۔ دونوں کو بچے نے مارا۔ اس کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی ان دونوں کے ساتھ ہوتی۔
سرخ وردیوں والے سپاہی بڑے بڑے پھندنے لٹکائے جانے کہاں غائب ہوئے کہ پھر نہ آئے۔ باغ میں بلّے گھومتے تھے، جو اسے گھورتے تھے۔ اس کو چھیچھڑوں کی بھری ہوئی ٹوکری سمجھتے تھے حالانکہ ٹوکری میں نارنگیاں تھیں۔
ایک دن اس نے اپنی دو نارنگیاں نکال کے آئینے کے سامنے رکھ دیں۔ اس کے پیچھے ہو کے اس نے ان کو دیکھا مگر نظر نہ آئیں۔ اس نے سوچا اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی ہیں۔ مگر وہ اس کے سوچتے سوچتے ہی بڑی ہو گئیں اور اس نے ریشمیں کپڑے میں لپیٹ کر آتش دان پر رکھ دیں۔
اب کتے بھونکنے لگے۔ نارنگیاں فرش پر لڑھکنے لگیں۔ کوٹھی کے ہر فرش پر اُچھلیں، ہر کمرے میں کودیں اور اچھلتی کودتی بڑے بڑے باغوں میں بھاگنے دوڑنے لگیں۔ کتے ان سے کھیلتے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔
جانے کیا ہوا، ان کتوں میں دو زہر کھا کے مر گئے۔ جو باقی بچے وہ ان کی ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کھا گئی۔ یہ اس نوجوان کی جگہ آئی تھی۔ جس کوکسی آدمی نے قتل کردیا تھا۔ گلے میں اس کے پھندنوں والے ازار بند کا پھندا ڈال کر۔
اس کی ماں تھی۔ ادھیڑ عمر کی ملازمہ سے عمر میں چھ سات برس بڑی۔ اس کی طرح ہٹی کٹی نہیں تھی۔ ہر روز صبح شام موٹر میں سیر کو جاتی تھی اور بد عادت مرغیوں کی طرح دور دراز باغوں میں جھاڑیوں کے پیچھے انڈے دیتی تھی۔ ان کو وہ خود اٹھا کے لاتی تھی نہ ڈرائیور۔
آملیٹ بناتی تھی جس کے داغ کپڑوں پر پڑجاتے تھے۔ سوکھ جاتے تو ان کو باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے پھینک دیتی تھی۔ جہاں سے چیلیں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔
ایک دن اس کی سہیلی آئی۔ پاکستان میل، موٹر نمبر ۹۶۱۲ پی ایل۔ بڑی گرمی تھی۔ ڈیڈی پہاڑ پر تھے۔ ممی سیر کرنے گئی ہوئی تھیں۔ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی بلائوز اتاری اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اس کے دودھ ابلے ہوئے تھے، جو آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہو گئے۔ اس کے دودھ ٹھنڈے تھے جو آہستہ آہستہ ابلنے لگے۔ آخر دونوں دودھ ہل ہل کر کنگنے ہو گئے اور کھٹی لسی بن گئے۔
اس سہیلی کا بینڈ بج گیا۔ مگر وہ وردی والے سپاہی پھندنے نچاتے نہ آئے۔ ان کی جگہ پیتل کے برتن تھے، چھوٹے اور بڑے جن سے آوازیں نکلتی تھیں۔ گرجدار اور دھیمی۔ دھیمی اور گرجدار۔
یہ سہیلی جب پھر ملی تو اس نے بتایا کہ وہ بدل گئی ہے۔ سچ مچ بدل گئی تھی۔ اس کے اب دو پیٹ تھے۔ ایک پرانا، دوسرا نیا، ایک کے اوپر دوسرا چڑھا ہوا تھا۔ اس کے دودھ پھٹے ہوئے تھے۔ 
پھر اس کے بھائی کا بینڈ بجا۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ بہت روئی۔ اس کے بھائی نے اس کو بہت دلاسا دیا۔ بے چاری کو اپنی شادی یاد آگئی تھی۔
رات بھر اس کے بھائی اور اس کی دلہن کی لڑائی ہوتی رہی، وہ روتی رہی، وہ ہنستا رہا۔ صبح ہوئی تو ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ اس کے بھائی کو دلاسا دینے کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔ دلہن کو نہلایا گیا۔ اس کی شلوار میں اس کا لال پھندنوں والا ازاربند پڑا تھا۔ معلوم نہیں یہ دلہن کے گلے میں کیوں نہ باندھا گیا۔
اس کی آنکھیں بہت موٹی تھیں۔ اگر گلا زور سے گھونٹا جاتا تو وہ ذبح کیے ہوئے بکرے کی آنکھوں کی طرح باہر نکل آتیں۔ اور اس کو بہت تیز بخار چڑھتا، مگر پہلا تو ابھی تک اترا نہیں۔ ہو سکتا ہے اتر گیا ہو اور یہ نیا بخار ہو جس میں وہ ابھی تک بے ہوش ہے۔
اس کی ماں موٹر ڈرائیوری سیکھ رہی ہے۔ باپ ہوٹل میں رہتا ہے۔ کبھی کبھی آتا ہے اور اپنے لڑکے سے مل کر چلا جاتا ہے۔ لڑکا کبھی کبھی اپنی بیوی کو گھر بلا لیتا ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کو دو تین روز کے بعد کوئی یاد ستاتی ہے تو رونا شروع کردیتی ہے۔ وہ اسے دلاسا دیتا ہے، وہ اسے پچکارتی ہے اور دلہن چلی جاتی ہے۔
اب وہ اور دلہن بھابی دونوں سیر کو جاتی ہیں۔ سہیلی بھی پاکستان میل۔ موٹر نمبر ۹۶۱۲ پی ایل۔ سیر کرتے کرتے اجنتا جا نکلتی ہیں جہاں تصویریں بنانے کا کام سکھایا جاتا ہے۔ تصویریں دیکھ کر تینوں تصویر بن جاتی ہیں۔ رنگ ہی رنگ، لال، پیلے، ہرے، نیلے۔ سب کے سب چیخنے والے ہیں۔ ان کو ان رنگوں کا خالق چپ کراتا ہے۔ اس کے لمبے لمبے بال ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں میں اوورکوٹ پہنتا ہے۔ اچھی شکل و صورت کا ہے۔ اندر باہر ہمیشہ کھڑائوں استعمال کرتا ہے۔ اپنے رنگوں کو چپ کرانے کے بعد خود چیخنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو یہ تینوں چپ کراتی ہیں اور بعد میں خود چلانے لگتی ہیں۔ 
تینوں اجنتا میں مجرد آرٹ کے سیکڑوں نمونے بناتی رہیں۔ ایک کی ہر تصویر میں عورت کے دو پیٹ ہوتے ہیں، مختلف رنگوں کے۔ دوسری کی تصویروں میں عورت ادھیڑ عمر کی ہوتی ہے، ہٹی کٹی۔ تیسری کی تصویروں میں پھندنے ہی پھندنے۔ ازار بندوں کا گچھا۔
مجرد تصویریں بنتی رہیں۔ مگر تینوں کے دودھ سوکھتے رہے۔ بڑی گرمی تھی، اتنی کہ تینوں پسینے میں شرابور تھیں۔ خس لگے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے بلائوز اتارے اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئیں۔ پنکھا چلتا رہا۔ دودھوں میں ٹھنڈک پیدا ہوئی نہ گرمی۔
اس کی ممی دوسرے کمرے میں تھی۔ ڈرائیور اس کے بدن سے موبل آئل پونچھ رہا تھا۔
ڈیڈی ہوٹل میں تھا۔ جہاں اس کی لیڈی اسٹینوگرافر اس کے ماتھے پر یوڈی کلون مل رہی تھی۔
ایک دن اس کا بھی بینڈ بج گیا۔ اجاڑ باغ پھر بارونق ہو گیا۔ گملوں اور دروازوں کی آرائش اجنتا اسٹوڈیو کے مالک نے کی تھی۔ بڑی بڑی گہری لپ اسٹکیں، اس کے بکھیرے ہوئے رنگ دیکھ کر اڑ گئیں ایک جو زیادہ سیاہی مائل تھی، اتنی اڑی کہ وہیں گر کر اس کی شاگرد ہو گئی۔
اس کے عروسی لباس کا ڈیزائن بھی اس نے تیار کیا تھا۔ اس نے اس کی ہزاروں سمتیں پیدا کردی تھیں۔ عین سامنے دیکھو تو وہ مختلف رنگ کے ازاربندوں کا بنڈل معلوم ہوتی تھی۔ ذرا ادھر ہٹ جائو تو پھلوں کی ٹوکری تھی۔ ایک طرف ہوجائو تو کھڑکی پر پڑا ہوا پھلکاری کا پردہ۔عقب میں چلے جائو تو کچلے ہوئے تربوزوں کا ڈھیر۔ ذرا زاویہ بدل کر دیکھو تو ٹماٹر ساس سے بھرا ہوا مرتبان۔ اوپر سے دیکھو تو یگانہ آرٹ، نیچے سے دیکھو تو میرا جی کی مبہم شاعری۔
فن شناس نگاہیں عش عش کر اٹھیں۔ دلہا اس قدر متاثر ہوا تھا کہ شادی کے دوسرے روز ہی اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ بھی مجرد آرٹسٹ بن جائے گا۔ چنانچہ اپنی بیوی کے ساتھ وہ اجنتا گیا۔ جہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہورہی ہے اور وہ چند روز سے اپنی ہونے والی دلہن ہی کے ہاں رہتا ہے۔
اس کی ہونے والی دلہن وہی گہرے رنگ کی لپ اسٹک تھی جو دوسری لپ اسٹکوں کے مقابلے میں زیادہ سیاہی مائل تھی۔ شروع شروع میں چند مہینے تک اس کے شوہر کو اس سے اور مجرد آرٹ سے دلچسپی رہی۔ لیکن جب اجنتا اسٹوڈیو بند ہو گیا اور اس مالک کی کہیں سے بھی سن گن نہ ملی تو اس نے نمک کا کاروبار شروع کردیا۔ جو بہت نفع بخش تھا۔
اس کاروبار کے دوران میں اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔ جس کے دودھ سوکھے ہوئے نہیں تھے۔ یہ اس کو پسند آگئے۔ بینڈ نہ بجا، لیکن شادی ہو گئی۔ پہلی اپنے برش اٹھا کر لے گئی اور الگ رہنے لگی۔
یہ ناچاقی پہلے تو دونوں کے لیے تلخی کا موجب ہوئی۔ لیکن بعد میں ایک عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی سہیلی نے جو دوسرا شوہر تبدیل کرنے کے بعد سارے یورپ کا چکر لگا آئی تھی اور اب دق کی مریض تھی اس مٹھاس کو کیوبک آرٹ میں پینٹ کیا۔ صاف شفاف چینی کے بے شمار کیوب تھا جو تھوہر کے پودوں کے درمیان اس انداز سے اُوپر تلے رکھے تھے کہ ان سے دو شکلیں بن گئی تھیں۔ ان پر شہد کی مکھیاں بیٹھی رس چوس رہی تھیں۔ 
اس کی دوسری سہیلی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی۔ جب اس کو یہ المناک خبر ملی تو وہ بے ہوش ہو گئی، معلوم نہیں بے ہوشی نئی تھی یا وہی پرانی جو بڑے تیز بخار کے بعد ظہور میں آئی تھی۔
اس کا باپ یوڈی کلون میں تھا۔ جہاں اس کا ہوٹل اس کی لیڈی اسٹینو گرافر کا سر سہلاتا تھا۔ 
اس کی ممی نے گھر کا سارا حساب کتاب ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کے حوالے کردیا تھا۔ اب اس کو ڈرائیونگ آگئی تھی مگر بہت بیمار ہو گئی تھی مگر پھر بھی اس کو ڈرائیور کے بن ماں کے پلّے کا بہت خیال تھا۔ وہ اس کو اپنا موبل آئل پلاتی تھی۔
اس کی بھابی اور اس کے بھائی کی زندگی بہت ادھیڑ اور ہٹی کٹی ہو گئی تھی۔ دونوں آپس میں بڑے پیار سے ملتے تھے کہ اچانک ایک رات جبکہ ملازمہ اور اس کا بھائی گھر کا حساب کررہے تھے، اس کی بھابی نمودار ہوئی وہ مجرد تھی۔ اس کے ہاتھ میں قلم تھا نہ برش۔ لیکن اس نے دونوں کا حساب صاف کردیا۔
صبح کمرے میں سے جمے ہوئے لہو کے دو بڑے بڑے پھندنے نکلے جو اس کی بھابی کے گلے میں لگا دیئے گئے۔
اب وہ قدرے ہوش میں آئی۔ خاوند سے ناچاقی کے باعث اس کی زندگی تلخ ہو کر بعد میں عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس نے اس کو تھوڑا سا تلخ بنانے کی کوشش کی اور شراب پینا شروع کی مگر ناکام رہی، اس لیے کہ مقدار کم تھی۔ اس نے مقدار بڑھا دی۔ حتیٰ کہ وہ اس میں ڈبکیاں لینے لگی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اب غرق ہوئی اور اب غرق ہوئی مگر وہ سطح پر ابھر آتی تھی۔ منھ سے شراب پونچھتی ہوئی اور قہقہے لگاتی ہوئی۔
صبح کو جب اُٹھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ رات بھر اس کے جسم کا ذرہ ذرہ دھاڑیں مار مار کر روتا رہا ہے۔ اس کے وہ سب بچے جو پیدا ہو سکتے تھے، ان قبروں میں جو اُن کے لیے بن سکتی تھیں، اس دودھ کے لیے جو ان کا ہو سکتا تھا، بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ مگر اس کے دودھ کہاں تھے۔ وہ تو جنگلی بلّے پی چکے تھے۔
وہ اور زیادہ پیتی کہ اتھاہ سمندر میں ڈوب جائے مگر اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ ذہین تھی۔ پڑھی لکھی تھی۔ جنسی موضوعات پر بغیر کسی تصنع کے بے تکلف گفتگو کرتی تھی۔ مردوں کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی رات کی تنہائی میں اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنی کسی بد عادت مرغی کی طرح جھاڑیوں کے پیچھے جائے اور ایک انڈا دے آئے۔
بالکل کھوکھلی ہو گئی۔ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تو اس سے لوگ دور رہنے لگے۔ وہ سمجھ گئی، چنانچہ وہ ان کے پیچھے نہ بھاگی اور اکیلی گھر میں رہنے لگی۔ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتی، شراب پیتی اور جانے کیا سوچتی رہتی۔ رات کو بہت کم سوتی تھی۔ کوٹھی کے ارد گرد گھومتی رہتی تھی۔
سامنے کوارٹر میں ڈرائیور کا بن ماں کا بچہ موبل آئل کے لیے روتا رہتا تھا مگر اس کی ماں کے پاس ختم ہو گیا تھا۔ ڈرائیور نے ایکسی ڈنٹ کردیا تھا۔ موٹر گیراج میں اور اس کی ماں ہسپتال میں پڑی تھی۔ جہاں اس کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی تھی۔ دوسری کاٹی جانے والی تھی۔
وہ کبھی کبھی کوارٹر کے اندر جھانک کر دیکھتی تو اس کو محسوس ہوتا کہ اس کے دودھوں کی تلچھٹ میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی ہے مگر اس بدذائقہ شے سے تو اس کے بچے کے ہونٹ بھی تر نہ ہوتے۔
اس کے بھائی نے کچھ عرصے سے باہر رہنا شروع کردیا تھا۔ آخر ایک دن اس کا خط سوئٹزرلینڈ سے آیا کہ وہ وہاں اپنا علاج کرا رہا ہے نرس بہت اچھی ہے ہسپتال سے نکلتے ہی وہ اس سے شادی کرنے والا ہے۔
ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ نے تھوڑا زیور، کچھ نقدی اور بہت سے کپڑے جو اس کی ممی کے تھے چرائے اور چند روز کے بعد غائب ہو گئی۔ اس کے بعد اس کی ماں آپریشن ناکام ہونے کے باعث ہسپتال میں مر گئی۔
اس کا باپ جنازے میں شامل ہوا۔ اس کے بعد اس نے اس کی صورت نہ دیکھی۔
اب وہ بالکل تنہا تھی۔ جتنے نوکر تھے، اس نے علیحدہ کردیئے، ڈرائیور سمیت۔ اس کے بچے کے لیے اس نے ایک آیا رکھ دی۔ کوئی بوجھ سوائے اس کے خیالوں کے باقی نہ رہا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ آہستہ آہستہ اسے ان سے بھی چھٹکارا مل جائے۔ کبھی کبھار اگر کوئی اس سے ملنے آتا تو وہ اندر سے چلا اٹھتی تھی۔ ’’چلے جائو جو کوئی بھی تم ہو چلے جائو۔ میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔‘‘
سیف میں اس کو اپنی ماں کے بے شمار قیمتی زیورات ملے تھے۔ اس کے اپنے بھی تھے۔ جن سے اس کو کوئی رغبت نہ تھی۔ مگر اب وہ رات کو گھنٹوں آئینے کے سامنے ننگی بیٹھ کر یہ تمام زیور اپنے بدن پر سجاتی اور شراب پی کر کَن سُری آواز میں فحش گانے گاتی تھی۔ آس پاس اور کوئی کوٹھی نہیں تھی۔ اس لیے اسے مکمل آزادی تھی۔
اپنے جسم کو تو وہ کئی طریقوں سے ننگا کر چکی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اپنی روح کو بھی ننگا کردے۔ مگر اس میں وہ زبردست حجاب محسوس کرتی تھی۔ اس جواب کو دبانے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ اس کی سمجھ میں آتا تھا کہ پئے اور خوب پئے اور اس حالت میں اپنے ننگے بدن سے مدد لے۔ مگر یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا کہ وہ آخری حد تک ننگا ہو کر ستر پوش ہو گیا تھا۔
تصویریں بنا بنا کر وہ تھک چکی تھی۔ ایک عرصے اس کا پینٹنگ کا سامان صندوقچے میں بند پڑا تھا۔ لیکن ایک دن اس نے سب رنگ نکالے اور بڑے بڑے پیالوں میں گھولے۔ تمام برش دھو دھا کر ایک طرف رکھے اور آئینے کے سامنے ننگی کھڑی ہو گئی اور اپنے جسم پر نئے خدو خال بنانے شروع کیے۔ اس کی یہ کوشش اپنے وجود کو مکمل طور پر عریاں کرنے کی تھی۔
وہ اپنا سامنا حصہ ہی پینٹ کر سکتی تھی۔ دن بھر وہ اس میں مصروف رہی۔ بن کھائے پئے، آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بدن پر مختلف رنگ جماتی اور ٹیڑھے بنگے خطوط بناتی رہی۔ اس کے برش میں اعتماد تھا۔ آدھی رات کے قریب اس نے دور ہٹ کر اپنا بغور جائزہ لے کر اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد اس نے تمام زیورات ایک ایک کرکے اپنے رنگوں سے لتھڑے ہوئے جسم پر سجائے اور آئینے میں ایک بار پھر غور سے دیکھا، کہ ایک دم آہٹ ہوئی۔
اس نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک آدمی چُھرا ہاتھ میں لیے، منھ پر ڈھاٹا باندھے کھڑا تھا جیسے حملہ کرنا چاہتا ہے مگر جب وہ مڑی تو حملہ آور کے حلق سے چیخ بلند ہوئی۔ چُھرا اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ افراتفری کے عالم میں کبھی ادھر کا رُخ کیا کبھی ادھر کا۔ آخر جو رستہ ملا اس میں سے بھاگ نکلا۔
وہ اس کے پیچھے بھاگی چیختی، پکارتی۔ ’’ٹھہرو۔ ٹھہرو میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی۔ ٹھہرو۔‘‘
مگر چور نے اس کی ایک نہ سنی اور دیوار پھاند کر غائب ہو گیا۔ مایوس ہو کر واپس آئی۔ دروازے کی دہلیز کے پاس چور کا خنجر پڑا تھا۔ اس نے اسے اٹھالیا اور اندر چلی گئی۔ اچانک اس کی نظریں آئینے سے دوچار ہوئیں۔ جہاں اس کا دل تھا۔ وہاں اس نے میان نما چمڑے کے رنگ کا خول سا بنایا ہوا تھا۔ اس نے اس پر خنجر رکھ کر دیکھا۔ خول بہت چھوٹا تھا۔ اس نے خنجر پھینک دیا اور بوتل میں سے شراب کے چار پانچ بڑے گھونٹ پی کر ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔ وہ کئی بوتلیں خالی کر چکی تھی۔ کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔
دیر تک ٹہلنے کے بعد وہ پھر آئینے کے سامنے آئی۔ اس کے گلے میں ازاربند نما گلوبند تھا، جس کے بڑے بڑے پھندنے تھے۔ یہ اس نے برش سے بنایا تھا۔
دفعتہ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ گلوبند تنگ ہونے لگا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے گلے کے اندر دھنستا جارہا ہے۔ وہ خاموش کھڑی آئینے میں آنکھیں گاڑے رہی جو اسی رفتار سے باہر نکل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے کی تمام رگیں پھولنے لگیں۔ پھر ایک دم سے اس نے چیخ ماری اور اوندھے منھ فرش پر گر پڑی۔

سڑک کے کنارے (منٹو)

’’یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دھلا ہوا، نتھرا ہوا۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔ سہانے خوابوں کی طرح۔ مٹی کی باس میں ایسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت میرے دل و دماغ میں رچ رہی ہے ...... اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑ پھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔‘‘
’’اس نے مجھ سے کہا تھا ...... تم نے مجھے جو یہ لمحات عطا کیے ہیں یقین جانو، میری زندگی ان سے خالی تھی۔ جو خالی جگہیں تم نے آج میری ہستی میں پُر کی ہیں، تمہاری شکر گزار ہیں۔ تم میری زندگی میں نہ آتیں تو شاید وہ ہمیشہ ادھوری رہتی۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں تم سے اور کیا کہوں۔۔۔۔میری تکمیل ہو گئی ہے۔ ایسے مکمل طور پر کہ محسوس ہوتا ہے مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔اور وہ چلا گیا۔ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔‘‘
’’میری آنکھیں روئیں۔ میرا دل رویا ...... میں نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے لاکھ مرتبہ پوچھا کہ میری ضرورت اب تمہیں کیوں نہیں رہی ...... جبکہ تمہاری ضرورت۔ اپنی تمام شدتوں کے ساتھ اب شروع ہوئی ہے۔ ان لمحات کے بعد جنہوں نے بقول تمہارے ، تمہاری ہستی کی خالی جگہیں پُر کی ہیں۔‘‘
اس نے کہا۔ ’’تمہارے وجود کے جس جس ذرے کی میری ہستی کی تعمیر و تکمیل کو ضرورت تھی، یہ لمحات چُن چُن کر دیتے رہے ...... اب کہ تکمیل ہو گئی ہے تمہارا اور میرا رشتہ خود بخود ختم ہو گیا ہے۔‘‘
’’کس قدر ظالمانہ لفظ تھے ...... ۔ مجھ سے یہ پتھرائو برداشت نہ کیا گیا ...... میں چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’یہ ذرے جن سے تمہاری ہستی کی تکمیل ہوتی ہے ، میرے وجود کا ایک حصہ تھے۔ کیا ان کا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں۔ کیا میرے وجود کا بقایا حصہ ان سے اپنا ناطہ توڑ سکتاہے؟ ...... تم مکمل ہو گئے ہو۔۔۔۔ لیکن مجھے ادھورا کرکے ۔۔۔۔ کیا میں نے اسی لیے تمہیں اپنا معبود بنایا تھا؟ ‘‘
اس نے کہا۔ ’’بھونرے، پھولوں اور کلیوں کا رس چوس چوس کر شہد کشید کرتے ہیں، مگر وہ اس کی تلچھٹ تک بھی ان پھولوں اور کلیوں کے ہونٹوں تک نہیں لاتے ...... خدا اپنی پرستش کراتا ہے مگر خود بندگی نہیں کرتا۔۔۔۔ عدم کے ساتھ خلوت میں چند لمحات بسر کر کے اس نے وجود کی تکمیل کی ...... لیکن اب عدم کہاں ہے ...... اس کی اب وجود کو کیا ضرورت ہے۔وہ ایک ایسی ماں تھی جو وجود کو جنم دیتے ہی زچگی کے بستر پر فنا ہو گئی تھی۔‘‘
عورت رو سکتی ہے ...... دلیلیں پیش نہیں کرسکتی ...... اس کی سب سے بڑی دلیل اس کی آنکھ سے ڈھلکا ہوا آنسو ہے ...... میں نے اس سے کہا۔ ’’دیکھو ...... میں رو رہی ہوں ...... میری آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں تم جارہے ہو تو جائو، مگر ان میں سے کچھ آنسوئوں کو تو اپنے رومال کے کفن میں لپیٹ کر ساتھ لیتے جائو۔۔۔۔ میں تو ساری عمر روتی رہوں گی ...... مجھے اتنا تو یاد رہے گا کہ چند آنسوئوں کے کفن دفن کا سامان تم نے بھی کیا تھا ...... ۔ مجھے خوش کرنے کے لیے ۔‘‘
اس نے کہا ۔ ’’میں تمہیں خوش کر چکا ہوں ...... تمہیں اس ٹھوس مسرت سے ہمکنار کر چکا ہوں جس کے تم سراب ہی دیکھا کرتی تھیں۔ کیا اس کا لطف اس کا کیف تمہاری زندگی کے بقایا لمحات کا سہارا نہیں بن سکتا۔ تم کہتی ہو کہ میری تکمیل نے تمہیں ادھورا کردیا ہے۔ لیکن یہ ادھورا پن کیا تمہاری زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے کافی نہیں۔۔۔۔ میں مرد ہوں۔ آج تم نے میری تکمیل کی ہے ۔۔۔۔ کل کوئی اور کرے گا ...... میرا وجود کچھ ایسے آب و گِل سے بنا ہے جس کی زندگی میں ایسے کئی لمحات آئیں گے جب وہ خود کو تشنہ تکمیل سمجھے گا ...... اور تم ایسی کئی عورتیں آئیں گی جو ان لمحات کی پیدا کی ہوئی خالی جگہیں پُر کریں گی۔‘‘
میں روتی رہی جھنجھلاتی رہی۔
میں نے سوچا۔ یہ چند لمحات جو ابھی ابھی میری مٹھی میں تھے ...... نہیں ...... ۔ میں ان لمحات کی مٹھی میں تھی ...... میں نے کیوں خود کو ان کے حوالے کردیا۔ میں نے کیوں اپنی پھڑپھڑاتی روح ان کے منھ کھولے قفس میں ڈال دی ...... ۔۔۔ اس میں مزا تھا۔ ایک لطف تھا۔ ایک کیف تھا ...... تھا، ضرور تھا ...... ۔ اور یہ اس کے اور میرے تصادم میں تھا ...... ۔ لیکن ...... ۔۔ یہ کیا کہ وہ ثابت و سالم رہا ...... ۔۔ اور مجھ میں تریڑے پڑ گئے ...... یہ کیا، کہ وہ اب میری ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میں اور بھی شدت سے اس کی ضرورت محسوس کرتی ہوں۔ وہ طاقتور بن گیا ہے ۔ میں نحیف ہو گئی ہوں۔ یہ کیا کہ آسمان پر دو بادل ہم آغوش ہوں۔ ایک رو رو کر برسنے لگا، دوسرا بجلی کا کوندا بن کر اس بارش سے کھیلتا ، کدکڑے لگاتا بھاگ جائے ...... ۔ یہ کس کا قانون ہے؟ آسمان کا؟ زمینوں کا ...... یا ان کے بنانے والوں کا؟
میں سوچتی رہی اور جھنجھلاتی رہی۔
دو روحوں کا سمٹ کر ایک ہو جانا اور ایک ہو کہ والہانہ وسعت اختیار کر جانا۔ کیا یہ سب شاعری ہے؟ ...... ۔ نہیں دو روحیں سمٹ کر ضرور اس ننھے سے نکتے پر پہنچتی ہیں جو پھیل کر کائنات بنتا ہے ...... ۔ لیکن اس کائنات میں ایک روح کیوں کبھی کبھی گھائل چھوڑ دی جاتی ہے ...... کیا اس قصور پر کہ اس نے دوسری روح کو اس ننھے سے نکتے پر پہنچنے میں مدد تھی۔
یہ کیسی کائنا ت ہے۔
یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے ...... اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی ...... ۔۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑ پھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی ...... وہ موجود نہیں ہے۔ ...... بجلی کا کوندا بن کر جانے وہ کن بدلیوں کی گریہ و زاری سے کھیل رہا ہے۔۔۔۔ اپنی تکمیل کرکے چلا گیا ...... ۔ ایک سانپ تھا جو مجھے ڈس کر چلا گیا۔۔۔۔لیکن اب اس کی چھوڑی ہوئی لکیر کیوں میرے پیٹ میں کروٹیں لے رہی ہے ...... کیا یہ میری تکمیل ہورہی ہے؟
نہیں نہیں ...... یہ کیسے تکمیل ہو سکتی ہے ...... یہ تو تخریب ہے۔۔۔۔
لیکن یہ میرے جسم کی خالی جگہیں کیوں پُر ہورہی ہیں ...... یہ جو گڑھے تھے کس ملبے سے پُر کیے جارہے ہیں۔۔۔ میری رگوں میں یہ کیسی سرسراہٹیں دوڑ رہی ہیں۔ میں سمٹ کر اپنے پیٹ میں کس ننھے سے نکتے پر پہنچنے کے لیے پیچ و تاب کھا رہی ہوں۔۔۔۔ میری نائو ڈوب کر اب کن سمندروں میں ابھرنے کے لیے اٹھ رہی ہے ...... ؟
یہ میرے اندر دہکتے ہوئے چولھوں پر کس مہمان کے لیے دودھ گرم کیا جارہا ہے ...... یہ میرا دل میرے خون کو دھنک دھنک کر کس کے لیے نرم و نازک رضائیاں تیار کررہا ہے۔ یہ میرا دماغ میرے خیالات کے رنگ برنگ دھاگوں سے کس کے لیے ننھی منی پوشاکیں بن رہا ہے؟
میرا رنگ کس کے لیے نکھر رہا ہے ...... میرے انگ انگ اور روم روم میں پھنسی ہوئی ہچکیاں لوریوں میں کیوں تبدیل ہورہی ہیں ...... 
یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔ لیکن یہ آسمان اپنی بلندیوں سے اتر کر کیوں میرے پیٹ میں تن گیا ہے ...... ۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں کیوں میری رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں؟
میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں ایسی تقدیس کیوں آرہی ہے؟
نہیں، نہیں ...... یہ تقدیس کچھ بھی نہیں۔ میں ان محرابوں کو ڈھادوں گی ...... میں اپنے اندر تمام چولھے سرد کردوں گی جن پر بن بلائے مہمان کی خاطر داریاں چڑھی ہیں۔ میں اپنے خیالات کے تمام رنگ برنگ دھاگے آپس میں الجھا دوں گی۔۔۔۔
یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے ...... لیکن میں وہ دن کیوں یاد کرتی ہوں جن کے سینے پر سے وہ اپنے نقش قدم بھی اٹھا کر لے گیا تھا۔۔۔۔
لیکن یہ ...... ۔۔ یہ نقش قدم کس کا ہے۔ یہ جو میرے پیٹ کی گہرائیوں میں تڑپ رہا ہے۔۔۔۔؟ کیا یہ میرا جانا پہچانا نہیں۔۔۔۔
میں اسے کھرچ دوں گی ...... اسے مٹا دوں گی۔ یہ رسولی ہے ۔ پھوڑا ہے۔ بہت خوفناک پھوڑا۔
لیکن مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پھاہا ہے۔۔۔۔ پھاہا ہے تو کس زخم کا؟ اس زخم کا جو وہ مجھے لگا کر چلا گیا تھا؟ نہیں نہیں۔ یہ تو ایسا لگتا ہے، کسی پیدائشی زخم کے لیے ہے۔۔۔۔ ایسے زخم کے لیے جو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ جو میری کوکھ میں جانے کب سے سو رہا تھا۔
یہ کوکھ کیا؟ فضول سی مٹی کی ہنڈکلیا۔ بچوں کا کھلونا میں اسے توڑ پھوڑ دوں گی۔
لیکن یہ کون میرے کان میں کہتا ہے۔ ’’یہ دنیا ایک چوراہا ہے ...... اپنا بھانڈا کیوں اس میں پھوڑتی ہے ...... یاد رکھ تجھ پر انگلیاں اٹھیں گی۔
انگلیاں ...... اُدھر کیوں نہ اٹھیں گی، جدھر وہ اپنی ہستی مکمل کرکے چلا گیا تھا۔ کیا ان انگلیوں کو وہ راستہ معلوم نہیں ...... یہ دنیا ایک چوراہا ہے ...... لیکن اس وقت تو وہ مجھے ایک دوراہے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اِدھر بھی ادھوراپن تھا۔ اُدھر بھی ادھوراپن۔ اِدھر بھی آنسو اُدھر بھی آنسو۔
لیکن یہ کس کا آنسو، میرے سیپ میں موتی بن رہا ہے۔ یہ کہاں بندھے گا؟
انگلیاں اٹھیں گی۔ جب سیپ کا منھ کھلے گا اور موتی پھسل کر باہر چوراہے میں گر پڑے گا تو انگلیاں اٹھیں گی۔ سیپی کی طرف بھی اور موتی کی طرف بھی ...... اور یہ انگلیاں سنپولیاں بن بن کر ان دونوں کوڈسیں گی اور اپنے زہر سے ان کو نیلا کردیں گی۔
آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔۔ یہ گر کیوں نہیں پڑتا ...... وہ کون سے ستون ہیں جو اس کو تھامے ہوئے ہیں ...... کیا اس دن جو زلزلہ آیا تھا وہ ان ستونوں کی بنیادیں ہلا دینے کے لیے کافی نہیں تھا ...... یہ کیوں اب تک میرے سر کے اوپر اسی طرح تنا ہوا ہے؟
میری روح پسینے میں غرق ہے۔۔۔۔ اس کا ہر مسام کھلا ہوا ہے۔ چاروں طرف آگ دہک رہی ہے ...... میرے اندر کٹھالی میں سونا پگھل رہا ہے۔۔۔۔ دھونکنیاں چل رہی ہیں۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔ سونا ، آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی طرح ابل رہا ہے۔ میری رگوں میں نیلی آنکھیں دوڑ دوڑ کر ہانپ رہی ہیں۔۔۔۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں ...... کوئی آرہا ہے ...... کوئی آرہا ہے۔ بند کردو۔ بند کردو کواڑ۔۔۔
کٹھالی الٹ گئی ہے ...... پگھلا ہوا سونا بہہ رہا ہے ...... گھنٹیاں بج رہی ہیں۔۔۔۔ وہ آرہا ہے ...... میری آنکھیں بند ہورہی ہیں ...... نیلا آسمان گدلا ہو کر نیچے آرہا ہے ...... ۔
یہ کس کے رونے کی آواز ہے۔۔۔۔اسے چپ کرائو ...... اس کی چیخیں میرے دل پر ہتھوڑے مار رہی ہیں۔ چپ کرائو۔ اسے چپ کرائو۔ اسے چپ کرائو ...... میں گودبن رہی ہوں۔۔۔۔ میں کیوں گودبن رہی ہوں۔۔۔۔
میری بانہیں کُھل رہی ہیں۔ چولھوں پر دودھ ابل رہا ہے۔ میرے سینے کی گولائیاں پیالیاں بن رہی ہیں ...... لائو اس گوشت کے لوتھڑے کو میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں لٹادو۔۔۔۔
مت چھینو۔ مت چھینو اسے۔۔۔۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھ سے جدا نہ کرو۔
انگلیاں۔۔۔۔ انگلیاں ...... اٹھنے دو انگلیاں۔ مجھے کوئی پروا نہیں ...... یہ دنیا چوراہا ہے ...... پھوٹنے دو میری زندگی کے تمام بھانڈے ۔۔۔۔
میری زندگی تباہ ہوجائے گی؟۔۔۔۔ ہوجانے دو۔۔۔۔ مجھے میرا گوشت واپس دے دو ...... میری روح کا یہ ٹکڑا مجھ سے مت چھینو ...... تم نہیں جانتے یہ کتنا قیمتی ہے ...... ۔ یہ گوہر ہے جو مجھے ان چند لمحات نے عطا کیا ہے۔۔۔۔ ان چند لمحات نے جنہوں نے میرے وجود کے کئی ذرے چُن چُن کر کسی کی تکمیل کی تھی اور مجھے اپنے خیال میں ادھورا چھوڑ کے چلے گئے تھے ...... میری تکمیل آج ہوئی ہے۔
مان لو۔۔۔۔ مان لو ...... میرے پیٹ کے خلا سے پوچھو۔ میری دودھ بھری ہوئی چھاتیوں سے پوچھو۔ ان لوریوں سے پوچھو، جو میرے انگ انگ اور روم روم میں تمام ہچکیاں سُلا کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان جھولنوں سے پوچھو جو میرے بازوئوں میں ڈالے جارہے ہیں۔
میرے چہرے کی زردیوں سے پوچھو جو گوشت کے اس لوتھڑے کے گالوں کو اپنی تمام سرخیاں چساتی رہی ہیں۔۔۔۔ اُن سانسوں سے پوچھو۔ جو چھپے چوری اس کو اس کا حصہ پہنچاتے رہے ہیں۔
انگلیاں۔ اٹھنے دو انگلیاں میں انہیں کاٹ ڈالوں گی۔۔۔۔شور مچے گا۔۔۔۔ میں یہ انگلیاں اٹھا کر اپنے کانوں میں ٹھونس لوں گی۔ میں گونگی ہوجائوں گی، بہری ہوجائوں گی، اندھی ہوجائوں گی۔۔۔۔ میرا گوشت، میرے اشارے سمجھ لیا کرے گا ...... میں اسے ٹٹول ٹٹول کر پہچان لیا کروں گی ...... 
مت چھینو ...... مت چھینو اسے۔ یہ میری کوکھ کی مانگ کا سیندھور ہے۔ یہ میری ممتا کے ماتھے کی بندیاں ہے ...... ۔ میرے گناہ کا کڑوا پھل ہے؟۔ لوگ اس پر تھو تھو کریں گے؟ ...... میں چاٹ لوں گی یہ سب تھوکیں۔۔۔ آنول سمجھ کر صاف کردوں گی ...... 
دیکھو، میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تمھارے پائوں پڑتی ہوں۔
میرے بھرے ہوئے دودھ کے برتن اوندھے نہ کرو ...... میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں آگ نہ لگائو۔ میری بانہوں کے جھولنوں کی رسیاں نہ توڑو۔ میرے کانوں کو ان گیتوں سے محروم نہ کرو جو اس کے رونے میں مجھے سنائی دیتے ہیں۔
مت چھینو۔ مت چھینو ...... مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھے اس سے جدا نہ کرو۔
لاہور۔ ۲۱ جنوری
دھوبی منڈی سے پولیس نے ایک نوزائیدہ بچی کو سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے سڑک کے کنارے پڑی ہوئی پایا اور اپنے قبضے میں لے لیا۔ کسی سنگدل نے بچی کی گردن کو مضبوطی سے کپڑے میں جکڑ رکھا تھا اور عریاں جسم کو پانی سے گیلے کپڑے میں باندھ رکھا تھا تاکہ وہ سردی سے مر جائے۔ مگر وہ زندہ تھی بچی بہت خوبصورت ہے۔ آنکھیں نیلی ہیں۔ اس کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔

شہید ساز (منٹو)

میں گجرات کاٹھیا واڑ کا رہنے والا ہوں۔ ذات کا بنیا ہوں۔ پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان کا ٹنٹا ہوا تو میں بالکل بیکار تھا۔ معاف کیجیے گا میں نے لفظ ٹنٹا استعمال کیا۔ مگر اس کا کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ اردو زبان میں باہر کے الفاظ آنے ہی چاہئیں۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہو۔
جی ہاں، میں بالکل بیکار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا سا کاروبار چل رہا تھا جس سے کچھ آمدن کی صورت ہو ہی جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا اور اِدھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں۔ کوکین کا نہ سہی کوئی اور کاروبار شروع کردوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔
میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ کوئی موٹا کاروبار کروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الاٹ منٹوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ مسکہ پالش مجھ آتا ہی تھا۔ چکنی چپڑی باتیں کیں۔ ایک دو آدمیوں کے ساتھ یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرالیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تو میں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرنے لگا۔
کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹ منٹوں کے سلسلے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ کسی کے مسکہ لگایا، کسی کی مٹھی گرم کی، کسی کو کھانے کی دعوت دی، کسی کو ناچ رنگ کی۔ غرض کہ بے شمار بکھیڑے تھے۔ دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا سا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔
انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی۔ چنانچہ ایک برس کے اندر اندر میں نے لاکھوں روپے پیدا کرلیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا، رہنے کو بہترین کوٹھی۔ بینک میں بے اندازہ مال پانی۔ معاف کیجیے گا میں کاٹھیا واڑ گجرات کا روزہ مرہ استعمال کر گیا۔ مگر کوئی داندہ نہیں۔ اُردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں۔ جی ہاں، اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، نوکر چاکر، پیکارڈ موٹر۔ بینک میں ڈھائی لاکھ روپے، کارخانے اور دکانیں الگ۔۔۔۔ یہ سب تھا۔ لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اُڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھریوں کہیے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟
آدمی ذہین ہوں، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہوجائے تو میں اس کا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں۔ ٹھنڈے دل سے (حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا) میں نے غور کرنا شروع کیا اس گڑ بڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟
عورت؟ ۔۔۔۔۔ ہو سکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں، جو تھی وہ کاٹھیا واڑ گجرات ہی میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھی لیکن دوسروں کی عورتیں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر اپنے مالی ہی کی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے۔ سچ پوچھیے تو عورت جوان ہونی چاہیے اور یہ ضروری نہیں کہ پڑھی لکھی ہو، ڈانس کرنا جانتی ہو۔ اپن کو تو ساری جوان عورتیں چلتی ہیں۔ (کاٹھیا واڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اُردو میں نعم البدل موجود نہیں)۔
عورت کا تو سوال ہی اُٹھ گیا اور دولت کا پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ بندہ زیادہ لالچی نہیں جو کچھ ہے اسی پر قناعت ہے لیکن پھر یہ دل والی بات کیوں پیدا ہو گئی تھی۔
آدمی ذہین ہوں۔ کوئی مسئلہ سامنے آجائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دکانیں بھی چل رہی تھیں۔ روپیہ اپنے آپ پیدا ہورہا تھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ دل کی گڑ بڑ صرف اس لیے ہے کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔
کاٹھیا واڑ گجرات میں تو بیسیوں نیک کام کیے تھے۔ مثال کے طور پر جب میرا دوست پانڈو رنگ مر گیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر ڈال لیا اور دو برس تک اس کو دھند ا کرنے سے روکے رکھا۔ ونائک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خرید دی۔ تقریباً چالیس روپے اس پر اٹھ گئے تھے۔ جمان بائی کو گرمی ہو گئی سالی کو (معاف کیجیے گا) کچھ پتا ہی نہیں تھا میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا۔۔۔۔۔ لیکن پاکستان آکر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا اور دل کی گڑ بڑی کی یہی وجہ تھی۔ ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔
میں نے سوچا کیا کروں؟ خیرات دینے کا خیال آیا لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب ہر شخص بھکاری ہے کوئی بھوکا ہے کوئی ننگا۔ کس کس کا پیٹ بھروں، کس کس کا انگ ڈھانکوں؟ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں لیکن ایک لنگر خانے سے کیا ہوتا اور پھر اناج کہاں سے لاتا؟ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہوا تو یہ سوال بھی ساتھ ہی پیدا ہو گیا کہ ایک طرف گناہ کرکے دوسری طرف کارِ ثواب کا مطلب ہی کیا ہے؟
گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دکھ درد سنے۔ سچ پوچھیے تو ہر شخص دکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں اور وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کام کوئی ہوتا نہیں۔ موٹر میں بیٹھنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کار کا نیا ماڈل نہیں۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی، ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔
میں نے غالب کی ایک غزل اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر سے سنی تھی ایک شعر یاد رہ گیا ہے۔
کس کی حاجت روا کرے کوئی
معاف کیجیے گا۔ یہ اس کا دوسرا مصرع ہے اور ہو سکتا ہے پہلا ہی ہو۔
جی ہاں، میں کس کس کی حاجت روائی کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے۔ میں نے پھر یہ بھی سوچا کی خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکما بنادیا ہے۔ دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ تاش کھیل رہے ہیں جگا ہورہی ہے (معاف کیجیے گا جگا کا مطلب ہے جوا یعنی قمار بازی) گالیاں بک رہے ہیں اور فوکٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔۔۔۔ ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ بھیک دینا ہر گز ہر گز نیکی کا کام نہیں۔ لیکن پھر نیکی کے کام کے لیے اور کون سا رستہ ہے؟
کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مر رہے تھے کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ، ہسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوادوں مگر سوچنے پر ارادہ ترک کردیا۔ پوری اسکیم تیار کر چکا تھا۔ عمارت کے لیے ٹنڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہوجاتا، اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کردیتا اور ٹنڈر اس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پر صرف کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ستر ہزا ر روپے میں بلڈنگ کھڑی کردیتا اور پورے تیسرے ہزار روپے بچا لیتا مگر یہ ساری اسکیم دھری کی دھری رہ گئی، جب میں نے سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچالیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہو گی۔
غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی فالتو آبادی کا ہے۔ لفڑا کا مطلب ہے جھگڑا، وہ جھگڑا جس میں فضیحتا بھی ہو، لیکن اس سے بھی اس لفظ کی پوری معنویت مَیں بیان نہیں کر سکا۔
جی ہاں غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی اس فالتو آبادی کا ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جائیں گی۔ آسمان بھی ساتھ ساتھ پھیلتا جائے گا۔ بارشیں زیادہ ہوں گی۔ اناج زیادہ اُگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہسپتال بنانا ہر گز ہر گز نیک کام نہیں۔
پھر سوچا مسجد بنوادوں۔ لیکن اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر کا گایا ہوا ایک شعر یاد آگیا۔
نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا
وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا۔
کس کم بخت کو نام و نمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اُچھالنے کے لیے پُل بناتے ہیں۔ نیکی کا کیا کام کرتے ہیں؟ خاک! میں نے کہا نہیں یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہر گز مفید نہیں ہو سکتا۔ اس لیے عوام بٹ جاتے ہیں۔
تھک ہار کر میں حج کی تیاریاں کررہا تھا کہ اللہ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر میں ایک جلسہ ہوا جب ختم ہوا تو لوگوں میں بدنظمی پھیل گئی۔اتنی بھگدڑ مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔
میں نے سوچنا شروع کیا۔ سوچنے کے علاوہ میں کئی مولویوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں انہیں شہادت کا رتبہ ملتا ہے یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ ہی نہیں، میں نے سوچا اگر لوگ مرنے کی بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکل اکارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہوجاتے تو کوئی بات بنتی۔ میں نے اس باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔
چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکر و تردد اور غم روزگار کے بوجھ تلے پسے ہوئے، دھنسی ہوئی آنکھیں بے جان چال، کپڑے تار تار، ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح یا تو کسی ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں پڑے ہیں۔ یا بازاروں میں بے مالک مویشیوں کی طرح منھ اٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں کیوں جی رہے ہیں۔ کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں۔ اس کا کچھ پتا ہی نہیں کوئی وبا پھیلی۔ ہزاروں مر گئے اور کچھ نہیں تو بھوک اور پیاس ہی سے گھل گھل کر مرے۔ سردیوں میں اکڑ گئے، گرمیوں میں سوکھ گئے، کسی کی موت پر کسی نے دو آنسو بہا دیئے۔ اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔
زندگی سمجھ میں نہ آئی، ٹھیک ہے اس سے حظ نہ اٹھایا، یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔وہ کس کا شعر ہے۔ اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر کیا درد بھری آواز میں گایا کرتی تھی۔
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سسری پر۔
میں نے سوچا کیوں نہ یہ بے چارے، یہ قسمت کے مارے، درد کے ٹھکرائے ہوئے انسان جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں۔ اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ وہ جو یہاں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے، وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں۔
اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے راضی ہوں گے؟ میں نے سوچا کیوں نہیں۔ وہ کون مسلمان ہے جس میں ذوق شہادت نہیں۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندوئوں اور سکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کردیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت ناامیدی ہوئی جب میں نے ایک مریل سے آدمی سے پوچھا کیا تم شہید ہونا چاہتے ہوں؟ تو اس نے جواب دیا ’’نہیں۔‘‘
سمجھ میں نہ آیا کہ وہ آدمی جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو بڑے میاں، زیادہ سے زیادہ، زیادہ سے زیادہ تم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے۔ چلنے کی تم میں سکت نہیں۔ کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہو تو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا پھوٹی کوڑی تک تمھارے پاس نہیں، زندگی بھر تم نے سُکھ نہیں دیکھا۔ مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر اور جی کہ کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کرکے یہیں بازار میں اس ڈیرے میں جہاں تم رات کو سوتے ہو، اپنی شہادت کا بندوبست کرلو۔ اس نے پوچھا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا۔ ’’یہ سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے۔ فرض کرلیا جائے کہ تم اس پر سے پھسل جائو۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ تم مرجائو گے اور شہادت کا رتبہ پائو گے۔‘‘ پر یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی کہنے لگا ’’میں کیوں آنکھوںدیکھے کیلے کے چھلکے پر پائوں دھرنے لگا۔ کیا مجھے اپنی جان عزیز نہیں۔‘‘ اللہ اللہ کیا جان تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ۔ جھریوں کی گٹھری!!
مجھے افسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا جب میں نے سنا کہ وہ کمبخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رتبہ اختیار کر سکتا تھا۔ خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چارپائی پر کھانستا کھنکارتا مر گیا۔
ایک بڑھیا منھ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ آخری سانس لے رہی تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ ساری عمر غریب کی مفلسی اور رنج و غم میں گزری تھی۔ میں اُسے اُٹھا کر ریل کے پاٹے پر لے گیا۔ معاف کیجیے گا۔ ہمارے یہاں پٹڑی کو پاٹا کہتے ہیں۔ لیکن جناب جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی ہوش میں آگئی اور کُوک بھرے کھلونے کی طرح اُٹھ کر بھاگ گئی۔
میرا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔ بنیا کا بیٹا اپنی دُھن کا پکا ہوتا ہے۔ نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا۔ میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔
مغلوں کے وقت کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا۔ اس میں ایک سو اکاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ بہت ہی خستہ حالت میں۔ میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگالیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیا اور اس میں ایک ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دیئے۔ دو مہینے کرایہ وصول کیا۔ ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے تیسرے مہینے جیسا کہ میرا اندازہ تھا۔ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کمروں کی چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے۔ شہید ہو گئے۔
وہ جو میرے دل پر بوجھ بوجھ سا تھا کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی کم ہو گئے۔ لیکن انہیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔ ادھر کا پلڑا بھاری ہی رہا۔
جب سے یہی کام کررہا ہوں۔ ہر روز حسب توفیق دو تین آدمیوں کو جام شہادت پلا دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا ہی پڑتی ہے۔ اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر ایک شعر گایا کرتی تھی، لیکن معاف کیجیے گا وہ شعر یہاں ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ کچھ بھی ہو۔ کہنا یہ ہے کہ مجھے کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا وجود چھکڑے کے پانچویں پہیے کی طرح بے معنی اور بیکار تھا۔ جام شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے لیکن موت کی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روز جا کر وہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور شہید ہوا۔
آج کل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوا رہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے۔ دو لاکھ کا ہے۔ اس میں سے پچھتر ہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرالیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے گی تو ساری بلڈنگ اڑاڑا دھڑام گر پڑے گی۔ کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہوجائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ پرلے درجے کا گناہگار ہے۔ جس کی شہادت اللہ تبارک و تعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔

کھول دو (منٹو)

امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گئے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ اِدھر اُدھر بھٹک گئے۔ صبح دس بجے، کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہو گئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا۔ لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اس کے ہوش و حواس شل تھے۔ اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اس کے وجود کے رنگ و ریشے میں اُتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں۔ لوٹ، آگ۔ بھاگم بھاگ۔ اسٹیشن۔ گولیاں ...... رات اور سکینہ۔۔۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔
پورے تین گھنٹے وہ سکینہ سکینہ پکارتا کیمپ کی خاک چھانتا رہا۔ مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا کوئی پتا نہ ملا۔ چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی تھی۔ کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا کوئی ماں، کوئی بیوی اور کوئی بیٹی۔ سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گیا اور حافظے پر زور دے کر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی۔ لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جم جاتا۔ جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکتا۔
سکینہ کی ماں مر چکی تھی۔ اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا۔ لیکن سکینہ کہاں تھی جس کے متعلق اس کی ماں نے روتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے چھوڑو۔ اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جائو۔‘‘
سکینہ اس کے ساتھ ہی تھی۔ دونوں ننگے پائوں بھاگ رہے تھے۔ سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے اس نے رکنا چاہا تھا مگر سکینہ نے چلا کر کہا تھا ’’ابا جی۔ چھوڑیئے۔‘‘ لیکن اس نے دوپٹہ اٹھالیا تھا۔۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی ابھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔ سکینہ کا وہی دوپٹہ تھا۔۔۔۔ لیکن سکینہ کہاں تھی؟
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا؟ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی؟ رات میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش ہو گیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کر لے گئے؟
سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ سراج الدین نے رونا چاہا مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔
چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج الدین ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ نوجوان تھے۔ جن کے پاس لاری تھی۔ بندوقیں تھیں۔ سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔ ’’گورا رنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی ...... عمر سترہ برس کے قریب ہے ...... آنکھیں بڑی بڑی۔۔۔ بال سیاہ، داہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لائو۔ تمہارا خدا بھلا کرے گا۔‘‘
رضا کار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہو گی۔
آٹھوں نوجوانو ںنے کوشش کی۔ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر وہ امر تسر گئے۔ کئی عورتوں کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا۔ دس روز گزر گئے مگر انہیں سکینہ کہیں نہ ملی۔
ایک روز اسی خدمت کے لیے لاری پر امر تسر جارہے تھے کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہیں ایک لڑکی دکھائی دی۔ لاری کی آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کردیا رضا کاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک کھیت میں انہوں نے لڑکی کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو بہت خوبصورت تھی۔ داہنے گال پر موٹا تل تھا۔ ایک لڑکے نے اس سے کہا۔ ’’گھبرائو نہیں۔ کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟‘‘
لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہو گیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسا دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اور اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانو ں نے ہر طرح سکینہ کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا۔ دودھ پلایا اور لاری میں بٹھا دیا۔ ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا۔ کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کررہی تھی اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔
کئی دن گزر گئے۔ سراج الدین کی سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی۔ وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر لگاتا رہتا۔ لیکن کہیں سے بھی اس کی بیٹی کا پتہ نہ چلا۔ رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا جنہوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند دنوں ہی میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔
ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا۔ ’’بیٹا میری سکینہ کا پتہ چلا؟‘‘
سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ’’چل جائے گا، چل جائے گا۔‘‘ اور لاری چلا دی۔ سراج الدین نے ایک بار پھر ان نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔
شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا۔ اس کے پاس ہی کچھ گڑ بڑ سی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لارہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں، سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔لوگوں نے لڑکی کو اسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے کچھ دیر وہ ایسے ہی اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ کمرے میں دفعتہ روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا۔ ’’سکینہ!‘‘
ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ 
سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا۔ ’’جی میں۔۔۔جی میں۔۔۔ اس کا باپ ہوں!‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا۔ ’’کھڑکی کھول دو۔‘‘
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔ ’’زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔

ٹھنڈا گوشت (منٹو)

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اُس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کردی، رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پُراسرار خاموشی میں غرق تھا۔
کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے اُلجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا۔ ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور، کچھ بہت ہی زیادہ اوپر کو اُٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔
ایشر سنگھ سرنیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا۔ سر پر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہورہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان تھامے ہوئے تھے۔ تھوڑی تھوڑ لرزاں تھے، مگر اس کے قدوقامت اور خدو خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔ 
چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی۔ ’’ایشر سیّاں۔‘‘
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا۔ مگر اس کی نگاہوں کی گولیوں کی تاب نہ لا کر منھ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلائی۔ ’’ایشر سیّاں۔‘‘ لیکن فوراً ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ پر سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی۔ ’’کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘
کلونٹ کور بھنّا گئی۔ ’’یہ بھی کوئی مال یا جواب ہے؟‘‘
ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا۔ جو اب ایشر سنگھ سے لبا لب بھرا تھا اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘
ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا، اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ ’’کلونت!‘‘
آواز میں درد تھا، کلونت کور ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آگئی۔ ’’ہاں جانی‘‘ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کی طرف سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپّا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا۔ ’’یہ کڑی یا دماغ ہی خراب ہے۔‘‘
جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’ایشر سیّاں کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘
’’برے کی ماں کے گھر۔‘‘ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتاً دونوں ہاتھوں سے اس کے اُبھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ ’’قسم واہگورو کی بڑی جاندار عورت ہو۔‘‘
کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیئے اور پوچھا۔ ’’تمہیں میری قسم بتائو، کہاں رہے؟ شہر گئے تھے؟‘‘
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ ’’نہیں۔‘‘
کلونت کور چڑ گئی۔ ’’نہیں تم ضرور شہر گئے تھے۔ اور تم نے بہت سا روپیہ لُوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔‘‘
’’وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔‘‘
کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی، لیکن فوراً ہی بھڑک اُٹھی۔ ’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اُس رات تمہیں ہوا کیا؟۔ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ تمام گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپّیاں لے رہے تھے، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اُٹھے اور کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔‘‘
ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔ دیکھا کیسے رنگ پیلا پڑگیا۔ ایشر سیّاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے؟‘‘
’’تیری جان کی قسم کچھ بھی نہیں‘‘
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا، بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ’’ایشر سیّاں، کیا بات ہے، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟‘‘
ایشر سنگھ ایک دم اُٹھ بیٹھا، جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا ہے۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوئوں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ اسے بھنبھوڑنا شروع کردیا۔ ’’جانی میں وہی ہوں ...... گھٹ گھٹ پا جھپیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ، لیکن وہ شکایت کرتی رہی۔ ’’تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟‘‘
’’برے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔‘‘
’’بتائو گے نہیں؟‘‘
’’کوئی بات ہو تو بتائوں۔‘‘
’’مجھے اپنے ہاتھوں سے جلائو اگر جھوٹ بولو۔‘‘
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیئے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیئے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آگئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔
ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’آجائو! ایک بازی تاش کی ہوجائے!‘‘
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں، ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔ ’’چل دفان ہو۔‘‘
ایشر سنگھ نے اس کے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔‘‘ نہ کر ایشر سیّاں، میرے درد ہوتا ہے۔‘‘
ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا۔ ’’لو، پھر ہوجائے ترپ چال ...... ‘‘
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیض کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے اس کے بازو پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا، ’’کلونت قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔‘‘
کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی۔ بڑا ظالم ہے تو ایشر سیّاں؟‘‘
ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی مونچھوں میں مسکرایا۔ ’’ہونے دے آج ظلم؟‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کیے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لووں کو کاٹا، اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا، بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منھ بھر بھر کر بوسے لیے، چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح اُبلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے دائو اسے یاد تھے۔ سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کردیئے۔ پر کوئی کارگر نہ ہوا، کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خود بخود بج رہے تھے۔ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کہا۔ ’’ایشر سیّاں کافی پھینٹ چکا ہے، اب پتا پھینک!‘‘
یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی، ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اُس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے، کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی، اب تک سب کچھ منھ سے کہے بغیر ہوتا رہا تھا لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت ناامیدی ہوئی تو وہ جھلّا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی، سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی، اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پُھلا کر بھرے ہوئے لہجے میں کہا ’’ایشر سیّاں، وہ کون حرامزادی ہے، جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے، اور جس نے تجھے نچوڑ ڈالا ہے؟‘‘
ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصے سے اُبلنے لگی۔ ’’میں پوچھتی ہوں؟ کون ہے وہ چڈو۔کون ہے وہ الفتی۔ کون ہے وہ چور پتّا؟‘‘
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ ’’کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔‘‘
کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا۔ ایشر سیّاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔ کھا واہگورو جی کی قسم۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘
ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی ’’قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔ تکا بوٹی کردوں گی! اگر تو نے جھوٹ بولا۔ لے اب کھا واہگورو جی قسم ...... کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘
ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا، کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کردیا۔
آن کی آن میں لہو کے فوارے پھوٹ پڑے، کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیّوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کردیئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی۔ ’’جانے دے اب کلونت! جانے دے۔‘‘
آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون، ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا، اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریئے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔ ’’میری جان، تم نے بہت جلدی کی۔ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔‘‘
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا۔ ’’مگر وہ کون ہے تمہاری ماں؟‘‘
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا، جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن پر جُھرجُھری سی دوڑ گئی۔
’’اور میں ...... ۔ اور میں ...... ۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔۔۔۔ اسی کرپان سے۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔ ’’میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟‘‘
ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلارہی تھیں، ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔ ’’گالی نہ دے اُس بھڑوی کو۔‘‘
کلونت چلائی! ’’میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟‘‘
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی۔ ’’بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔ ’’انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔‘‘
کلونت کو ر اس کے جواب کی منتظر تھی ’’ایشر سیّاں، تو مطلب کی بات کر۔‘‘
ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔ ’’مطلب ہی کی بات کررہا ہوں۔۔۔۔ گلا چراہے ماں یا میرا ۔۔۔۔اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتائوں گا۔‘‘
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے کلونت میری جان۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا! ۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے ...... شہر میں لُوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔۔۔۔ گہنے پاتے اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے وہ میں نے تمہیں دے دیئے ...... لیکن ایک بات نہیں بتائی۔‘‘
ایشر سنگھ نے گھائو میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ ’’کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔ ’’کون سی بات؟‘‘
ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جس مکان پر ...... میں نے دھاوا بولا تھا۔۔۔۔ اس میں سات ...... اس میں سات آدمی تھے ...... چھ میں نے قتل کردیئے۔۔۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے ...... چھوڑ اسے۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت ہی سندر۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔‘‘
کلونت کور، خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ ’’کلونت جانی ’’میں تم سے کیا کہوں، کتنی سندر تھی۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کیا نہیں، ایشر سیّاں کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔‘‘
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا۔ ’’ہوں ...... ‘‘
’’اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا ...... راستے میں ...... کیا کہہ رہا تھا میں؟ ۔۔۔۔ ہاں راستے میں ...... نہر کی پٹڑی کے پاس تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا ...... پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ’’...... یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کورنے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے۔ ’’میں نے ۔۔۔۔ میں نے پتا پھینکا۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔لیکن۔‘‘
اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ ’’وہ ...... وہ مری ہوئی تھی ...... لاش تھی ...... بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا، جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

موذیل (منٹو)


ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔ چار برسوں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لیے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کے لیے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حد نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوئوں کی طرح ٹمٹمارہے ہیں۔
ترلوچن کے لیے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی۔ رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا اور قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت سے محروم۔ قریب قریب تین بجے تھے۔ ہوا بے حد ہلکی پھلکی تھی۔ ترلوچن پنکھے کی میکانکی ہوا کا عادی تھا جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی۔ صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا۔ رات بھر اس کو مارا پیٹا گیا ہے۔ پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، ترو تازگی چوس کر خوش ہورہا تھا جب وہ اُوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کررہا تھا۔ کسی حد تک ٹھنڈ ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔
کرپال کور اور اس کا سارا خاندان۔ محلے میں تھا۔ جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا۔ یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی۔ کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔ ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا ۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔ غالباًاڑتالیس گھنٹوں کا۔ اور ترلوچن لازماً مغلوب تھا آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک مسلمان تھے۔ اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ۔ مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جا سکتا تھا۔
کرپال کی ماں اندھی تھی۔باپ مفلوج۔ بھائی تھا۔ وہ کچھ عرصے سے دیولالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لیے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔
ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرنجن پر بہت غصہ آتا تھا۔ اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کردیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ ’’نرنجن یہ ٹھیکے ویکے ابھی رہنے دو۔ ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمھارا اگرچہ رہنا بہت ضروری ہے لیکن یہاں سے اُٹھ جائو اور میرے یہاں چلے آئو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیا کرتا ہے۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صرف اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرا دیا۔ ’’یار تم خواہ مخواہ فکر کرتے ہو۔ میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں۔ یہ امر تسر یا لاہور نہیں۔ بمبے ہے۔ بمبے تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں اور میں بارہ برس سے یہاں رہ رہا ہوں۔ بارہ برس سے۔‘‘
جانے نرنجن کو کیا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے۔ اگر فساد برپا بھی ہوں تو ان کا اثر خود بخود زائل ہوجاتا ہے، جیسے اس کے پاس چھومنتر ہے۔ یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی۔ مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔ محلہ بالکل محفوظ نہیں۔ وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کے لیے تیار تھا کہ کرپال کو اور اس کے ماں باپ قتل ہو چکے ہیں۔
اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ مرجاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لیے اچھا تھا۔ وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھاتھا کہ ترلوچن کے لیے میدان صاف ہوجاتا خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑاہی نہیں بہت بڑا کھنگھر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کی بجائے کھنگھر سنگھ کہتا۔
صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔ ترلوچن کیسوں سے بے نیاز سر میں بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کررہا تھا۔مگر اس کے اندر بے شمار اندیشے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔ کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ وہ یوں تو ہٹے کٹے کھنگھر سنگھ کی بہن تھی۔ مگر بہت ہی نرم و نازک لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی، وہ گھٹائو، وہ مردانہ پن نہیں تھا، جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنہیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ 
اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔ عام سکھ دیہاتی لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح ، اور بدن چکنا تھا جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے۔ بے حد شرمیلی تھی۔
ترلوچن اسی کے گائوں کا تھا۔ مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا۔ پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اسکول سے فارغ ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہو گئی۔ اس دوران میں وہ کئی مرتبہ — لاتعداد مرتبہ اپنے گائوں گیا۔ مگر اس نے کرپال کور کے نام کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا۔ شاید اس لیے کہ وہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔
کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پُر تھا۔ برما، سنگاپور، ہانگ کانگ۔ پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ 
ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی جو بُری نہیں تھی۔ خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہا دیئے روشن تھے اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔
کرپال کور کا سوچتے سوچتے، وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا۔ اس یہودی لڑکی کے بارے میں جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی۔ اس سے ترلوچن کو گوڈے گوڈے عشق ہو گیا تھا۔ ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔
جس دن اُس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا ، اسی دن اس کی مڈبھیڑ موذیل سے ہوئی جو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک طور پر دیوانی معلوم ہوئی تھی۔ کٹے ہوئے بھورے بال اس کے سر پر پریشان تھے۔ بیحد پریشان ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی تھی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی تھی۔ ڈھیلا ڈھالا لمبا سفید چغہ پہنے تھی۔ جس کے کھلے گریبان سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھیں۔ بانہیں جو کہ ننگی تھیں مہین مہین بالوں سے اَٹی ہوئی تھیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کے آئی ہے اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے۔ مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا۔ بیچ میں ایک تنگ گلی تھی۔ بہت ہی تنگ۔ جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا تو موذیل باہر نکلی۔ کھڑائوں پہنے تھی۔ ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا۔ موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔ ترلوچن بوکھلا گیا۔ جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا ۔ موذیل کی ایک کھڑائوں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔
جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اُس کے اوپر تھی۔ کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی، بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے اِدھر اُدھر تھیں اور۔۔۔۔جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل — ساری موذیل سے الجھاجیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔
جب ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی۔ موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرادی ۔ یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے۔‘‘ اور وہ اتری ہوئی کھڑائوں میں اپنا انگوٹھا اور اس کی ساتھ والی انگلی پھنساتی کوریڈور سے باہر چلی گئی۔
ترلوچن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو۔ لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی۔ لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی۔ وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سے کھاتی تھی، اس سے پیتی تھی۔ اس کے ساتھ سینما جاتی تھی، سارا سارا دن اس کے ساتھ جوہو پر نہاتی تھی لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے کچھ اور آگے بڑھنا چاہتا تو وہ اسے ڈانٹ دیتی کچھ اس طور پر سے گُھرکتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تھی۔ لاہور میں، برما میں ، سنگاپور میں ، وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لیے خرید لیا کرتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الھڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں ’’گوڈے گوڈے ‘‘ دھنس جائے گا وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی، اس کے کہنے پر فوراً سج بن کر سینما جانے پر تیار ہوجاتی تھی مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانا شروع کردیتی۔ کوئی اس کا شناسا نکل آتا تو زور سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لیے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔
ہوٹل میں بیٹھے ہیں۔ ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کے لیے پُرتکلف کھانے منگوائے ہیں مگر اس کو کوئی اپنا پرانا دوست نظر آگیا ہے اور وہ نوالہ چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔
ترلوچن بعض اوقات بھّنا جاتا تھا کیونکہ وہ اسے قطعی طورپر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناسائوں کے ساتھ چلی جاتی تھی اور کئی کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی۔ کبھی سر درد کا بہانہ ، کبھی پیٹ کی خرابی کا جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہو سکتا۔
جب اس سے ملاقات ہوتی تو وہ اس سے کہتی ۔ ’’تم سکھ ہو۔ یہ نازک باتیں تمھاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔‘‘
ترلوچن جل بھن جاتا اور پوچھتا۔ ’’کون سی نازک باتیں۔ تمھارے پرانے یاروں کی؟ ‘‘
موذیل دونوں ہاتھ اپنے چوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کردیتی اور کہتی ۔ ’’یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے ہو ۔ ہاں وہ میرے یار ہیں۔ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔ ‘‘
ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا ۔ ’’ اس طرح تمھاری میری کس طرح نبھے گی۔ ‘‘
موذیل زور کا قہقہہ لگاتی۔ ’’تم سچ مچ سکھ ہو۔ ایڈیٹ ، تم سے کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ نبھائو۔ اگر نبھانے کی بات ہے تو جائو اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔ میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔ ‘‘
ترلوچن نرم ہوجاتا۔ دراصل موذیل اس کی زبردست کمزوری بن گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی۔ معمولی عمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبور ہو کر اس نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔
عام طور پر توہین اور ہتک کا ردعمل انتقام ہوتا ہے مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ اس لیے اپنے دل و دماغ کی بہت سی آنکھیں میچ لی تھیں اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ اس کو موذیل پسند بھی۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا ۔ ’’گوڈے گوڈے‘‘ اس کے عشق میں دھنس گیا تھا۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی اس عشق کی دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔
دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا۔لیکن ثابت قدم رہا۔ آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی۔اپنے بازوئوں میںسمیٹ کر پوچھا ۔ ’’موذیل۔ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔ ‘‘
موذیل اس کے بازوئوں سے جدا ہو گئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیںاور گھنی پلکیں جھپکا کر کہا۔ ’’میں سکھ سے محبت نہیں کر سکتی۔ ‘‘
ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ’’موذیل ! تم ہمیشہ میرا مذاق اُڑاتی ہو۔ یہ میرا مذاق نہیں ، میری محبت کا مذاق ہے۔‘‘
موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا۔ ’’تم شیو کرالو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔ تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمھیں آنکھ ماریں گے۔ تم خوبصورت ہو۔‘‘
ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاںپڑ گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردیئے۔
موذیل نے ایک دم ’’پھوں پھوں‘‘ کی اور اس کی گرفت سے علیٰحدہ ہو گئی۔ ’’میں صبح اپنے دانتوںپر برش کر چکی ہوں۔ تم تکلیف نہ کرو۔ ‘‘
ترلوچن چلایا۔ ’’موذیل۔‘‘
موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آگئی تھیں ’’خدا کی قسم۔ تم اپنی ڈاڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلو اسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کر سکتے ہیں۔ بس تھوڑا سا پیٹرول لگانے کی ضرورت ہو گی۔‘‘
ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلوچن کی ڈاڑھی کھولنی شروع کردی۔اس میں جوپنیں لگی تھیں، وہ اس نے ایک ایک کرکے اپنے دانتوں تلے دبالیں۔
ترلوچن خوبصورت تھا جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اُگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کُھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدو خال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپالیے تھے۔ اس کو اس کا احساس تھا۔ مگر وہ ایک اطاعت شعار اور فرماں بردار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کردے جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔
جب ڈاڑھی پوری کُھلگئی اور اس کے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا۔ ’’یہ تم کیا کررہی ہو؟ ‘‘
دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی۔ ’’تمھارے بال بہت ملائم ہیں۔ میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو اسکرٹ صاف ہو سکے گا۔ ترلوچ۔ تم یہ مجھے دے دو۔ میں انہیں گوندھ کر اپنے لیے ایک فسٹ کلاس بٹوا بنائوں گی۔‘‘
اب ترلوچن کی ڈاڑھی میں چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔ وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا۔ میں نے آج تک تمھارے مذہب کا مذاق نہیں اڑایا۔ تم کیوں اڑاتی ہو۔ دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔ میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا۔ مگر صرف اس لیے کرتا رہا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔ کیا تمھیں اس کا پتہ نہیں۔‘‘
موذیل نے ترلوچن کی ڈاڑھی سے کھیلنا بند کردیا۔ ’’مجھے معلوم ہے۔ ‘‘
’’پھر‘‘۔ ترلوچن نے اپنی ڈاڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہ کیے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں۔ ’’تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی ، میں بھی قریب قریب یہی فیصلہ کر چکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔‘‘
ترلوچن اُچھل پڑا۔ ’’سچ؟ ‘‘
موذیل کے عنابی ہونٹ بڑی موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کُھلے اور اس کے سفید مضبوط دانت ایک لمحے کے لیے چپکے۔ ’’ہاں‘‘!
ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی ڈاڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ تو۔۔۔۔تو کب؟ ‘‘
موذیل الگ ہٹ گئی۔ ’’جب۔ تم اپنے یہ بال کٹوادو گے! ‘‘
ترلوچن میں اس وقت جو ہو سو ہو ، بنا تھا۔ اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا۔ ’’میں کل ہی کٹوا دوں گا۔ ‘‘
موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے گی۔ ’’تم بکواس کرتے ہو ترلوچ، تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ ‘‘
اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا۔ ’’تم دیکھ لو گی۔ ‘‘
’’دیکھ لوں گی۔ ‘‘ اور وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ ترلوچن کی مونچھوں کو چوما اور ’’پھوں پھوں‘‘ کرتی باہر نکل گئی۔
ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔ وہ کن کن اذیتوں سے گزرا اس کا تذکرہ فضول ہے۔ اس لیے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوادیئے اور ڈاڑھی بھی منڈوا دی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا۔ جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا۔ جس پر بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کے لیے غور کرنے پر مجبور ہوجاتی۔
ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی۔ اس نے ٹیرس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ جہاں ٹینکیوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے۔ مگر وہ آئے بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کو بھیجی کہ اس کی طبیعت ناساز ہے۔ تھوڑی کے لیے آجائے۔ موذیل آئی۔ ترلوچن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی، پھر ’’مائی ڈارلنگ ترلوچن‘‘ کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کا سارا چہرہ عنابی کردیا۔
اس نے ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی۔ اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔ موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی سکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کردیا۔ ترلوچن شرما گیا۔ اس نے سکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پر اس سے کہا۔ نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔
موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ باسی اور جگہ جگہ سے اُتری ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا ’’مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے ہی چلتا ہے۔
ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا۔ جب وہ اور موذیل دونوں ٹکرا گئے تھے اور آپس میں کچھ عجیب طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے۔ مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگالیا۔ ’’شادی کل ہو گی؟‘‘
’’ضرور۔‘‘ موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔
طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو۔ چونکہ سول میرج تھی۔ اس لیے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا۔ عدالتی کارروائی تھی۔ اس لیے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے۔ پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں۔ دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہوجانا تھا۔
موذیل ، فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا۔ بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا ، ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے۔ دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کے لیے وہیں رہے گی۔
ترلوچن پر کیا گذری؟ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بھول گیا۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہو گئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کے مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا۔ اس احساس سے اس کو یک گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔
لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کدکڑے لگاتی غائب ہوجاتی تھی۔
وہ بے حیا تھی۔ بے مروت تھی۔ اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ترلوچن کو پسند تھی۔ اس لیے کبھی کبھی وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کررہی ہے۔ اسی آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے۔ اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہو گی۔ حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔
وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا لیکن اپنی مرضی سے، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی۔ اس کو بہت سستی قسم کی چیزیں پسند آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کے ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مر مٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔
ترلوچن اب تک نہ سمجھا سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے کس آب و گِل سے بنی ہے۔ وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی، اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی۔ وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کو چڑانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی تھی۔ ’’تم سکھ ہو۔ مجھے تم سے نفرت ہے! ‘‘
ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی، برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر بھی نہیں تھا وہ کبھی دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی۔ دو ٹوک فیصلہ کردیتی۔ انڈر ویئر اس کو ناپسند تھے۔ اس لیے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی۔ ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا۔ مگر اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔
ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتی تھی۔ ’’یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔ اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کرلیا کرو۔ تم مجھے یہ بتائو کہ کونسا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہو سکتا ۔ یا جس میں سے تمھاری نگاہیں پار نہیں ہو سکتیں۔ مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔ تم سکھ ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سِلی سا انڈر ویئر پہنتے ہو جونیکر سے ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی تمھاری ڈاڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمھارے مذہب میں شامل ہے۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔ اتنے بڑے ہو گئے ہو اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمھارا مذہب انڈر ویئر میں چھپا بیٹھا ہے! ‘‘
ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نا درست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور ڈاڑھی کا صفایا کرادیا تھا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا اتنا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب ہی نہیں تھا۔
پانی کی ٹینکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا۔ موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا۔ کرپال کور۔ ایک پاکیزہ لڑکی جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین واردات بھی ہو چکی تھیں۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا مگر کرفیو کی کون پروا کرتا ہے۔ اس چالی کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کو ر ، اس کی ماں اور اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کر سکتے تھے۔
ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا۔ اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر وہ اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ فورٹ میں ایک باربر تھا وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا کہ ترشی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔ اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے کھڑائوں کی کرخت آواز سنائی دی اس نے سوچا کون ہو سکتاہے؟ بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں جو سب کی سب گھر میں کھڑائوں پہنتی تھیں۔ آواز قریب آتی گئی۔ یک لخت اس نے دوسری ٹینکی کے پاس موذیل کو دیکھا جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا کرتا پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔ اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا اس کے آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔
ترلوچن پانی کے نل پر سے اٹھا۔ اس نے سوچا۔ ’’یہ ایکاایکی کہاں سے نمودار ہو گئی۔ اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟
موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔ اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔ ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے ۔ وہ زور سے کھانسا۔ موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا ردعمل بالکل خفیف تھا۔ کھڑائوں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی ڈاڑھی دیکھنے لگی۔ ’’تم پھر سکھ بن گئے ترلوچن؟‘‘
ڈاڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔
موذیلؔنے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ  کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا۔ ’’اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بلو سکرٹ صاف کر سکے۔مگر وہ تو وہیں دیولالی میں رہ گئی ہے۔‘‘
 ترلوچن خاموش رہا۔
موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی۔ ’’بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟ ‘‘
ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا تاہم اس نے صبح کے ملگجے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایک طرف وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی۔ ترلوچن نے اس سے پوچھا۔ بیمار رہی ہو؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘موذیل نے اپنے ترشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سے جھٹکا دیا۔
’’پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟ ‘‘
’’میں ڈائٹنگ کررہی ہوں۔‘‘ موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑائوں فرش کے ساتھ بجانے لگی۔ ’’تم گویا کہ۔ اب پھر۔ نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔ ‘‘
ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔ ’’ہاں! ‘‘
’’مبارک ہو۔ ‘‘ موذیل نے ایک کھڑائوں پیر سے اتار لی اور پانی کے نل پر بجانے گی۔ کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کردی۔‘‘
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’ہاں! ‘‘
’’مبارک ہو۔ اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’یہ بہت بُری بات ہے۔ ‘‘ موذیل کھڑائوں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی۔ ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘ 
ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اٹھ کر اس کی ڈاڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چھیڑا ۔ ’’کیا اس لڑکی نے تمھیںیہ بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘
ترلوچن بڑی اُلجھن محسوس کررہا تھا جیسے کنگھا کرتے کرتے اس کی ڈاڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں۔ جب اس نے ’’نہیں‘‘ کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔
موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گائوں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکرے کردیئے ہیں۔
مسکرانے کے بعد وہ ہنسی۔ ’’تم اب یہ ڈاڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو۔ میں تم سے شادی کرلوں گی۔‘‘
ترلوچن کے جی میں آئی کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طبیعت کنواری لڑکی سے محبت کررہا ہے اور اسی سے شادی کرے گا۔ موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے۔ بد صورت ہے، بے وقوف ہے۔ بے مروت ہے مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا۔ اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا۔ ’’موذیل! میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ میرے گائوں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔ جو مذہب کی پابند ہے۔ اسی کے لیے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘
موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑائوں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا۔ ’’وہ مذہب کی پابند ہے تو تمھیں کیسے قبول کرے گی؟ ۔ کیا اسے معلوم ہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟ ‘‘
اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔ ڈاڑھی میں تمھارے دیولالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کردی تھی۔ محض انتقامی طور پر۔اس کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی۔ مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ہوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔ مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔ ‘‘ ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔
موذیل نے لمبا کرتا اٹھا کر اپنی گوری دبیز ران کھجانی شروع کی۔ ’’یہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔ مگر یہ کم بخت مچھر یہاں بھی موجود ہے۔ دیکھنا کس زور سے کاٹا ہے۔‘‘
ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔ ’’کب ہورہی ہے تمھاری شادی؟ ‘‘
’’ابھی کچھ پتہ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ترلوچن سخت متفکر ہو گیا۔
چند لمحات تک خاموش رہی۔ اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکر کا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔ ترلوچن۔ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی۔ خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنادیا۔ موذیل ہنسی۔ ’’تم اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ جائو اس کو لے آئو۔ ایسی کیا مشکل ہے؟‘‘
’’مشکل!۔ موذیل تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔ کسی بھی معاملے کی نزاکت۔ تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمھارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں پانی کے نل کے ساتھ ماری۔ ’’افسوس بی ڈیمڈ۔ سِلی ایڈیٹ۔ تم یہ سوچو کہ تمھاری اس۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔اس محلے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔۔۔۔ تم بیٹھ گئے جو تعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔ تمھارے میرے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ تم ایک سِلی قسم کے آدمی ہو۔ اور بہت ڈرپوک، مجھے نڈر مرد چاہیے۔ لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔چلو آئو، تمھاری اس کور کو لے آئیں! ‘‘
اس نے ترلوچن کا بازو پکڑلیا۔ ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا۔ ’’کہاں سے؟ ‘‘
’’وہیں سے جہاں وہ ہے۔ میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں۔ چلو آئو میرے ساتھ۔‘‘
’’سنو تو۔ کرفیو ہے۔‘‘
موذیل کے لیے نہیں۔ چلو آئو۔‘‘
’’ترلوچن کو بازو سے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی تھی جو نیچے سیڑھیوں کی طرف کُھلتا تھا۔ دروازہ کھول کر وہ اترنے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی ڈاڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔
ترلوچن نے پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘
موذیل نے کہا ۔ ’’یہ تمھاری ڈاڑھی ۔ لیکن خیر ٹھیک ہے۔ اتنی بڑی نہیں ہے۔ ننگے سر چلو گے تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھ ہو۔
’’ننگے سر! ترلوچن نے کسی قدر بوکھلا کر کہا۔ میں ننگے سر نہیں جائوں گا۔‘‘
موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘
ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی ’’تم سمجھتی نہیں ہو۔ میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔ ‘‘
’’کیوں ٹھیک نہیں۔‘‘
’’تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔ وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں۔ میں اس پر یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں دروازے کی دہلیز پر ماری۔ ’’تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ گدھے کہیں کے۔۔۔۔اس کی جان کا سوال ہے۔ کیا نام ہے ۔ تمھاری اس کور کا جس سے تم محبت کرتے ہو۔
ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’موذیل۔ وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔ اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔
موذیل چڑھ گئی۔ ’’اوہ۔ تمھاری محبت بی ڈیمڈ۔ میں پوچھتی ہوں۔ کیا سارے سکھ تمھارے طرح کے بیوقوف ہوتے ہیں۔ اس کی جان کا خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔ اور شاید وہ اپنا انڈر ویئر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔‘‘
ترلوچن نے کہا۔ ’’وہ تو میں ہر وقت پہننے ہوتا ہوں۔‘‘
’’بہت اچھا کرتے ہو۔ مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی ہی میاں بھائی رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے دادا اور بڑے بڑے موالی۔ تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کردیئے جائو گے۔‘‘
ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا۔ ’’مجھے اس کی پروا نہیں۔ اگر میں تمھارے ساتھ وہاں جائوں تو پگڑی پہن کر جائوں گا۔ میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا! ‘‘
موذیل جھنجھلا گئی۔ اس زور سے اس نے پیچ و تاب کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بِھڑبِھڑ گئیں۔ ’’گدھے۔ تمھاری محبت ہی کہاں رہے گی جب تم نہ ہو گے۔ تمھاری وہ۔ کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔ جب وہ بھی نہ رہے گی اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔ تم سکھ ہو۔ خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو! ‘‘
ترلوچون بھننا گیا۔ ’’بکواس نہ کرو! ‘‘
موذیل زور سے ہنسی ۔ مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانہیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جُھول کر کہا ۔ ڈارلنگ چلو۔ جیسے تمھاری مرضی۔ جائو پگڑی پہن آئو میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی۔ ترلوچن نے اسے روکا ’’تم کپڑے نہیں پہنو گی! ‘‘
موذیل نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔ ’’نہیں۔ چلے گا اسی طرح۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اُتر گئی۔ ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھی اس کی کھڑائوں کی چوبی آواز سنتا رہا۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا۔ جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی۔ اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کرکے نیچے اُتر گیا۔
باہر فٹ پاتھ پر موذیل پر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کیے سگریٹ پی رہی تھی۔ بالکل مردانہ انداز میں جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منھ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا۔ ترلوچن نے غصے میں کہا ’’تم بہت ذلیل ہو۔‘‘
موذیل مسکرائی۔ ’’یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ اس سے پہلے اس کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں۔‘‘ پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا۔ ’’یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے تمھارے کیس ہیں۔‘‘
بازار بالکل سنسان تھا۔ ایک طرف ہوا چل رہی تھی اور وہ بھی بہت دھیرے دھیرے۔ جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے۔ بتیاں روشن تھیں مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی عام طور پر اس وقت ٹرینیں چلنی شروع ہوجاتی تھیں اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری ہوجاتی تھی، اچھی خاصی گہماگہمی ہوتی تھی پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گذرا ہے نہ گذرے گا۔‘‘
موذیل آگے آگے تھی۔ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑائوں کھٹ کھٹ کررہی تھی۔ یہ آواز اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی۔ ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑائوں ہی اتار کر کوئی دوسری چیز پہن سکتی تھی۔ اس نے چاہا کہ موذیل سے کہے کھڑائوں اُتار دو اور ننگے پائوں چلو۔ مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی۔ اس لیے خاموش رہا۔ 
ترلوچن سخت خوفزدہ تھا۔ کوئی پتا کھڑکتا تو اس کا دل دھک سے رہ جاتا تھا۔ مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جارہی تھی۔ سگریٹ کا دھواں اُڑاتی جیسے وہ بڑی بے فکری سے چہل قدم کررہی ہے۔
چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گرجی۔ ’’اے۔ کدھر جارہا ہے۔ ‘‘
ترلوچن سہم گیا۔ موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئی اور بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر کہا۔ ’’اوہ — تم ہم کو پہچانا نہیں تم نے — موذیل ...... پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ادھر اس باجو۔ ہمارا بہن رہتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر لے کر جارہا ہے۔۔۔۔‘‘
سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور ایک سگریٹ نکال کر اس کو دیا۔ لو پیئو۔
سپاہی نے سگریٹ لے لیا۔ موذیل نے اپنے منھ سے سلگا ہوا سگریٹ نکالا اور اس سے کہا ۔ ’’ہیر از لائٹ! ‘‘
سپاہی نے سگریٹ کا کش لیا۔ موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔ جس میں سے گزر کر انھیں محلے جانا تھا۔
ترلوچن خاموش تھا۔ مگر وہ محسوس کررہا تھا کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کرکے ایک عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس کررہی ہے۔ خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا۔ وہ جب جوہو پر اس کے ساتھ ہوتی تو اس کے لیے ایک مصیبت بن جاتی تھی۔ سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دُور تک نکلی جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ کہیں وہ ڈوب نہ جائے جب واپس آتی تو اس کا جسم نیلوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔
موذیل آگے آگے تھی۔ ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے ڈر ڈر کے اِدھر اُدھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل میں سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہوجائے۔ موذیل رُک گئی۔ جب ترلوچن پاس آیا تو اُس نے سمجھانے کے انداز میں اس سے کہا کہ ترلوچ ڈیئر۔ اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔ تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔ سچ کہتی ہوں۔ یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔‘‘
ترلوچن خاموش رہا۔
جب وہ گلی طے کرکے دوسری گلی میں پہنچے ۔ جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی، جس میں کرپال کور رہتی تھی تو موذیل چلتے چلتے ایک دم رُک گئی۔ کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مارواڑی کی دُکان لُوٹی جارہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اس نے اس معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا، کوئی بات نہیں۔ چلو آئو۔‘‘
دونوں چلنے لگے۔ ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اُٹھائے چلا آرہا تھا۔ ترلوچن سے ٹکرا گیا۔ پرات گر گئی۔ اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکھ ہے۔ اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا ۔ کہ موذیل آگئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چُور رہے ۔ اس نے زور سے اس آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا۔ اے کیا کرتا ہے۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔ ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔ پھر وہ ترلوچن سے مخاطب ہوئی، ’’کریم، اٹھائو، پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔‘‘
اس آدمی نے نیفے میں سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنکھوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا۔ ’’عیش کر سالی۔ عیش کر۔‘‘ پھر اس نے پرات اٹھائی اور یہ جا ، وہ جا۔
ترلوچن بڑ بڑایا۔ ’’کیسی ذلیل حرکت کی ہے حرامزادے نے! ‘‘
موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔ ’’کوئی ذلیل حرکت نہیں۔ سب چلتا ہے۔۔۔۔آئو۔‘‘
اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔ ترلوچن نے بھی قدم تیز کردیئے۔
یہ گلی طے کرکے دونوں اس محلے میں پہنچ گئے۔ جہاں کرپال کور رہتی تھی۔ موذیل نے پوچھا۔ کس گلی میں جانا ہے؟ ‘‘
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’تیسری گلی میں۔ نکڑ والی بلڈنگ! ‘‘
موذیل نے اس طرف چلنا شروع کردیا۔ یہ راستہ بالکل خاموش تھا۔ آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے تک کے رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔ ایک آدمی بڑی تیزی سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر کے بعد تین آدمی نکلے۔ فٹ پاتھ پر انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئے۔ موذیل ٹھٹک گئی۔ اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہوجائے۔ پھر اس نے ہولے سے کہا۔ ’’ترلوچن ڈیئر۔ یہ پگڑی اتار دو! ‘‘
ترلوچن نے جواب دیا ’’میں یہ کسی صورت میں بھی نہیں اتار سکتا! ‘‘
موذیل جھنجھلا گئی۔ ’’تمھاری مرضی۔ لیکن تم دیکھتے نہیں، سامنے کیا ہورہا ہے۔ ‘‘
سامنے جو کچھ ہورہا تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ صاف گڑ بڑ ہورہی تھی اور بڑی پُراسرار قسم کی ۔ دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی۔ ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی تو اس نے ترلوچن سے کہا۔ ’’دیکھو، ایسا کرو۔ میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔ تم میرے پیچھے آنا۔ بڑی تیزی سے جیسے تم میرا پیچھا کررہے ہو۔ سمجھے۔ مگر یہ سب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔ ‘‘
موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑائوں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی ، ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ چند لمحوں میں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔ سیڑھیوں کے پاس ترلوچن ہانپ رہا تھا۔ مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس نے ترلوچن سے پوچھا۔ ’’کون سا مالا؟‘‘
ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’دوسرا۔‘‘
’’چلو ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ ترلوچن اُس کے پیچھے ہولیا۔ زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ کر اس کا خون خشک ہورہا تھا۔
دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی۔ موذیل دور سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔
ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منھ لگا کر آواز دی۔ ’’مہنگا سنگھ جی۔ مہنگا سنگھ جی! ‘‘
اندر سے مہین آوا ز آئی۔ ’’کون؟ ‘‘
’’ترلوچن! ‘‘
دروازے دھیرے سے کھلا۔ ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا وہ لپک کر آئی۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔ موذیل نے اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا جو بے حد سہمی ہوئی تھی۔ موذیل نے اس کو ایک لمحے کے لیے غور سے دیکھا پتلے پتلے نقش تھے۔ ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا ۔ موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔
ترلوچن سرخ ہو گیا۔
موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا ۔ ’’ڈرو نہیں، ترلوچن تمھیں لینے آیا ہے۔‘‘
کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہو گئی۔
ترلوچن نے اس سے کہا۔ سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہوجائیں۔ اور ماتاجی سے بھی۔ لیکن جلدی کرو۔ ‘‘
اتنے میں اُوپر کی منزل پر بلند آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیخ رہا ہے اور دھینگا مشتی ہورہی ہے۔
کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ بلند ہوئی۔ اسے پکڑ لیا انھوں نے ! ‘‘
ترلوچن نے پوچھا۔ ’’کسے ؟‘‘
کرپال کور جواب دینے ہی والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی۔ ’’پکڑ لیا تو اچھا ہوا تم یہ کپڑے اتارو۔ ‘‘
کرپال کور ابھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آناً فاناً اس کی قمیض اُتار کر ایک طرف رکھ دی۔ کرپال کور نے اپنی بانہوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور وحشت زدہ ہو گئی۔ ترلوچن نے منھ دوسری طرف موڑ لیا۔ موذیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتا اتار ا اور اس کو پہنا دیا۔ خود وہ ننگ دھڑنگ تھی جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا ازاربند ڈھیلا کیا اور اس کی شلوار اُتار کر ، ترلوچن سے کہنے لگی۔ ’’جائو، اسے لے جائو۔ لیکن ٹھہرو۔ ‘‘
یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دیئے اور کہا، ’’جائو۔ جلدی نکل جائو۔ ‘‘
ترلوچن نے اس سے کہا ۔ آئو ’’مگر فوراً ہی رک گیا۔ پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی۔ اس کی بانہوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔
’’تم جاتے کیوں نہیں ہو؟ ‘‘ موذیل کے لہجے میں چڑ چڑاپن تھا۔
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔ ‘‘
’’جہنم میں جائیں وہ۔ تم اسے لے جائو۔ ‘‘
’’اور تم ؟ ‘‘
’’میں آجائوں گی۔ ‘‘
ایک دم اُوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے۔ دروازے کے پاس آکر انھوں نے کوٹنا شروع کردیا۔ جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔
کرپال کور کی اندھی ماں اور اس کا مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراہ رہے تھے۔
موذیل نے کچھ سوچا اور بالوں کو خفیف جھٹکا دے کر اس نے ترلوچن سے کہا ۔ ’’سنو اب صرف ایک ہی ترکیب میری سمجھ میں آتی ہے۔ میں دروازہ کھولتی ہوں۔۔۔۔‘‘
کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی نکلتی دب گئی۔ ’’دروازہ۔ ‘‘
موذیل ترلوچن سے مخاطب رہی۔ ’’میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔ تم میرے پیچھے بھاگنا۔ میں اُوپر چڑھ جائوں گی۔ تم بھی اُوپر چلے آنا۔ یہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے پھر پوچھا۔ ’’پھر؟ ‘‘
موذیل نے کہا۔ ’’یہ تمھاری۔ کیا نام ہے اس کا۔ موقع پا کر نکل جائے۔ اس لباس میں اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔ ‘‘
ترلوچن نے جلدی جلد کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی۔ موذیل زور سے چلائی۔ دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری۔ 
سب بوکھلا گئے اُٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ ترلوچن اس کے پیچھے بھاگا۔ سب ایک طرف ہٹ گئے۔
موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔کھڑائوں اس کے پیروں میں تھی۔ وہ لوگ جو دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے تھے سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے ۔ موذیل کا پائوں پھسلا ۔ اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی، لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آرہی۔ پتھریلے فرش پر۔
ترلوچن ایک دم نیچے اُترا۔ جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ منھ سے خون بہہ رہا تھا کانوں کے رستے بھی خون نکل رہا تھا۔ وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے اردگرد جمع ہو گئے۔ کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے۔ سب خاموش تھا اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔
ترلوچن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی ’’موذیل۔ موذیل۔‘‘
موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں جو لال بوٹی ہورہی تھیں اور مسکرائی۔
ترلوچن نے اپنی پگڑی اتاری اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا۔ موذیل پھر مسکرائی اور آنکھ مار کر اس نے ترلوچن سے منھ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جائو دیکھو۔ میرا انڈر ویئر وہاں ہے کہ نہیں۔ میرا مطلب ہے وہ۔۔۔۔‘‘
ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھنا نہ چاہا۔ اس پر موذیل نے غصے میں کہا، ’’تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ جائو دیکھ کر آئو۔‘‘
ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔ موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا یہ میاں بھائی ہے ...... لیکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔ میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔ ‘‘
ترلوچن واپس آگیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتادیا کہ کرپال کور جا چکی ہے۔۔۔۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منھ سے بہہ نکلا۔ ’’اوہ ڈیم اٹ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اَٹی ہوئی کلائی سے اپنا منھ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔ آل رائٹ ڈارلنگ ۔۔۔ بائی بائی۔ ‘‘
ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔
موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔ ’’لے جائو اس کو۔ اپنے اس مذہب کو۔ ’’اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔