صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

کھول دو (منٹو)

امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گئے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ اِدھر اُدھر بھٹک گئے۔ صبح دس بجے، کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہو گئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا۔ لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اس کے ہوش و حواس شل تھے۔ اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اس کے وجود کے رنگ و ریشے میں اُتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں۔ لوٹ، آگ۔ بھاگم بھاگ۔ اسٹیشن۔ گولیاں ...... رات اور سکینہ۔۔۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔
پورے تین گھنٹے وہ سکینہ سکینہ پکارتا کیمپ کی خاک چھانتا رہا۔ مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا کوئی پتا نہ ملا۔ چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی تھی۔ کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا کوئی ماں، کوئی بیوی اور کوئی بیٹی۔ سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گیا اور حافظے پر زور دے کر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی۔ لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جم جاتا۔ جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکتا۔
سکینہ کی ماں مر چکی تھی۔ اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا۔ لیکن سکینہ کہاں تھی جس کے متعلق اس کی ماں نے روتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے چھوڑو۔ اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جائو۔‘‘
سکینہ اس کے ساتھ ہی تھی۔ دونوں ننگے پائوں بھاگ رہے تھے۔ سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے اس نے رکنا چاہا تھا مگر سکینہ نے چلا کر کہا تھا ’’ابا جی۔ چھوڑیئے۔‘‘ لیکن اس نے دوپٹہ اٹھالیا تھا۔۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی ابھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔ سکینہ کا وہی دوپٹہ تھا۔۔۔۔ لیکن سکینہ کہاں تھی؟
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا؟ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی؟ رات میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش ہو گیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کر لے گئے؟
سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ سراج الدین نے رونا چاہا مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔
چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج الدین ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ نوجوان تھے۔ جن کے پاس لاری تھی۔ بندوقیں تھیں۔ سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔ ’’گورا رنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی ...... عمر سترہ برس کے قریب ہے ...... آنکھیں بڑی بڑی۔۔۔ بال سیاہ، داہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لائو۔ تمہارا خدا بھلا کرے گا۔‘‘
رضا کار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہو گی۔
آٹھوں نوجوانو ںنے کوشش کی۔ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر وہ امر تسر گئے۔ کئی عورتوں کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا۔ دس روز گزر گئے مگر انہیں سکینہ کہیں نہ ملی۔
ایک روز اسی خدمت کے لیے لاری پر امر تسر جارہے تھے کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہیں ایک لڑکی دکھائی دی۔ لاری کی آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کردیا رضا کاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک کھیت میں انہوں نے لڑکی کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو بہت خوبصورت تھی۔ داہنے گال پر موٹا تل تھا۔ ایک لڑکے نے اس سے کہا۔ ’’گھبرائو نہیں۔ کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟‘‘
لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہو گیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسا دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اور اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانو ں نے ہر طرح سکینہ کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا۔ دودھ پلایا اور لاری میں بٹھا دیا۔ ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا۔ کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کررہی تھی اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔
کئی دن گزر گئے۔ سراج الدین کی سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی۔ وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر لگاتا رہتا۔ لیکن کہیں سے بھی اس کی بیٹی کا پتہ نہ چلا۔ رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا جنہوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند دنوں ہی میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔
ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا۔ ’’بیٹا میری سکینہ کا پتہ چلا؟‘‘
سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ’’چل جائے گا، چل جائے گا۔‘‘ اور لاری چلا دی۔ سراج الدین نے ایک بار پھر ان نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔
شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا۔ اس کے پاس ہی کچھ گڑ بڑ سی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لارہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں، سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔لوگوں نے لڑکی کو اسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے کچھ دیر وہ ایسے ہی اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ کمرے میں دفعتہ روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا۔ ’’سکینہ!‘‘
ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ 
سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا۔ ’’جی میں۔۔۔جی میں۔۔۔ اس کا باپ ہوں!‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا۔ ’’کھڑکی کھول دو۔‘‘
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔ ’’زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔

ٹھنڈا گوشت (منٹو)

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اُس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کردی، رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پُراسرار خاموشی میں غرق تھا۔
کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے اُلجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا۔ ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور، کچھ بہت ہی زیادہ اوپر کو اُٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔
ایشر سنگھ سرنیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا۔ سر پر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہورہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان تھامے ہوئے تھے۔ تھوڑی تھوڑ لرزاں تھے، مگر اس کے قدوقامت اور خدو خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔ 
چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی۔ ’’ایشر سیّاں۔‘‘
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا۔ مگر اس کی نگاہوں کی گولیوں کی تاب نہ لا کر منھ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلائی۔ ’’ایشر سیّاں۔‘‘ لیکن فوراً ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ پر سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی۔ ’’کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘
کلونٹ کور بھنّا گئی۔ ’’یہ بھی کوئی مال یا جواب ہے؟‘‘
ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا۔ جو اب ایشر سنگھ سے لبا لب بھرا تھا اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘
ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا، اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ ’’کلونت!‘‘
آواز میں درد تھا، کلونت کور ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آگئی۔ ’’ہاں جانی‘‘ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کی طرف سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپّا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا۔ ’’یہ کڑی یا دماغ ہی خراب ہے۔‘‘
جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’ایشر سیّاں کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘
’’برے کی ماں کے گھر۔‘‘ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتاً دونوں ہاتھوں سے اس کے اُبھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ ’’قسم واہگورو کی بڑی جاندار عورت ہو۔‘‘
کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیئے اور پوچھا۔ ’’تمہیں میری قسم بتائو، کہاں رہے؟ شہر گئے تھے؟‘‘
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ ’’نہیں۔‘‘
کلونت کور چڑ گئی۔ ’’نہیں تم ضرور شہر گئے تھے۔ اور تم نے بہت سا روپیہ لُوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔‘‘
’’وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔‘‘
کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی، لیکن فوراً ہی بھڑک اُٹھی۔ ’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اُس رات تمہیں ہوا کیا؟۔ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ تمام گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپّیاں لے رہے تھے، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اُٹھے اور کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔‘‘
ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔ دیکھا کیسے رنگ پیلا پڑگیا۔ ایشر سیّاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے؟‘‘
’’تیری جان کی قسم کچھ بھی نہیں‘‘
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا، بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ’’ایشر سیّاں، کیا بات ہے، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟‘‘
ایشر سنگھ ایک دم اُٹھ بیٹھا، جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا ہے۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوئوں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ اسے بھنبھوڑنا شروع کردیا۔ ’’جانی میں وہی ہوں ...... گھٹ گھٹ پا جھپیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ، لیکن وہ شکایت کرتی رہی۔ ’’تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟‘‘
’’برے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔‘‘
’’بتائو گے نہیں؟‘‘
’’کوئی بات ہو تو بتائوں۔‘‘
’’مجھے اپنے ہاتھوں سے جلائو اگر جھوٹ بولو۔‘‘
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیئے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیئے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آگئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔
ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’آجائو! ایک بازی تاش کی ہوجائے!‘‘
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں، ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔ ’’چل دفان ہو۔‘‘
ایشر سنگھ نے اس کے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔‘‘ نہ کر ایشر سیّاں، میرے درد ہوتا ہے۔‘‘
ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا۔ ’’لو، پھر ہوجائے ترپ چال ...... ‘‘
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیض کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے اس کے بازو پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا، ’’کلونت قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔‘‘
کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی۔ بڑا ظالم ہے تو ایشر سیّاں؟‘‘
ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی مونچھوں میں مسکرایا۔ ’’ہونے دے آج ظلم؟‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کیے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لووں کو کاٹا، اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا، بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منھ بھر بھر کر بوسے لیے، چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح اُبلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے دائو اسے یاد تھے۔ سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کردیئے۔ پر کوئی کارگر نہ ہوا، کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خود بخود بج رہے تھے۔ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کہا۔ ’’ایشر سیّاں کافی پھینٹ چکا ہے، اب پتا پھینک!‘‘
یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی، ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اُس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے، کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی، اب تک سب کچھ منھ سے کہے بغیر ہوتا رہا تھا لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت ناامیدی ہوئی تو وہ جھلّا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی، سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی، اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پُھلا کر بھرے ہوئے لہجے میں کہا ’’ایشر سیّاں، وہ کون حرامزادی ہے، جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے، اور جس نے تجھے نچوڑ ڈالا ہے؟‘‘
ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصے سے اُبلنے لگی۔ ’’میں پوچھتی ہوں؟ کون ہے وہ چڈو۔کون ہے وہ الفتی۔ کون ہے وہ چور پتّا؟‘‘
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ ’’کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔‘‘
کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا۔ ایشر سیّاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔ کھا واہگورو جی کی قسم۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘
ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی ’’قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔ تکا بوٹی کردوں گی! اگر تو نے جھوٹ بولا۔ لے اب کھا واہگورو جی قسم ...... کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘
ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا، کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کردیا۔
آن کی آن میں لہو کے فوارے پھوٹ پڑے، کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیّوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کردیئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی۔ ’’جانے دے اب کلونت! جانے دے۔‘‘
آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون، ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا، اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریئے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔ ’’میری جان، تم نے بہت جلدی کی۔ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔‘‘
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا۔ ’’مگر وہ کون ہے تمہاری ماں؟‘‘
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا، جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن پر جُھرجُھری سی دوڑ گئی۔
’’اور میں ...... ۔ اور میں ...... ۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔۔۔۔ اسی کرپان سے۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔ ’’میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟‘‘
ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلارہی تھیں، ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔ ’’گالی نہ دے اُس بھڑوی کو۔‘‘
کلونت چلائی! ’’میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟‘‘
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی۔ ’’بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔ ’’انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔‘‘
کلونت کو ر اس کے جواب کی منتظر تھی ’’ایشر سیّاں، تو مطلب کی بات کر۔‘‘
ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔ ’’مطلب ہی کی بات کررہا ہوں۔۔۔۔ گلا چراہے ماں یا میرا ۔۔۔۔اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتائوں گا۔‘‘
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے کلونت میری جان۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا! ۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے ...... شہر میں لُوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔۔۔۔ گہنے پاتے اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے وہ میں نے تمہیں دے دیئے ...... لیکن ایک بات نہیں بتائی۔‘‘
ایشر سنگھ نے گھائو میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ ’’کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔ ’’کون سی بات؟‘‘
ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جس مکان پر ...... میں نے دھاوا بولا تھا۔۔۔۔ اس میں سات ...... اس میں سات آدمی تھے ...... چھ میں نے قتل کردیئے۔۔۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے ...... چھوڑ اسے۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت ہی سندر۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔‘‘
کلونت کور، خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ ’’کلونت جانی ’’میں تم سے کیا کہوں، کتنی سندر تھی۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کیا نہیں، ایشر سیّاں کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔‘‘
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا۔ ’’ہوں ...... ‘‘
’’اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا ...... راستے میں ...... کیا کہہ رہا تھا میں؟ ۔۔۔۔ ہاں راستے میں ...... نہر کی پٹڑی کے پاس تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا ...... پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ’’...... یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کورنے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے۔ ’’میں نے ۔۔۔۔ میں نے پتا پھینکا۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔لیکن۔‘‘
اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ ’’وہ ...... وہ مری ہوئی تھی ...... لاش تھی ...... بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا، جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

موذیل (منٹو)


ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔ چار برسوں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لیے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کے لیے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حد نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوئوں کی طرح ٹمٹمارہے ہیں۔
ترلوچن کے لیے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی۔ رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا اور قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت سے محروم۔ قریب قریب تین بجے تھے۔ ہوا بے حد ہلکی پھلکی تھی۔ ترلوچن پنکھے کی میکانکی ہوا کا عادی تھا جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی۔ صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا۔ رات بھر اس کو مارا پیٹا گیا ہے۔ پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، ترو تازگی چوس کر خوش ہورہا تھا جب وہ اُوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کررہا تھا۔ کسی حد تک ٹھنڈ ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔
کرپال کور اور اس کا سارا خاندان۔ محلے میں تھا۔ جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا۔ یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی۔ کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔ ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا ۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔ غالباًاڑتالیس گھنٹوں کا۔ اور ترلوچن لازماً مغلوب تھا آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک مسلمان تھے۔ اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ۔ مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جا سکتا تھا۔
کرپال کی ماں اندھی تھی۔باپ مفلوج۔ بھائی تھا۔ وہ کچھ عرصے سے دیولالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لیے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔
ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرنجن پر بہت غصہ آتا تھا۔ اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کردیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ ’’نرنجن یہ ٹھیکے ویکے ابھی رہنے دو۔ ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمھارا اگرچہ رہنا بہت ضروری ہے لیکن یہاں سے اُٹھ جائو اور میرے یہاں چلے آئو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیا کرتا ہے۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صرف اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرا دیا۔ ’’یار تم خواہ مخواہ فکر کرتے ہو۔ میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں۔ یہ امر تسر یا لاہور نہیں۔ بمبے ہے۔ بمبے تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں اور میں بارہ برس سے یہاں رہ رہا ہوں۔ بارہ برس سے۔‘‘
جانے نرنجن کو کیا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے۔ اگر فساد برپا بھی ہوں تو ان کا اثر خود بخود زائل ہوجاتا ہے، جیسے اس کے پاس چھومنتر ہے۔ یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی۔ مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔ محلہ بالکل محفوظ نہیں۔ وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کے لیے تیار تھا کہ کرپال کو اور اس کے ماں باپ قتل ہو چکے ہیں۔
اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ مرجاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لیے اچھا تھا۔ وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھاتھا کہ ترلوچن کے لیے میدان صاف ہوجاتا خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑاہی نہیں بہت بڑا کھنگھر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کی بجائے کھنگھر سنگھ کہتا۔
صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔ ترلوچن کیسوں سے بے نیاز سر میں بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کررہا تھا۔مگر اس کے اندر بے شمار اندیشے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔ کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ وہ یوں تو ہٹے کٹے کھنگھر سنگھ کی بہن تھی۔ مگر بہت ہی نرم و نازک لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی، وہ گھٹائو، وہ مردانہ پن نہیں تھا، جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنہیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ 
اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔ عام سکھ دیہاتی لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح ، اور بدن چکنا تھا جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے۔ بے حد شرمیلی تھی۔
ترلوچن اسی کے گائوں کا تھا۔ مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا۔ پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اسکول سے فارغ ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہو گئی۔ اس دوران میں وہ کئی مرتبہ — لاتعداد مرتبہ اپنے گائوں گیا۔ مگر اس نے کرپال کور کے نام کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا۔ شاید اس لیے کہ وہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔
کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پُر تھا۔ برما، سنگاپور، ہانگ کانگ۔ پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ 
ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی جو بُری نہیں تھی۔ خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہا دیئے روشن تھے اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔
کرپال کور کا سوچتے سوچتے، وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا۔ اس یہودی لڑکی کے بارے میں جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی۔ اس سے ترلوچن کو گوڈے گوڈے عشق ہو گیا تھا۔ ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔
جس دن اُس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا ، اسی دن اس کی مڈبھیڑ موذیل سے ہوئی جو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک طور پر دیوانی معلوم ہوئی تھی۔ کٹے ہوئے بھورے بال اس کے سر پر پریشان تھے۔ بیحد پریشان ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی تھی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی تھی۔ ڈھیلا ڈھالا لمبا سفید چغہ پہنے تھی۔ جس کے کھلے گریبان سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھیں۔ بانہیں جو کہ ننگی تھیں مہین مہین بالوں سے اَٹی ہوئی تھیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کے آئی ہے اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے۔ مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا۔ بیچ میں ایک تنگ گلی تھی۔ بہت ہی تنگ۔ جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا تو موذیل باہر نکلی۔ کھڑائوں پہنے تھی۔ ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا۔ موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔ ترلوچن بوکھلا گیا۔ جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا ۔ موذیل کی ایک کھڑائوں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔
جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اُس کے اوپر تھی۔ کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی، بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے اِدھر اُدھر تھیں اور۔۔۔۔جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل — ساری موذیل سے الجھاجیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔
جب ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی۔ موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرادی ۔ یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے۔‘‘ اور وہ اتری ہوئی کھڑائوں میں اپنا انگوٹھا اور اس کی ساتھ والی انگلی پھنساتی کوریڈور سے باہر چلی گئی۔
ترلوچن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو۔ لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی۔ لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی۔ وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سے کھاتی تھی، اس سے پیتی تھی۔ اس کے ساتھ سینما جاتی تھی، سارا سارا دن اس کے ساتھ جوہو پر نہاتی تھی لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے کچھ اور آگے بڑھنا چاہتا تو وہ اسے ڈانٹ دیتی کچھ اس طور پر سے گُھرکتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تھی۔ لاہور میں، برما میں ، سنگاپور میں ، وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لیے خرید لیا کرتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الھڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں ’’گوڈے گوڈے ‘‘ دھنس جائے گا وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی، اس کے کہنے پر فوراً سج بن کر سینما جانے پر تیار ہوجاتی تھی مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانا شروع کردیتی۔ کوئی اس کا شناسا نکل آتا تو زور سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لیے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔
ہوٹل میں بیٹھے ہیں۔ ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کے لیے پُرتکلف کھانے منگوائے ہیں مگر اس کو کوئی اپنا پرانا دوست نظر آگیا ہے اور وہ نوالہ چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔
ترلوچن بعض اوقات بھّنا جاتا تھا کیونکہ وہ اسے قطعی طورپر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناسائوں کے ساتھ چلی جاتی تھی اور کئی کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی۔ کبھی سر درد کا بہانہ ، کبھی پیٹ کی خرابی کا جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہو سکتا۔
جب اس سے ملاقات ہوتی تو وہ اس سے کہتی ۔ ’’تم سکھ ہو۔ یہ نازک باتیں تمھاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔‘‘
ترلوچن جل بھن جاتا اور پوچھتا۔ ’’کون سی نازک باتیں۔ تمھارے پرانے یاروں کی؟ ‘‘
موذیل دونوں ہاتھ اپنے چوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کردیتی اور کہتی ۔ ’’یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے ہو ۔ ہاں وہ میرے یار ہیں۔ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔ ‘‘
ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا ۔ ’’ اس طرح تمھاری میری کس طرح نبھے گی۔ ‘‘
موذیل زور کا قہقہہ لگاتی۔ ’’تم سچ مچ سکھ ہو۔ ایڈیٹ ، تم سے کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ نبھائو۔ اگر نبھانے کی بات ہے تو جائو اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔ میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔ ‘‘
ترلوچن نرم ہوجاتا۔ دراصل موذیل اس کی زبردست کمزوری بن گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی۔ معمولی عمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبور ہو کر اس نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔
عام طور پر توہین اور ہتک کا ردعمل انتقام ہوتا ہے مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ اس لیے اپنے دل و دماغ کی بہت سی آنکھیں میچ لی تھیں اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ اس کو موذیل پسند بھی۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا ۔ ’’گوڈے گوڈے‘‘ اس کے عشق میں دھنس گیا تھا۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی اس عشق کی دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔
دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا۔لیکن ثابت قدم رہا۔ آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی۔اپنے بازوئوں میںسمیٹ کر پوچھا ۔ ’’موذیل۔ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔ ‘‘
موذیل اس کے بازوئوں سے جدا ہو گئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیںاور گھنی پلکیں جھپکا کر کہا۔ ’’میں سکھ سے محبت نہیں کر سکتی۔ ‘‘
ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ’’موذیل ! تم ہمیشہ میرا مذاق اُڑاتی ہو۔ یہ میرا مذاق نہیں ، میری محبت کا مذاق ہے۔‘‘
موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا۔ ’’تم شیو کرالو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔ تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمھیں آنکھ ماریں گے۔ تم خوبصورت ہو۔‘‘
ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاںپڑ گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردیئے۔
موذیل نے ایک دم ’’پھوں پھوں‘‘ کی اور اس کی گرفت سے علیٰحدہ ہو گئی۔ ’’میں صبح اپنے دانتوںپر برش کر چکی ہوں۔ تم تکلیف نہ کرو۔ ‘‘
ترلوچن چلایا۔ ’’موذیل۔‘‘
موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آگئی تھیں ’’خدا کی قسم۔ تم اپنی ڈاڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلو اسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کر سکتے ہیں۔ بس تھوڑا سا پیٹرول لگانے کی ضرورت ہو گی۔‘‘
ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلوچن کی ڈاڑھی کھولنی شروع کردی۔اس میں جوپنیں لگی تھیں، وہ اس نے ایک ایک کرکے اپنے دانتوں تلے دبالیں۔
ترلوچن خوبصورت تھا جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اُگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کُھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدو خال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپالیے تھے۔ اس کو اس کا احساس تھا۔ مگر وہ ایک اطاعت شعار اور فرماں بردار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کردے جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔
جب ڈاڑھی پوری کُھلگئی اور اس کے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا۔ ’’یہ تم کیا کررہی ہو؟ ‘‘
دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی۔ ’’تمھارے بال بہت ملائم ہیں۔ میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو اسکرٹ صاف ہو سکے گا۔ ترلوچ۔ تم یہ مجھے دے دو۔ میں انہیں گوندھ کر اپنے لیے ایک فسٹ کلاس بٹوا بنائوں گی۔‘‘
اب ترلوچن کی ڈاڑھی میں چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔ وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا۔ میں نے آج تک تمھارے مذہب کا مذاق نہیں اڑایا۔ تم کیوں اڑاتی ہو۔ دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔ میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا۔ مگر صرف اس لیے کرتا رہا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔ کیا تمھیں اس کا پتہ نہیں۔‘‘
موذیل نے ترلوچن کی ڈاڑھی سے کھیلنا بند کردیا۔ ’’مجھے معلوم ہے۔ ‘‘
’’پھر‘‘۔ ترلوچن نے اپنی ڈاڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہ کیے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں۔ ’’تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی ، میں بھی قریب قریب یہی فیصلہ کر چکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔‘‘
ترلوچن اُچھل پڑا۔ ’’سچ؟ ‘‘
موذیل کے عنابی ہونٹ بڑی موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کُھلے اور اس کے سفید مضبوط دانت ایک لمحے کے لیے چپکے۔ ’’ہاں‘‘!
ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی ڈاڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ تو۔۔۔۔تو کب؟ ‘‘
موذیل الگ ہٹ گئی۔ ’’جب۔ تم اپنے یہ بال کٹوادو گے! ‘‘
ترلوچن میں اس وقت جو ہو سو ہو ، بنا تھا۔ اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا۔ ’’میں کل ہی کٹوا دوں گا۔ ‘‘
موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے گی۔ ’’تم بکواس کرتے ہو ترلوچ، تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ ‘‘
اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا۔ ’’تم دیکھ لو گی۔ ‘‘
’’دیکھ لوں گی۔ ‘‘ اور وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ ترلوچن کی مونچھوں کو چوما اور ’’پھوں پھوں‘‘ کرتی باہر نکل گئی۔
ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔ وہ کن کن اذیتوں سے گزرا اس کا تذکرہ فضول ہے۔ اس لیے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوادیئے اور ڈاڑھی بھی منڈوا دی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا۔ جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا۔ جس پر بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کے لیے غور کرنے پر مجبور ہوجاتی۔
ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی۔ اس نے ٹیرس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ جہاں ٹینکیوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے۔ مگر وہ آئے بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کو بھیجی کہ اس کی طبیعت ناساز ہے۔ تھوڑی کے لیے آجائے۔ موذیل آئی۔ ترلوچن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی، پھر ’’مائی ڈارلنگ ترلوچن‘‘ کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کا سارا چہرہ عنابی کردیا۔
اس نے ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی۔ اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔ موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی سکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کردیا۔ ترلوچن شرما گیا۔ اس نے سکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پر اس سے کہا۔ نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔
موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ باسی اور جگہ جگہ سے اُتری ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا ’’مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے ہی چلتا ہے۔
ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا۔ جب وہ اور موذیل دونوں ٹکرا گئے تھے اور آپس میں کچھ عجیب طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے۔ مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگالیا۔ ’’شادی کل ہو گی؟‘‘
’’ضرور۔‘‘ موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔
طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو۔ چونکہ سول میرج تھی۔ اس لیے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا۔ عدالتی کارروائی تھی۔ اس لیے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے۔ پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں۔ دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہوجانا تھا۔
موذیل ، فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا۔ بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا ، ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے۔ دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کے لیے وہیں رہے گی۔
ترلوچن پر کیا گذری؟ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بھول گیا۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہو گئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کے مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا۔ اس احساس سے اس کو یک گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔
لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کدکڑے لگاتی غائب ہوجاتی تھی۔
وہ بے حیا تھی۔ بے مروت تھی۔ اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ترلوچن کو پسند تھی۔ اس لیے کبھی کبھی وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کررہی ہے۔ اسی آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے۔ اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہو گی۔ حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔
وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا لیکن اپنی مرضی سے، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی۔ اس کو بہت سستی قسم کی چیزیں پسند آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کے ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مر مٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔
ترلوچن اب تک نہ سمجھا سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے کس آب و گِل سے بنی ہے۔ وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی، اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی۔ وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کو چڑانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی تھی۔ ’’تم سکھ ہو۔ مجھے تم سے نفرت ہے! ‘‘
ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی، برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر بھی نہیں تھا وہ کبھی دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی۔ دو ٹوک فیصلہ کردیتی۔ انڈر ویئر اس کو ناپسند تھے۔ اس لیے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی۔ ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا۔ مگر اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔
ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتی تھی۔ ’’یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔ اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کرلیا کرو۔ تم مجھے یہ بتائو کہ کونسا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہو سکتا ۔ یا جس میں سے تمھاری نگاہیں پار نہیں ہو سکتیں۔ مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔ تم سکھ ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سِلی سا انڈر ویئر پہنتے ہو جونیکر سے ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی تمھاری ڈاڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمھارے مذہب میں شامل ہے۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔ اتنے بڑے ہو گئے ہو اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمھارا مذہب انڈر ویئر میں چھپا بیٹھا ہے! ‘‘
ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نا درست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور ڈاڑھی کا صفایا کرادیا تھا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا اتنا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب ہی نہیں تھا۔
پانی کی ٹینکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا۔ موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا۔ کرپال کور۔ ایک پاکیزہ لڑکی جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین واردات بھی ہو چکی تھیں۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا مگر کرفیو کی کون پروا کرتا ہے۔ اس چالی کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کو ر ، اس کی ماں اور اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کر سکتے تھے۔
ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا۔ اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر وہ اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ فورٹ میں ایک باربر تھا وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا کہ ترشی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔ اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے کھڑائوں کی کرخت آواز سنائی دی اس نے سوچا کون ہو سکتاہے؟ بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں جو سب کی سب گھر میں کھڑائوں پہنتی تھیں۔ آواز قریب آتی گئی۔ یک لخت اس نے دوسری ٹینکی کے پاس موذیل کو دیکھا جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا کرتا پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔ اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا اس کے آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔
ترلوچن پانی کے نل پر سے اٹھا۔ اس نے سوچا۔ ’’یہ ایکاایکی کہاں سے نمودار ہو گئی۔ اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟
موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔ اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔ ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے ۔ وہ زور سے کھانسا۔ موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا ردعمل بالکل خفیف تھا۔ کھڑائوں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی ڈاڑھی دیکھنے لگی۔ ’’تم پھر سکھ بن گئے ترلوچن؟‘‘
ڈاڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔
موذیلؔنے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ  کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا۔ ’’اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بلو سکرٹ صاف کر سکے۔مگر وہ تو وہیں دیولالی میں رہ گئی ہے۔‘‘
 ترلوچن خاموش رہا۔
موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی۔ ’’بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟ ‘‘
ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا تاہم اس نے صبح کے ملگجے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایک طرف وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی۔ ترلوچن نے اس سے پوچھا۔ بیمار رہی ہو؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘موذیل نے اپنے ترشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سے جھٹکا دیا۔
’’پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟ ‘‘
’’میں ڈائٹنگ کررہی ہوں۔‘‘ موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑائوں فرش کے ساتھ بجانے لگی۔ ’’تم گویا کہ۔ اب پھر۔ نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔ ‘‘
ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔ ’’ہاں! ‘‘
’’مبارک ہو۔ ‘‘ موذیل نے ایک کھڑائوں پیر سے اتار لی اور پانی کے نل پر بجانے گی۔ کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کردی۔‘‘
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’ہاں! ‘‘
’’مبارک ہو۔ اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’یہ بہت بُری بات ہے۔ ‘‘ موذیل کھڑائوں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی۔ ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘ 
ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اٹھ کر اس کی ڈاڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چھیڑا ۔ ’’کیا اس لڑکی نے تمھیںیہ بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘
ترلوچن بڑی اُلجھن محسوس کررہا تھا جیسے کنگھا کرتے کرتے اس کی ڈاڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں۔ جب اس نے ’’نہیں‘‘ کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔
موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گائوں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکرے کردیئے ہیں۔
مسکرانے کے بعد وہ ہنسی۔ ’’تم اب یہ ڈاڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو۔ میں تم سے شادی کرلوں گی۔‘‘
ترلوچن کے جی میں آئی کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طبیعت کنواری لڑکی سے محبت کررہا ہے اور اسی سے شادی کرے گا۔ موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے۔ بد صورت ہے، بے وقوف ہے۔ بے مروت ہے مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا۔ اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا۔ ’’موذیل! میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ میرے گائوں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔ جو مذہب کی پابند ہے۔ اسی کے لیے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘
موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑائوں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا۔ ’’وہ مذہب کی پابند ہے تو تمھیں کیسے قبول کرے گی؟ ۔ کیا اسے معلوم ہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟ ‘‘
اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔ ڈاڑھی میں تمھارے دیولالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کردی تھی۔ محض انتقامی طور پر۔اس کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی۔ مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ہوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔ مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔ ‘‘ ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔
موذیل نے لمبا کرتا اٹھا کر اپنی گوری دبیز ران کھجانی شروع کی۔ ’’یہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔ مگر یہ کم بخت مچھر یہاں بھی موجود ہے۔ دیکھنا کس زور سے کاٹا ہے۔‘‘
ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔ ’’کب ہورہی ہے تمھاری شادی؟ ‘‘
’’ابھی کچھ پتہ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ترلوچن سخت متفکر ہو گیا۔
چند لمحات تک خاموش رہی۔ اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکر کا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔ ترلوچن۔ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی۔ خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنادیا۔ موذیل ہنسی۔ ’’تم اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ جائو اس کو لے آئو۔ ایسی کیا مشکل ہے؟‘‘
’’مشکل!۔ موذیل تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔ کسی بھی معاملے کی نزاکت۔ تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمھارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں پانی کے نل کے ساتھ ماری۔ ’’افسوس بی ڈیمڈ۔ سِلی ایڈیٹ۔ تم یہ سوچو کہ تمھاری اس۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔اس محلے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔۔۔۔ تم بیٹھ گئے جو تعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔ تمھارے میرے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ تم ایک سِلی قسم کے آدمی ہو۔ اور بہت ڈرپوک، مجھے نڈر مرد چاہیے۔ لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔چلو آئو، تمھاری اس کور کو لے آئیں! ‘‘
اس نے ترلوچن کا بازو پکڑلیا۔ ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا۔ ’’کہاں سے؟ ‘‘
’’وہیں سے جہاں وہ ہے۔ میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں۔ چلو آئو میرے ساتھ۔‘‘
’’سنو تو۔ کرفیو ہے۔‘‘
موذیل کے لیے نہیں۔ چلو آئو۔‘‘
’’ترلوچن کو بازو سے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی تھی جو نیچے سیڑھیوں کی طرف کُھلتا تھا۔ دروازہ کھول کر وہ اترنے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی ڈاڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔
ترلوچن نے پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘
موذیل نے کہا ۔ ’’یہ تمھاری ڈاڑھی ۔ لیکن خیر ٹھیک ہے۔ اتنی بڑی نہیں ہے۔ ننگے سر چلو گے تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھ ہو۔
’’ننگے سر! ترلوچن نے کسی قدر بوکھلا کر کہا۔ میں ننگے سر نہیں جائوں گا۔‘‘
موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘
ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی ’’تم سمجھتی نہیں ہو۔ میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔ ‘‘
’’کیوں ٹھیک نہیں۔‘‘
’’تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔ وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں۔ میں اس پر یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں دروازے کی دہلیز پر ماری۔ ’’تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ گدھے کہیں کے۔۔۔۔اس کی جان کا سوال ہے۔ کیا نام ہے ۔ تمھاری اس کور کا جس سے تم محبت کرتے ہو۔
ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’موذیل۔ وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔ اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔
موذیل چڑھ گئی۔ ’’اوہ۔ تمھاری محبت بی ڈیمڈ۔ میں پوچھتی ہوں۔ کیا سارے سکھ تمھارے طرح کے بیوقوف ہوتے ہیں۔ اس کی جان کا خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔ اور شاید وہ اپنا انڈر ویئر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔‘‘
ترلوچن نے کہا۔ ’’وہ تو میں ہر وقت پہننے ہوتا ہوں۔‘‘
’’بہت اچھا کرتے ہو۔ مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی ہی میاں بھائی رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے دادا اور بڑے بڑے موالی۔ تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کردیئے جائو گے۔‘‘
ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا۔ ’’مجھے اس کی پروا نہیں۔ اگر میں تمھارے ساتھ وہاں جائوں تو پگڑی پہن کر جائوں گا۔ میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا! ‘‘
موذیل جھنجھلا گئی۔ اس زور سے اس نے پیچ و تاب کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بِھڑبِھڑ گئیں۔ ’’گدھے۔ تمھاری محبت ہی کہاں رہے گی جب تم نہ ہو گے۔ تمھاری وہ۔ کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔ جب وہ بھی نہ رہے گی اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔ تم سکھ ہو۔ خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو! ‘‘
ترلوچون بھننا گیا۔ ’’بکواس نہ کرو! ‘‘
موذیل زور سے ہنسی ۔ مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانہیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جُھول کر کہا ۔ ڈارلنگ چلو۔ جیسے تمھاری مرضی۔ جائو پگڑی پہن آئو میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی۔ ترلوچن نے اسے روکا ’’تم کپڑے نہیں پہنو گی! ‘‘
موذیل نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔ ’’نہیں۔ چلے گا اسی طرح۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اُتر گئی۔ ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھی اس کی کھڑائوں کی چوبی آواز سنتا رہا۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا۔ جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی۔ اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کرکے نیچے اُتر گیا۔
باہر فٹ پاتھ پر موذیل پر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کیے سگریٹ پی رہی تھی۔ بالکل مردانہ انداز میں جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منھ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا۔ ترلوچن نے غصے میں کہا ’’تم بہت ذلیل ہو۔‘‘
موذیل مسکرائی۔ ’’یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ اس سے پہلے اس کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں۔‘‘ پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا۔ ’’یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے تمھارے کیس ہیں۔‘‘
بازار بالکل سنسان تھا۔ ایک طرف ہوا چل رہی تھی اور وہ بھی بہت دھیرے دھیرے۔ جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے۔ بتیاں روشن تھیں مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی عام طور پر اس وقت ٹرینیں چلنی شروع ہوجاتی تھیں اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری ہوجاتی تھی، اچھی خاصی گہماگہمی ہوتی تھی پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گذرا ہے نہ گذرے گا۔‘‘
موذیل آگے آگے تھی۔ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑائوں کھٹ کھٹ کررہی تھی۔ یہ آواز اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی۔ ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑائوں ہی اتار کر کوئی دوسری چیز پہن سکتی تھی۔ اس نے چاہا کہ موذیل سے کہے کھڑائوں اُتار دو اور ننگے پائوں چلو۔ مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی۔ اس لیے خاموش رہا۔ 
ترلوچن سخت خوفزدہ تھا۔ کوئی پتا کھڑکتا تو اس کا دل دھک سے رہ جاتا تھا۔ مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جارہی تھی۔ سگریٹ کا دھواں اُڑاتی جیسے وہ بڑی بے فکری سے چہل قدم کررہی ہے۔
چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گرجی۔ ’’اے۔ کدھر جارہا ہے۔ ‘‘
ترلوچن سہم گیا۔ موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئی اور بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر کہا۔ ’’اوہ — تم ہم کو پہچانا نہیں تم نے — موذیل ...... پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ادھر اس باجو۔ ہمارا بہن رہتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر لے کر جارہا ہے۔۔۔۔‘‘
سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور ایک سگریٹ نکال کر اس کو دیا۔ لو پیئو۔
سپاہی نے سگریٹ لے لیا۔ موذیل نے اپنے منھ سے سلگا ہوا سگریٹ نکالا اور اس سے کہا ۔ ’’ہیر از لائٹ! ‘‘
سپاہی نے سگریٹ کا کش لیا۔ موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔ جس میں سے گزر کر انھیں محلے جانا تھا۔
ترلوچن خاموش تھا۔ مگر وہ محسوس کررہا تھا کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کرکے ایک عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس کررہی ہے۔ خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا۔ وہ جب جوہو پر اس کے ساتھ ہوتی تو اس کے لیے ایک مصیبت بن جاتی تھی۔ سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دُور تک نکلی جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ کہیں وہ ڈوب نہ جائے جب واپس آتی تو اس کا جسم نیلوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔
موذیل آگے آگے تھی۔ ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے ڈر ڈر کے اِدھر اُدھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل میں سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہوجائے۔ موذیل رُک گئی۔ جب ترلوچن پاس آیا تو اُس نے سمجھانے کے انداز میں اس سے کہا کہ ترلوچ ڈیئر۔ اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔ تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔ سچ کہتی ہوں۔ یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔‘‘
ترلوچن خاموش رہا۔
جب وہ گلی طے کرکے دوسری گلی میں پہنچے ۔ جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی، جس میں کرپال کور رہتی تھی تو موذیل چلتے چلتے ایک دم رُک گئی۔ کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مارواڑی کی دُکان لُوٹی جارہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اس نے اس معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا، کوئی بات نہیں۔ چلو آئو۔‘‘
دونوں چلنے لگے۔ ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اُٹھائے چلا آرہا تھا۔ ترلوچن سے ٹکرا گیا۔ پرات گر گئی۔ اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکھ ہے۔ اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا ۔ کہ موذیل آگئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چُور رہے ۔ اس نے زور سے اس آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا۔ اے کیا کرتا ہے۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔ ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔ پھر وہ ترلوچن سے مخاطب ہوئی، ’’کریم، اٹھائو، پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔‘‘
اس آدمی نے نیفے میں سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنکھوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا۔ ’’عیش کر سالی۔ عیش کر۔‘‘ پھر اس نے پرات اٹھائی اور یہ جا ، وہ جا۔
ترلوچن بڑ بڑایا۔ ’’کیسی ذلیل حرکت کی ہے حرامزادے نے! ‘‘
موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔ ’’کوئی ذلیل حرکت نہیں۔ سب چلتا ہے۔۔۔۔آئو۔‘‘
اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔ ترلوچن نے بھی قدم تیز کردیئے۔
یہ گلی طے کرکے دونوں اس محلے میں پہنچ گئے۔ جہاں کرپال کور رہتی تھی۔ موذیل نے پوچھا۔ کس گلی میں جانا ہے؟ ‘‘
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’تیسری گلی میں۔ نکڑ والی بلڈنگ! ‘‘
موذیل نے اس طرف چلنا شروع کردیا۔ یہ راستہ بالکل خاموش تھا۔ آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے تک کے رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔ ایک آدمی بڑی تیزی سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر کے بعد تین آدمی نکلے۔ فٹ پاتھ پر انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئے۔ موذیل ٹھٹک گئی۔ اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہوجائے۔ پھر اس نے ہولے سے کہا۔ ’’ترلوچن ڈیئر۔ یہ پگڑی اتار دو! ‘‘
ترلوچن نے جواب دیا ’’میں یہ کسی صورت میں بھی نہیں اتار سکتا! ‘‘
موذیل جھنجھلا گئی۔ ’’تمھاری مرضی۔ لیکن تم دیکھتے نہیں، سامنے کیا ہورہا ہے۔ ‘‘
سامنے جو کچھ ہورہا تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ صاف گڑ بڑ ہورہی تھی اور بڑی پُراسرار قسم کی ۔ دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی۔ ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی تو اس نے ترلوچن سے کہا۔ ’’دیکھو، ایسا کرو۔ میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔ تم میرے پیچھے آنا۔ بڑی تیزی سے جیسے تم میرا پیچھا کررہے ہو۔ سمجھے۔ مگر یہ سب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔ ‘‘
موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑائوں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی ، ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ چند لمحوں میں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔ سیڑھیوں کے پاس ترلوچن ہانپ رہا تھا۔ مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس نے ترلوچن سے پوچھا۔ ’’کون سا مالا؟‘‘
ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’دوسرا۔‘‘
’’چلو ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ ترلوچن اُس کے پیچھے ہولیا۔ زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ کر اس کا خون خشک ہورہا تھا۔
دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی۔ موذیل دور سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔
ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منھ لگا کر آواز دی۔ ’’مہنگا سنگھ جی۔ مہنگا سنگھ جی! ‘‘
اندر سے مہین آوا ز آئی۔ ’’کون؟ ‘‘
’’ترلوچن! ‘‘
دروازے دھیرے سے کھلا۔ ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا وہ لپک کر آئی۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔ موذیل نے اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا جو بے حد سہمی ہوئی تھی۔ موذیل نے اس کو ایک لمحے کے لیے غور سے دیکھا پتلے پتلے نقش تھے۔ ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا ۔ موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔
ترلوچن سرخ ہو گیا۔
موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا ۔ ’’ڈرو نہیں، ترلوچن تمھیں لینے آیا ہے۔‘‘
کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہو گئی۔
ترلوچن نے اس سے کہا۔ سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہوجائیں۔ اور ماتاجی سے بھی۔ لیکن جلدی کرو۔ ‘‘
اتنے میں اُوپر کی منزل پر بلند آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیخ رہا ہے اور دھینگا مشتی ہورہی ہے۔
کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ بلند ہوئی۔ اسے پکڑ لیا انھوں نے ! ‘‘
ترلوچن نے پوچھا۔ ’’کسے ؟‘‘
کرپال کور جواب دینے ہی والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی۔ ’’پکڑ لیا تو اچھا ہوا تم یہ کپڑے اتارو۔ ‘‘
کرپال کور ابھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آناً فاناً اس کی قمیض اُتار کر ایک طرف رکھ دی۔ کرپال کور نے اپنی بانہوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور وحشت زدہ ہو گئی۔ ترلوچن نے منھ دوسری طرف موڑ لیا۔ موذیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتا اتار ا اور اس کو پہنا دیا۔ خود وہ ننگ دھڑنگ تھی جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا ازاربند ڈھیلا کیا اور اس کی شلوار اُتار کر ، ترلوچن سے کہنے لگی۔ ’’جائو، اسے لے جائو۔ لیکن ٹھہرو۔ ‘‘
یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دیئے اور کہا، ’’جائو۔ جلدی نکل جائو۔ ‘‘
ترلوچن نے اس سے کہا ۔ آئو ’’مگر فوراً ہی رک گیا۔ پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی۔ اس کی بانہوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔
’’تم جاتے کیوں نہیں ہو؟ ‘‘ موذیل کے لہجے میں چڑ چڑاپن تھا۔
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔ ’’اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔ ‘‘
’’جہنم میں جائیں وہ۔ تم اسے لے جائو۔ ‘‘
’’اور تم ؟ ‘‘
’’میں آجائوں گی۔ ‘‘
ایک دم اُوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے۔ دروازے کے پاس آکر انھوں نے کوٹنا شروع کردیا۔ جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔
کرپال کور کی اندھی ماں اور اس کا مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراہ رہے تھے۔
موذیل نے کچھ سوچا اور بالوں کو خفیف جھٹکا دے کر اس نے ترلوچن سے کہا ۔ ’’سنو اب صرف ایک ہی ترکیب میری سمجھ میں آتی ہے۔ میں دروازہ کھولتی ہوں۔۔۔۔‘‘
کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی نکلتی دب گئی۔ ’’دروازہ۔ ‘‘
موذیل ترلوچن سے مخاطب رہی۔ ’’میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔ تم میرے پیچھے بھاگنا۔ میں اُوپر چڑھ جائوں گی۔ تم بھی اُوپر چلے آنا۔ یہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے پھر پوچھا۔ ’’پھر؟ ‘‘
موذیل نے کہا۔ ’’یہ تمھاری۔ کیا نام ہے اس کا۔ موقع پا کر نکل جائے۔ اس لباس میں اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔ ‘‘
ترلوچن نے جلدی جلد کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی۔ موذیل زور سے چلائی۔ دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری۔ 
سب بوکھلا گئے اُٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ ترلوچن اس کے پیچھے بھاگا۔ سب ایک طرف ہٹ گئے۔
موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔کھڑائوں اس کے پیروں میں تھی۔ وہ لوگ جو دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے تھے سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے ۔ موذیل کا پائوں پھسلا ۔ اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی، لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آرہی۔ پتھریلے فرش پر۔
ترلوچن ایک دم نیچے اُترا۔ جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ منھ سے خون بہہ رہا تھا کانوں کے رستے بھی خون نکل رہا تھا۔ وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے اردگرد جمع ہو گئے۔ کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے۔ سب خاموش تھا اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔
ترلوچن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی ’’موذیل۔ موذیل۔‘‘
موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں جو لال بوٹی ہورہی تھیں اور مسکرائی۔
ترلوچن نے اپنی پگڑی اتاری اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا۔ موذیل پھر مسکرائی اور آنکھ مار کر اس نے ترلوچن سے منھ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جائو دیکھو۔ میرا انڈر ویئر وہاں ہے کہ نہیں۔ میرا مطلب ہے وہ۔۔۔۔‘‘
ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھنا نہ چاہا۔ اس پر موذیل نے غصے میں کہا، ’’تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ جائو دیکھ کر آئو۔‘‘
ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔ موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا یہ میاں بھائی ہے ...... لیکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔ میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔ ‘‘
ترلوچن واپس آگیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتادیا کہ کرپال کور جا چکی ہے۔۔۔۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منھ سے بہہ نکلا۔ ’’اوہ ڈیم اٹ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اَٹی ہوئی کلائی سے اپنا منھ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔ آل رائٹ ڈارلنگ ۔۔۔ بائی بائی۔ ‘‘
ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔
موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔ ’’لے جائو اس کو۔ اپنے اس مذہب کو۔ ’’اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔

ممد بھائی (منٹو)

فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جو سفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوراں ہوتے ہیں مگر یہ ریستوراں اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی رنڈیاں بستی ہیں
ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ بھی سمجھئے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر ’’پلے ہاؤس‘‘ آتا ہے۔ اُدھر دن بھر ہاؤ ہو رہتی ہے۔ سنیما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سنیما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے تھے۔ ’’آؤ آؤ — دو آنے میں — فسٹ کلاس کھیل — دو آنے میں!‘‘
بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرنے والے بیٹھے ہوتے تھے۔ جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو ہر وقت انہیں تیل مالش کی ضرودرت ہوتی ہے۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بجے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلا سکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقینا سنتے رہیں گے، ’’پی — پی — پی —‘‘
یہ ’’پی‘‘ چمپی کا مخفف ہے۔
فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے، لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے۔ جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلہ لگی دوکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ وسن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر آٹھ آنے سے آٹھ روپیہ تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک — ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔
یہودی، پنجابی، مرہٹی، کشمیری، گجراتی، بنگالی، اینگلوانڈین، فرانسیسی، چینی، جاپانی، غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہوسکتی ہے — یہ عورتیں کیسی ہوتی ہیں — معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھئے — بس عورتیں ہوتی ہیں — اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔
اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔ بعض تو ریستوراں چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے — معلوم نہیں کیا —
اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کر رہا ہوں اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رامپوریوں پر مشتمل تھی۔
اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا۔ ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔
آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو آپ مشکل سے یقین کریں گے کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مر رہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اور اس کا نام تھا ممد بھائی۔
ممد بھائی رامپور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھگیت، گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا۔ لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔
میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مصلح ہو کر اس پر ٹوٹ پڑیں تو وہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کر دیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔
اس کے ہاتھ کی یہ صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا۔ لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوچکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی — صرف گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھیں، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں۔ کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ کود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خوردسال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کر لیا کرتا تھا۔
مجھے معلوم نہیں کہ اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پیتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانا تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جتا ہوتا تھا۔ اس کو وہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا کر یا کسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے پر واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ کر گتکے اور بنوٹ کی کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔
میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارداڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہوگیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کر دیئے اور ان سے کہا، ’’دیکھو اگر عاشق حسین کو کچھ ہوگیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔‘‘ عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا، ’’منٹو صاحب! ممد بھائی فرشتہ ہے فرشتہ — جب اس نے ڈاکٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔
ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر ہمیشہ اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر وہ باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔
ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا۔ بہرحال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔
اس قسم کا آدمی جو ہرکولس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔
میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اور رات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہو کر واپس آکر فوراً سو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہوسکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گذار کر ممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں۔ مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا۔ اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔
ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوئنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ ایک آدمی رہتا تھا۔ اس کو پونا میں نوکری مل گئی تھی، اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جا رہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا وہ میرے لیے ناکافی تھا اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔
میں بہت سخت جان ہوں۔ دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہوا کرتی۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ کس قسم کا بخار تھا۔ انفلوئنزا تھا، ملیریا تھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے۔ تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔
دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا۔ مگر کوئی نہ آیا۔ آنا بھی کسے تھا — میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے — دو تین یا چار اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا بھی علم نہیں ہوسکتا تھا — اور پھر وہاں بمبئی میں کون کسی کو پوچھتا ہے — کوئی مرے یا جئے — ان کی بلا سے۔
میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ کود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی، میں نے خیال کیا کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں ’’باہر والا‘‘ کہتے ہیں، ہوگا۔ بڑی مریل آواز میں کہا، ’’آجاؤ۔‘‘
دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔
اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی نے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔
وہ اندر آیا اور اپنی قیصرولیم جیس مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔ اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے۔ عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔
قیصرولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے آدمی نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا، ’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کر دی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس مونچھوں والے آدمی سے صرف اتنا کہا، ’’آپ کون ہیں؟‘‘
اس نے مختصر سا جواب دیا، ’’ممد بھائی۔‘‘
میں اٹھ کر بیٹھ گیا، ’’ممد بھائی — تو — تو آپ ممد بھائی ہیں — مشہور دادا —‘‘
میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا، ’’ہاں ومٹو بھائی — میں ممد ہوں — یہاں کا مشہور دادا — مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو — سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے۔ جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔‘‘
میںجواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا، ’’ارے کیا نام ہے تیرا — جا بھاگ کے جا! اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا — سمجھ گئے نا! اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے، ایک دم جلدی آ — ایک دم — سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ اور دیکھ، سالے سے کہنا سب دوائیں لیتا آئے۔‘‘
ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا، میں اس کو دیکھ رہا تھا — وہ تمام داستانیں میرے بخار آلودہ دماغ میں چل پھر رہی تھیں جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا — لیکن گڈمڈ صورت میں کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم و نازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا کہ اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔
کھولی میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ میں نے ممد بھائی سے کہا کہ وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے مگر اس نے انکار کر دیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا — ’’ٹھیک ہے — ہم کھڑے رہیں گے۔‘‘
پھر اس نے ٹہلتے ہوئے — حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پائجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا — میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر چمک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔ یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے سب صاف ہوگئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔
اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کس قدر ہوشمند حالت میں اس سے کہا، ’’ممد بھائی — یہ چھری تم اس طرح اپنے نیفے میں — یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو۔ اتنی تیز ہے تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘
ممد نے خنجر سے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا، ’’ومٹو بھائی — یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیز ہے۔ مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی۔‘‘
چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھا سکتا ہے۔
ڈاکٹر آگیا — اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو — اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچین انداز میں سلام کیا اور پوچھا کیا معمالہ ہے۔ جو معاملہ تھا وہ ممد بھائی نے بیان کر دیا۔ مختصر لیکن کڑے الفاظ میں۔ جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومنٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔
ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔ سیٹیسوسکوپ لگا کر میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈپریشر دیکھا۔ مجھ سے بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا، ’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے، ملیریا ہے — میں انجکشن لگا دیتا ہوں —‘‘
ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اراتے ہوئے کہ، ’’میں کچھ نہیں جانتا، انجکشن دینا ہے تو دے دو، لیکن اگر اسے کچھ ہوگیا تو —‘‘
ڈاکٹر کانپ گیا، ’’نہیں ممد بھائی — سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
ممد بھائی نیخنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا، ’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔
’’ٹھہرو — ٹھہرو۔‘‘
ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھ دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا، ’’کیوں؟‘‘
’’بس میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔ یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔
ڈاکٹر پنٹو نے میرے کو نیند کا انجکشن لگایا، بڑے سلیقے سے ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا، ’’دس روپے۔‘‘ میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممدو بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔
ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کو دیکھا اور گرج کر کہا، ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’فیس دے رہا ہوں۔‘‘
ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا، ’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘
ڈاکٹر پنٹو بوکھلا گیا، ’’میں کب لے رہا ہوں، یہ دے رہے ہیں۔‘‘
’’سالا — ہم سے فیس لیتے ہو — واپس کرو یہ نوٹ، ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔
ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کر دیا اور بیگ بند کر کے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔
ممد بھائی نے اپنی ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرا دیا، ’’ومٹو بھائی! — یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔ تمہاری قسم اپنی مونچھیں منڈوا دیتا۔ اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔‘‘
تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا، ’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘
ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں، ’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا — ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے — اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے، وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے — کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت میں ہے، کون بری حالت میں — تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘
میں نے ازراہِ تفنن پوچھا، ’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘
’’سالا — ہم کیا نہیں جانتے — تم امرت سرکار رہنے والا ہے۔ کشمیری ہے — یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے — تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازادر میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے کے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔‘‘
میں پانی پانی ہوگیا۔
ممد بھائی نے اپنی کرفت مونچھوں پر باریک انگلی پھیری اور مسکرا کر کہا، ’’ومٹو بھائی! کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیئے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا — اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔‘‘
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا۔ کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا، جس کے باعث کانوں میں شائین شائیں ہو رہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر کوئی مجھے نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی — میں صرف اتنا کہہ سکا، ’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے — تم خوش رہو۔‘‘
ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔
ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا، ’’نہیں مسٹر ومٹو! ممد بھائی کا معاملہ ہے، میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔‘‘
میں نے سوچا، یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے، یعنی خوفناک قسم کا! جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرأت نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کر رہا ہے۔
بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا تھا کبھی شام کو۔ اپنے چھے سات شاگردوں کے ساتھ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ گے۔
پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔
جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر بھی پچیس تیس کے درمیان ہوگی۔ پتلی پتلی بانہیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا سا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب گلی کے لوگوں نے بتایا تھا۔
اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں۔ اس نے کسی کو قتل کیا تھا۔ میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے۔ مگر میں یہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔
لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن میں جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑھے رہتا ہے؟
مین جب اچھا ہوگیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں اس سے پوچھا، ’’ممد بھائی — آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘
ممد بھائی نے اپنے کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا، ’’ومٹو بھائی، بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انہیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا ہے۔ گھوڑا دبا دیا اور ٹھاہ، اس میں کیا مزا ہے؟ — یہ چیز — یہ خنجر — یہ چھری — یہ چاقو — مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم — یہ وہ ہے — تم کیا کہا کرتے ہو — ہاں — آرٹ — اس میں آرٹ آتا ہے میری جان — جس کو چاقو چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے، پستول کیا ہے — کھلونا ہے — جو نقصان پہنچا سکا ہے — پر اس میں کیا لطف آتا ہے — کچھ بھی نہیں — تم یہ خنجر دیکھو — اس کی تیز دھار کو دیکھو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے انوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھرا، ’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا — بس یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو — بندوق پستول سب بکواس ہے۔‘‘
ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا لیکن جب میں اس کا ذکر کرتا تو وہ ناراض ہوجاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔
جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم تھا۔ ایک حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کو کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھا جو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔
وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیں آتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔
اس کی مونچھوں کا ایک اک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا — مجھے کسی نے بتایا تھا کہ ممد بھائی ہر روز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔
میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا — یا اس کا خنجر جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں؟
ممد بھائی یوں و اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتا تھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا سپر مانتی تھیں۔ چوں کہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔
میری اس کی بڑی دوستی ہوگئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کھاتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے، کیا وجہ ہوسکتی تھی؟
میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اس عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے۔ اس کو کل ایک آدمی نے خراب کر دیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کر دی۔ شیرین بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس نے کہا، ’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کام کیا ہے — لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو‘‘ — ممد بھائی نے ایک موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا، ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ — اس نے کہا، ’’میں یہ چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔‘‘
ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیں پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا، ’’جا — تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘
اور اس کا کام ہوگیا — دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھے گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہوگیا۔
ممد بھائی گرفتار تو ہوگیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابکدستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی انسپکٹر سب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کر باہر آیا تو اس نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طور پر اٹھی ہوئی تھیں، اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔
چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی، لیکن اس نے خود کہا، ’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا — چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا — ایک دم مڑ گیا۔ اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہوگیا — لیکن مرگیا — ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔‘‘
آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ یہ سن کر میرا ردعمل کیا ہوگا۔ یعنی اس کا افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔
مقدمہ چلتا تھا — اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں، لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا ہی نہیں تھا۔
وہ بہت فکرمند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہوگئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہوگیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا، ’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا، پر کورٹ میں نہیں جاؤں گا — سالی معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔‘‘
عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انہوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معمالہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مکالف جذبہ پیدا کر سکتی ہیں۔
جیس کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز ’’دادا‘‘ دکھائی نہ دیتا۔
اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہوگئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری اس کی ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔
آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے۔ اس لیے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا، ’’ممد بھائی — تم کو کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔ مجسٹریٹ تم کو اندر کر دے گا۔‘‘
اور وہ سوچتا تھا — ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کو قتل کیا ہے یا اس نے — لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں، جو پہلی مرتبہ خون آشنا ہوا تھا، یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہوچکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا، ’’ممد بھائی یہ کیا؟‘‘
’’کچھ نہیں، ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہوگیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔ یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کر وہ ضرور تم کو سزا دے گا۔ اب بولو میں کیا کروں؟‘‘
میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا، ’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے — تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوں گی — سچ پوچھو تو جو کچھ ہوگا، تمہارے خلاف نہیں — مونچھوں کے خلاف ہوگا۔‘‘
’’تو میں منڈوا دوں؟‘‘ ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھری —
میں نے اس سے پوچھا، ’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’میرا خیال جو کچھ بھی ہے وہ تم نہ پوچھو — لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انہیں منڈوا دوں، تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوا دوں۔ ومٹو بھائی —‘‘
میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا، ’’ہاں اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوا دو — عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔‘‘
دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں — اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔ لیکن صرف دوسروں کے مشورے پر۔
مسٹر ایف ایچ ٹیل کی عدلات میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا، اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی۔ لیکن مجسٹریٹ نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کر دیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اپنا تمام حساب کتاب طے کر کے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔
عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوتی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں — مگر وہاں کوئی بال ہی نہ تھا۔
شام کو اسے جب بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تو اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی — مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔
اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا، ’’کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘ 
اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا، ’’سالا اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔‘‘
مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جاچکا ہے، ’’کوئی بات نہیں ممد بھائی یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی۔‘‘
اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں، ’’سالا — اپن کو یہ غم نہیں — یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں — یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘
پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کی مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا، ’[سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔‘‘
مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہوگیا، ’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو صاحب، — ہم سچ کہتا ہے۔ خدا کی قسم ہمین پھانسی لگا دیتے — پر — یہ بیوقوفی تو ہم نے خود کی — آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا — سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے دو ہتڑ اپنے منہ پر مارا، ’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر — سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا — اب جا اپنی ماں کے ......‘‘
اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے سکھائی دیتے تھے۔