صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

ہتک (منٹو)

دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغۂ صفائی، جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی، ابھی ابھی اُس کی ہڈّیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور، گھر واپس گیا تھا ...... وہ رات کو یہیں ٹھہر جاتا مگر اُسے اپنی دھرم پتنی کا بہت خیال تھا جو اُس سے بے حد پریم کرتی تھی۔
وہ روپے جو اُس نے اپنی جسمانی مشقّت کے بدلے اُس داروغہ سے وصول کیے تھے، اُس کی چُست اور تھوک بھری چولی کے نیچے سے، اوپر کو اُبھرے ہوئے تھے، کبھی کبھی سانس کے اُتار چڑھاؤ سے چاندی کے یہ سکّے کھنکھنانے لگتے اور اِن کی کھنکھناہٹ اُس کے دل کی غیر آہنگ دھڑکنوں میں گھُل مل جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اِن سکّوں کی چاندنی پگھل کر اُس کے دل کے خون میں ٹپک رہی ہے۔
اُس کا سینہ اندر سے تپ رہا تھا۔ یہ گرمی کچھ تو اُس برانڈی کے باعث تھی جس کا ادھّا داروغہ اپنے ساتھ لایا تھا اور کچھ اُس ’’بیوڑا‘‘ کا نتیجہ تھی جس کا سوڈا ختم ہونے پر دونوں نے پانی ملا کر پیا تھا۔
وہ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ اُس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی اُس کانپ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جُدا ہوجائے ...... دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت اُبھرا ہُوا تھا جو بار بار مونڈنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کر گیا تھا، جیسے نُچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکٹرا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔
کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ تین چار سوکھے سڑے چپّل، پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منہ رکھ کر ایک خارش زدہ کُتّا سو رہا تھا اور نیند میں کسی غیرمرئی چیز کا منہ چڑا رہا تھا۔ اِس کُتّے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اُڑے ہوئے تھے۔ دور سے اگر کوئی اِس کُتے کو دیکھتا تو سمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پُرانا ٹاٹ، دوہرا کرکے زمین پر رکھا ہے۔
اِس طرف چھوٹے سے دیوار گیر پر سنگار کا سامان رکھا تھا: گالوں پر لگانے کی سرخی، ہونٹوں کی سُرخ بتّی، پاؤڈر، کنگھی اور لوہے کے پِن جو وہ غالباً اپنے جوڑے میں لگایا کرتی تھی۔ پاس ہی ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا جو گردن کو اپنی پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سو رہا تھا۔ پنجرہ: کچّے امرود کے ٹکڑوں اور گلے ہوئے سنگترے کے چھلکوں [سنگترے کے گلے ہوئے چھلکوں؟] سے بھرا ہوا تھا۔ اِن بدبو دار ٹکڑوں پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے مچھّر یا پتنگے اُڑ رہے تھے۔
پلنگ کے پاس ہی بید کی ایک کرسی پڑی تھی جس کی پشت، سرٹیکنے کے باعث بے حد میلی ہو رہی تھی۔ اِس کرسی کے دائیں ہاتھ کو ایک خوب صورت تپائی تھی جس پر ہِز ماسٹرز وائس کا پورٹ ایبل گرامو فون پڑا تھا۔ اُس گرامو فون پر منڈھے ہوئے کالے کپڑے کی بہت بُری حالت تھی۔ زنگ آلود سوئیاں تپائی کے علاوہ کمرے کے ہر کونے میں بکھری ہوئی تھیں۔ اِس تپائی کے عین اوپر، دیوار پر چار فریم لٹک رہے تھے جن میں مختلف آدمیوں کی تصویریں جڑی تھیں۔
اِن تصویروں سے ذرا اِدھر ہٹ کر، یعنی دروازے میں داخل ہوتے ہی، بائیں طرف کی دیوار کے کونے میں، گنیش جی کی شوخ رنگ تصویر تھی جو تازہ اور سوکھے ہوئے پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ شاید یہ تصویر کپڑے کے کسی تھان سے اتار کر فریم میں جڑائی گئی تھی۔ اِس تصویر کے ساتھ چھوٹے سے دیوار گیر پر، جو کہ بے حد چِکنا ہورہا تھا، تیل کی ایک پیالی دھری تھی جو دِیے کو روشن کرنے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی۔ پاس ہی دیا پڑا تھا جس کی لَو، ہوا بند ہونے کے باعث، ماتھے کے تلک کے مانند سیدھی کھڑی تھی۔ اِس دیوار گیر پر دھوپ کی چھوٹی بڑی مروڑیاں بھی پڑی تھیں۔
جب وہ بوہنی کرتی تھی تو دور سے گنیش جی کی اِس مورتی سے روپے چھُوا کر اور پھر اپنے ماتھے کے ساتھ لگا کر، اُنہیں اپنی چولی میں رکھ لیا کرتی تھی۔ اُس کی چھاتیاں چونکہ کافی ابھری ہوئی تھیں اِس لیے وہ جتنے روپے بھی اپنی چولی میں رکھتی، محفوظ پڑے رہتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی جب مادھو، پونے سے چھّٹی لے کر آتا تو اسے اپنے کچھ روپے، پلنگ کے پائے کے نیچے اُس چھوٹے سے گڑھے میں چھپانا پڑتے تھے جو اُس نے خاص اِس کام کی غرض سے کھودا تھا۔ مادھو سے روپے محفوظ رکھنے کا یہ طریقہ، سوگندھی کو رام لال دلّال نے بتایا تھا۔ اُس نے جب یہ سُنا تھا کہ مادھو پونے سے آکر سوگندھی پر دھاوے بولتا ہے تو کہا تھا ...... ’’ اس سالے کو تو نے کب سے یار بنایا ہے؟ ...... یہ بڑی انوکھی عاشقی معشوقی ہے! ...... سالا ایک پیسہ اپنی جیب سے نکالتا نہیں اور تیرے ساتھ مزے اڑاتا رہتا ہے۔ مزے الگ رہے، تجھ سے کچھ لے بھی مرتا ہے ...... سوگندھی! مجھے کچھ دال میں کالا کالا نظر آتا ہے۔ اس سالے میں کوئی بات ضرور ہے جو تجھے بھاگیا ہے ...... سات سال سے یہ دھندا کررہا ہوں۔ تم چھوکریوں کی ساری کمزوریاں جانتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر رام لال دلّال نے جو بمبئی شہر کے مختلف حصّوں سے دس روپے سے لے کر سو روپے تک والی، ایک سوبیس چھوکریوں کا دھندا کرتا تھا، سوگندھی کو بتایا ...... ’’سالی اپنا دھن یوں نہ برباد کر ...... تیرے انگ پر سے، یہ کپڑے بھی، اتار کر لے جائے گا، وہ تیری ماں کا یار! ...... اِس پلنگ کے پائے کے نیچے چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں سارے پیسے دبا دِیا کر، اور جب وہ آیا کرے تو اُس سے کہا کر ...... ’’تیری جان کی قسم مادھو، آج صبح سے ایک دھیلے کا منہ نہیں دیکھا۔ باہر والے سے کہہ کر ایک کوپ چائے اور ایک افلاطون بسکٹ تو منگا، بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں......‘‘ سمجھیں؟ بہت نازک وقت آگیا ہے میری جان ...... اِس سالی کانگرس نے شراب بند کرکے بازار بالکل مندا کردیا ہے۔ پر تجھے تو کہیں نہ کہیں سے پینے کو مل ہی جاتی ہے۔ بھگوان قسم! جب تیرے یہاں کبھی رات کی خالی کی ہوئی بوتل دیکھتا ہوں اور دارو کی باس سونگھتا ہوں تو جی چاہتا ہے تیری جون میں چلا جاؤں۔‘‘
سوگندھی کو اپنے جسم میں سب سے زیادہ اپنا سینہ پسند تھا۔ ایک بار جمنا نے اُس سے کہا تھا: ’’نیچے سے اِن بمب کے گولوں کو باندھ کے رکھا کر، انگیا پہنا کرے گی تو اِن کی سختائی ٹھیک رہے گی۔‘‘
سوگندھی یہ سُن کر ہنس دی تھی۔ ’’جمنا! تو سب کو اپنے سری کا سمجھتی ہے۔ دس روپے میں لوگ تیری بوٹیاں توڑ کر چلے جاتے ہیں تو تو سمجھتی ہے کہ سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا ...... کوئی مُوا لگائے تو ایسی ویسی جگہ، ہاتھ ...... ارے ہاں! کل کی بات تجھے سناؤں: رام لال رات کے دو بجے ایک پنجابی کو لایا۔ رات کا تیس روپے طے ہوا ...... جب سونے لگے تو میں نے بتی بجھادی ...... ارے وہ تو ڈرنے لگا! ...... سنتی ہو جمنا؟ تیری قسم، اندھیرا ہوتے ہی اُس کا سارا ٹھاٹھ کِرکِرا ہوگیا ...... وہ ڈر گیا! میں نے کہا، چلو چلو دیر کیوں کرتے ہو! تین بجنے والے ہیں، ابھی دن چڑھ آئے گا ...... بولا، روشنی کرو ...... روشنی کرو ...... میں نے کہا، یہ روشنی کیا ہوا؟ ......بولا، لائٹ  ...... لائٹ! ...... اُس کی بھنچی ہوئی آواز سُن کر مجھ سے ہنسی نہ رکی۔ ’’بھئی میں تو لائٹ نہ کروں گی!‘‘ ...... اور یہ کہہ کر میں نے اُس کی گوشت بھری ران کی چٹکی لی ...... تڑپ کر اُٹھ بیٹھا اور لائٹ اون کردی۔ میں نے جھٹ سے چادر اوڑھ لی، اور کہا: ’’تجھے شرم نہیں آتی مردُوے!‘‘ وہ پلنگ پر آیا تو میں اُٹھی اور لپک کر لائٹ بجھا دی! ...... وہ پھر گھبرانے لگا ...... تیری قسم! بڑے مزے میں رات کٹی ...... کبھی اندھیرا کبھی اُجالا، کبھی اُجالا کبھی اندھیرا ...... ٹرام کی کھڑکھڑ ہوئی تو پتلون وتلون پہن کر وہ اٹھ بھاگا ...... سالے نے تیس روپے سٹّے میں جیتے ہوں گے جو یوں مفت دے گیا ...... جمنا! تو بالکل الّھڑ ہے۔ بڑے بڑے گُر یاد ہیں مجھے، اِن لوگوں کے ٹھیک کرنے کے لیے!‘‘
سوگندھی کو واقعی بہت سے گُر یاد تھے جو اُس نے اپنی ایک دو سہیلیوں کو بتائے بھی تھے۔ عام طور پر وہ، یہ گُر سب کو بتایا کرتی تھی ...... ’’اگر آدمی شریف ہو، زیادہ باتیں نہ کرنے والا ہو، تو اُس سے خوب شرارتیں کرو، اَن گنت باتیں کرو، اُسے چھیڑو، ستاؤ، اس کے گُدگُدی کرو، اس سے کھیلو ...... اگر داڑھی رکھتا ہو تو اس میں انگلیوں سے کنگھی کرتے کرتے دو چار بال بھی نوچ لو [نوچ بھی لو؟] ...... پیٹ بڑا ہو تو تھپتھپاؤ ...... اُس کو اتنی مہلت ہی نہ دو کہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے پائے ...... وہ خوش خوش چلا جائے گا اور تم بھی بچی رہوگی ...... ایسے مر د جو گُپ چُپ رہتے ہیں، بڑے خطرناک ہوتے ہیں بہن ...... ہڈی پسلی توڑ دیتے ہیں، اگر اُن کا داؤ چل جائے!‘‘
سوگندھی اتنی چالاک نہیں تھی، جتنی کہ خود کو ظاہر کرتی تھی۔ اُس کے گاہک بہت کم تھے۔ غایت درجہ جذباتی لڑکی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ تمام گُر جو اُسے یاد تھے، اُس کے دماغ سے پھِسل کر اس کے پیٹ میں آجاتے تھے، جس پر ایک بچّہ پیدا کرنے کے باعث کئی لکیریں پڑ گئی تھیں ...... ان لکیروں کو پہلی مرتبہ دیکھ کر اُسے ایسا لگا تھا کہ اس کے خارش زدہ کُتے نے اپنے پنجے سے یہ نشان بنادیے ہیں ...... جب کوئی کُتیا بڑی بے اعتنائی سے اُس کے پالتو کُتّے کے پاس سے گزر جاتی تھی تو وہ شرمندگی دُور کرنے کے لیے زمین پر اپنے پنجوں سے اِسی قسم کے نشان بنایا کرتا تھا۔
سوگندھی دماغ میں زیادہ رہتی تھی لیکن جوں ہی کوئی نرم و نازک بات ...... کوئی کومل بول ...... اُس سے کہتا تو جھٹ پگھل کر وہ اپنے جسم کے دوسرے حصّوں میں پھیل جاتی۔ گو مرد اور عورت کے جسمانی ملاپ کو اس کا دماغ بالکل فُضول سمجھتا تھا مگر اس کے جسم کے باقی اعضا، سب کے سب، اس کے بہت بُری طرح قائل تھے، وہ تھکن چاہتے تھے ...... ایسی تھکن جو اُنہیں جھنجھوڑ کر ...... انہیں مار کر، سُلانے پر [سونے پر؟] مجبور کردے ...... ایسی نیند جو تھک کر چُور چُور ہونے کے بعد آئے، کتنی مزے دار ہوتی ہے ...... وہ بے ہوشی جو مار کھا کر بند بند ڈھیلے [ڈھیلا؟] ہوجانے پر طاری ہوتی ہے، کتنا آنند دیتی ہے! ......کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم ہو اور کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نہیں ہو! اور اس ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ تم ہَوا میں بہت اونچی جگہ لٹکی ہوئی ہو۔ اوپر ہوا، نیچے ہوا، دائیں ہوا، بائیں ہوا، بس ہوا ہی ہوا! اور پھر اُس ہوا میں دم گھٹنا بھی ایک خاص مزا دیتا ہے۔
بچپن میں جب وہ آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھی اور اپنی ماں کا بڑا صندوق کھول کر اُس میں چھُپ جایا کرتی تھی، تو ناکافی ہوا میں دم گھُٹنے کے ساتھ ساتھ، پکڑے جانے کے خوف سے، وہ تیز دھڑکن جو اس کے دل میں پیدا ہوجایا کرتی تھی، کتنا مزہ دیا کرتی تھی!
سوگندھی چاہتی تھی کہ اپنی ساری زندگی کسی ایسے ہی صندوق میں چھپ کر گزار دے جس کے باہر ڈھونڈنے والے پھرتے رہیں، کبھی کبھی اُس کو ڈھونڈ نکالیں تاکہ وہ بھی اُن کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ یہ زندگی جو وہ پانچ برس سے گزار رہی تھی، آنکھ مچولی ہی تو تھی! ...... کبھی وہ کسی کو ڈھونڈ لیتی تھی اور کبھی کوئی اسے ڈھونڈ لیتا تھا ...... بس یوں ہی اس کا جیون بیت رہا تھا۔ وہ خوش تھی اس لیے کہ اس کو خوش رہنا پڑتا تھا۔ ہر روز رات کو کوئی نہ کوئی مرد اس کے چوڑے ساگوانی پلنگ پر ہوتا تھا اور سوگندھی جس کو مردوں کے ٹھیک کرنے کے لیے بے شمار گُر یاد تھے، اِس بات کا بار بار تہیّہ کرنے پر بھی کہ وہ ان مردوں کی کوئی ایسی ویسی بات نہیں مانے گی اور ان کے ساتھ بڑے روکھے پن کے ساتھ[روکھے پن سے؟] پیش آئے گی، ہمیشہ اپنے جذبات کے دھارے میں بہہ جایا کرتی تھی اور فقط ایک پیاسی عورت رہ جایا کرتی تھی۔
ہر روز رات کو اُس کا پرانا یا نیا ملاقاتی اس سے کہا کرتا تھا: ’’سوگندھی! میں تجھ سے پریم کرتا ہوں۔‘‘ اور سوگندھی یہ جان بوجھ کر کہ وہ جھوٹ بولتا ہے، بس موم ہوجاتی تھی اور ایسا محسوس کرتی تھی جیسے سچ مُچ اس سے پریم کیا جارہا ہے ...... پریم ...... کتنا سندر بول ہے! وہ چاہتی تھی، اِس کو پگھلا کر اپنے سارے انگوں پر مل لے، اِس کی مالش کرے تاکہ یہ سارے کا سارا اس کے مساموں میں رچ جائے ...... یا پھر وہ خود اس کے اندر چلی جائے، سمٹ سمٹاکر اِس کے اندر داخل ہوجائے اور اُوپر سے ڈھکنا بند کردے [کرلے؟] کبھی کبھی جب پریم کرنے اور پریم کیے جانے کا جذبہ اُس کے اندر بہت شّدت اختیار کرلیتا تو کئی بار اس کے جی میں آتا کہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو گود میں لے کر تھپتھپانا شروع کردے اور لوریاں دے کر اُسے اپنی گود ہی میں سلادے۔
پریم کرسکنے کی اہلیت اُس کے اندر اِس قدر زیادہ تھی کہ ہر اُس مرد سے جو اُس کے پاس آتا تھا، وہ محبت کرسکتی تھی اور پھر اس کو نباہ بھی سکتی تھی۔ اب تک چار مردوں سے اپنا پریم نباہ ہی تو رہی تھی جن کی تصویریں اس کے سامنے دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ ہر وقت یہ احساس اس کے دل میں موجود رہتا تھا کہ وہ بہت اچھّی ہے۔ لیکن یہ اچھّا پن مردوں میں کیوں نہیں ہوتا؟ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی ...... ایک بار آئینہ دیکھتے ہوئے بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا تھا...... ’’سوگندھی! ......تجھ سے زمانے نے اچھا سلوک نہیں کیا!‘‘
یہ زمانہ، یعنی پانچ برسوں کے دن اور ان کی راتیں، اُس کے جیون کے ہر تار کے ساتھ وابستہ تھا۔ گو اس زمانے سے اس کو (وہ ) خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی جس کی خواہش اس کے دل میں موجود تھی، تاہم وہ چاہتی تھی کہ یوں ہی اس کے دن بیتتے چلے جائیں۔ اسے کون سے محل کھڑے کرنا تھے جو روپے پیسے کا لالچ کرتی۔ دس روپے اس کا عام نرخ تھا جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلّالی کے کاٹ لیتا تھا۔ ساڑھے سات روپے اسے روز مل ہی جایا کرتے تھے جو اس کی اکیلی جان کے لیے کافی تھے۔ اور مادھو جب پونے سے، بقول رام لال دلّال، سوگندھی پر دھاوے بولنے کے لیے آتا تھا، تو وہ دس پندرہ روپے خراج بھی ادا کرتی تھی۔ یہ خراج صرف اس بات کا تھا کہ سوگندھی کو اُس سے کچھ وہ ہوگیا تھا۔ رام لال دلّال ٹھیک کہتا تھا: اُس میں ایسی بات ضرور تھی جو سوگندھی کو بہت بھا گئی تھی۔ اب اس کو چھپانا کیا ہے، بتا ہی کیوں نہ دیں! ...... سوگندھی سے جب مادھو کی پہلی ملاقات ہوئی تو اُس نے کہا تھا: ’’تجھے لاج نہیں آتی اپنا بھاؤ کرتے! جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کررہی ہے؟ ...... اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟ ...... چھی چھی چھی ...... دس روپے، اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ ...... اب ان ساڑھے سات روپیوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا ...... مجھے عورت چاہیے، پر تجھے کیا اِس وقت، اِسی گھڑی مرد چاہیے؟ ...... مجھے تو کوئی عورت بھی بھا جائے گی، پر کیا میں تجھے جچتا ہوں؟ ...... تیرا میرا ناتا ہی کیا ہے، کچھ بھی نہیں ...... بس یہ دس روپے، جن میں سے ڈھائی، دلّالی میں چلے جائیں گے اور باقی اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے، تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے ہیں ...... تو بھی ان کا بجنا سُن رہی ہے اور میں بھی۔ تیرا من کچھ اور سوچتا ہے، میرا من کچھ اور ...... کیوں نہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری ...... پونے میں حوالدار ہوں۔ مہینے میں ایک بار آیا کروں گا، تین چار دن کے لیے ...... یہ دھندا چھوڑ ...... میں تجھے خرچ دیا کروں گا...... کیا بھاڑا ہے اِس کھولی کا......؟‘‘
مادھو نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا، جس کا اثر سوگندھی پر اس قدر زیادہ ہوا تھا کہ وہ چند لمحات کے لیے خود کو حوالدارنی سمجھنے لگی تھی۔ باتیں کرنے کے بعد مادھو نے اُس کے کمرے کی بِکھری ہوئی چیزیں قرینے سے رکھی تھیں اور ننگی تصویریں جو سوگندھی نے اپنے سرہانے لٹکا رکھی تھیں، بنا پوچھے گچھے پھاڑ دی تھیں اور کہا تھا: ’’سوگندھی بھئی میں ایسی تصویریں یہاں نہیں رکھنے دوںگا ...... اور پانی کا یہ گھڑا ...... دیکھنا، کتنا میلا ہے اور یہ  ...... یہ چیتھڑے ...... یہ چِندیاں ...... اف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھا کے باہر پھینک اِن کو ...... اور تونے اپنے بالوں کا کیا ستیا ناس کررکھا ہے ...... اور ......اور۔‘‘
تین گھنٹے کی بات چیت کے بعد سوگندھی اور مادھو دونوں آپس میں گھُل مل گئے تھے اور سوگندھی کو تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ برسوں سے حوالدار کو جانتی ہے۔ اُس وقت تک کسی نے بھی کمرے میں بدبو دار چیتھڑوں، میلے گھڑے اور ننگی تصویروں کی موجودگی کا خیال نہیں کیا تھا اور نہ کبھی کسی نے اس کو یہ محسوس کرنے کا موقع دیا تھا کہ اس کا ایک گھر ہے، جس میں گھریلو پن آسکتا ہے۔ لوگ آتے تھے اور بستر تک کی غلاظت کو محسوس کیے بغیر چلے جاتے تھے۔ کوئی سوگندھی سے یہ نہیں کہتا تھا: ’’دیکھ تو آج تیری ناک کتنی لال ہورہی ہے، کہیں زکام نہ ہوجائے تجھے ...... ٹھہر میں تیرے واسطے دوا لاتا ہوں۔‘‘ مادھو کتنا اچھا تھا۔ اُس کی ہر بات باون تولے اور پاؤرتی کی تھی۔ کیا کھری کھری سنائی تھیں اس نے سوگندھی کو! ...... اسے محسوس ہونے لگا کہ اسے مادھو کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان دونوں کا سمبندھ ہوگیا۔
مہینے میں ایک بار مادھو پونے سے آتا تھا اور واپس جاتے ہوئے ہمیشہ سوگندھی سے کہا کرتا تھا : ’’دیکھ سوگندھی! اگر تونے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی ...... اگر تونے ایک بار بھی کسی مرد کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوںگا ...... دیکھ اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا ...... ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا......؟‘‘
نہ مادھونے کبھی پونا سے خرچ بھیجا تھا اور نہ سوگندھی نے اپنا دھندا بند کیا تھا۔ دونوں اچھی طرح جانتے تھے، کیا ہورہا ہے۔ نہ سوگندھی نے کبھی مادھو سے یہ کہا تھا: ’’تو یہ ٹرٹر کیا کرتا ہے، ایک پھوٹی کوڑی بھی دی ہے کبھی تُونے؟‘‘ اور نہ مادھو نے کبھی سوگندھی سے پوچھا تھا: ’’یہ مال تیرے پاس کہاں سے آتا ہے جب کہ میں تجھے کچھ دیتا ہی نہیں......!‘‘ دونوں جھوٹے تھے۔ دونوں ایک ملمّع کی ہوئی زندگی بسر کررہے تھے ...... لیکن سوگندھی خوش تھی۔ جس کو اصل سونا پہننے کو نہ ملے وہ ملمّع کیے ہوئے گہنوں ہی پر راضی ہوجایا کرتا ہے۔
اِس وقت سوگندھی تھکی ماندی سورہی تھی۔ بجلی کا قمقمہ جسے اوف کرنا وہ بھول گئی تھی، اُس کے سر کے اوپر لٹک رہا تھا۔ اس کی تیز روشنی اس کی مُندی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ٹکرا رہی تھی مگر وہ گہری نیند سورہی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی ...... رات کے دو بجے یہ کون آیا تھا؟ سوگندھی کے خواب آلود کانوں میں دستک کی آواز بھنبھناہٹ بن کر پہنچی۔ دروازہ جب زور سے کھٹکھٹایا گیا تو چونک کر اُٹھ بیٹھی ...... دو ملی جلی شرابوں اور دانتوں کی ریخوں میں پھنسے ہوئے مچھلی کے ریزوں نے اس کے منہ کے اندر ایسا لعاب پیدا کردیا تھا جو بے حد کسیلا اور لیس دار تھا۔ دھوتی کے پلّو سے اس نے یہ بدبو دار لعاب صاف کیا اور آنکھیں ملنے لگی۔ پلنگ پر وہ اکیلی تھی۔ جھک کر اس نے پلنگ کے نیچے دیکھا تو اُس کا کتّا سوکھے ہوئے چپّلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کا منہ چڑارہا تھا اور طوطا پیٹھ کے بالوں میں سر دیے سورہا تھا۔
دروازے پر [پھر] دستک ہوئی۔ سوگندھی بستر پر سے اٹھی۔ سر درد کے مارے پھٹا جارہا تھا۔ گھڑے سے پانی کا ایک ڈونگا نکال کر اس نے کُلّی کی اور دوسرا ڈونگا غٹاغٹ پی کر اس نے دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھُولا اور کہا: ’’رام لال؟‘‘
رام لال جو باہر دستک دیتے دیتے تھک گیا تھا، بھنّا کر کہنے لگا: ’’تجھے سانپ سونگھ گیا تھا یا کیا ہوگیا تھا۔ ایک کلاک (گھنٹے) سے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں۔ کہاں مر گئی تھی؟‘‘ ...... پھر آواز دبا کر اس نے ہولے سے کہا: ’’اندر کوئی ہے تو نہیں؟‘‘
جب سوگندھی نے کہا: ’’نہیں‘‘ ...... تو رام لال کی آواز پھر اونچی ہوگئی: ’’تو دروازہ کیوں نہیں کھولتی؟ ...... بھئی حد ہوگئی ہے۔ کیا نیند پائی ہے۔ یوں ایک چھوکری اُتارنے میں دو دو گھنٹے سرکھپانا پڑے تو میں اپنا دھندا کرچکا ...... اب تو میرا منہ کیا دیکھتی ہے؟ جھٹ پٹ یہ دھوتی اتار کر وہ پھولوں والی ساڑی پہن، پوڈر ووڈر لگا اور چل میرے ساتھ...... باہر موٹر میں ایک سیٹھ بیٹھے تیرا انتظار کررہے ہیں ...... چل چل ایک دم جلدی کر۔‘‘
سوگندھی آرام کرسی پر بیٹھ گئی اور رام لال آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔
سوگندھی نے تپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بام کی شیشی اٹھا کر اس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے کہا: ’’رام لال! آج میرا جی اچھا نہیں۔‘‘
رام لال نے کنگھی دیوار گیر پر رکھ دی اور مڑ کر کہا: ’’تو پہلے ہی کہہ دیا ہوتا!‘‘
سوگندھی نے ماتھے اور کنپٹیوں پر بام ملتے ہوئے، رام لال کی غلط فہمی دُور کردی: ’’وہ بات نہیں رام لال! ...... ایسے ہی میرا جی اچھا نہیں ...... بہت پی گئی۔‘‘
رام لال کے منہ میں پانی بھر آیا: ’’تھوڑی بچی ہو تو، لا ...... ذرا ہم بھی منہ کا مزا ٹھیک کرلیں۔‘‘
سوگندھی نے بام کی شیشی تپائی پر رکھ دی اور کہا: ’’بچائی ہوتی تو یہ مُوا سر میں درد ہی کیوں ہوتا ...... دیکھ رام لال! وہ جو باہر موٹر میں بیٹھا ہے اُسے اندر ہی لے آؤ [؟ لے آ]۔‘‘
رام لال نے جواب دیا: ’’نہیں بھئی، وہ اندر نہیں آسکتے، جنٹل مین آدمی ہیں، وہ تو موٹر کو گلی کے باہر کھڑی کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے ...... تو کپڑے وپڑے پہن لے اور ذرا گلی کی نُکّڑ تک چل ...... سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ساڑھے سات روپے کا سودا، سوگندھی اِس حالت میں جب کہ اُس کے سر میں شدّت کا درد ہورہا تھا، کبھی قبول نہ کرتی مگر اسے روپوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ والی کھولی میں ایک مدراسی عورت رہتی تھی جس کا خاوند موٹر کے نیچے آکر مر گیا تھا۔ اُس عورت کو اپنی جوان لڑکی سمیت اپنے وطن جانا تھا لیکن اس کے پاس چونکہ کرایہ ہی نہیں تھا اس لیے وہ کس مپرسی کی حالت میں پڑی تھی۔ سوگندھی نے کل ہی اُس کو ڈھارس دی تھی اور اُس سے کہا تھا: ’’بہن تو چنتا نہ کر۔ میرا مرد پونے سے آنے ہی والا ہے۔ میں اس سے کچھ روپے لے کر تیرے جانے کا بندوبست کردوں گی۔‘‘ مادھو پونا سے آنے والا تھا، مگر روپوں کا بندوبست تو سوگندھی ہی کو کرنا تھا۔ چنانچہ وہ اُٹھی اور جلدی جلدی کپڑے تبدیل کرنے لگی۔ پانچ منٹوں میں اس نے دھوتی اُتار کر پھولوں والی ساڑی پہنی اور گالوں پر سرخی پوڈر لگا کر تیار ہوگئی۔ گھڑے کے ٹھنڈے پانی کا ایک اور ڈونگا پیا اور رام لال کے ساتھ ہولی۔
گلی جو کہ چھوٹے شہروں کے بازار سے بھی کچھ بڑی تھی، بالکل خاموش تھی۔ گیس کے وہ لیمپ جو کھمبوں پر جڑے تھے، پہلے کی نسبت بہت دھندلی روشنی دے رہے تھے۔ جنگ کے باعث ان کے شیشوں کو گدلا کردیا گیا تھا۔ اس اندھی روشنی میں گلی کے آخری سرے پر ایک موٹر نظر آرہی تھی۔
کمزور روشنی میں اُس سیاہ رنگ کی موٹر کا سایہ سا نظر آنا اور رات کے پچھلے پہر کی بھیدوں بھری خاموشی ...... سوگندھی کو ایسا لگا کہ اس کے سر کا درد فضا پر بھی چھا گیا ہے۔ ایک کسیلا پن اُسے ہوا کے اندر بھی محسوس ہوتا تھا جیسے برانڈی اور بیوڑا کی باس سے وہ بھی بوجھل ہورہی ہے۔
آگے بڑھ کر رام لال نے موٹر کے اندر بیٹھے ہوئے آدمیوں [آدمی؟] سے کچھ کہا۔ اتنے میں جب سوگندھی موٹر کے پاس پہنچ گئی تو رام لال نے ایک طرف ہٹ کر کہا: ’’لیجیے وہ آگئی ...... بڑی اچھی چھوکری ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں اِسے دھندا شروع کیے‘‘ ...... پھر سوگندھی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’سوگندھی! اِدھر آ، سیٹھ جی بلاتے ہیں۔‘‘
سوگندھی، ساڑی کا ایک کنارہ اپنی انگلی پر لپٹتی ہوئی، آگے بڑھی اور موٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہوگئی۔ سیٹھ صاحب نے بیٹری اس کے چہرے کے پاس روشن کی۔ ایک لمحے کے لیے اُس روشنی نے سوگندھی کی خمار آلود آنکھوں میں چکا چوند پیدا کی۔ بٹن دبانے کی آواز پیدا ہوئی اور روشنی بُجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منہ سے ‘‘اونہہ!‘‘ نکلا۔ پھر ایک دم موٹر کا انجن پھڑ پھڑایا اور کار، یہ جا، وہ جا......
سوگندھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موٹر چل دی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک بیٹری کی تیز روشنی گھُسی ہوئی تھی۔ وہ ٹھیک طرح سے سیٹھ کا چہرہ بھی تو نہ دیکھ سکی تھی۔ یہ آخر ہوا کیا تھا۔ اُس ‘‘اونہہ‘‘ کا کیا مطلب تھا جو ابھی تک اُس کے کانوں میں بھنبھنا رہی تھی۔ کیا؟ ...... کیا؟
رام لال دلّال کی آواز سنائی دی: ’’پسند نہیں کیا تجھے! ...... اچھی بھئی، میں چلتا ہوں۔ دو گھنٹے مفت ہی میں برباد کیے۔‘‘
یہ سُن کر سوگندھی کی ٹانگوں میں، اُس کی بانہوں میں، اُس کے ہاتھوں میں: ایک زبردست حرکت پیدا ہوئی ...... کہاں ہے وہ موٹر ...... کہاں ہے وہ سیٹھ ...... تو ’’اونہہ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اُس نے مجھے پسند نہیں کیا ...... اُس کی......
گالی اُس کے پیٹ کے اندر سے اُٹھی اور زبان کی نوک پر آخر رُ ک گئی۔ وہ آکر گالی کسے دیتی۔ موٹر تو جا چکی تھی۔ اُس کی دُم کی سرخ بتّی اس کے سامنے بازار کے اندھیارے میں ڈُوب رہی تھی اور سوگندھی کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ لال لال انگارہ ’’اونہہ‘‘ ہے جو اُس کے سینے میں برمے کی طرح اُترا چلا جارہا ہے۔ اس کے جی میں آئی کہ زور سے پکارے: ’’او سیٹھ ...... ذرا موٹر روکنا اپنی ...... بس ایک منٹ کے لیے۔‘‘ پر وہ سیٹھ، تُھڑی ہے اُس کی ذات پر! بہت دُور نکل چکا تھا۔
وہ سنسان بازار میں کھڑی تھی۔ پھولوں والی ساڑی جو وہ خاص خاص موقعوں پر پہنا کرتی تھی، رات کے پچھلے پہر کی ہلکی پھلکی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ یہ ساڑی اور اس کی ریشمیں سرسراہٹ، سوگندھی کو کتنی بُری معلوم ہورہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس ساڑی کے چیتھڑے اڑا دے کیونکہ ساڑی ہوا میں لہرا لہرا کر ’’اونہہ اونہہ ‘‘ کررہی تھی۔
گالوں پر اُس نے پوڈر لگایا تھا اور ہونٹوں پر سرخی۔ جب اسے خیال آیا کہ یہ سنگار اس نے اپنے آپ کو پسند کرانے کے واسطے کیا تھا تو شرم کے مارے اُسے پسینہ آگیا۔ یہ شرمندگی دور کرنے کے لیے اس نے کیا کچھ نہ سوچا ...... ’’میں نے اُس موئے کو دکھانے کے لیے تھوڑی اپنے آپ کو سجایا تھا، یہ تو میری عادت ہے ...... میری کیا سب کی یہی عادت ہے ...... پر  ...... پر ...... یہ رات کے دو بجے اور رام لال دلّال اور ...... یہ بازار ...... اور وہ موٹر اور بیٹری کی چمک‘‘...... یہ سوچتے ہی روشنی کے دھبّے اس کی حدِ نگاہ تک فضا میں اِدھر اُدھر تیرنے لگے اور موٹر کے انجن کی پھڑپھڑاہٹ اُسے ہوا کے ہر جھونکے میں سنائی دینے لگی۔
اُس کے ماتھے پر بام کا لیپ جو سنگار کرنے کے دوران میں بالکل ہلکا ہوگیا تھا، پسینہ آنے کے باعث اس کے مساموں میں داخل ہونے لگا اور سوگندھی کو اپنا ماتھا، کسی اور کا ماتھا معلوم ہوا۔ جب ہوا کا ایک جھونکا اس کے عرق آلود ماتھے کے پاس سے گزرا تو اسے ایسا لگا کہ سرد سرد ٹین کا ٹکڑا کاٹ کر اس کے ماتھے کے ساتھ چسپاں کردیا گیا ہے۔ سر میں درد ویسے کا ویسا موجود تھا مگر خیالات کی بھیڑ بھاڑ اور اُن کے شور نے اس درد کو اپنے نیچے دبا رکھا تھا۔ سوگندھی نے کئی بار اس درد کو اپنے خیالات کے نیچے سے نکال کر اوپر لانا چاہا مگر ناکام رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اُس کا انگ انگ دُکھنے لگے، اس کے سر میں درد ہو، اس کی ٹانگوں میں درد ہو، اس کے پیٹ میں درد ہو، اس کی بانہوں میں درد ہو ...... ایسا درد کہ وہ صرف درد ہی کا خیال کرے اور سب کچھ بھول جائے۔ یہ سوچتے سوچتے اس کے دل میں کچھ ہوا ...... کیا یہ درد تھا؟ ...... ایک لمحے کے لیے اس کا دل سُکڑا اور پھر پھیل گیا ...... یہ کیا تھا؟ ...... لعنت! یہ تو وہی ’’اونہہ ‘‘ تھی جو اس کے دل کے اندر کبھی سکڑتی اور کبھی پھیلتی تھی۔
گھر کی طرف سوگندھی کے قدم اٹھے ہی تھے کہ رُک گئے اور وہ ٹھہر کر سوچنے لگی ...... رام لال دلّال کا خیال ہے کہ اُسے میری شکل پسند نہیں آئی ...... شکل کا تو اُس نے ذکر نہیں کیا۔ اُس نے تو یہ کہا تھا:’’ سوگندھی! تجھے پسند نہیں کیا!‘‘ اُسے ...... اُسے ...... صرف میری شکل ہی پسند نہیں آئی ...... نہیں آئی تو کیا ہوا؟ ...... مجھے بھی تو کئی آدمیوں کی شکل پسند نہیں آتی ...... وہ جو اماوس کی رات کو آیا تھا، کتنی بُری صورت تھی اُس کی ...... کیا میں نے ناک بھوں نہیں چڑھائی تھی؟ جب وہ میرے ساتھ سونے لگا تھا تو مجھے گھن نہیں آئی تھی؟ ...... کیا مجھے ابکائی آتے آتے نہیں رُک گئی تھی؟ ...... ٹھیک ہے، پر سوگندھی ...... تو نے اُسے دھتکارا نہیں تھا، تو نے اُس کو ٹھکرایا نہیں تھا ...... اِس موٹر والے سیٹھ نے تو تیرے منہ پر تھوکا ہے ...... ’’اونہہ‘‘ ...... اِس ’’اونہہ‘‘ کا اور مطلب ہی کیا ہے؟ ...... یہی کہ اِس چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کا تیل ...... اونہہ ...... یہ منہ اور مسور کی دال ...... ارے رام لال! تو یہ چھپکلی کہاں سے پکڑ کر لے آیا ہے ...... اس لونڈیا کی اتنی تعریف کررہا ہے تو ...... دس روپے اور یہ عورت ...... خچّر کیا بُری ہے......
سوگندھی سوچ رہی تھی اور اُس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اُس کو کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا تھا اور کبھی رام لال دلّال پر جس نے رات کے دو بجے اُسے بے آرام کیا۔ لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصور پاکر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی۔ اِس خیال کے آتے ہی اُس کی آنکھیں، اُس کے کان، اُس کی بانہیں، اُس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ، مڑتا تھا کہ اُس سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے ...... اُس کے اندر یہ خواہش بڑی شدّت سے پیدا ہورہی تھی کہ جو کچھ ہوچکا ہے، ایک بار پھر ہو ...... صرف ایک بار ...... وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے، موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ بیٹری نکالے اور اُس کے چہرے پر روشنی پھینکے۔ ’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ ...... سوگندھی ...... اندھا دھند اپنے دونوں پنجوں سے اُس کا منہ نوچنا شروع کردے۔ وحشی بلّی کی طرح جھپٹے اور ......اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھا رکھے تھے، اُس سیٹھ کے گالوں میں گاڑ دے۔ بالوں سے پکڑ کر اُسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑا دھڑ مُکّے مارنا شروع کردے اور جب تھک جائے ...... جب تھک جائے تو رونا شروع کردے۔
رونے کا خیال سوگندھی کو صرف اس لیے آیا کہ اُس کی آنکھوں میں، غصّے اور بے بسی کی شدّت کے باعث، تین چار بڑے بڑے آنسو بن رہے تھے۔ ایکا ایکی سوگندھی نے اپنی آنکھوں سے سوال کیا: ’’تم روتی کیوں ہو؟ تمہیں کیا ہوا ہے کہ ٹپکنے لگی ہو؟‘‘ ...... آنکھوں سے کیا ہُوا سوال، چند لمحات تک اُن آنسوؤں میں تیرتا رہا جو اَب پلکوں پر کانپ رہے تھے۔ سوگندھی اُن آنسوؤں میں سے دیر تک اُس خلا کو گھُورتی رہی جدھر سیٹھ کی موٹر گئی تھی۔
پھڑ پھڑپھڑ ...... یہ آواز کہاں سے آئی؟ ...... سوگندھی نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کسی کو نہ پایا ...... ارے! یہ تو اس کا دل پھڑ پھڑایا تھا۔ وہ سمجھی تھی موٹر کا انجن بولا ہے ...... اس کا دل ...... یہ کیا ہوگیا تھا اس کے دل کو! ...... آج ہی یہ روگ لگ گیا تھا اِسے ...... اچھا بھلا چلتا چلتا ایک جگہ رُک کر دھڑ دھڑ کیوں کرتا تھا [کر رہا تھا؟] ...... بالکل اُس گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح جو سوئی کے نیچے ایک جگہ آکے رُک جاتا تھا، ’’رات کٹی گِن گِن تارے‘‘ کہتا کہتا، تارے تارے کی رٹ لگا دیتا تھا۔
آسمان تاروں سے اٹا ہوا تھا۔ سوگندھی نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کتنے سُندر ہیں‘‘...... وہ چاہتی تھی کہ اپنا دھیان کسی اور طرف پلٹ دے، پر جب اس نے سندر کہا تو جھٹ سے یہ خیال اس کے دماغ میں کودا: یہ تارے سندر ہیں، پر تو کتنی بھونڈی ہے ...... کیا بھول گئی کہ ابھی ابھی تیری صورت کو پھٹکارا گیا ہے؟
سوگندھی بد صورت تو نہیں تھی۔ یہ خیال آتے ہی وہ تمام عکس ایک ایک کرکے اُس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے جو اِن پانچ برسوں کے دوران میں وہ آئینے میں دیکھ چُکی تھی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کا رنگ روپ اب وہ نہیں رہا تھا جو آج سے پانچ سال پہلے تھا جبکہ وہ تمام فکروں سے آزاد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ لیکن وہ بد صورت تو نہیں ہوگئی تھی۔ اُس کی شکل و صورت اُن عام عورتوں کی سی تھی جن کی طرف مرد، گزرتے گزرتے گھُور کر دیکھ لیا کرتے ہیں۔ اُس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو سوگندھی کے خیال میں، ہر مرد اُس عورت میں ضروری سمجھتا ہے جس کے ساتھ اُسے ایک دو راتیں بسر کرنا ہوتی ہیں۔ وہ جوان تھی۔ اس کے اعضا متناسب تھے۔ کبھی کبھی نہاتے وقت جب اُس کی نگاہیں اپنی رانوں پر پڑتی تھیں تو وہ خود اُن کی گولائی اور گدراہٹ کو پسند کیا کرتی تھی۔ وہ خوش خلق تھی۔ اِن پانچ برسوں کے دوران میں شاید ہی کوئی آدمی اس سے ناخوش ہو کر گیا ہو ...... بڑی ملنسار تھی، بڑی رحم دل تھی۔ پچھلے دنوں کرسمس میں جب وہ گول پیٹھا میں رہا کرتی تھی، ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس آیا تھا۔ صبح اُٹھ کر جب اُس نے دوسرے کمرے میں جا کر کھونٹی سے اپنا کوٹ اُتارا تو بٹوا غائب پایا۔ سوگندھی کا نوکر یہ بٹوا لے اُڑا تھا۔ بے چارہ بہت پریشان ہوا، چھٹّیاں گزارنے کے لیے حیدرآباد سے بمبئی آیا تھا، اب اُس کے پاس واپس جانے کے لیے دام نہ تھے۔ سوگندھی نے ترس کھا کر اُسے اُس کے دس روپے واپس دے دیے تھے ...... ’’مجھ میں کیا برائی ہے؟‘‘ سوگندھی نے یہ سوال ہر اُس چیز سے کیا جو اُس کی آنکھوں کے سامنے تھی: گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اور سڑک کی اکھڑی ہوئی بجری ...... اِن سب چیزوں کی طرف اُس نے باری باری دیکھا، پھر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں جو اُس کے اوپر جھُکا ہوا تھا، مگر سوگندھی کو کوئی جواب نہ ملا۔
جواب اُس کے اندر موجود تھا ...... وہ جانتی تھی کہ وہ بُری نہیں، اچھّی ہے، پر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کی تائید کرے ......کوئی ......کوئی ...... اِس وقت کوئی اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنا کہہ دے: ’’سوگندھی! کون کہتا ہے، تو بُری ہے، جو تجھے بُرا کہے، وہ آپ بُرا ہے‘‘...... نہیں! یہ کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، کسی کا اتنا کہہ دینا کافی تھا: ’’سوگندھی تو بہت اچھّی ہے!‘‘
وہ سوچنے لگی کہ وہ کیوں چاہتی ہے کوئی اُس کی تعریف کرے۔ اِس سے پہلے اُسے اِس بات کی اتنی شدّت سے ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے [دیکھ رہی ہے؟] جیسے اُن پر اپنے اچھّے ہونے کا احساس طاری کرنا چاہتی ہے۔ اُس کے جسم کا ذرّہ ذرّہ کیوں ’’ماں ‘‘ بن رہا تھا ......وہ ماں بن کر دھرتی کی ہر شے کو اپنی گود میں لینے کے لیے کیوں تیار ہورہی تھی؟ ...... اُس کا جی کیوں چاہتا تھا کہ سامنے والے گیس کے آہنی کھمبے کے ساتھ چمٹ جائے اور اس کے سرد لوہے پر اپنے گال رکھ دے ...... اپنے گرم گرم گال، اور اُس کی ساری سردی چوس لے۔
تھوڑی دیر کے لیے اُسے ایسا محسوس ہوا کہ گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اور ہر وہ شے جو رات کے سنّاٹے میں اس کے آس پاس تھی، ہمدردی کی نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے اور اس کے اوپر جھُکا ہوا آسمان بھی جو مٹیالے رنگ کی ایسی موٹی چادر معلوم ہوتا تھا جس میں بے شمار سُوراخ ہورہے ہوں، اس کی باتیںسمجھتا تھا اور سوگندھی کو بھی ایسا لگتا تھا کہ وہ تاروں کا ٹمٹمانا سمجھتی ہے ...... لیکن اس کے اندر یہ کیا گڑ بڑ تھی؟ ...... وہ کیوں اپنے اندر اُس موسم کی فضا محسوس کرتی [کر رہی؟] تھی جو بارش سے پہلے دیکھنے میں آیا کرتا ہے [آتا ہے؟] ...... اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے جسم کا ہر مسام کھُل جائے اور جو کچھ اس کے اندر اُبل رہا ہے، اُن کے رستے باہر نکل جائے۔ پر، یہ کیسے ہو ...... کیسے ہو؟
سوگندھی گلی کے نکّڑ پر خط ڈالنے والے لال بھبکے کے پاس کھڑی تھی ...... ہوا کے تیز جھونکے سے اس بھبکے کی آہنی زبان جو اس کے کھلے ہوئے منہ میں لٹکی رہتی ہے، لڑکھڑائی تو سوگندھی کی نگاہیں یک بیک اُس طرف اُٹھیں جدھر موٹر گئی تھی مگر اسے کچھ نظر نہ آیا ...... اسے کتنی زبردست آرزو تھی کہ وہ موٹر پھر ایک بار آئے اور ...... اور......
’’نہ آئے ...... بلا سے ...... میں اپنی جان کیوں بے کار ہلکان کروں ...... گھر چلتے ہیں اور آرام سے لمبی تان کر سوتے ہیں۔ اِن جھگڑوں میں رکھا ہی کیا ہے۔ مُفت کی دردِ سری ہی تو ہے ...... چل سوگندھی گھر چل ...... ٹھنڈے پانی کا ایک ڈونگا پی، اور تھوڑا سا بام مل کر سوجا ...... فسٹ کلاس نیند آئے گی اور سب ٹھیک ہوجائے گا ...... سیٹھ اور اُس موٹر کی ایسی تیسی......‘‘
یہ سوچتے ہوئے سوگندھی کا بوجھ ہلکا ہوگیا جیسے وہ کسی ٹھنڈے تالاب سے نہا دھو کر باہر نکلی ہے۔ جس طرح پُوجا کرنے کے بعد اس کا جسم ہلکا ہوجاتا تھا اُسی طرح اب بھی ہلکا ہوگیا تھا۔ گھر کی طرف چلنے لگی تو خیالات کا بوجھ نہ ہونے کے باعث اس کے قدم کئی بار لڑ کھڑائے۔
اپنے مکان کے پاس پہنچی تو ایک ٹیس کے ساتھ پھر تمام واقعہ اُس کے دل میں اُٹھا اور درد کی طرح اس کے روئیں روئیں پر چھا گیا ...... قدم پھر بوجھل ہوگئے اور وہ اس بات کو شدّت کے ساتھ محسوس کرنے لگی کہ گھر سے بُلا کر، باہر بازار میں، منہ پر روشنی کا چانٹا مار کر، ایک آدمی نے اس کی ابھی ابھی ہتک کی ہے۔ یہ خیال آیا تو اس نے اپنی پسلیوں پر کسی کے سخت انگوٹھے محسوس کیے جیسے کوئی اسے بھیڑ بکری کی طرح دبا دبا کر دیکھ رہا ہے کہ آیا گوشت بھی ہے یا بال ہی بال ہیں ...... اس سیٹھ نے ...... پر ماتما کرے ... سوگندھی نے چاہا کہ اُس کو بددُعا دے مگر سوچا، بددُعا دینے سے کیا بنے گا ...... مزا تو جب تھا کہ وہ سامنے ہوتا اور وہ اُس کے وجود کے ہر ذرّے پر اپنی لعنتیں لکھ دیتی ...... اس کے منہ پر کچھ ایسے الفاظ کہتی کہ زندگی بھر بے چین رہتا ......  کپڑے پھاڑ کر اُس کے سامنے ننگی ہوجاتی اور کہتی: ’’یہی لینے آیا تھا نا تُو؟ ...... لے، دام دِیے بنا لے جا اِسے ...... پر جو کچھ میں ہوں، جو کچھ میرے اندر چھُپا ہوا ہے، وہ تُو کیا، تیرا باپ بھی نہیں خرید سکتا......‘‘
انتقام کے نئے نئے طریقے سوگندھی کے ذہن میں آرہے تھے، اگر اُس سیٹھ سے ایک بار ...... صرف ایک بار ...... اس کی مُڈ بھیڑ ہوجائے تو وہ یہ کرے۔ نہیں، یہ نہیں، یہ کرے ...... یوں اس سے انتقام لے، نہیں یوں نہیں، یوں ...... لیکن جب سوگندھی سوچتی کہ سیٹھ سے اس کا دوبارہ ملنا محال ہے تو وہ ایک چھوٹی سی گالی دینے ہی پر، خود کو راضی کرلیتی ...... بس صرف ایک چھوٹی سی گالی، جو اُس کی ناک پر چپکو مکھّی کی طرح بیٹھ جائے اور ہمیشہ وہیں جمی رہے۔
اِسی اُدھیڑ بُن میں وہ دوسری منزل پر اپنی کھولی کے پاس پہنچ گئی۔ چولی میں سے چابی نکال کر تالا کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو چابی ہوا ہی میں گھوم کر رہ گئی۔ کُنڈے میں تالا نہیں تھا۔ سوگندھی نے کواڑ اندر کی طرف دبائے تو ہلکی سی چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ اندر سے کسی نے کنڈی کھولی اور دروازے نے جمائی لی۔ سوگندھی اندر داخل ہوگئی۔
مادھو مونچھوں میں ہنسا اور دروازہ بند کرکے سوگندھی سے کہنے لگا: ’’آج تو نے میرا کہا مان ہی لیا ...... صبح کی سیر تندرستی کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ہر روز، اس طرح صبح اُٹھ کر، گھُومنے جایا کرے گی تو تیری ساری سُستی دور ہوجائے گی اور وہ تیری کمر کا درد بھی غائب ہوجائے گا جس کی بابت تو آئے دن شکایت کیا کرتی ہے۔ وکٹوریا گارڈن تک تو ہو آئی ہوگی تُو؟ ...... کیوں؟‘‘
سوگندھی نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ مادھو نے جواب کی خواہش ظاہر کی۔ دراصل جب مادھو بات کیا کرتا تھا تو اُس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ سوگندھی ضرور اس میں حصّہ لے۔ اور سوگندھی جب کوئی بات کیا کرتی تھی تو یہ ضروری نہیں ہوتا تھا کہ مادھو اُس میں حصّہ لے ...... چونکہ کوئی بات کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ کچھ کہہ دیا کرتے تھے۔
مادھو بید کی کرسی پر بیٹھ گیا جس کی پشت پر اس کے تیل سے چپڑے ہوئے سر نے میل کا ایک بہت بڑا دھبّا بنا رکھا تھا، اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنی مونچھوں پر اُنگلیاں پھیرنے لگا۔
سوگندھی پلنگ پر بیٹھ گئی اور مادھو سے کہنے لگی: ’’میں آج تیرا انتظار ہی کررہی تھی۔‘‘
مادھو بڑا سٹپٹایا: ’’انتظار؟ ......تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں آج آنے والا ہوں۔‘‘
سوگندھی کے بھنچے ہوئے لب کھُلے، اُن پر ایک پیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی: ’’میں نے رات تجھے سپنے میں دیکھا تھا۔ اُٹھی تو کوئی بھی نہ تھا۔ سو، جی نے کہا: چلو کہیں باہر گھُوم آئیں ...... اور......‘‘
مادھو خوش ہو کر بولا: ’’اور میں آگیا ...... بھئی بڑے لوگوں کی باتیں بڑی پکّی ہوتی ہیں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے، دل کو دل سے راہ ہے ...... تو نے یہ سپنا کب دیکھا تھا؟‘‘
سوگندھی نے جواب دیا: ’’چار بجے کے قریب۔‘‘
مادھو کرسی پر سے اُٹھ کر سوگندھی کے پاس بیٹھ گیا۔’’ اور میں نے تجھے ٹھیک دو بجے سپنے میں دیکھا ...... جیسے تو پھُولوں والی ساڑی ...... ارے! بالکل یہی ساڑی پہنے، میرے پاس کھڑی ہے۔ تیرے ہاتھوں میں ... کیا تھا تیرے ہاتھوں میں؟ ... ہاں، تیرے ہاتھوں میں روپوں سے بھری ہوئی تھیلی تھی! تونے یہ تھیلی [وہ تھیلی؟] میری جھُولی میں رکھ دی اور کہا: ’’مادھو! تو چنتا کیوں کرتا ہے؟ ...... لے یہ تھیلی ...... ارے تیرے میرے روپے کیا دو ہیں؟‘‘ ...... سوگندھی تیری جان کی قسم! فوراً اُٹھا اور ٹکٹ کٹا کر اِدھر کا رخ کیا......کیا سناؤں بڑی پریشانی ہے! ...... بیٹھے بٹھائے ایک کیس ہوگیا ہے۔ اب بیس تیس روپے ہوں تو ...... انسپکٹر کی مٹھّی گرم کرکے چھٹکارا ملے ...... تھک تو نہیں گئی تو؟ لیٹ جا، میں تیرے پیر دبا دوں۔ سیر کی عادت نہ ہو تو تھکن ہو ہی جایا کرتی ہے ...... اِدھر میری طرف پیر کرکے لیٹ جا۔‘‘
سوگندھی لیٹ گئی۔ دونوں بانہوں کا تکیہ بنا کر وہ اُن پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور اُس لہجے میں جو اُس کا اپنا نہیں تھا، مادھو سے کہنے لگی: ’’مادھو، یہ کس موئے نے تجھ پر کیس کیا ہے؟ ...... جیل ویل کا ڈر ہو تو مجھ سے کہہ دے ...... بیس تیس کیا سو پچاس بھی ایسے موقعوں پر پولیس کے ہاتھ میں تھما دِیے جائیں تو فائدہ اپنا ہی ہے ...... جان بچی لاکھوں پائے ...... بس بس، اب جانے دے، تھکن کچھ زیادہ نہیں ہے ...... مٹھّی چاپی چھوڑ اور مجھے ساری بات سُنا ...... کیس کا نام سُنتے ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا ہے ...... واپس کب جائے گا تو؟‘‘
مادھو کو سوگندھی کے منہ سے شراب کی باس آئی۔ اُس نے یہ موقع اچھا سمجھا اور جھٹ سے کہا: ’’دوپہر کی گاڑی سے واپس جانا پڑے گا ...... اگر شام تک سب انسپکٹر کو سو پچاس نہ تھمائے تو ... زیادہ دینے کی ضرورت نہیں، میں سمجھتا ہوں پچاس میں کام چل جائے گا۔‘‘
’’پچاس! ‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی بڑے آرام سے اُٹھی اور اُن چار تصویروں کے پاس، آہستہ آہستہ گئی جو دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ بائیں طرف سے تیسرے فریم میں مادھو کی تصویر تھی۔ بڑے بڑے پھولوں والے پردے کے آگے، کرسی پر، وہ دونوں رانوں پر اپنے ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا۔ پاس ہی تپائی پر دو موٹی موٹی کتابیں دھری تھیں۔ تصویر اُترواتے وقت، تصویر اُتروانے کا خیال، مادھو پر اس قدر غالب تھا کہ اس کی ہر شے تصویر سے باہر نکل نکل کر گویا پکار رہی تھی: ’’ہمارا فوٹو اُترے گا! ہمارا فوٹو اُترے گا!‘‘ کیمرے کی طرف مادھو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فوٹو اترواتے وقت اسے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
سوگندھی کھلکھلاکر ہنس پڑی ...... اُس کی ہنسی کچھ ایسی تیکھی اور نوکیلی تھی کہ مادھو کے سوئیاں سی چبھیں۔ پلنگ پر سے اٹھ کر وہ سوگندھی کے پاس گیا۔’’ کس کی تصویر دیکھ کر تو اِس قدر زور سے ہنسی ہے؟‘‘
سوگندھی نے بائیں ہاتھ کی پہلی تصویر کی طرف اشارہ کیا جو میونسپلٹی کے داروغۂ صفائی کی تھی۔ ’’اِس کی ...... منشی پالٹی کے اِس داروغہ کی ...... ذرا دیکھ تو اِس کا تھوبڑا ...... کہتا تھا، ایک رانی مجھ پر عاشق ہوگئی تھی ...... اونہہ! یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی نے فریم کو اِس زور سے کھینچا کہ دیوار میں سے کیل بھی پلستر سمیت اُکھڑ آئی۔
مادھو کی حیرت ابھی دُور نہ ہوئی تھی کہ سوگندھی نے فریم کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ دو منزلوں سے یہ فریم نیچے زمین پر گرا اور کانچ ٹوٹنے کی جھنکار سُنائی دی۔ سوگندھی نے اُس جھنکار کے ساتھ کہا: ’’رانی بھنگن، کچرا اُٹھانے آئے گی تو میرے اِس راجا کو بھی ساتھ لے جائے گی۔‘‘
ایک بار پھر، اُسی نوکیلی اور تیکھی ہنسی کی پھوار سوگندھی کے ہونٹوں سے گرنا شروع ہوئی جیسے وہ اُن پر چاقو یا چھری کی دھار تیز کررہی ہے۔
مادھو بڑی مشکل سے مسکرایا، پھرہنسا: ’’ہی ہی ہی ...‘‘
سوگندھی نے دوسرا فریم بھی نوچ لیا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ ’’اِس سالے کا یہاں کیا مطلب ہے؟ ...... بھونڈی شکل کا کوئی آدمی یہاں نہیں رہے گا ...... کیوں مادھو؟‘‘
مادھو پھر بڑی مشکل سے مسکرایا اور پھر ہنسا: ’’ہی ہی ہی ...‘‘
ایک ہاتھ سے سوگندھی نے پگڑی والے کی تصویر اُتاری اور دوسرا ہاتھ اُس فریم کی طرف بڑھایا جس میں مادھو کا فوٹو جڑا تھا۔ مادھو اپنی جگہ پر سمٹ گیا جیسے ہاتھ اُس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک سیکنڈ میں، فریم کیل سمیت، سوگندھی کے ہاتھ میں تھا۔
زور کا قہقہہ لگا کر اُس نے ’’اونہہ‘‘ کی اور دونوں فریم ایک ساتھ کھڑکی میں سے باہر پھینک دیے۔ دو منزلوں سے جب فریم زمین پر گرے اور کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی تو مادھو کو ایسا معلوم ہوا کہ اُس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے ہنس کر اتنا کہا: ’’اچھا کِیا ...... مجھے بھی یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔‘‘
آہستہ آہستہ سوگندھی مادھو کے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’تجھے یہ فوٹو پسند نہیں تھا ...... پر میں پوچھتی ہوں، تجھ میں ہے ایسی کون سی چیز، جو کسی کو پسند آسکتی ہے ...... یہ تیری پکوڑا ایسی ناک، یہ تیرا بالوں بھرا ماتھا، یہ تیرے سُوجے ہوئے نتھنے، یہ تیرے مُڑے ہوئے کان، یہ تیرے منہ کی باس، یہ تیرے بدن کا میل؟ ...... تجھے اپنا فوٹو پسند نہیں تھا، اونہہ ...... پسند کیوں ہوتا، تیرے عیب جو چھپا رکھے تھے اُس نے......آج کل زمانہ ہی ایسا ہے، جو عیب چھُپائے وہی بُرا......‘‘
مادھو پیچھے ہٹتا گیا۔ آخر جب وہ دیوار کے ساتھ لگ گیا تو اس نے اپنی آواز میں زور پیدا کرکے کہا: ’’دیکھ سوگندھی! مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تونے پھِر سے اپنا دھندا شروع کیا ہے [کر دیاہے؟] ...... اب تجھ سے آخری بار کہتا ہوں...‘‘
سوگندھی نے اِس سے آگے مادھو کے لہجے میں کہنا شروع کیا: ’’اگر تونے پھِر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی۔ اگر تو نے پھر کسی کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر تجھے باہر نکال دوںگا ...... اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا ...... ہاں، کیا بھاڑا ہے اِس کھولی کا؟‘‘
مادھو چکرا گیا۔
سوگندھی نے کہنا شروع کیا: ’’میں بتاتی ہوں ...... پندرہ روپے بھاڑا ہے اِس کھولی کا ...... اور دس روپے بھاڑا ہے میرا ...... اور جیسا تجھے معلوم ہے، ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ ان ساڑھے سات روپیوں میں مَیں نے ایسی چیز دینے کا وچن دیا تھا، جو میں دے ہی نہیں سکتی تھی اور تو ایسی چیز لینے آیا تھا جو تُو لے ہی نہیں سکتا تھا ...... تیرا میرا ناتا ہی کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ بس یہ دس روپے تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے تھے، سو ہم دونوں نے مل کر ایسی بات کی کہ تجھے میری ضرورت ہوئی اور مجھے تیری ...... پہلے تیرے اور میرے بیچ میں دس روپے بجتے تھے، آج پچاس بج رہے ہیں۔ تو بھی ان کا بجنا سُن رہا ہے اور میں بھی اُن کا بجنا سن رہی ہوں ...... یہ تو نے اپنے بالوں کا کیا ستیاناس کر رکھا ہے؟‘‘
یہ کہہ کر سوگندھی نے مادھو کی ٹوپی، انگلی سے ایک طرف اُڑادی۔ یہ حرکت مادھو کو بہت ناگوار گزری۔ اس نے بڑے کڑے لہجے میں کہا: ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے مادھو کی جیب سے رومال نکال کر سونگھا اور زمین پر پھینک دیا۔ ’’یہ چیتھڑے، یہ چِندیاں ......اُف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھا کے باہر پھینک اِن کو......‘‘
مادھو چلّایا : ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے تیز لہجے میں کہا: ’’سوگندھی کے بچے! تو آیا کس لیے ہے، یہاں؟ ...... تیری ماں رہتی ہے اِس جگہ جو تجھے پچاس روپے دے گی؟ یا تو کوئی ایسا بڑا گبرو جوان ہے جو میں تجھ پر عاشق ہوگئی ہوں ...... کتّے، کمینے، مجھ پر رعب گانٹھتا ہے! میں تیری دبیل ہوں کیا؟ ...... بِھک منگے، تو اپنے آپ کو سمجھ کیا بیٹھا ہے؟ ...... میں پوچھتی ہوں تو ہے کون؟ ...... چوریا گٹھ کُترا؟ ...... اِس وقت تو میرے مکان میں کرنے کیا آیا ہے؟ ...... بلاؤں پولیس کو؟ ...... پونے میں تجھ پر کیس ہو نہ ہو، یہاں تو تجھ پر ایک کیس کھڑا کر [ہی؟] دوں۔‘‘
مادھو سہم گیا۔ دبے ہوئے لہجے میں وہ صرف اِس قدر کہہ سکا ’’سوگندھی، تجھے کیا ہوگیا ہے۔‘‘
’’تیری ماں کا سر ...... تو ہوتا کون ہے مجھ سے ایسے سوال کرنے والا ...... بھاگ یہاں سے، ورنہ ......‘‘ سوگندھی کی بلند آواز سُن کر اُس کا خارش زدہ کتّا جو سوکھے ہوئے چپلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا، ہڑ بڑا کر اٹھا اور مادھو کی طرف منہ اُٹھا کر بھونکنا شروع کردیا۔ کتّے کے بھونکنے کے ساتھ ہی سوگندھی زور زور سے ہنسنے لگی۔
مادھو ڈر گیا۔ گری ہوئی ٹوپی اُٹھانے کے لیے وہ جھُکا تو سوگندھی کی گرج سنائی دی: ’’خبردار ......! پڑی رہنے دے وہیں ...... توجا! تیرے پونا پہنچتے ہی میں اِس کو منی آرڈر کردوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اور زور سے ہنسی اور ہنستی ہنستی بید کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اُس کے خارش زدہ کتّے نے بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ سیڑھیاں اُتار کر، جب کتّا اپنی ٹنڈ منڈ دُم ہلاتا سوگندھی کے پاس واپس آیا اور اُس کے قدموں کے پاس بیٹھ کر کان پھڑ پھڑانے لگا تو سوگندھی چونکی ...... اُس نے اپنے چاروں طرف ایک ہول ناک سنّاٹا دیکھا ...... ایسا سنّاٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اُسے ایسا لگا کہ ہر شے خالی ہے ...... جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی، سب اسٹیشنوں پر مسافر اتار کر، اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے ...... یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہوگیا تھا، اُسے بہت تکلیف دے رہا تھا۔ اس نے کافی دیر تک اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ وہ ایک ہی وقت میں بے شمار خیالات اپنے دماغ میں ٹھونستی تھی مگر بالکل چھلنی کاسا حساب تھا: اِدھر دماغ کو پُر کرتی تھی، اُدھر وہ خالی ہوجاتا تھا۔ 
بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اُس کو اپنا دِل پر چانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اُس نے اپنے خارش زدہ کُتّے کو گود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر، اُسے پہلو میں لٹا کر سوگئی۔

خوشیا (منٹو)

خوشیا سوچ رہا تھا۔
بنواری سے کالے تمباکو والا پان لے کر وہ اُس کی دُکان کے ساتھ اُس سنگین چبوترے پر بیٹھا تھا جو دن کے وقت ٹائروں اور موٹروں کے مختلف پُرزوں سے بھرا ہوتا ہے۔ رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب موٹر کے پُرزے اور ٹائر بیچنے والوں کی یہ دکان بند ہوجاتی ہے۔ اور اِس کا سنگین چبوترہ خوشیا کے لیے خالی ہوجاتا ہے۔
وہ کالے تمباکو والا پان آہستہ آہستہ چبا رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔ پان کی گاڑھی، تمباکو ملی پیک، اُس کے دانتوں کی ریخوں سے نکل کر اس کے منہ میں اِدھر اُدھر پھِسل رہی تھی اور اُسے ایسا لگتا تھا کہ اُس کے خیال، دانتوں تلے پس کر اُس کی پیک میں گھل رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسے پھینکنا [تھوکنا؟] نہیں چاہتا تھا۔
خوشیا پان کی پیک منہ میں پِلپِلا رہا تھا اور اُس واقعے پر غور کررہا تھا جو اس کے ساتھ ابھی ابھی پیش آیا تھا، یعنی آدھ گھنٹہ پہلے۔ 
وہ اِس سنگین چبوترے پر حسبِ معمول بیٹھنے سے پہلے کھیت واڑی کی پانچویں گلی میں گیا تھا۔ منگلور سے جو نئی چھوکری کانتا آئی تھی، اُسی گلی کے نکّڑ پر رہتی تھی۔ خوشیا سے کسی نے کہا تھا کہ وہ اپنا مکان تبدیل کررہی ہے۔ چنانچہ وہ اِسی بات کا پتہ لگانے کے لیے وہاں گیا تھا۔
کانتا کی کھولی کا دروازہ اُس نے کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی ’’کون ہے؟‘‘ اس پر خوشیا نے کہا: ’’میں خوشیا!‘‘
آواز دوسرے کمرے سے آئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا۔ خوشیا اندر داخل ہوا۔ جب کانتا نے دروازہ اندر سے بند کیا تو خوشیا نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے کانتا کو بالکل ننگا دیکھا۔ بالکل ننگا ہی سمجھو کیونکہ وہ اپنے انگ کو صرف ایک تولیے سے چھپائے ہوئے تھی۔ چھپائے ہوئے، بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ چھپانے کی جتنی چیزیں ہوتی ہیں وہ تو سب کی سب خوشیا کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے تھیں۔
’’کہو خوشیا کیسے آئے؟ ...... میں بس اب نہانے والی ہی تھی۔ بیٹھوبیٹھو ...... باہر والے سے اپنے لیے چائے کے لیے تو کہہ آئے ہوتے ...... جانتے تو ہو، وہ مُوا راما، یہاں سے بھاگ گیا ہے۔‘‘
خوشیا جس کی آنکھوں نے کبھی عورت کو یوں اچانک طور پر ننگا نہیں دیکھا تھا، بہت گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے؟ اس کی نظریں جو ایک دم عریانی سے دوچار ہوگئی تھیں، اپنے آپ کو کہیں چھپانا چاہتی تھیں۔
اُس نے جلدی جلدی صرف اتنا کہا: ’’جاؤ ...... جاؤ تم نہالو۔‘‘ پھر ایک دم اس کی زبان کھل گئی: ’’پر جب تم ننگی تھیں تو دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟ ...... اندر سے کہہ دیا ہوتا، میں پھر آجاتا ...... لیکن جاؤ ...... تم نہالو۔‘‘
کانتا مسکرائی: ’’جب تم نے کہا خوشیا ہے، تو میں نے سوچا کیا ہرج ہے، اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو......‘‘
کانتا کی یہ مسکراہٹ ابھی تک خوشیا کے دل و دماغ میں تیر رہی تھی۔ اِس وقت بھی کانتا کا ننگا جسم موم کے پتلے کی مانند اُس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور پگھل پگھل کر اُس کے اندر جارہا تھا۔ 
اُس کا جسم خوب صورت تھا۔ پہلی مرتبہ خوشیا کو معلوم ہوا کہ جسم بیچنے والی عورتیں بھی ایسا سڈول بدن رکھتی ہیں۔ اُس کو اِس بات پر حیرت ہوئی تھی۔ پر سب سے زیادہ تعجب اُسے اِس بات پر ہوا تھا کہ ننگ دھڑنگ وہ اس کے سامنے کھڑی ہوگئی اور اُس کو لاج تک نہ آئی۔ کیوں؟
اِ س کا جواب کانتا نے یہ دیا تھا: ’’جب تم نے کہا خوشیا ہے، تو میں نے سوچا کیا ہرج ہے، اپنا خوشیا ہی تو ہے، آنے دو......‘‘
کانتا اور خوشیا ایک ہی پیشے میں شریک تھے۔ وہ اُس کا دلّال تھا۔ اِس لحاظ سے وہ اُسی کا تھا ...... پر یہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس کے سامنے ننگی ہوجاتی کوئی خاص بات تھی۔ کانتا کے الفاظ میں، خوشیا کوئی اور ہی مطلب کرید رہا تھا۔
یہ مطلب بیک وقت اِس قدر صاف اور اِس قدر مبہم تھا کہ خوشیا کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تھا۔ 
اِس وقت بھی وہ کانتا کے ننگے جسم کو دیکھ رہا تھا جو ڈھولکی پر منڈھے ہوئے چمڑے کی طرح تنا ہوا تھا۔ اُس کی لڑھکتی ہوئی نگاہوں سے بالکل بے پروا! کئی بار حیرت کے عالم میں بھی اُس نے اُس کے سانولے سلونے بدن پر ٹوہ لینے والی نگاہیں گاڑی تھیں۔ مگر اُس کا ایک رواں تک بھی نہ کپکپایا تھا، بس سانولے پتھر کی مورتی کے مانند کھڑی رہی جو احساس سے عاری ہو۔
بھئی، ایک مرد اُس کے سامنے کھڑا تھا ...... مرد، جس کی نگاہیں کپڑوں میں بھی عورت کے جسم تک پہنچ جاتی ہیں اور جو پر ماتما جانے، خیال ہی خیال میں کہاں کہاں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن وہ ذرا بھی نہ گھبرائی اور ...... اور اس کی آنکھیں، ایسا سمجھ لو کہ ابھی لانڈری سے دُھل کر آئی ہیں ...... اس کو تھوڑی سی لاج تو آنی چاہیے تھی۔ ذرا سی سُرخی تو اُس کے دیدوں میں پیدا ہونی چاہیے۔ مان لیا، کسبی تھی، پر کسبیاں یوں ننگی تو نہیں کھڑی ہوجاتیں!
دس برس اُس کو دلاّلی کرتے ہوگئے تھے اور ان دس برسوں میں وہ پیشہ کرانے والی لڑکیوں کے تمام رازوں سے واقف ہوچکا تھا۔ مثال کے طور پر، اُسے یہ معلوم تھا کہ پائے دھونی کے آخری سرے پر جو چھوکری ایک نوجوان لڑکے کو بھائی بنا کر رہتی ہے؛ اِ س لیے ’’اچھوت کنّیا‘‘ کا ریکارڈ ’’کاہے کرتا مورکھ پیار پیار، پیار‘‘ اپنے ٹوٹے ہوئے باجے پر بجایا کرتی ہے کہ اُسے اشوک کمار سے بہت بُری طرح عشق ہے۔ کئی من چلے لونڈے، اشوک کمار سے اُس کی ملاقات کرانے کا جھانسا دے کر اپنا الّو سیدھا کرچکے تھے۔ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ دادر میں جو پنجابن رہتی ہے، صرف اِس لیے کوٹ پتلون پہنتی ہے کہ اُس کے ایک یار نے اُس سے کہا تھا کہ تیری ٹانگیں تو بالکل اُس انگریز ایکٹرس کی طرح ہیں جس نے ’’مراکو عرف خونِ تمنّا ‘‘ میں کام کیا تھا۔ یہ فلم اُس نے کئی بار دیکھا اور جب اُس کے یار نے کہا کہ مارلین ڈیٹرچ اس لیے پتلون پہنتی ہے کہ اُس کی ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں اور اُن ٹانگوں کا اس نے دو لاکھ کا بیمہ کرا رکھا ہے تو اُس نے بھی پتلون پہننی شروع کردی۔ جو اُس کے چوتڑوں میں بہت پھنس کر آتی تھی۔ اور اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ ’’مزگاؤں‘‘ والی دکھشنی چھوکری صرف اس لیے کالج کے خوب صورت لونڈوں کو پھانستی ہے کہ اُسے ایک خوب صورت بچے کی ماں بننے کا شوق ہے۔ اُس کو یہ بھی پتہ تھا کہ وہ کبھی اپنی خواہش پوری نہ کرسکے گی، اس لیے کہ بانجھ ہے۔ اور اُس کالی مدراسن کی بابت جوہر وقت کانوں میں ہیرے کی ’’بوٹیاں‘‘ پہنے رہتی تھی، اُس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اُس کا رنگ کبھی سفید نہیں ہوگا اور وہ اُن دواؤں پر بے کار روپیہ برباد کررہی ہے جو آئے دن خریدتی رہتی ہے۔
اُس کو اُن تمام چھوکریوں کا، اندر باہر کا، حال معلوم تھا جو اس کے حلقے میں شامل تھیں۔ مگر اُس کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز کانتا کماری، جس کا اصلی نام اتنا مشکل تھا کہ وہ عمر بھر یاد نہیں کرسکتا تھا، اُس کے سامنے ننگی کھڑی ہوجائے گی اور اُس کو زندگی کے سب سے بڑے تعجب سے دوچار کرائے گی۔
سوچتے سوچتے اُس کے منہ میں پان کی پیک اس قدر جمع ہوگئی تھی کہ اب وہ مشکل سے چھالیا کے ان ننھے ننھے ریزوں کو چبا سکتا تھا جو اس کے دانتوں کی ریخوں میں سے ادھر اُدھر پھِسل کر نکل جاتے تھے۔ 
اس کے تنگ ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیںنمودار ہوگئی تھیں جیسے ململ میں پنیر کو آہستہ سے دبا دیا گیا ہے [دبا دیا گیا ہو؟] ...... اُس کے مردانہ وقار کو دھکّا سا پہنچتا تھا جب وہ کانتا کے ننگے جسم کو اپنے تصور میں لاتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا اپمان ہُوا ہے۔
ایک دم اُس نے اپنے دل میں کہا: بھئی یہ اپمان نہیں ہے تو کیا ہے ...... یعنی ایک چھوکری ننگ دھڑنگ تمہارے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے اور کہتی ہے اِس میں ہرج ہی کیا ہے؟ ...... تم خوشیا ہی تو ہو ...... خوشیانہ ہُوا، سالا وہ بِلّا ہوگیا جو اُس کے بستر پر ہر وقت اونگھتا رہتا ہے ...... اور کیا؟
اب اُسے یقین ہونے لگا کہ سچ مچ اس کی ہتک ہوئی ہے۔ وہ مرد تھا اور اُس کو اِس بات کی غیر محسوس طریق پر توقع تھی کہ عورتیں خواہ شریف ہوںیا بازاری، اس کو مرد ہی سمجھیں گی۔ اور اس کے اور اپنے درمیان وہ پر دہ قائم رکھیں گی جو ایک مدت سے چلا آرہا ہے۔وہ تو صرف یہ پتہ لگانے کے لیے کانتا کے یہاں گیا تھا کہ وہ کب مکان تبدیل کررہی ہے؟ اور کہاں جارہی ہے ؟ کانتا کے پاس اس کا جانا یکسر بزنس سے متعلق تھا۔ اگر خوشیا، کانتا کی بابت سوچتا کہ جب وہ اُس کا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو وہ اندر کیا کررہی ہوگی؟ تو اُس کے تصور میں زیادہ سے زیادہ اتنی باتیں آسکتی تھیں: 
سر پر پٹی باندھے لیٹ رہی ہوگی۔ [کذا]
بِلّے کے بالوں میں سے پِسّو نکال رہی ہوگی۔
اُس بال صفا پوڈر سے بغلوں کے بال اُڑا رہی ہوگی جو اتنی باس مارتا تھا کہ خوشیا کی ناک برداشت نہیں کرسکتی تھی۔
پلنگ پر اکیلی بیٹھی تاش پھیلائے پیشنس کھیلنے میں مشغول ہوگی۔
بس اتنی چیزیں تھیں جو اُس کے ذہن میں آتیں۔ گھر میں وہ کسی کو رکھتی نہیں تھی اِس لیے ’اُس بات‘ کا خیال ہی نہیں آسکتا تھا۔ پر خوشیا نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو کام سے وہاں گیا تھا کہ اچانک کانتا ...... یعنی کپڑے پہننے والی کانتا......مطلب یہ کہ وہ کانتا جس کو وہ ہمیشہ کپڑوںمیں دیکھا کرتا تھا، اُس کے سامنے بالکل ننگی کھڑی ہوگئی ...... بالکل ننگی ہی سمجھو کیونکہ ایک چھوٹا سا تولیہ سب کچھ تو چھپا نہیں سکتا۔ خوشیا کو یہ نظارہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا تھا جیسے چھلکا اُس کے ہاتھ میں رہ گیا ہے اور کیلے کا گودا پُرچ کرکے اس کے سامنے آگرا ہے۔ نہیں، اُسے کچھ اور ہی محسوس ہوا تھا۔ جیسے ...... جیسے وہ خود ننگا ہوگیا ہے۔ اگر بات یہاں تک ہی ختم ہوجاتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ خوشیا اپنی حیرت کو کسی نہ کسی حیلے سے دُور کردیتا۔ مگر یہاں مصیبت یہ آن پڑی تھیں کہ اُس لونڈیا نے مسکرا کر کہا تھا: ’’جب تم نے کہا‘‘ خوشیا ہے، تو میں نے سوچا اپنا خوشیا ہی تو ہے، آنے دو‘‘ ...... یہ بات اُسے کھائے جارہی تھی۔
’’سالی مسکرا رہی تھی‘‘ ...... وہ بار بار بڑبڑاتا۔ جس طرح کانتا ننگی تھی، اُسی طرح اس کی مسکراہٹ، خوشیا کو ننگی نظر آئی تھی۔ مسکراہٹ ہی نہیں، اُسے کانتا کا جسم بھی اس حد تک نظر آیا تھا گویا اُس پر رندا پھِرا ہوا ہے۔
اُسے بار بار بچپن کے وہ دن یاد آرہے تھے جب پڑوس کی ایک عورت اس سے کہا کرتی تھی: ’’خوشیا بیٹا جا دوڑ کے جا، یہ بالٹی پانی سے بھرلا۔‘‘ جب وہ بالٹی بھر کے لایا کرتا تو وہ دھوتی سے بنائے ہوئے پردے کے پیچھے سے کہا کرتی تھی: ’’اندر آکے، یہاں میرے پاس رکھ دے۔ میں نے منہ پر صابن ملا ہوا ہے۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ وہ دھوتی کا پردہ ہٹا کر، بالٹی اُس کے پاس رکھ دیا کرتا تھا۔ اُس وقت صابن کے جھاگ میں لپٹی ہوئی ننگی عورت اسے نظر آیا کرتی تھی مگر اس کے دل میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہیں ہوتا تھا۔
بھئی میں اُس وقت بچہ تھا، بالکل بھولا بھالا۔ بچے اور مرد میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بچوں سے کون پردہ کرتا ہے مگر اب تو میں پورا مرد ہوں ۔ میری عمر اس وقت اٹھائیس برس کے قریب ہے اور اٹھائیس برس کے جوان آدمی کے سامنے تو کوئی بوڑھی عورت بھی ننگی کھڑی نہیں ہوتی۔
کانتا نے اسے کیا سمجھا تھا؟ کیا اس میں وہ تمام باتیں نہیں تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہوتی ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کانتا کو یک بیک ننگ دھڑنگ دیکھ کر بہت گھبرا گیا تھا لیکن چور نگاہوں سے کیا اس نے کانتا کی اُن چیزوں کا جائزہ نہیں لیا جو روزانہ استعمال کے باوجود اصلی حالت پر قائم تھیں اور کیا تعجب کے ہوتے ہوئے اس کے دماغ میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ دس روپے میں کانتا بالکل مہنگی نہیں۔ اور دسہرے کے روز بینک کا وہ منشی جو دو روپے کی رعایت نہ ملنے پر واپس چلا گیا تھا، بالکل گدھا تھا ...... اور ......اِن سب کے اوپر، کیا ایک لمحے کے لیے اُس کے تمام پٹھّوں میں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ پیدا نہیں ہوگیا تھا۔ اور اُس نے ایک ایسی انگڑائی نہیں لینا چاہی تھی جس سے اُس کی ہڈّیاں تک چٹخنے لگیں؟ ...... پھر کیا وجہ تھی کہ منگلور کی اُس سانولی چھوکری نے اس کو مرد نہ سمجھا اور صرف ...... صرف خوشیا سمجھ کر، اُس کو اپنا سب کچھ دیکھنے دیا؟
اس نے غصّے میں آکر پان کی گاڑھی پیک تھوک دی جس نے فٹ پاتھ پر کئی بیل بوٹے بنادیے۔ پیک تھوک کر وہ اٹھا اور ٹرام میں بیٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔
گھر میں اُس نے نہا دھو کر، نئی دھوتی پہنی۔ جس بلڈنگ میں رہتا تھا اُس کی ایک دُکان میں سیلون تھا۔ اُس کے اندر جا کر اس نے آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ پھر فوراً ہی کچھ خیال آیا تو کرسی پر بیٹھ گیا اور بڑی سنجیدگی سے اس نے داڑھی مونڈنے کے لیے حجّام سے کہا۔ آج چونکہ وہ دوسری مرتبہ داڑھی مُنڈوا رہا تھا، اس لیے حجّام نے کہا: ’’ارے بھئی خوشیا بھول گئے کیا؟ صبح میں نے ہی تو تمہاری داڑھی مونڈی تھی۔‘‘ اِس پر خوشیا نے، بڑی متانت سے، داڑھی پر اُلٹا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ’’کھونٹی اچھی طرح نہیں نکلی......‘‘
اچھی طرح کھونٹی نکلواکر اور چہرے پر پوڈر ملوا کر، وہ سیلون سے باہر نکلا۔ سامنے ٹیکسیوں کا اڈّا تھا۔ بمبے کے مخصوص انداز میں اُس نے ’’چھی چھی‘‘ [؟شی شی] کرکے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انگلی کے اشارے سے اُسے ٹیکسی لانے کے لیے کہا۔ 
جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو ڈرائیور نے مڑ کر، اُس سے پوچھا: ’’کہاں جانا ہے صاحب؟‘‘
ان چار لفظوں نے اور خاص طور پر’’ صاحب‘‘ نے خوشیا کو بہت مسرور کیا۔ مسکرا کر، اُس نے بڑے دوستانہ لہجے میں جواب دیا: ’’بتائیں گے، پہلے تم ’’آپِرا ہاؤس‘‘ کی طرف چلو......لیمنگٹن روڈ سے ہوتے ہوئے ...... سمجھے!‘‘
ڈرائیور نے میٹر کی لال جھنڈی کا سر نیچے دبا دیا۔ ٹن ٹن ہوئی اور ٹیکسی نے لیمنگٹن روڈ کا رخ کیا۔ لیمنگٹن روڈ کا جب آخری سِرا آگیا تو خوشیا نے ڈرائیور کو ہدایت دی: ’’بائیں ہاتھ موڑ لو۔‘‘
ٹیکسی بائیں ہاتھ مڑ گئی۔ ابھی ڈرائیور نے گیئر بھی نہ بدلا تھا کہ خوشیا نے کہا: ’’یہ سامنے والے کھمبے کے پاس روک لینا ذرا۔‘‘ ڈرائیور نے عین کھمبے کے پاس ٹیکسی کھڑی کردی۔ خوشیا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور ایک پان والے کی دُکان کی طرف بڑھا۔ یہاں سے اس نے ایک پان لیا۔ اور اُس آدمی سے جو کہ دُکان کے پاس کھڑا تھا، چند باتیں کیں اور اُسے اپنے ساتھ ٹیکسی پر بٹھا کر ڈرائیور سے کہا: ’’سیدھے لے چلو!‘‘
دیر تک ٹیکسی چلتی رہی۔ خوشیا نے جدھر اشارہ کیا، ڈرائیور نے اُدھر ہینڈل پھرا دیا۔ مختلف پُررونق بازاروں میں سے ہوتے ہوئے، ٹیکسی ایک نیم روشن گلی میں داخل ہوئی جس میں آمدورفت بہت کم تھی۔ کچھ لوگ سڑک پر بستر جمائے لیٹے تھے۔ اُن میں سے کچھ بڑے اطمینان سے چمپی کرا رہے تھے۔ جب ٹیکسی اُن چمپی کرانے والوں کے آگے نکل گئی اور ایک کاٹھ کے بنگلہ نما مکان کے پاس پہنچی، تو خوشیا نے ڈرائیور کو ٹھہرنے کے لیے کہا: ’’بس اب یہاں رُک جاؤ۔‘‘ ٹیکسی ٹھہر گئی تو خوشیا نے، اُس آدمی سے جس کو وہ پان والے کی دُکان سے اپنے ساتھ لایا تھا، آہستہ سے کہا: ’’جاؤ ...... میں یہاں انتظار کرتا ہوں۔‘‘
وہ آدمی، بے وقوفوں کی طرح خوشیا کی طرف دیکھتا ہوا، ٹیکسی سے باہر نکلا اور سامنے والے چوبی مکان میں داخل ہوگیا۔
خوشیا جم کر ٹیکسی کے گدّے پر بیٹھ گیا۔ ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر، اُس نے جیب سے بیڑی نکال کر سلگائی اور ایک دو کش لے کر باہر سڑک پر پھینک دی۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اِس لیے اسے ایسا لگا کہ ٹیکسی کا انجن بند نہیں ہوا۔ اُس کے سینے میں چونکہ پھڑ پھڑاہٹ سی ہورہی تھی اس لیے وہ سمجھا کہ ڈرائیور نے بل بڑھانے کی غرض سے پٹرول چھوڑ رکھا ہے۔ چنانچہ اُس نے تیزی سے کہا: ’’یوں بے کار انجن چالو رکھ کر تم کتنے پیسے اور بڑھا لو گے؟‘‘
ڈرائیور نے مڑ کر خوشیا کی طرف دیکھا اور کہا : ’’سیٹھ انجن تو بند ہے۔‘‘
جب خوشیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُس کا اضطراب اور بھی بڑھ گیا اور اس نے کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ چبانے شروع کردیے۔ پھر ایکا ایکی، سر پر وہ کشتی نما کالی ٹوپی پہن کر، [اوڑھ کر؟] جو اب تک اُس کی بغل میں دبی ہوئی تھی، اس نے ڈرائیور کا شانہ ہلایا اور کہا: ’’دیکھو، ابھی ایک چھوکری آئے گی۔ جوں ہی اندر داخل ہو تم موٹر چلا دینا ...... سمجھے ...... گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، معاملہ ایسا ویسا نہیں۔‘‘
اتنے میں، سامنے چوبی مکان سے دو آدمی باہر نکلے۔ آگے آگے خوشیا کا دوست تھا۔ اور اُس کے پیچھے کانتا جس نے شوخ رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔
خوشیا، جھٹ سے اُس طرف کو سرک گیا، جدھر اندھیرا تھا۔ خوشیا کے دوست نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور کانتا کو اندر داخل کرکے دروازہ بند کردیا۔ فوراً ہی، کانتا کی حیرت بھری آواز سنائی دی جو چیخ سے ملتی جُلتی تھی: ’’خوشیا تم!‘‘
’’ہاں میں ...... لیکن تمہیں روپے مل گئے ہیں نا؟‘‘ خوشیا کی موٹی آواز بلند ہوئی۔ ’’دیکھو ڈرائیور! ...... جو‘ ہو‘ لے چلو۔‘‘
ڈرائیور نے سَیلف دبایا، انجن پھڑ پھڑانا شروع ہوا وہ بات جو کانتا نے کہی، سنائی نہ دے سکی۔ ٹیکسی، ایک دھچکے کے ساتھ، آگے بڑھی اور خوشیا کے دوست کو سڑک کے بیچ حیرت زدہ چھوڑ کر، نیم روشن گلی میں غائب ہوگئی۔
اس کے بعد، کسی نے خوشیا کو، موٹروں کے پرزوں کی دُکان کے سنگین چبوترے پر، نہیں دیکھا۔

نیا قانون (منٹو)

منگو کوچوان اپنے اڈے میںبہت عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہورہا ہے، استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی: ’’دیکھ لینا گاما چودھری! تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘
اور جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا: ’’ولایت میں اور کہاں؟‘‘
اسپین میں جنگ چھڑی۔ اور جب ہر شخص کو پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے، دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔ اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگا چلاتے ہوئے، اپنی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔
اس روز شام کے قریب جب وہ اڈے میں آیا تو اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حقے کا دور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا:
’’یہ کسی پیر کی بد دعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقو چھریاں چلتی رہتی ہیں اور میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بد دعا دی تھی: ’’جا، تیرے ہندستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے ...... اور دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حقے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی: ’’یہ کانگرسی ہندستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہوگا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہوگی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آجائے گا، یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے۔ لیکن ہندستان سد اغلام رہے گا۔ ہاں میں یہ کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بد دعا بھی دی تھی کہ ہندستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اسے متلی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آجاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو!
جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مکدر رہتی۔ اور وہ شام کو اڈے میں آکر ہل مارکہ سگریٹ پیتے یا حقے کے کش لگاتے ہوئے اس ’’گورے‘‘ کو جی بھر کر سنایا کرتا۔
’’......‘‘ یہ موٹی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا: ’’آگ لینے آئے تھے۔ اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے، یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں......‘‘
اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا، وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا:
’’شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی ...... جیسے کوڑھ ہورہا ہے ...... بالکل مردار ...... ایک دھپے کی مار، اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملعون کی کھوپڑی کے پرزے اڑا دوں لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردود کو مارنا اپنی ہتک ہے......‘‘ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوجاتا اور ناک کو خاکی قمیص کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بڑبڑانے لگ جاتا:
’’قسم ہے بھگوان کی، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آگیا ہوں۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں، رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم، جان میں جان آجائے۔‘‘
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
دو مار واڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے، گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کررہے تھے:
’’سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندستان میں نیا قانون چلے گا ...... کیا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘
’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی۔ مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندستانیوں کو آزادی مل جائے گی۔‘‘
’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا؟‘‘
’’یہ پوچھنے کی بات ہے۔ کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘
ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابل بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اور چابک سے بہت بری طرح پیٹا کرتا تھا مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال، ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کرکے، گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہوئے بڑے پیار سے کہتا: ’’چل بیٹا ...... ذرا ہوا سے باتیں کرکے دکھا دے۔‘‘
مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسی پی کر ایک بڑی ڈکار لی۔ اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے، ایسے ہی بلند آواز میں کہا: ’’ہت تیری ایسی تیسی۔‘‘
شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلاف معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہوگیا۔ آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا ...... بہت بڑی خبر، اور اس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہورہا تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے، اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آرہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لاکر کھڑا کردیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کرکے غور و فکر کررہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے ان مارواڑیوں کو گالی دی ...... ’’غریبوں کی کھٹیا میں گھسے ہوئے کھٹمل ...... نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔‘‘
وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچتی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں ...... سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی بلوں میں ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں گی۔
جب نتھو گنجا، پگڑی بغل میں دبائے، اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا: ’’لاہاتھ ادھر ...... ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہوجائے ...... تیری اس گنجی کھوپری پر بال اگ آئیں۔‘‘
اور یہ کہہ کر منگو نے بڑے مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کردیں۔ دوران گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا: ’’تو دیکھتا رہ، کیا بنتا ہے، یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کرکے رہے گا۔‘‘
استاد منگو موجودہ سویٹ نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے ’’روس والے بادشاہ‘‘ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملادیا اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں، وہ انہیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ‘‘ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کردیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں، یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے، تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا۔
ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کررہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک، دوسرے سے کہہ رہا تھا:
’’جدید آئین کا دوسرا حصہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ ایسی فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریے کے اعتبار سے بھی یہ فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘
ان بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی چونکہ اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے، اس لیے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا: یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو برا سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا: ’’ٹوڈی بچے!‘‘
جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچہ ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کرکے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز وہ گورنمنٹ کالج کے تین طلبہ کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جارہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سنا:
’’نئے آئین نے میری امیدیں بڑھا دی ہیں اگر ...... صاحب اسمبلی کے ممبر ہوگئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی۔‘‘
’’ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی۔ شاید اسی گڑ بڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آجائے ۔‘‘
’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
’’وہ بے کار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان میں کچھ تو کمی ہوگی۔‘‘
اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی اور وہ اس کو ایسی ’’چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔’’ نیا قانون…!‘‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا: ’’یعنی کوئی نئی چیز!‘‘ اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ نیا ساز آجاتا جو اس نے دو برس ہوئے چودھری خدا بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر جب وہ نیا تھا، جگہ جگہ لوہے کی نکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا، وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی ’’نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔
پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کرچکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلاف معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیرمعمولی طور پر مسرور تھی ...... وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھیں، اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں ۳۱؍مارچ کو چودھری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنے میں خریدی تھی۔
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز، کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھرو کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی ...... ان میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں ۔ لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔
’’ابھی بہت سویرا ہے، دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں۔‘‘ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا:’’ ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘
جب اس کا تانگا گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلبہ کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے، خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انارکلی میں تھا۔ بازاروں کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی تھیں۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی۔ منہاری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔ اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی ...... وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
جب استاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری میں گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہوگا۔ مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اسی غیر مغلوب خواہش کے زیر اثر اُس نے کئی بار اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا:
’’تو ہر وقت مردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اٹھ ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہوسکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچہ جن دے گی؟‘‘
استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگادئی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی: ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور تم پیاس سے بے حال ہورہے ہو۔‘‘
کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی تھا اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔
انارکلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا اور دل میں خیال کیا:
’’چلو یہ بھی اچھا ہوا ...... شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتا چل جائے۔‘‘
چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر، بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا اور پچھلی نشست کے گدے پر بیٹھ گیا ...... جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وہ، عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر، پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر، اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد، بڑی دھیمی چال چلنا شروع کردیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے۔
گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سست تھی جس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا اسی طرح استاد منگو کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہورہے تھے۔
وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کررہا تھا اور اس قابل غور بات کو آئین جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کررہا تھا۔ وہ اس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے، سڑک کے اس طرف، دور بجلی کے کھمبے کے پاس، ایک ’’گورا‘‘ کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ سے بلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، استاد منگو کو گوروں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہوگئے۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا: ان کے پیسے چھوڑنا بھی بے وقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کردیے ہیں، ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہییں، چلو چلتے ہیں۔
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگا موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکنے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگا ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا:
’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا۔ ’صاحب بہادر‘ کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ، نیچے کی طرف کھچ گیا اور پاس ہی، گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر، ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آرہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہوگئی۔ گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھا۔ اور اپنے اندر اس نے اس ’’گورے ‘‘ کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب ’’گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا، مڑ کر تانگے کے پائدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں۔
استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اترنے والا تھا، اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرے ذرے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے ...... اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا ہے گویا وہ استاد منگو کے اس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا: ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘
’’وہی ہے۔‘‘ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔
’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہوگیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا، وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور اس خوامخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی، اسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کردیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اڑا دیے ہوتے، مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہوگیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔
استاد منگو نے، پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے، گورے سے کہا: ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا ’’ہیرا منڈی۔‘‘
’’کرایہ پانچ روپے ہوگا۔‘‘ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔
یہ سن کر گورا حیران ہوگیا۔ وہ چلایا: ’’پانچ روپے۔ کیا تم…؟‘‘
’’ہاں، ہاں، پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔’’ کیوں جاتے ہو یا بے کار باتیں بناؤگے؟‘‘
استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہوگیا۔
گورا، پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر، استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کرچکا تھا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا ۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسا کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر کو اٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اتر کر اسے دھڑ ادھڑ پیٹنا شروع کردیا۔
ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس کی چیخ پکار نے استاد منگو کی باہوں کا کام اور بھی تیز کردیا ۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا:
’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ...... پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ...... اب ہمارا راج ہے بچہ!‘‘
لوگ جمع ہوگئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے، گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہورہی تھی، منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے، حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر، وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا:
’’وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ...... اب نیا قانون ہے میاں ...... نیا قانون!‘‘
اور بے چارہ گورا، اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ، بے وقوفوں کے مانند، کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون، نیا قانون‘‘ چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
’’نیا قانون، نیاقانون، کیا بک رہے ہو ...... قانون وہی ہے، پرانا!‘‘
اور اس کو حوالات میں بند کردیا گیا۔

آنندی (غلام عباس)

بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کرا دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔
بلدیہ کے ایک بھاری بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور درد مند سمجھے جاتے تھے، نہایت فصاحت و بلاغت سے تقریر کر رہے تھے۔
 ... اور پھر حضرات! آپ یہ بھی خیال فرمایئے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گاہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔ چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خریدوفروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاحبان! جب یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بنائو سنگھار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پر ان کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا  ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں اور قیمتی زیوروں کی فرمائشیں کرنے لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا پُرمسرت گھر، ان کا راحت کدہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔
... اور صاحبان! پھر آپ یہ بھی تو خیال فرمایئے کہ نہلانا قوم، جو درس گاہوں میں تعلیم پا رہے ہیں اور جن کی آئندہ ترقیوں سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور قیاس چاہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا سہرا ان ہی کے سر بندھے گا، انھیں بھی صبح و شام اسی بازار سے ہو کر آنا جانا پڑتا ہے۔ یہ قحبائیں، جو ہر وقت بارہ ابھرن سولہ سنگار کیے ہر راہرو پر بے حجابانہ نگاہ و مژہ کے تیروسناں برساتی اور اسے دعوت حسن پرستی دیتی ہیں، کیا انھیں دیکھ کر ہمارے بھولے بھالے ناتجربہ کار، جوانی کے نشے میں سرشار، سو دو زیاں سے بے پروا نونہالانِ قوم اپنے جذبات و خیالات اور اپنی اعلیٰ سیرت کو معصیت کے مسموم اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ صاحبان! کیا ان کا حسن زاہد فریب ہمارے نونہالان قوم کو جادۂ مستقیم سے بھٹکا کر ان کے دل میں گناہ کی پراسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کرکے ایک بے کلی، ایک اضطراب، ایک ہیجان برپا کر دیتا ہو گا ... 
اس موقع پر ایک رکن بلدیہ جو کسی زمانہ میں مدرس رہ چکے تھے، اور اعداد و شمار سے خاص شغف رکھتے تھے، بول اٹھے:
’’صاحبان! واضح رہے کہ امتحانوں میں ناکام رہنے والے طلبہ کا تناسب پچھلے پانچ سال کی نسبت ڈیوڑھا ہو گیا ہے‘‘
ایک رکن نے جو چشمہ لگائے تھے اور ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر اعزازی تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’حضرات ہمارے شہر سے روز بروز غیرت، شرافت، مردانگی، نکو کاری و پرہیز گاری اٹھتی جارہی ہے اور اس کے بجائے بے غیرتی، نامردی، بزدلی، بدمعاشی، چوری اور جعل سازی کا دور دورہ ہوتا جارہا ہے۔ منشیات کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، قتل و غارت، خودکشی اور دیوالہ نکلنے کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کا سبب محض ان زنانِ بازاری کا ناپاک وجود ہے کیونکہ ہمارے بھولے بھالے شہری ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو کر ہوش و خرد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی بارگاہ تک رسائی کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریق سے زر حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس سعی و کوشش میں جامۂ انسانیت سے باہر ہوجاتے ہیں اور نہایت قبیح افعال کا ارتکاب کر بیٹھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ جان عزیز ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور یا جیل خانوں میں پڑے سڑتے ہیں۔‘‘
ایک پنشن یافتہ معمر رکن، جو ایک وسیع خاندان کے سرپرست تھے اور دنیا کا سرد و گرم دیکھ چکے تھے اور اب کش مکشِ حیات سے تھک کر باقی ماندہ عمر سستانے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے سائے میں پنپتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے، تقریر کرنے اٹھے۔ ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فریاد کا انداز لیے ہوئے تھا۔ بولے: ’’صاحبان! رات رات پھر ان لوگوں کے طبلے کی تھاپ، ان کی گلے بازیاں، ان کے عشاق کی دھینگا مشتی، گالی گلوچ، شوروغل، ہا ہا ہا ہو ہو ہو سن سن کر آس پاس کے رہنے والے شرفاء کے کان پک گئے ہیں۔ ضیق میں جان آگئی ہے۔ رات کی نیند حرام ہے تو دن کا چین مفقود۔ علاوہ ازیں ان کے قرب سے ہماری بہو بیٹیوں کے اخلاق پر جو برا اثر پڑتا ہے ان کا اندازہ ہر صاحب اولاد خود کر سکتا ہے ...‘‘ 
آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرّا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ کہہ نہ سکے۔ سب اراکین بلدیہ کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان کا قدیمی مکان اس بازار حسن کے عین وسط میں واقع تھا۔
ان کے بعد ایک رکن بلدیہ نے، جو پرانی تہذیب کے علمبردار تھے اور آثار قدیمہ کو اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’حضرات! باہر سے جو سیاح اور ہمارے احباب اس مشہور اور تاریخی شہر کو دیکھنے آتے ہیں جب وہ اس بازار سے گزرتے ہیں اور اس کے متعلق استفسار کرتے ہیں تو یقین کیجیے کہ ہم پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔‘‘
اب صدر بلدیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھنگنا اور ہاتھ پائوں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھا جس کی وجہ سے بردبار آدمی معلوم ہوتے تھے، لہجہ میں حد درجہ متانت تھی۔ بولے: ’’حضرات میں اس امر میں قطعی طور پر آپ سے متفق ہوں کہ اس طبقہ کا وجود ہمارے شہر اور ہمارے تہذیب و تمدن کے لیے باعثِ صد عار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا تدارک کس طرح کیا جائے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا ذلیل پیشہ چھوڑ دیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
ایک صاحب بول اٹھے۔ ’’یہ عورتیں شادی کیوں نہیں کر لیتیں۔‘‘
اس پر ایک طویل فرمائشی قہقہہ پڑا اور ہال کی ماتمی فضا میں یکبارگی شگفتگی کے آثار پیدا ہوگئے۔ جب اجلاس میں خاموشی ہوئی تو صاحبِ صدر بولے۔ ’’حضرات یہ تجویز بارہا ان لوگوں کے سامنے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کا ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس کے خیال سے انھیں اپنے گھروں میں نہ گھسنے دیں گے اور مفلس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی دولت کے لیے ان سے شادی کرنے پر آمادہ ہوں گے، یہ عورتیں خود منہ نہیں لگائیں گی۔‘‘
اس پر ایک صاحب بولے: ’’بلدیہ کو ان کے نجی معاملوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بلدیہ کے سامنے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ لوگ چاہے جہنم میں جائیں مگر اس شہر کو خالی کر دیں۔‘‘
صدر نے کہا: ’’صاحبان یہ بھی آسان کام نہیں، ان کی تعداد دس بیس نہیں، سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مکانات ہیں۔‘‘
یہ مسئلہ کوئی مہینہ بھر تک بلدیہ کے زیر بحث رہا اور بالآخر تمام اراکین کی اتفاق رائے سے یہ امر قرار پایا کہ زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کو خرید لینا چاہیے اور انھیں رہنے کے لیے شہر سے کافی دور کوئی الگ تھلگ علاقہ دے دینا چاہیے۔ ان عورتوں نے بلدیہ کے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعض نے نافرمانی کرکے بھاری جرمانے اور قیدیں تک بھگتیں مگر بلدیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور وہ ناچار صبر کرکے رہ گئیں۔
اس کے بعد ایک عرصہ تک ان زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کی فہرستیں اور نقشے تیار ہوتے اور مکانوں کے گاہک پیدا کیے جاتے رہے۔ بیشتر مکانوں کو بذریعہ نیلام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک شہر میں اپنے پرانے ہی مکانوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اس عرصے میں وہ نئے علاقہ میں مکان وغیرہ بنوا سکیں۔
ان عورتوں کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا۔ پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی اور اس کے آگے کوس بھر کا کچا راستہ تھا۔ کسی زمانہ میں وہاں کوئی بستی ہو گی مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا جن میں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دہاڑے اُلّو بولتا تھا۔ اس علاقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گائوں تھے مگر کسی کا فاصلہ بھی یہاں سے دو ڈھائی میل سے کم نہ تھا۔ ان گائووں کے بسنے والے کسان دن کے وقت کھیتی باڑی کرتے یا یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے تو نکل آتے ورنہ عام طور پر اس شہر خموشاں میں آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی، بعض اوقات روز روشن ہی میں گیدڑ اس علاقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔ 
پانسو سے کچھ اوپر بیسواؤں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دل بستگی یا کسی اور وجہ سے شہر کے قریب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولت مند چاہنے والوں کی مستقل مالی سرپرستی کے بھروسے بادل ناخواستہ اس علاقے میں رہنے پر آمادہ ہو گئی تھیں، ورنہ باقی عورتوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یا تو اسی شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں گی یا بظاہر پارسائی کا جامہ پہن کر شہر کے شریف محلوں کے کونوں کھدروں میں جا چھپیں گی یا پھر اس شہر ہی کو چھوڑ، کہیں اور نکل جائیں گی۔
یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے ان کے دام انھیں اچھے وصول ہو گئے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ ان کے ملنے والے دل و جان سے ان کی مالی امداد کرنے کے لے تیار تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے عالی شان مکان بنوانے کی ٹھان لی۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ، جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی، منتخب کی گئی۔ زمین کے قطعے صاف کرائے اور چابکدست نقشہ نویسوں سے مکانوں کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔
دن بھر اینٹ، مٹی چونا، شہتیر، گارٹر اور دوسرا عمارتی سامان، لاریوں، چھکڑوں، خچروں، گدھوں اور انسانوں پر لد کر اس بستی میں آتا اور منشی حساب کتاب کی کاپیاں بغلوں میں دبائے انھیں گنواتے اور کاپیوں میں درج کرتے۔ میر صاحب معماروں کو کام کے متعلق ہدایات دیتے، معمار مزدوروں کو ڈانٹتے ڈپٹتے، مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے، مزدورنیوں کو چلّا چلّا کو پکارتے اور اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے بلاتے۔ غرض سارا دن ایک شور، ایک ہنگامہ رہتا۔ سارا دن آس پاس کے گائوں کے دیہاتی اپنے کھیتوں میں اور دیہاتنیں اپنے گھروں میں، ہوا کے جھونکوں کے ساتھ دور سے آتی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی آوازیں سنتی رہتیں۔
اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجد کے آثار تھے اور اس کے پاس ہی ایک کنواں تھا جو بند پڑا تھا۔ راج مزدوروں نے کچھ تو پانی حاصل کرنے اور بیٹھ کر سستانے کی غرض سے اور کچھ ثواب کمانے اور اپنے نمازی بھائیوں کی عبادت گزاری کے خیال سے سب سے پہلے اس کی مرمت کی۔ چونکہ یہ فائدہ بخش اور ثواب کا کام تھا، اس لیے کسی نے کچھ اعتراض نہ کیا۔ چنانچہ دو تین روز میں مسجد تیار ہو گئی۔
دن کو بارہ بجے جیسے ہی کھانا کھانے کی چھٹی ہوتی، دو ڈھائی سو راج، مزدور، میر عمارت، منشی اور ان بیسواؤں کے رشتہ دار یا کارندے جو تعمیر کی نگرانی پر مامور تھے، اس مسجد کے آس پاس جمع ہوجاتے اور اچھا خاصا میلہ سا لگ جاتا۔
ایک دن ایک دیہاتی بڑھیا جو پاس کے کسی گائوں میں رہتی تھی، اس بستی کی خبر سن کر آگئی، اس کے ساتھ ایک خورد سال لڑکا تھا۔ دونوں نے مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے گھٹیا سگرٹ بیڑی، چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھائیوں کا خوانچہ لگا دیا، بڑھیا کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھا کسان کہیں سے ایک مٹکا اٹھا لایا اور کنویں کے پاس اینٹوں کا ایک چھوٹا سا چبوترا بنا پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گلاس بیچنے لگا۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی، وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کر لے آیا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس بیٹھ کر، لے لو خربوزے شہد سے میٹھے خربوزے، کی صدا لگانے لگا۔ ایک شخص نے کیا کیا، گھر سے سری پائے پکا، دیگچی میں رکھ، خوانچہ میں لگا، تھوڑی سی روٹیاں، مٹی کے دو تین پیالے اور ٹین کا ایک گلاس لے، آ موجود ہوا اور اس بستی کے کارکنوں کو جنگل میں گھر کی ہنڈیا کا مزا چکھانے لگا۔ 
ظہر اور عصر کے وقت میر عمارت، معمار اور دوسرے لوگ مزدوروں سے کنویں سے پانی نکلوا نکلوا کر وضو کرتے نظر آتے۔ ایک شخص مسجد میں جا کر اذان دیتا، پھر ایک کو امام بنایا جاتا اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔ کسی گائوں کے ملّا کے کان میں جو یہ بھنک پڑی کہ فلاں مسجد میں امام کی ضرورت ہے، وہ دوسرے ہی دن علیٰ الصباح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف، پنجسورہ، رحل اور مسئلے مسائل کے چند چھوٹے چھوٹے رسالے رکھ آ موجود ہوا اور اس مسجد کی امامت باقاعدہ طور پر اسے سونپ دی گئی۔
ہر روز تیسرے پہر گائوں کا ایک کبابی سر پر اپنے سامان کا ٹوکرا اٹھائے آجاتا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس زمین پر چولہا بنا کباب، کلیجی، دل گردے سیخوں پر چڑھا بستی والوں کے ہاتھ بیچتا۔ ایک بھٹیاری نے جو یہ حال دیکھا تو اپنے میاں کو ساتھ لے مسجد کے سامنے میدان میں دھوپ سے بچنے کے لیے پھونس کا ایک چھپرّ ڈال، تنور گرم کرنے لگی۔ کبھی کبھی ایک نوجوان دیہاتی نائی پھٹی پرانی کسبت گلے میں ڈالے جوتی کی ٹھوکروں سے راستے کے روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر گشت کرتا دیکھنے میں آجاتا۔
ان بیسوائوں کے مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان کے رشتہ دار یا کارندے تو کرتے ہی تھے، کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے عشّاق کے ہمراہ خود بھی اپنے اپنے مکانوں کو بنتا دیکھنے آ جاتیں اور غروب آفتاب سے پہلے یہاں سے نہ جاتیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں سے آ جاتیں اور جب تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صدائوں سے برابر شور مچاتی رہتیں اور انھیں بات نہ کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے لفنگے اوباش، بے کار مباش کچھ کیا کرو، کے مصداق شہر سے پیدل چل کر، بیسوائوں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آ جاتے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہوجاتی۔ وہ ان سے ذرا ہٹ کر ان کے گردا گرد چکر لگاتے رہتے، فقرے کستے، بے تکے قہقہے لگاتے، عجیب عجیب شکلیں بنانے اور مجنونانہ حرکتیں کرتے۔ اس روز کبابی کی خوب بکری ہوتی۔
اس علاقے میں جہاں تھوڑے ہی دن پہلے ہو کا عام تھا، اب ہر طرف گہماگہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں اس علاقے کی ویرانی سے ان بیسوائوں کو یہاں آکر رہنے کے خیال سے جو وحشت ہوتی تھی، وہ بڑی حد تک جاتی رہی تھی اور اب وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مکانوں کی آرائش اور اپنے مرغوب رنگوں کے متعلق معماروں کو تاکیدیں کر جاتی تھیں۔
بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہو چکے تو ایک دن صبح کو بستی کے راج، مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس سے دھواں اٹھ رہا ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقیر لنگوٹ باندھے، چار ابرو کا صفایا کرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہا اور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینک رہا ہے۔ دوپہر کو وہ ایک ایک گھڑا لے کر کنویں پر آیا اور پانی بھر بھر کر مزار پر جانے اور اسے دھونے لگا ایک دفعہ جو آیا تو کنویں پر دو تین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزانگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا: ’’جانتے ہو وہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا! میرے باپ دادا ان کے مجاور تھے۔‘‘ اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک شاہ کی کچھ جلالی کراماتیں بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔
شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دو دیے اور سرسوں کا تیل لے آیا، اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائینتی چراغ روشن کر دیے۔ رات کو پچھلے پہر کبھی کبھی اس مزار سے اللہ ہُو کا مست نعرہ سنائی دے جاتا۔
چھ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ یہ چودہ مکان بن کر تیار ہو گئے۔ یہ سب کے سب دو منزلہ اور قریب قریب ایک ہی وضع کیے تھے۔ سات ایک طرف اور سات دوسری طرف۔ بیچ میں چوڑی چکلی سڑک تھی۔ ہر ایک مکان کے نیچے چار چار دکانیں تھیں۔ مکان کی بالائی منزل میں سڑک کے رخ وسیع برآمدہ تھا۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لیے کشتی نما شہ نشین بنائی گئی تھی جس کے دونوں سروں پر یا تو سنگ مر مر کے مور رقص کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے اور یا جل پریوں کے مجسمے تراشے گئے تھے جن کا آدھا دھڑ مچھلی کا اور آدھا انسان کا تھا۔ برآمدے کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لیے تھا، اس میں سنگ مر مر کے نازک نازک ستون بنائے گئے تھے۔ دیواروں پر خوش نما پچی کاری کی گئی تھی۔ فرش سبز چمکدار پتھر کا بنایا گیا تھا۔ جب سنگ مر مر کے ستونوں کے عکس اس فرش زمرّدیں پر پڑتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا سفید برّاق پروں والے راج ہنسوں نے اپنی لمبی لمبی گردنیں جھیل میں ڈبو دی ہیں۔
بدھ کا شبھ دن اس بستی میں آنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس روز اس بستی کی سب بیسوائوں نے مل کر بہت بھاری نیاز دلوائی۔ بستی کے کھلے میدان میں زمین صاف کرا کر شامیانے نصب کر دیے گئے۔ دیگیں کھڑکنے کی آواز اور گوشت کی گھی کی خوشبو بیس بیس کوس سے فقیروں اور کتوں کو کھینچ لائی۔ دوپہر ہوتے ہوتے پیر کڑک شاہ کے مزار کے پاس، جہاں لنگر تقسیم کیا جانا تھا، اس قدر فقیر جمع ہو گئے کہ عید کے روز کسی بڑے شہر کی جامع مسجد کے پاس بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ پیر کڑک شاہ کے مزار کو خوب صاف کروایا اور دھلوایا گیا اور اس پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی، اور اس مست فقیر کو نیا جوڑا سلوا کر پہنایا گیا جسے اس نے پہنتے ہی پھاڑ ڈالا۔
شام کو شامیانے کے نیچے دودھ سی اُجلی چاندنی کا فرش کر دیا گیا۔ گائو تکیے لگا دیے گئے پاندان، پیک دان، پیچوان اور گلاب پاش رکھ دیے گئے اور راگ رنگ کی محفل سجائی گئی۔ دور دور سے بہت سی بیسوائوں کو بلوایا گیا جو ان کی سہیلیاں یا برادری کی تھیں، ان کے ساتھ ان کے بہت سے ملنے والے بھی آئے جن کے لیے ایک الگ شامیانے میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا اور ان کے سامنے کے رخ چقیں ڈال دی گئیں۔ بے شمار گیسوں کی روشنی سے یہ جگہ بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ ان بیسوائوں کے توندل سیاہ فام سازندے زربفت اور کمخواب کی شیروانیاں پہنے، عطر میں بسے ہوئے بھوئے کانوں میں رکھے اِدھر اُدھر مونچھوں کو تائو دیتے پھرتے اور زرق برس لباسوں اور تتلی کے پر سے بھی باریک ساریوں میں ملبوس، غازوں اور خوشبوئوں میں بسی ہوئی نازنینیں اٹکھیلیوں سے چلتیں۔ رات بھر رقص وسرود کا ہنگامہ برپا رہا اور جنگل میں منگل ہو گیا۔
دو تین دن کے بعد جب اس جشن کی تھکاوٹ اتر گئی، تو یہ بیسوائیں سازوسامان کی فراہمی اور مکانوں کی آرائش میں مصروف ہوئیں۔ جھاڑ فانوس، ظروف بلّوری، قد آدم آئینے، نواڑی پلنگ، تصویریں اور قطعات نہری چوکھٹوں میں جڑے ہوئے لائے گئے اور قرینے سے کمروں میں لگائے گئے اور کوئی آٹھ روز میں جاکر یہ مکان کیل کانٹے سے لیس ہوئے۔ یہ عورتیں دن کا بیشتر حصہ تو استادوں سے رقص و سرود کی تعلیم لینے، غزلیں یاد کرنے، دھنیں بٹھانے، سبق پڑھنے، تختی لکھنے، سینے پرونے، کاڑھنے، گراموفون سننے، استادوں سے تاش اور کیرم کھیلنے، ضلع جگت، نوک جھونک سے جی بہلانے یا سونے میں گزار دیتیں اور تیسرے پہر غسل خانوں میں نہانے جائیں جہاں ان کے ملازموں نے دستی پمپوں سے پانی نکال کر ٹب بھر رکھے ہوتے۔ اس کے بعد وہ بنائو سنگار میں مصروف ہو جاتیں۔
جیسے ہی رات کا اندھیرا پھیلتا، یہ مکان گیسوں کی روشنی میں جگمگا اٹھتے جو جا بجا سنگ مر مر کے آدھے کھلے ہوئے کنولوں میں نہایت صفائی سے چھپائے گئے تھے اور ان مکانوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے کواڑوں کے شیشے جو پھول پتیوں کی وضع کے کاٹ کر جڑے گئے تھے، ان کی قوس قزح کے رنگوں کی سی روشنیاں دور سے جھلمل جھلمل کرتی ہوئی نہایت بھلی معلوم ہوتی۔ یہ بیسوائیں بنائو سنگار کیے برآمدوں میں ٹہلتیں، آس پاس والیوں سے باتیں کرتیں، ہنستیں کھلکھلاتیں۔ جب کھڑے کھڑے تھک جاتیں تو اندر کمرے میں چاندنی کے فرش پر گائو تکیوں سے لگ کر بیٹھ جاتیں۔ ان کے سازندے ساز ملاتے رہتے اور یہ چھالیا کترتی رہتیں۔ جب رات بھیگ جاتی تو ان کے ملنے والے ٹوکروں میں شراب کی بوتلیں اور پھل پھلاری لیے اپنے دوستوں کے ساتھ موٹروں یا تانگوں میں بیٹھ کر آتے۔ اس بستی میں ان کے قدم رکھتے ہی ایک خاص گہما گہمی اور چہل پہل ہونے لگتی۔ نغمہ و سرود، ساز کے سُر، رقص کرتی ہوئی نازنینوں کے گھنگرئوں کی آواز، قلقلِ مینا میں مل کر ایک عجیب سرور کی سی کیفیت پیدا کر دیتی۔ عیش و مستی کے ان ہنگاموں میں معلوم بھی نہ ہوتا اور رات بیت جاتی۔
ان بیسوائوں کو اس بستی میں آئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ دکانوں کے کرایہ دار پیدا ہو گئے جن کا کرایہ اس بستی کو آباد کرنے کے خیال سے بہت ہی کم رکھا گیا تھا۔ سب سے پہلے جو دکاندار آیا وہ وہی بڑھیا تھی جس نے سب سے پہلے مسجد کے سامنے درخت کے نیچے خوانچہ لگایا تھا۔ دکان کو پُر کرنے کے لیے بڑھیا اور اس کا لڑکا سگریٹوں کے بہت سے خالی ڈبے اٹھا لائے اور اسے منبر کے طاقوں میں سجا کر رکھ دیا۔ بوتلوں میں رنگ دار پانی بھر دیا گیا تاکہ معلوم ہو شربت کی بوتلیں ہیں۔
بڑھیا نے اپنی بساط کے مطابق کاغذی پھولوں اور سگرٹ کی خالی ڈبیوں سے بنائی ہوئی بیلوں سے دکان کی کچھ آرائش بھی کی۔ بعض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں بھی پرانے فلمی رسالوں سے نکال کر لئی سے دیواروں پر چپکا دیں۔ دکان کا اصل مال دو تین قسم کے سگرٹ کے تین تین چار چار پیکٹوں، بیڑی کے آٹھ دس بنڈلوں، دیا سلائی کی نصف درجن ڈبیوں، پانوں کی ایک ڈھولی، پینے کے تمباکو کی تین چار ٹکیوں اور موم بتی کے نصف بنڈل سے زیادہ نہ تھا۔
دوسری دکان میں ایک بنیا، تیسری میں حلوائی اور شیر فروش، چوتھی میں قصائی، پانچویں میں کبابی اور چھٹی میں ایک کنجڑا آ بسے۔ کنجڑا آس پاس کے دیہات سے سستے داموں چار پانچ قسم کی سبزیاں لے آتا اور یہاں خاصے منافع پر بیچ دیتا۔ ایک آدھ ٹوکرا پھلوں کا بھی رکھ لیتا۔ چونکہ دکان خاصی کھلی تھی، ایک پھول والا اس کا ساجھی بن گیا۔ وہ دن بھر پھولوں کے ہار، گجرے اور طرح طرح کے گہنے بناتا رہتا اور شام کو انھیں چنگیر میں ڈال ایک ایک مکان پر لے جاتا اور نہ صرف پھول ہی بیچ آتا بلکہ ہر جگہ ایک ایک دو دو گھڑی بیٹھ کے سازندوں سے گپ شپ بھی ہانک لیتا اور حقے کے دم بھی لگا آتا۔ جس دن تماش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی ہی میں کوٹھے پر چڑھ آتی اور گانا بجانا شروع ہوجاتا تو وہ سازندوں کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود گھنٹوں اٹھنے کا نام نہ لیتا، مزے سے گانے پر سر دھنتا اور بیوقوفوں کی طرح ایک ایک کی صورت تکتا رہتا۔ جس دن رات زیادہ گزر جاتی اور کوئی ہار بچ رہتا تو اسے اپنے گلے میں ڈال لیتا اور بستی کے باہر گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتا پھرتا۔
ایک دکان میں ایک بیسوا کا باپ اور بھائی، جو درزیوں کا کام جانتے تھے، سینے کی ایک مشین رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ایک حجام بھی آ گیا اور اپنے ساتھ ایک رنگریز کو بھی لیتا آیا۔ اس کی دکان کے باہر الگنی پر لٹکے ہوئے طرح طرح کے رنگوں کے لہریا دوپٹے ہوا میں لہراتے ہوئے آنکھوں کو بہت بھلے معلوم ہونے لگے۔
چند ہی روز گزرتے تھے کہ ایک ٹٹ پونجیے بساطی نے، جس کی دکان شہر میں چلتی نہ تھی بلکہ اسے دکان کا کرایہ نکالنا بھی مشکل ہوجاتا تھا، شہر کو خیر باد کہہ کر اس بستی کا رخ کیا۔ یہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے طرح طرح کے لونڈر، قسم قسم کے پائوڈر، صابن، کنگھیاں، بٹن، سوئی، دھاگا، لیس، فیتے، خوشبو دار تیل، رومال، منجن وغیرہ کی خوب بکری ہونے لگی۔
اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربیّانہ سلوک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی ٹٹ پونجیا دکاندار، کوئی بزاز، کوئی پنساری، کوئی نیچہ بند، کوئی نانبائی مندے کی وجہ سے یا شہر کے بڑھے ہوئے کرائے سے گھبرا کر اس بستی میں آ پناہ لیتا۔
ایک بڑے میاں عطار جو حکمت میں بھی کس قدر دخل رکھتے تھے، ان کا جی شہر کی گنجان آبادی اور حکیموں اور دواخانوں کی افراط سے جو گھبرایا تو وہ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے، شہر سے اٹھ آئے اور اس بستی میں ایک دکان کرایہ پر لے لی۔ سارا دن بڑے میاں اور ان کے شاگرد دوائوں کے ڈبوں، شربت کی بوتلوں اور مربّے، چٹنی اچار کے بویاموں کو الماریوں اور طاقوں میں اپنے اپنے ٹھکانے پر رکھتے رہے۔ ایک طاق میں طب اکبر، قرابا دین قادری اور دوسری طبی کتابیں جما کر رکھ دیں۔ کواڑوں کی اندرونی جانب اور دیواروں میں جو جگہ خالی بچی وہاں انھوں نے اپنے خاص الخاص مجربات کے اشتہار سیاہ روشنائی سے جلی لکھ کر اور دفتیوں پر چپکا کر آویزاں کر دیے۔ ہر روز صبح کو بیسوائوں کے ملازم گلاس لے لے آ موجود ہوتے اور شربت بزوری، شربت بنفشہ، شربت انار اور ایسے ہی اور نزہت بخش، روح افزا شربت و عرق، خمیرہ گائو زبان اور تقویت پہنچانے والے مربّے مع ورق ہائے نقرہ لے جاتے۔
جو دکانیں بچ رہیں، ان میں بیسوائوں کے بھائی بندوں اور سازندوں نے اپنی چارپائیاں ڈال دیں۔ دن بھر یہ لوگ ان دکانوں میں تاش، چوسر اور شطرنج کھیلتے، بدن پر تیل ملواتے، سبزی گھوٹتے، بٹیروں کی پالیاں کراتے، تیتروں سے سبحان تیری قدرت کی رٹ لگواتے اور گھڑا بجا بجا کر گاتے۔
ایک بیسوا کے سازندے نے ایک دکان خالی کر اپنے بھائی کو، جو ساز بنانا جانتا تھا، اس میں لا بٹھایا۔ دکان کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کیلیں ٹھونک کر ٹوٹی پھوٹی مرمت طلب سارنگیاں، ستار، طنبورے، دلربا وغیرہ ٹانگ دیے گئے۔ یہ شخص ستار بجانے میں بھی کمال رکھتا تھا۔ شام کو وہ اپنی دکان میں ستار بجاتا، جس کی میٹھی آواز سن کر آس پاس کے دکاندار اپنی دکانوں سے اٹھ اٹھ کر آ جاتے اور دیر تک بت بنے ستار سنتے رہتے۔ اس ستار نواز کا ایک شاگرد تھا جو ریلوے کے دفتر میں کلرک تھا۔ اسے ستار سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جیسے ہی دفتر سے چھٹی ہوتی سیدھا سائیکل اڑاتا ہوا اس بستی کا رخ کرتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دکان ہی میں بیٹھ کر مشق کیا کرتا۔ غرض اس ستار نواز کے دم سے بستی میں خاصی رونق رہنے لگی۔
مسجد کے ملّا جی، جب تک تو یہ بستی زیر تعمیر رہی، رات کو دیہات میں اپنے گھر چلے جاتے رہے۔ مگر اب جب کہ انھیں دونوں وقت مرغن کھانا بافراط پہنچنے لگا تو وہ رات کو بھی یہیں رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ بعض بیسوائوں کے گھروں سے بچے بھی مسجد میں آنے لگے جس سے ملّا جی کو روپے پیسے کی آمدنی بھی ہونے لگی۔
ایک شہر شہر گھومنے والی گھٹیا درجہ کی تھیٹریکل کمپنی کو جب زمین کے چڑھے ہوئے کرائے اور اپنی بے مائگی کے باعث شہر میں کہیں جگہ نہ ملی تو اس نے اس بستی کا رخ کیا اور ان بیسوائوں کے مکانوں سے کچھ فاصلہ پر میدان میں تنبو کھڑے کرکے ڈیرے ڈال دیے۔ اس کے ایکٹر اداکاری کے فن سے محض نابلد تھے۔ ان کے ڈریس پھٹے پرانے تھے جن کے بہت سے ستارے جھڑ چکے تھے اور یہ لوگ تماشے بھی بہت دقیانوسی دکھاتے تھے مگر اس کے باوجود یہ کمپنی چل نکلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹکٹ کے دام بہت کم تھے۔ شہر کے مزدوری پیشہ لوگ، کارخانوں میں کام کرنے والے اور غریب غربا جو دن بھر کی کڑی محنت و مشقت کی کسر شوروغل، خر مستیوں اور ادنیٰ عیاشیوں سے نکالنا چاہتے تھے، پانچ پانچ چھ چھ کی ٹولیاں بنا کر، گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے، ہنستے بولتے، بانسریاں اور الغوزے بجاتے، راہ چلتوں پر آوازے کستے، گالی گلوچ کرتے، شہر سے پیدل چل کر تھیٹر دیکھنے آتے اور لگے ہاتھوں بازار حسن کی سیر بھی کر جاتے۔ جب تک ناٹک شروع نہ ہوتا تھیٹر کا ایک مسخرہ تنبو کے باہر ایک اسٹول پر کھڑا کبھی کولہا ہلاتا، کبھی منہ پھلاتا، کبھی آنکھیں مٹکاتا عجیب عجیب حیا سوز حرکتیں کرتا جنھیں دیکھ کر یہ لوگ زور زور سے قہقہے لگاتے اور گالیوں کی صورت میں داد دیتے۔
رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی اس بستی میں آنے شروع ہوئے۔ چنانچہ شہر کے بڑے بڑے چوکوں میں تانگے والے صدائیں لگانے لگے۔ ’’آئو کوئی نئی بستی کو۔‘‘ شہر سے پانچ کوس تک جو پکی سڑک جاتی تھی اس پر پہنچ کر تانگے والے سواریوں سے انعام حاصل کرنے کے لالچ میں یا ان کی فرمائش پر تانگوں کی دوڑیں کراتے، منہ سے ہارن بجاتے، اور جب کوئی تانگہ آگے نکل جاتا تو اس کی سواریاں نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔ اس دوڑ میں غریب گھوڑوں کا برا حال ہو جاتا اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے بجائے خوشبو کے پسینے کی بدبو آنے لگتی۔
رکشا والے تانگے والوں سے کیوں پیچھے رہتے۔ وہ ان سے کم دام پر سواریاں بٹھا، طرارے بھرتے اور گھنگرو بجاتے اس بستی کو جانے لگے۔ علاوہ ازیں ہر ہفتے کی شام کو اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ ایک ایک سائیکل پر دو دو لدے، جوق جوق اس پر اسرار بازار کی سیر دیکھنے آتے جس سے ان کے خیال کے مطابق ان کے بڑوں نے خواہ مخواہ انھیں محروم کر دیا تھا۔
رفتہ رفتہ اس بستی کی شہرت چاروں طرف پھیلنے اور مکانوں اور دکانوں کی مانگ ہونے لگی۔ وہ بیسوائیں جو پہلے اس بستی میں آنے پر تیار نہ ہوتیں تھیں اب اس کی یہ دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگیں۔ کئی عورتوں نے تو جھٹ زمینیں خرید، ان بیسوائوں کے ساتھ اسی وضع قطع کے مکان بنوانے شروع کر دیے۔ علاوہ ازیں شہر کے بعض مہاجنوں نے بھی اس بستی کے آس پاس سستے داموں زمینیں خرید خرید کر کرایہ پر اٹھانے کے لیے چھوٹے چھوٹے کئی مکان بنوا ڈالے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فاحشہ عورتیں جو ہوٹلوں اور شریف محلّوں میں روپوش تھیں، مور و ملخ کی طرح اپنے نہاں خانوں سے باہر نکل آئیں اور ان مکانوں میں آباد ہو گئیں۔ بعض چھوٹے چھوٹے مکانوں میں اس بستی کے وہ دکاندار آ بسے جو عیال دار تھے اور رات کو دکانوں میں سو نہ سکتے تھے۔
اس بستی میں آبادی تو خاصی ہو گئی تھی مگر ابھی تک بجلی کی روشنی کا انتظام نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ان بیسوائوں اور بستی کے تمام رہنے والوں کی طرف سے سرکار کے پاس بجلی کے لیے درخواست بھیجی گئی جو تھوڑے دنوں بعد منظور کرلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ڈاک خانہ بھی کھول دیا گیا۔ ایک بڑے میاں ڈاک خانے کے باہر ایک صندوقچے میں لفافے، کارڈ، قلم، دوات رکھ بستی کے لوگوں کے خط پتر لکھنے لگے۔
ایک دفعہ بستی میں شرابیوں کی دو ٹولیوں میں فساد ہو گیا جس میں سوڈا واٹر کی بوتلوں، چاقوئوں اور اینٹوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور کئی لوگ سخت مجروح ہوئے۔ اس پر سرکار کو خیال آیا کہ اس بستی میں ایک تھانہ بھی کھول دینا چاہیے۔
تھیٹریکل کمپنی دو مہینے تک رہی اور اپنی بساط کے مطابق خاصا کمالے گئی۔ اس پر شہر کے ایک سینما کے مالک نے سوچا کہ کیوں نہ اس بستی میں بھی ایک سینما کھول دیا جائے۔ یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ اس نے جھٹ ایک موقع کی جگہ چن کر خرید لی اور جلد جلد تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ چند ہی مہینوں میں سینما ہال تیار ہو گیا۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا باغیچہ بھی لگوایا گیا تاکہ تماشائی اگر بائیسکوپ شروع ہونے سے پہلے آجائیں تو آرام سے باغیچہ میں بیٹھ سکیں۔ ان کے ساتھ بستی کے لوگ یونہی سستانے یا سیر دیکھنے کی غرض سے آ آکر بیٹھنے لگے۔ یہ باغیچہ خاصی سیر گاہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ سقّے کٹورا بجاتے اس باغیچے میں آنے اور پیاسوں کی پیاس بجھانے لگے۔ سر کی تیل مالش والے نہایت گھٹیا قسم کے تیز خوشبو والے تیل کی شیشیاں واسکٹ کی جیبوں میں ٹھونسے، کاندھوں پر میلا کچیلا تولیا ڈالے، دل پسند دل بہار کی مالش کی صدا لگاتے دردِ سر کے مریضوں کو اپنی خدمات پیش کرنے لگے۔
سینما کے مالک نے سینما ہال کی عمارت کی بیرونی جانب دو ایک مکان اور کئی دکانیں بھی بنوائیں۔ مکان میں تو ہوٹل کھل گیا جس میں رات کو قیام کرنے کے لیے کمرے بھی مل سکتے تھے اور دکانوں میں ایک سوڈا واٹر کی فیکٹری والا، ایک فوٹو گرافر، ایک سائیکل کی مرمت والا، ایک لانڈری والا، دو پنواڑی، ایک بوٹ شاپ والا اور ایک ڈاکٹر مع اپنے دواخانہ کے آرہے۔ ہوتے ہوتے پاس ہی ایک دکان میں کلال خانہ کھلنے کی اجازت مل گئی۔ فوٹو گرافر کی دکان کے باہر ایک کونے میں ایک گھڑی ساز نے آڈیرا جمایا اور ہر وقت محدّب شیشہ آنکھ پر چڑھائے گھڑیوں کے کل پرزوں میں غلطاں و بیچاں رہنے لگا۔
اس کے کچھ ہی دن بعد گلی میں نل، روشنی اور صفائی کے باقاعدہ انتظام کی طرف توجہ کی جانے لگی۔ سرکاری کارندے سرخ جھنڈیاں، جریبیں اور اونچ نیچ دیکھنے والے آلے لے کر آ پہنچے اور ناپ ناپ کر سڑکوں اور گلی کوچوں کی داغ بیل ڈالنے لگے اور بستی کی کچی سڑکوں پر سڑک کوٹنے والا انجن چلنے لگا ... 
اس واقعہ کو بیس برس گزر چکے ہیں۔ یہ بستی اب ایک بھرا پُرا شہر بن گئی ہے جس کا اپنا ریلوے اسٹیشن بھی ہے اور ٹائون ہال بھی، کچہری بھی اور جیل خانہ بھی۔ آبادی ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ شہر میں ایک کالج، دو ہائی اسکول، ایک لڑکوں کے لیے، ایک لڑکیوں کے لیے اور آٹھ پرائمری اسکول ہیں جن میں میونسپلٹی کی طرف سے مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ چھ سینما ہیں اور چار بنک جن میں سے دو دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کی شاخیں ہیں۔
شہر سے دو روزانہ، تین ہفتہ وار اور دس ماہانہ رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ان میں چار ادبی و معاشرتی و مذہبی، ایک صنعتی، ایک طبّی، ایک زنانہ اور ایک بچوں کا رسالہ ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں بیس مسجدیں، پندرہ مندر اور دھرم شالے، چھ یتیم خانے، پانچ اناتھ آشرم اور تین بڑے سرکاری اسپتال ہیں جن میں ایک صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔
شروع شروع میں کئی سال تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کی مناسبت سے ’’حُسن آباد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا، مگر بعد میں اسے نامناسب سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمیم کردی گئی یعنی بجائے ’’حُسن باد‘‘ کے ’’حَسن آباد‘‘ کہلانے لگا مگر یہ نام چل نہ سکا، کیونکہ عوام حُسن اور حَسن میں کچھ امتیاز نہ کرتے۔ آخر بڑی بڑی بوسیدہ کتابوں کی ورق گردانی اور پرانے نوشتوں کی چھان بین کے بعد اس کا اصلی نام دریافت کیا گیا جس سے یہ بستی آج سے سینکڑوں برس قبل اُجڑنے سے پہلے موسوم تھی اور وہ نام ہے ’’آنندی!‘‘
یوں تو سارا شہر بھرا پُرا، صاف ستھرا اور خوشنما ہے مگر سب سے خوبصورت، سب سے بارونق اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز وہی بازار ہے جس میں زنان بازاری رہتی ہیں۔
آنندی کے بلدیہ کا اجلاس زوروں پر ہے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہیں۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔
ایک فصیح البیان مقرر تقریر کر رہے ہیں۔ ’’معلوم نہیں وہ کیا مصلحت تھی جس کے زیر اثر اس ناپاک طبقے کو ہمارے اس قدیمی اور تاریخی شہر کے عین بیچوں بیچ رہنے کی اجازت دے دی گئی ...‘‘
اس مرتبہ ان عورتوں کے رہنے کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے باہر کوس دور تھا۔
۱۹۴۰ء