صفحات

منٹو، ہتک، افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
منٹو، ہتک، افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 14 مئی، 2020

ہتک (منٹو)

دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغۂ صفائی، جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی، ابھی ابھی اُس کی ہڈّیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور، گھر واپس گیا تھا ...... وہ رات کو یہیں ٹھہر جاتا مگر اُسے اپنی دھرم پتنی کا بہت خیال تھا جو اُس سے بے حد پریم کرتی تھی۔
وہ روپے جو اُس نے اپنی جسمانی مشقّت کے بدلے اُس داروغہ سے وصول کیے تھے، اُس کی چُست اور تھوک بھری چولی کے نیچے سے، اوپر کو اُبھرے ہوئے تھے، کبھی کبھی سانس کے اُتار چڑھاؤ سے چاندی کے یہ سکّے کھنکھنانے لگتے اور اِن کی کھنکھناہٹ اُس کے دل کی غیر آہنگ دھڑکنوں میں گھُل مل جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اِن سکّوں کی چاندنی پگھل کر اُس کے دل کے خون میں ٹپک رہی ہے۔
اُس کا سینہ اندر سے تپ رہا تھا۔ یہ گرمی کچھ تو اُس برانڈی کے باعث تھی جس کا ادھّا داروغہ اپنے ساتھ لایا تھا اور کچھ اُس ’’بیوڑا‘‘ کا نتیجہ تھی جس کا سوڈا ختم ہونے پر دونوں نے پانی ملا کر پیا تھا۔
وہ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ اُس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی اُس کانپ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جُدا ہوجائے ...... دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت اُبھرا ہُوا تھا جو بار بار مونڈنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کر گیا تھا، جیسے نُچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکٹرا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔
کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ تین چار سوکھے سڑے چپّل، پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منہ رکھ کر ایک خارش زدہ کُتّا سو رہا تھا اور نیند میں کسی غیرمرئی چیز کا منہ چڑا رہا تھا۔ اِس کُتّے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اُڑے ہوئے تھے۔ دور سے اگر کوئی اِس کُتے کو دیکھتا تو سمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پُرانا ٹاٹ، دوہرا کرکے زمین پر رکھا ہے۔
اِس طرف چھوٹے سے دیوار گیر پر سنگار کا سامان رکھا تھا: گالوں پر لگانے کی سرخی، ہونٹوں کی سُرخ بتّی، پاؤڈر، کنگھی اور لوہے کے پِن جو وہ غالباً اپنے جوڑے میں لگایا کرتی تھی۔ پاس ہی ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا جو گردن کو اپنی پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سو رہا تھا۔ پنجرہ: کچّے امرود کے ٹکڑوں اور گلے ہوئے سنگترے کے چھلکوں [سنگترے کے گلے ہوئے چھلکوں؟] سے بھرا ہوا تھا۔ اِن بدبو دار ٹکڑوں پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے مچھّر یا پتنگے اُڑ رہے تھے۔
پلنگ کے پاس ہی بید کی ایک کرسی پڑی تھی جس کی پشت، سرٹیکنے کے باعث بے حد میلی ہو رہی تھی۔ اِس کرسی کے دائیں ہاتھ کو ایک خوب صورت تپائی تھی جس پر ہِز ماسٹرز وائس کا پورٹ ایبل گرامو فون پڑا تھا۔ اُس گرامو فون پر منڈھے ہوئے کالے کپڑے کی بہت بُری حالت تھی۔ زنگ آلود سوئیاں تپائی کے علاوہ کمرے کے ہر کونے میں بکھری ہوئی تھیں۔ اِس تپائی کے عین اوپر، دیوار پر چار فریم لٹک رہے تھے جن میں مختلف آدمیوں کی تصویریں جڑی تھیں۔
اِن تصویروں سے ذرا اِدھر ہٹ کر، یعنی دروازے میں داخل ہوتے ہی، بائیں طرف کی دیوار کے کونے میں، گنیش جی کی شوخ رنگ تصویر تھی جو تازہ اور سوکھے ہوئے پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ شاید یہ تصویر کپڑے کے کسی تھان سے اتار کر فریم میں جڑائی گئی تھی۔ اِس تصویر کے ساتھ چھوٹے سے دیوار گیر پر، جو کہ بے حد چِکنا ہورہا تھا، تیل کی ایک پیالی دھری تھی جو دِیے کو روشن کرنے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی۔ پاس ہی دیا پڑا تھا جس کی لَو، ہوا بند ہونے کے باعث، ماتھے کے تلک کے مانند سیدھی کھڑی تھی۔ اِس دیوار گیر پر دھوپ کی چھوٹی بڑی مروڑیاں بھی پڑی تھیں۔
جب وہ بوہنی کرتی تھی تو دور سے گنیش جی کی اِس مورتی سے روپے چھُوا کر اور پھر اپنے ماتھے کے ساتھ لگا کر، اُنہیں اپنی چولی میں رکھ لیا کرتی تھی۔ اُس کی چھاتیاں چونکہ کافی ابھری ہوئی تھیں اِس لیے وہ جتنے روپے بھی اپنی چولی میں رکھتی، محفوظ پڑے رہتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی جب مادھو، پونے سے چھّٹی لے کر آتا تو اسے اپنے کچھ روپے، پلنگ کے پائے کے نیچے اُس چھوٹے سے گڑھے میں چھپانا پڑتے تھے جو اُس نے خاص اِس کام کی غرض سے کھودا تھا۔ مادھو سے روپے محفوظ رکھنے کا یہ طریقہ، سوگندھی کو رام لال دلّال نے بتایا تھا۔ اُس نے جب یہ سُنا تھا کہ مادھو پونے سے آکر سوگندھی پر دھاوے بولتا ہے تو کہا تھا ...... ’’ اس سالے کو تو نے کب سے یار بنایا ہے؟ ...... یہ بڑی انوکھی عاشقی معشوقی ہے! ...... سالا ایک پیسہ اپنی جیب سے نکالتا نہیں اور تیرے ساتھ مزے اڑاتا رہتا ہے۔ مزے الگ رہے، تجھ سے کچھ لے بھی مرتا ہے ...... سوگندھی! مجھے کچھ دال میں کالا کالا نظر آتا ہے۔ اس سالے میں کوئی بات ضرور ہے جو تجھے بھاگیا ہے ...... سات سال سے یہ دھندا کررہا ہوں۔ تم چھوکریوں کی ساری کمزوریاں جانتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر رام لال دلّال نے جو بمبئی شہر کے مختلف حصّوں سے دس روپے سے لے کر سو روپے تک والی، ایک سوبیس چھوکریوں کا دھندا کرتا تھا، سوگندھی کو بتایا ...... ’’سالی اپنا دھن یوں نہ برباد کر ...... تیرے انگ پر سے، یہ کپڑے بھی، اتار کر لے جائے گا، وہ تیری ماں کا یار! ...... اِس پلنگ کے پائے کے نیچے چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں سارے پیسے دبا دِیا کر، اور جب وہ آیا کرے تو اُس سے کہا کر ...... ’’تیری جان کی قسم مادھو، آج صبح سے ایک دھیلے کا منہ نہیں دیکھا۔ باہر والے سے کہہ کر ایک کوپ چائے اور ایک افلاطون بسکٹ تو منگا، بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں......‘‘ سمجھیں؟ بہت نازک وقت آگیا ہے میری جان ...... اِس سالی کانگرس نے شراب بند کرکے بازار بالکل مندا کردیا ہے۔ پر تجھے تو کہیں نہ کہیں سے پینے کو مل ہی جاتی ہے۔ بھگوان قسم! جب تیرے یہاں کبھی رات کی خالی کی ہوئی بوتل دیکھتا ہوں اور دارو کی باس سونگھتا ہوں تو جی چاہتا ہے تیری جون میں چلا جاؤں۔‘‘
سوگندھی کو اپنے جسم میں سب سے زیادہ اپنا سینہ پسند تھا۔ ایک بار جمنا نے اُس سے کہا تھا: ’’نیچے سے اِن بمب کے گولوں کو باندھ کے رکھا کر، انگیا پہنا کرے گی تو اِن کی سختائی ٹھیک رہے گی۔‘‘
سوگندھی یہ سُن کر ہنس دی تھی۔ ’’جمنا! تو سب کو اپنے سری کا سمجھتی ہے۔ دس روپے میں لوگ تیری بوٹیاں توڑ کر چلے جاتے ہیں تو تو سمجھتی ہے کہ سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا ...... کوئی مُوا لگائے تو ایسی ویسی جگہ، ہاتھ ...... ارے ہاں! کل کی بات تجھے سناؤں: رام لال رات کے دو بجے ایک پنجابی کو لایا۔ رات کا تیس روپے طے ہوا ...... جب سونے لگے تو میں نے بتی بجھادی ...... ارے وہ تو ڈرنے لگا! ...... سنتی ہو جمنا؟ تیری قسم، اندھیرا ہوتے ہی اُس کا سارا ٹھاٹھ کِرکِرا ہوگیا ...... وہ ڈر گیا! میں نے کہا، چلو چلو دیر کیوں کرتے ہو! تین بجنے والے ہیں، ابھی دن چڑھ آئے گا ...... بولا، روشنی کرو ...... روشنی کرو ...... میں نے کہا، یہ روشنی کیا ہوا؟ ......بولا، لائٹ  ...... لائٹ! ...... اُس کی بھنچی ہوئی آواز سُن کر مجھ سے ہنسی نہ رکی۔ ’’بھئی میں تو لائٹ نہ کروں گی!‘‘ ...... اور یہ کہہ کر میں نے اُس کی گوشت بھری ران کی چٹکی لی ...... تڑپ کر اُٹھ بیٹھا اور لائٹ اون کردی۔ میں نے جھٹ سے چادر اوڑھ لی، اور کہا: ’’تجھے شرم نہیں آتی مردُوے!‘‘ وہ پلنگ پر آیا تو میں اُٹھی اور لپک کر لائٹ بجھا دی! ...... وہ پھر گھبرانے لگا ...... تیری قسم! بڑے مزے میں رات کٹی ...... کبھی اندھیرا کبھی اُجالا، کبھی اُجالا کبھی اندھیرا ...... ٹرام کی کھڑکھڑ ہوئی تو پتلون وتلون پہن کر وہ اٹھ بھاگا ...... سالے نے تیس روپے سٹّے میں جیتے ہوں گے جو یوں مفت دے گیا ...... جمنا! تو بالکل الّھڑ ہے۔ بڑے بڑے گُر یاد ہیں مجھے، اِن لوگوں کے ٹھیک کرنے کے لیے!‘‘
سوگندھی کو واقعی بہت سے گُر یاد تھے جو اُس نے اپنی ایک دو سہیلیوں کو بتائے بھی تھے۔ عام طور پر وہ، یہ گُر سب کو بتایا کرتی تھی ...... ’’اگر آدمی شریف ہو، زیادہ باتیں نہ کرنے والا ہو، تو اُس سے خوب شرارتیں کرو، اَن گنت باتیں کرو، اُسے چھیڑو، ستاؤ، اس کے گُدگُدی کرو، اس سے کھیلو ...... اگر داڑھی رکھتا ہو تو اس میں انگلیوں سے کنگھی کرتے کرتے دو چار بال بھی نوچ لو [نوچ بھی لو؟] ...... پیٹ بڑا ہو تو تھپتھپاؤ ...... اُس کو اتنی مہلت ہی نہ دو کہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے پائے ...... وہ خوش خوش چلا جائے گا اور تم بھی بچی رہوگی ...... ایسے مر د جو گُپ چُپ رہتے ہیں، بڑے خطرناک ہوتے ہیں بہن ...... ہڈی پسلی توڑ دیتے ہیں، اگر اُن کا داؤ چل جائے!‘‘
سوگندھی اتنی چالاک نہیں تھی، جتنی کہ خود کو ظاہر کرتی تھی۔ اُس کے گاہک بہت کم تھے۔ غایت درجہ جذباتی لڑکی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ تمام گُر جو اُسے یاد تھے، اُس کے دماغ سے پھِسل کر اس کے پیٹ میں آجاتے تھے، جس پر ایک بچّہ پیدا کرنے کے باعث کئی لکیریں پڑ گئی تھیں ...... ان لکیروں کو پہلی مرتبہ دیکھ کر اُسے ایسا لگا تھا کہ اس کے خارش زدہ کُتے نے اپنے پنجے سے یہ نشان بنادیے ہیں ...... جب کوئی کُتیا بڑی بے اعتنائی سے اُس کے پالتو کُتّے کے پاس سے گزر جاتی تھی تو وہ شرمندگی دُور کرنے کے لیے زمین پر اپنے پنجوں سے اِسی قسم کے نشان بنایا کرتا تھا۔
سوگندھی دماغ میں زیادہ رہتی تھی لیکن جوں ہی کوئی نرم و نازک بات ...... کوئی کومل بول ...... اُس سے کہتا تو جھٹ پگھل کر وہ اپنے جسم کے دوسرے حصّوں میں پھیل جاتی۔ گو مرد اور عورت کے جسمانی ملاپ کو اس کا دماغ بالکل فُضول سمجھتا تھا مگر اس کے جسم کے باقی اعضا، سب کے سب، اس کے بہت بُری طرح قائل تھے، وہ تھکن چاہتے تھے ...... ایسی تھکن جو اُنہیں جھنجھوڑ کر ...... انہیں مار کر، سُلانے پر [سونے پر؟] مجبور کردے ...... ایسی نیند جو تھک کر چُور چُور ہونے کے بعد آئے، کتنی مزے دار ہوتی ہے ...... وہ بے ہوشی جو مار کھا کر بند بند ڈھیلے [ڈھیلا؟] ہوجانے پر طاری ہوتی ہے، کتنا آنند دیتی ہے! ......کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم ہو اور کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نہیں ہو! اور اس ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ تم ہَوا میں بہت اونچی جگہ لٹکی ہوئی ہو۔ اوپر ہوا، نیچے ہوا، دائیں ہوا، بائیں ہوا، بس ہوا ہی ہوا! اور پھر اُس ہوا میں دم گھٹنا بھی ایک خاص مزا دیتا ہے۔
بچپن میں جب وہ آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھی اور اپنی ماں کا بڑا صندوق کھول کر اُس میں چھُپ جایا کرتی تھی، تو ناکافی ہوا میں دم گھُٹنے کے ساتھ ساتھ، پکڑے جانے کے خوف سے، وہ تیز دھڑکن جو اس کے دل میں پیدا ہوجایا کرتی تھی، کتنا مزہ دیا کرتی تھی!
سوگندھی چاہتی تھی کہ اپنی ساری زندگی کسی ایسے ہی صندوق میں چھپ کر گزار دے جس کے باہر ڈھونڈنے والے پھرتے رہیں، کبھی کبھی اُس کو ڈھونڈ نکالیں تاکہ وہ بھی اُن کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ یہ زندگی جو وہ پانچ برس سے گزار رہی تھی، آنکھ مچولی ہی تو تھی! ...... کبھی وہ کسی کو ڈھونڈ لیتی تھی اور کبھی کوئی اسے ڈھونڈ لیتا تھا ...... بس یوں ہی اس کا جیون بیت رہا تھا۔ وہ خوش تھی اس لیے کہ اس کو خوش رہنا پڑتا تھا۔ ہر روز رات کو کوئی نہ کوئی مرد اس کے چوڑے ساگوانی پلنگ پر ہوتا تھا اور سوگندھی جس کو مردوں کے ٹھیک کرنے کے لیے بے شمار گُر یاد تھے، اِس بات کا بار بار تہیّہ کرنے پر بھی کہ وہ ان مردوں کی کوئی ایسی ویسی بات نہیں مانے گی اور ان کے ساتھ بڑے روکھے پن کے ساتھ[روکھے پن سے؟] پیش آئے گی، ہمیشہ اپنے جذبات کے دھارے میں بہہ جایا کرتی تھی اور فقط ایک پیاسی عورت رہ جایا کرتی تھی۔
ہر روز رات کو اُس کا پرانا یا نیا ملاقاتی اس سے کہا کرتا تھا: ’’سوگندھی! میں تجھ سے پریم کرتا ہوں۔‘‘ اور سوگندھی یہ جان بوجھ کر کہ وہ جھوٹ بولتا ہے، بس موم ہوجاتی تھی اور ایسا محسوس کرتی تھی جیسے سچ مُچ اس سے پریم کیا جارہا ہے ...... پریم ...... کتنا سندر بول ہے! وہ چاہتی تھی، اِس کو پگھلا کر اپنے سارے انگوں پر مل لے، اِس کی مالش کرے تاکہ یہ سارے کا سارا اس کے مساموں میں رچ جائے ...... یا پھر وہ خود اس کے اندر چلی جائے، سمٹ سمٹاکر اِس کے اندر داخل ہوجائے اور اُوپر سے ڈھکنا بند کردے [کرلے؟] کبھی کبھی جب پریم کرنے اور پریم کیے جانے کا جذبہ اُس کے اندر بہت شّدت اختیار کرلیتا تو کئی بار اس کے جی میں آتا کہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو گود میں لے کر تھپتھپانا شروع کردے اور لوریاں دے کر اُسے اپنی گود ہی میں سلادے۔
پریم کرسکنے کی اہلیت اُس کے اندر اِس قدر زیادہ تھی کہ ہر اُس مرد سے جو اُس کے پاس آتا تھا، وہ محبت کرسکتی تھی اور پھر اس کو نباہ بھی سکتی تھی۔ اب تک چار مردوں سے اپنا پریم نباہ ہی تو رہی تھی جن کی تصویریں اس کے سامنے دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ ہر وقت یہ احساس اس کے دل میں موجود رہتا تھا کہ وہ بہت اچھّی ہے۔ لیکن یہ اچھّا پن مردوں میں کیوں نہیں ہوتا؟ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی ...... ایک بار آئینہ دیکھتے ہوئے بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا تھا...... ’’سوگندھی! ......تجھ سے زمانے نے اچھا سلوک نہیں کیا!‘‘
یہ زمانہ، یعنی پانچ برسوں کے دن اور ان کی راتیں، اُس کے جیون کے ہر تار کے ساتھ وابستہ تھا۔ گو اس زمانے سے اس کو (وہ ) خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی جس کی خواہش اس کے دل میں موجود تھی، تاہم وہ چاہتی تھی کہ یوں ہی اس کے دن بیتتے چلے جائیں۔ اسے کون سے محل کھڑے کرنا تھے جو روپے پیسے کا لالچ کرتی۔ دس روپے اس کا عام نرخ تھا جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلّالی کے کاٹ لیتا تھا۔ ساڑھے سات روپے اسے روز مل ہی جایا کرتے تھے جو اس کی اکیلی جان کے لیے کافی تھے۔ اور مادھو جب پونے سے، بقول رام لال دلّال، سوگندھی پر دھاوے بولنے کے لیے آتا تھا، تو وہ دس پندرہ روپے خراج بھی ادا کرتی تھی۔ یہ خراج صرف اس بات کا تھا کہ سوگندھی کو اُس سے کچھ وہ ہوگیا تھا۔ رام لال دلّال ٹھیک کہتا تھا: اُس میں ایسی بات ضرور تھی جو سوگندھی کو بہت بھا گئی تھی۔ اب اس کو چھپانا کیا ہے، بتا ہی کیوں نہ دیں! ...... سوگندھی سے جب مادھو کی پہلی ملاقات ہوئی تو اُس نے کہا تھا: ’’تجھے لاج نہیں آتی اپنا بھاؤ کرتے! جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کررہی ہے؟ ...... اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟ ...... چھی چھی چھی ...... دس روپے، اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ ...... اب ان ساڑھے سات روپیوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا ...... مجھے عورت چاہیے، پر تجھے کیا اِس وقت، اِسی گھڑی مرد چاہیے؟ ...... مجھے تو کوئی عورت بھی بھا جائے گی، پر کیا میں تجھے جچتا ہوں؟ ...... تیرا میرا ناتا ہی کیا ہے، کچھ بھی نہیں ...... بس یہ دس روپے، جن میں سے ڈھائی، دلّالی میں چلے جائیں گے اور باقی اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے، تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے ہیں ...... تو بھی ان کا بجنا سُن رہی ہے اور میں بھی۔ تیرا من کچھ اور سوچتا ہے، میرا من کچھ اور ...... کیوں نہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری ...... پونے میں حوالدار ہوں۔ مہینے میں ایک بار آیا کروں گا، تین چار دن کے لیے ...... یہ دھندا چھوڑ ...... میں تجھے خرچ دیا کروں گا...... کیا بھاڑا ہے اِس کھولی کا......؟‘‘
مادھو نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا، جس کا اثر سوگندھی پر اس قدر زیادہ ہوا تھا کہ وہ چند لمحات کے لیے خود کو حوالدارنی سمجھنے لگی تھی۔ باتیں کرنے کے بعد مادھو نے اُس کے کمرے کی بِکھری ہوئی چیزیں قرینے سے رکھی تھیں اور ننگی تصویریں جو سوگندھی نے اپنے سرہانے لٹکا رکھی تھیں، بنا پوچھے گچھے پھاڑ دی تھیں اور کہا تھا: ’’سوگندھی بھئی میں ایسی تصویریں یہاں نہیں رکھنے دوںگا ...... اور پانی کا یہ گھڑا ...... دیکھنا، کتنا میلا ہے اور یہ  ...... یہ چیتھڑے ...... یہ چِندیاں ...... اف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھا کے باہر پھینک اِن کو ...... اور تونے اپنے بالوں کا کیا ستیا ناس کررکھا ہے ...... اور ......اور۔‘‘
تین گھنٹے کی بات چیت کے بعد سوگندھی اور مادھو دونوں آپس میں گھُل مل گئے تھے اور سوگندھی کو تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ برسوں سے حوالدار کو جانتی ہے۔ اُس وقت تک کسی نے بھی کمرے میں بدبو دار چیتھڑوں، میلے گھڑے اور ننگی تصویروں کی موجودگی کا خیال نہیں کیا تھا اور نہ کبھی کسی نے اس کو یہ محسوس کرنے کا موقع دیا تھا کہ اس کا ایک گھر ہے، جس میں گھریلو پن آسکتا ہے۔ لوگ آتے تھے اور بستر تک کی غلاظت کو محسوس کیے بغیر چلے جاتے تھے۔ کوئی سوگندھی سے یہ نہیں کہتا تھا: ’’دیکھ تو آج تیری ناک کتنی لال ہورہی ہے، کہیں زکام نہ ہوجائے تجھے ...... ٹھہر میں تیرے واسطے دوا لاتا ہوں۔‘‘ مادھو کتنا اچھا تھا۔ اُس کی ہر بات باون تولے اور پاؤرتی کی تھی۔ کیا کھری کھری سنائی تھیں اس نے سوگندھی کو! ...... اسے محسوس ہونے لگا کہ اسے مادھو کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان دونوں کا سمبندھ ہوگیا۔
مہینے میں ایک بار مادھو پونے سے آتا تھا اور واپس جاتے ہوئے ہمیشہ سوگندھی سے کہا کرتا تھا : ’’دیکھ سوگندھی! اگر تونے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی ...... اگر تونے ایک بار بھی کسی مرد کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوںگا ...... دیکھ اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا ...... ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا......؟‘‘
نہ مادھونے کبھی پونا سے خرچ بھیجا تھا اور نہ سوگندھی نے اپنا دھندا بند کیا تھا۔ دونوں اچھی طرح جانتے تھے، کیا ہورہا ہے۔ نہ سوگندھی نے کبھی مادھو سے یہ کہا تھا: ’’تو یہ ٹرٹر کیا کرتا ہے، ایک پھوٹی کوڑی بھی دی ہے کبھی تُونے؟‘‘ اور نہ مادھو نے کبھی سوگندھی سے پوچھا تھا: ’’یہ مال تیرے پاس کہاں سے آتا ہے جب کہ میں تجھے کچھ دیتا ہی نہیں......!‘‘ دونوں جھوٹے تھے۔ دونوں ایک ملمّع کی ہوئی زندگی بسر کررہے تھے ...... لیکن سوگندھی خوش تھی۔ جس کو اصل سونا پہننے کو نہ ملے وہ ملمّع کیے ہوئے گہنوں ہی پر راضی ہوجایا کرتا ہے۔
اِس وقت سوگندھی تھکی ماندی سورہی تھی۔ بجلی کا قمقمہ جسے اوف کرنا وہ بھول گئی تھی، اُس کے سر کے اوپر لٹک رہا تھا۔ اس کی تیز روشنی اس کی مُندی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ٹکرا رہی تھی مگر وہ گہری نیند سورہی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی ...... رات کے دو بجے یہ کون آیا تھا؟ سوگندھی کے خواب آلود کانوں میں دستک کی آواز بھنبھناہٹ بن کر پہنچی۔ دروازہ جب زور سے کھٹکھٹایا گیا تو چونک کر اُٹھ بیٹھی ...... دو ملی جلی شرابوں اور دانتوں کی ریخوں میں پھنسے ہوئے مچھلی کے ریزوں نے اس کے منہ کے اندر ایسا لعاب پیدا کردیا تھا جو بے حد کسیلا اور لیس دار تھا۔ دھوتی کے پلّو سے اس نے یہ بدبو دار لعاب صاف کیا اور آنکھیں ملنے لگی۔ پلنگ پر وہ اکیلی تھی۔ جھک کر اس نے پلنگ کے نیچے دیکھا تو اُس کا کتّا سوکھے ہوئے چپّلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کا منہ چڑارہا تھا اور طوطا پیٹھ کے بالوں میں سر دیے سورہا تھا۔
دروازے پر [پھر] دستک ہوئی۔ سوگندھی بستر پر سے اٹھی۔ سر درد کے مارے پھٹا جارہا تھا۔ گھڑے سے پانی کا ایک ڈونگا نکال کر اس نے کُلّی کی اور دوسرا ڈونگا غٹاغٹ پی کر اس نے دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھُولا اور کہا: ’’رام لال؟‘‘
رام لال جو باہر دستک دیتے دیتے تھک گیا تھا، بھنّا کر کہنے لگا: ’’تجھے سانپ سونگھ گیا تھا یا کیا ہوگیا تھا۔ ایک کلاک (گھنٹے) سے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں۔ کہاں مر گئی تھی؟‘‘ ...... پھر آواز دبا کر اس نے ہولے سے کہا: ’’اندر کوئی ہے تو نہیں؟‘‘
جب سوگندھی نے کہا: ’’نہیں‘‘ ...... تو رام لال کی آواز پھر اونچی ہوگئی: ’’تو دروازہ کیوں نہیں کھولتی؟ ...... بھئی حد ہوگئی ہے۔ کیا نیند پائی ہے۔ یوں ایک چھوکری اُتارنے میں دو دو گھنٹے سرکھپانا پڑے تو میں اپنا دھندا کرچکا ...... اب تو میرا منہ کیا دیکھتی ہے؟ جھٹ پٹ یہ دھوتی اتار کر وہ پھولوں والی ساڑی پہن، پوڈر ووڈر لگا اور چل میرے ساتھ...... باہر موٹر میں ایک سیٹھ بیٹھے تیرا انتظار کررہے ہیں ...... چل چل ایک دم جلدی کر۔‘‘
سوگندھی آرام کرسی پر بیٹھ گئی اور رام لال آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔
سوگندھی نے تپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بام کی شیشی اٹھا کر اس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے کہا: ’’رام لال! آج میرا جی اچھا نہیں۔‘‘
رام لال نے کنگھی دیوار گیر پر رکھ دی اور مڑ کر کہا: ’’تو پہلے ہی کہہ دیا ہوتا!‘‘
سوگندھی نے ماتھے اور کنپٹیوں پر بام ملتے ہوئے، رام لال کی غلط فہمی دُور کردی: ’’وہ بات نہیں رام لال! ...... ایسے ہی میرا جی اچھا نہیں ...... بہت پی گئی۔‘‘
رام لال کے منہ میں پانی بھر آیا: ’’تھوڑی بچی ہو تو، لا ...... ذرا ہم بھی منہ کا مزا ٹھیک کرلیں۔‘‘
سوگندھی نے بام کی شیشی تپائی پر رکھ دی اور کہا: ’’بچائی ہوتی تو یہ مُوا سر میں درد ہی کیوں ہوتا ...... دیکھ رام لال! وہ جو باہر موٹر میں بیٹھا ہے اُسے اندر ہی لے آؤ [؟ لے آ]۔‘‘
رام لال نے جواب دیا: ’’نہیں بھئی، وہ اندر نہیں آسکتے، جنٹل مین آدمی ہیں، وہ تو موٹر کو گلی کے باہر کھڑی کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے ...... تو کپڑے وپڑے پہن لے اور ذرا گلی کی نُکّڑ تک چل ...... سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ساڑھے سات روپے کا سودا، سوگندھی اِس حالت میں جب کہ اُس کے سر میں شدّت کا درد ہورہا تھا، کبھی قبول نہ کرتی مگر اسے روپوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ والی کھولی میں ایک مدراسی عورت رہتی تھی جس کا خاوند موٹر کے نیچے آکر مر گیا تھا۔ اُس عورت کو اپنی جوان لڑکی سمیت اپنے وطن جانا تھا لیکن اس کے پاس چونکہ کرایہ ہی نہیں تھا اس لیے وہ کس مپرسی کی حالت میں پڑی تھی۔ سوگندھی نے کل ہی اُس کو ڈھارس دی تھی اور اُس سے کہا تھا: ’’بہن تو چنتا نہ کر۔ میرا مرد پونے سے آنے ہی والا ہے۔ میں اس سے کچھ روپے لے کر تیرے جانے کا بندوبست کردوں گی۔‘‘ مادھو پونا سے آنے والا تھا، مگر روپوں کا بندوبست تو سوگندھی ہی کو کرنا تھا۔ چنانچہ وہ اُٹھی اور جلدی جلدی کپڑے تبدیل کرنے لگی۔ پانچ منٹوں میں اس نے دھوتی اُتار کر پھولوں والی ساڑی پہنی اور گالوں پر سرخی پوڈر لگا کر تیار ہوگئی۔ گھڑے کے ٹھنڈے پانی کا ایک اور ڈونگا پیا اور رام لال کے ساتھ ہولی۔
گلی جو کہ چھوٹے شہروں کے بازار سے بھی کچھ بڑی تھی، بالکل خاموش تھی۔ گیس کے وہ لیمپ جو کھمبوں پر جڑے تھے، پہلے کی نسبت بہت دھندلی روشنی دے رہے تھے۔ جنگ کے باعث ان کے شیشوں کو گدلا کردیا گیا تھا۔ اس اندھی روشنی میں گلی کے آخری سرے پر ایک موٹر نظر آرہی تھی۔
کمزور روشنی میں اُس سیاہ رنگ کی موٹر کا سایہ سا نظر آنا اور رات کے پچھلے پہر کی بھیدوں بھری خاموشی ...... سوگندھی کو ایسا لگا کہ اس کے سر کا درد فضا پر بھی چھا گیا ہے۔ ایک کسیلا پن اُسے ہوا کے اندر بھی محسوس ہوتا تھا جیسے برانڈی اور بیوڑا کی باس سے وہ بھی بوجھل ہورہی ہے۔
آگے بڑھ کر رام لال نے موٹر کے اندر بیٹھے ہوئے آدمیوں [آدمی؟] سے کچھ کہا۔ اتنے میں جب سوگندھی موٹر کے پاس پہنچ گئی تو رام لال نے ایک طرف ہٹ کر کہا: ’’لیجیے وہ آگئی ...... بڑی اچھی چھوکری ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں اِسے دھندا شروع کیے‘‘ ...... پھر سوگندھی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’سوگندھی! اِدھر آ، سیٹھ جی بلاتے ہیں۔‘‘
سوگندھی، ساڑی کا ایک کنارہ اپنی انگلی پر لپٹتی ہوئی، آگے بڑھی اور موٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہوگئی۔ سیٹھ صاحب نے بیٹری اس کے چہرے کے پاس روشن کی۔ ایک لمحے کے لیے اُس روشنی نے سوگندھی کی خمار آلود آنکھوں میں چکا چوند پیدا کی۔ بٹن دبانے کی آواز پیدا ہوئی اور روشنی بُجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منہ سے ‘‘اونہہ!‘‘ نکلا۔ پھر ایک دم موٹر کا انجن پھڑ پھڑایا اور کار، یہ جا، وہ جا......
سوگندھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موٹر چل دی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک بیٹری کی تیز روشنی گھُسی ہوئی تھی۔ وہ ٹھیک طرح سے سیٹھ کا چہرہ بھی تو نہ دیکھ سکی تھی۔ یہ آخر ہوا کیا تھا۔ اُس ‘‘اونہہ‘‘ کا کیا مطلب تھا جو ابھی تک اُس کے کانوں میں بھنبھنا رہی تھی۔ کیا؟ ...... کیا؟
رام لال دلّال کی آواز سنائی دی: ’’پسند نہیں کیا تجھے! ...... اچھی بھئی، میں چلتا ہوں۔ دو گھنٹے مفت ہی میں برباد کیے۔‘‘
یہ سُن کر سوگندھی کی ٹانگوں میں، اُس کی بانہوں میں، اُس کے ہاتھوں میں: ایک زبردست حرکت پیدا ہوئی ...... کہاں ہے وہ موٹر ...... کہاں ہے وہ سیٹھ ...... تو ’’اونہہ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اُس نے مجھے پسند نہیں کیا ...... اُس کی......
گالی اُس کے پیٹ کے اندر سے اُٹھی اور زبان کی نوک پر آخر رُ ک گئی۔ وہ آکر گالی کسے دیتی۔ موٹر تو جا چکی تھی۔ اُس کی دُم کی سرخ بتّی اس کے سامنے بازار کے اندھیارے میں ڈُوب رہی تھی اور سوگندھی کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ لال لال انگارہ ’’اونہہ‘‘ ہے جو اُس کے سینے میں برمے کی طرح اُترا چلا جارہا ہے۔ اس کے جی میں آئی کہ زور سے پکارے: ’’او سیٹھ ...... ذرا موٹر روکنا اپنی ...... بس ایک منٹ کے لیے۔‘‘ پر وہ سیٹھ، تُھڑی ہے اُس کی ذات پر! بہت دُور نکل چکا تھا۔
وہ سنسان بازار میں کھڑی تھی۔ پھولوں والی ساڑی جو وہ خاص خاص موقعوں پر پہنا کرتی تھی، رات کے پچھلے پہر کی ہلکی پھلکی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ یہ ساڑی اور اس کی ریشمیں سرسراہٹ، سوگندھی کو کتنی بُری معلوم ہورہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس ساڑی کے چیتھڑے اڑا دے کیونکہ ساڑی ہوا میں لہرا لہرا کر ’’اونہہ اونہہ ‘‘ کررہی تھی۔
گالوں پر اُس نے پوڈر لگایا تھا اور ہونٹوں پر سرخی۔ جب اسے خیال آیا کہ یہ سنگار اس نے اپنے آپ کو پسند کرانے کے واسطے کیا تھا تو شرم کے مارے اُسے پسینہ آگیا۔ یہ شرمندگی دور کرنے کے لیے اس نے کیا کچھ نہ سوچا ...... ’’میں نے اُس موئے کو دکھانے کے لیے تھوڑی اپنے آپ کو سجایا تھا، یہ تو میری عادت ہے ...... میری کیا سب کی یہی عادت ہے ...... پر  ...... پر ...... یہ رات کے دو بجے اور رام لال دلّال اور ...... یہ بازار ...... اور وہ موٹر اور بیٹری کی چمک‘‘...... یہ سوچتے ہی روشنی کے دھبّے اس کی حدِ نگاہ تک فضا میں اِدھر اُدھر تیرنے لگے اور موٹر کے انجن کی پھڑپھڑاہٹ اُسے ہوا کے ہر جھونکے میں سنائی دینے لگی۔
اُس کے ماتھے پر بام کا لیپ جو سنگار کرنے کے دوران میں بالکل ہلکا ہوگیا تھا، پسینہ آنے کے باعث اس کے مساموں میں داخل ہونے لگا اور سوگندھی کو اپنا ماتھا، کسی اور کا ماتھا معلوم ہوا۔ جب ہوا کا ایک جھونکا اس کے عرق آلود ماتھے کے پاس سے گزرا تو اسے ایسا لگا کہ سرد سرد ٹین کا ٹکڑا کاٹ کر اس کے ماتھے کے ساتھ چسپاں کردیا گیا ہے۔ سر میں درد ویسے کا ویسا موجود تھا مگر خیالات کی بھیڑ بھاڑ اور اُن کے شور نے اس درد کو اپنے نیچے دبا رکھا تھا۔ سوگندھی نے کئی بار اس درد کو اپنے خیالات کے نیچے سے نکال کر اوپر لانا چاہا مگر ناکام رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اُس کا انگ انگ دُکھنے لگے، اس کے سر میں درد ہو، اس کی ٹانگوں میں درد ہو، اس کے پیٹ میں درد ہو، اس کی بانہوں میں درد ہو ...... ایسا درد کہ وہ صرف درد ہی کا خیال کرے اور سب کچھ بھول جائے۔ یہ سوچتے سوچتے اس کے دل میں کچھ ہوا ...... کیا یہ درد تھا؟ ...... ایک لمحے کے لیے اس کا دل سُکڑا اور پھر پھیل گیا ...... یہ کیا تھا؟ ...... لعنت! یہ تو وہی ’’اونہہ ‘‘ تھی جو اس کے دل کے اندر کبھی سکڑتی اور کبھی پھیلتی تھی۔
گھر کی طرف سوگندھی کے قدم اٹھے ہی تھے کہ رُک گئے اور وہ ٹھہر کر سوچنے لگی ...... رام لال دلّال کا خیال ہے کہ اُسے میری شکل پسند نہیں آئی ...... شکل کا تو اُس نے ذکر نہیں کیا۔ اُس نے تو یہ کہا تھا:’’ سوگندھی! تجھے پسند نہیں کیا!‘‘ اُسے ...... اُسے ...... صرف میری شکل ہی پسند نہیں آئی ...... نہیں آئی تو کیا ہوا؟ ...... مجھے بھی تو کئی آدمیوں کی شکل پسند نہیں آتی ...... وہ جو اماوس کی رات کو آیا تھا، کتنی بُری صورت تھی اُس کی ...... کیا میں نے ناک بھوں نہیں چڑھائی تھی؟ جب وہ میرے ساتھ سونے لگا تھا تو مجھے گھن نہیں آئی تھی؟ ...... کیا مجھے ابکائی آتے آتے نہیں رُک گئی تھی؟ ...... ٹھیک ہے، پر سوگندھی ...... تو نے اُسے دھتکارا نہیں تھا، تو نے اُس کو ٹھکرایا نہیں تھا ...... اِس موٹر والے سیٹھ نے تو تیرے منہ پر تھوکا ہے ...... ’’اونہہ‘‘ ...... اِس ’’اونہہ‘‘ کا اور مطلب ہی کیا ہے؟ ...... یہی کہ اِس چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کا تیل ...... اونہہ ...... یہ منہ اور مسور کی دال ...... ارے رام لال! تو یہ چھپکلی کہاں سے پکڑ کر لے آیا ہے ...... اس لونڈیا کی اتنی تعریف کررہا ہے تو ...... دس روپے اور یہ عورت ...... خچّر کیا بُری ہے......
سوگندھی سوچ رہی تھی اور اُس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اُس کو کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا تھا اور کبھی رام لال دلّال پر جس نے رات کے دو بجے اُسے بے آرام کیا۔ لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصور پاکر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی۔ اِس خیال کے آتے ہی اُس کی آنکھیں، اُس کے کان، اُس کی بانہیں، اُس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ، مڑتا تھا کہ اُس سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے ...... اُس کے اندر یہ خواہش بڑی شدّت سے پیدا ہورہی تھی کہ جو کچھ ہوچکا ہے، ایک بار پھر ہو ...... صرف ایک بار ...... وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے، موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ بیٹری نکالے اور اُس کے چہرے پر روشنی پھینکے۔ ’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ ...... سوگندھی ...... اندھا دھند اپنے دونوں پنجوں سے اُس کا منہ نوچنا شروع کردے۔ وحشی بلّی کی طرح جھپٹے اور ......اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھا رکھے تھے، اُس سیٹھ کے گالوں میں گاڑ دے۔ بالوں سے پکڑ کر اُسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑا دھڑ مُکّے مارنا شروع کردے اور جب تھک جائے ...... جب تھک جائے تو رونا شروع کردے۔
رونے کا خیال سوگندھی کو صرف اس لیے آیا کہ اُس کی آنکھوں میں، غصّے اور بے بسی کی شدّت کے باعث، تین چار بڑے بڑے آنسو بن رہے تھے۔ ایکا ایکی سوگندھی نے اپنی آنکھوں سے سوال کیا: ’’تم روتی کیوں ہو؟ تمہیں کیا ہوا ہے کہ ٹپکنے لگی ہو؟‘‘ ...... آنکھوں سے کیا ہُوا سوال، چند لمحات تک اُن آنسوؤں میں تیرتا رہا جو اَب پلکوں پر کانپ رہے تھے۔ سوگندھی اُن آنسوؤں میں سے دیر تک اُس خلا کو گھُورتی رہی جدھر سیٹھ کی موٹر گئی تھی۔
پھڑ پھڑپھڑ ...... یہ آواز کہاں سے آئی؟ ...... سوگندھی نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کسی کو نہ پایا ...... ارے! یہ تو اس کا دل پھڑ پھڑایا تھا۔ وہ سمجھی تھی موٹر کا انجن بولا ہے ...... اس کا دل ...... یہ کیا ہوگیا تھا اس کے دل کو! ...... آج ہی یہ روگ لگ گیا تھا اِسے ...... اچھا بھلا چلتا چلتا ایک جگہ رُک کر دھڑ دھڑ کیوں کرتا تھا [کر رہا تھا؟] ...... بالکل اُس گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح جو سوئی کے نیچے ایک جگہ آکے رُک جاتا تھا، ’’رات کٹی گِن گِن تارے‘‘ کہتا کہتا، تارے تارے کی رٹ لگا دیتا تھا۔
آسمان تاروں سے اٹا ہوا تھا۔ سوگندھی نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کتنے سُندر ہیں‘‘...... وہ چاہتی تھی کہ اپنا دھیان کسی اور طرف پلٹ دے، پر جب اس نے سندر کہا تو جھٹ سے یہ خیال اس کے دماغ میں کودا: یہ تارے سندر ہیں، پر تو کتنی بھونڈی ہے ...... کیا بھول گئی کہ ابھی ابھی تیری صورت کو پھٹکارا گیا ہے؟
سوگندھی بد صورت تو نہیں تھی۔ یہ خیال آتے ہی وہ تمام عکس ایک ایک کرکے اُس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے جو اِن پانچ برسوں کے دوران میں وہ آئینے میں دیکھ چُکی تھی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کا رنگ روپ اب وہ نہیں رہا تھا جو آج سے پانچ سال پہلے تھا جبکہ وہ تمام فکروں سے آزاد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ لیکن وہ بد صورت تو نہیں ہوگئی تھی۔ اُس کی شکل و صورت اُن عام عورتوں کی سی تھی جن کی طرف مرد، گزرتے گزرتے گھُور کر دیکھ لیا کرتے ہیں۔ اُس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو سوگندھی کے خیال میں، ہر مرد اُس عورت میں ضروری سمجھتا ہے جس کے ساتھ اُسے ایک دو راتیں بسر کرنا ہوتی ہیں۔ وہ جوان تھی۔ اس کے اعضا متناسب تھے۔ کبھی کبھی نہاتے وقت جب اُس کی نگاہیں اپنی رانوں پر پڑتی تھیں تو وہ خود اُن کی گولائی اور گدراہٹ کو پسند کیا کرتی تھی۔ وہ خوش خلق تھی۔ اِن پانچ برسوں کے دوران میں شاید ہی کوئی آدمی اس سے ناخوش ہو کر گیا ہو ...... بڑی ملنسار تھی، بڑی رحم دل تھی۔ پچھلے دنوں کرسمس میں جب وہ گول پیٹھا میں رہا کرتی تھی، ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس آیا تھا۔ صبح اُٹھ کر جب اُس نے دوسرے کمرے میں جا کر کھونٹی سے اپنا کوٹ اُتارا تو بٹوا غائب پایا۔ سوگندھی کا نوکر یہ بٹوا لے اُڑا تھا۔ بے چارہ بہت پریشان ہوا، چھٹّیاں گزارنے کے لیے حیدرآباد سے بمبئی آیا تھا، اب اُس کے پاس واپس جانے کے لیے دام نہ تھے۔ سوگندھی نے ترس کھا کر اُسے اُس کے دس روپے واپس دے دیے تھے ...... ’’مجھ میں کیا برائی ہے؟‘‘ سوگندھی نے یہ سوال ہر اُس چیز سے کیا جو اُس کی آنکھوں کے سامنے تھی: گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اور سڑک کی اکھڑی ہوئی بجری ...... اِن سب چیزوں کی طرف اُس نے باری باری دیکھا، پھر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں جو اُس کے اوپر جھُکا ہوا تھا، مگر سوگندھی کو کوئی جواب نہ ملا۔
جواب اُس کے اندر موجود تھا ...... وہ جانتی تھی کہ وہ بُری نہیں، اچھّی ہے، پر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کی تائید کرے ......کوئی ......کوئی ...... اِس وقت کوئی اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنا کہہ دے: ’’سوگندھی! کون کہتا ہے، تو بُری ہے، جو تجھے بُرا کہے، وہ آپ بُرا ہے‘‘...... نہیں! یہ کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، کسی کا اتنا کہہ دینا کافی تھا: ’’سوگندھی تو بہت اچھّی ہے!‘‘
وہ سوچنے لگی کہ وہ کیوں چاہتی ہے کوئی اُس کی تعریف کرے۔ اِس سے پہلے اُسے اِس بات کی اتنی شدّت سے ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے [دیکھ رہی ہے؟] جیسے اُن پر اپنے اچھّے ہونے کا احساس طاری کرنا چاہتی ہے۔ اُس کے جسم کا ذرّہ ذرّہ کیوں ’’ماں ‘‘ بن رہا تھا ......وہ ماں بن کر دھرتی کی ہر شے کو اپنی گود میں لینے کے لیے کیوں تیار ہورہی تھی؟ ...... اُس کا جی کیوں چاہتا تھا کہ سامنے والے گیس کے آہنی کھمبے کے ساتھ چمٹ جائے اور اس کے سرد لوہے پر اپنے گال رکھ دے ...... اپنے گرم گرم گال، اور اُس کی ساری سردی چوس لے۔
تھوڑی دیر کے لیے اُسے ایسا محسوس ہوا کہ گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اور ہر وہ شے جو رات کے سنّاٹے میں اس کے آس پاس تھی، ہمدردی کی نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے اور اس کے اوپر جھُکا ہوا آسمان بھی جو مٹیالے رنگ کی ایسی موٹی چادر معلوم ہوتا تھا جس میں بے شمار سُوراخ ہورہے ہوں، اس کی باتیںسمجھتا تھا اور سوگندھی کو بھی ایسا لگتا تھا کہ وہ تاروں کا ٹمٹمانا سمجھتی ہے ...... لیکن اس کے اندر یہ کیا گڑ بڑ تھی؟ ...... وہ کیوں اپنے اندر اُس موسم کی فضا محسوس کرتی [کر رہی؟] تھی جو بارش سے پہلے دیکھنے میں آیا کرتا ہے [آتا ہے؟] ...... اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے جسم کا ہر مسام کھُل جائے اور جو کچھ اس کے اندر اُبل رہا ہے، اُن کے رستے باہر نکل جائے۔ پر، یہ کیسے ہو ...... کیسے ہو؟
سوگندھی گلی کے نکّڑ پر خط ڈالنے والے لال بھبکے کے پاس کھڑی تھی ...... ہوا کے تیز جھونکے سے اس بھبکے کی آہنی زبان جو اس کے کھلے ہوئے منہ میں لٹکی رہتی ہے، لڑکھڑائی تو سوگندھی کی نگاہیں یک بیک اُس طرف اُٹھیں جدھر موٹر گئی تھی مگر اسے کچھ نظر نہ آیا ...... اسے کتنی زبردست آرزو تھی کہ وہ موٹر پھر ایک بار آئے اور ...... اور......
’’نہ آئے ...... بلا سے ...... میں اپنی جان کیوں بے کار ہلکان کروں ...... گھر چلتے ہیں اور آرام سے لمبی تان کر سوتے ہیں۔ اِن جھگڑوں میں رکھا ہی کیا ہے۔ مُفت کی دردِ سری ہی تو ہے ...... چل سوگندھی گھر چل ...... ٹھنڈے پانی کا ایک ڈونگا پی، اور تھوڑا سا بام مل کر سوجا ...... فسٹ کلاس نیند آئے گی اور سب ٹھیک ہوجائے گا ...... سیٹھ اور اُس موٹر کی ایسی تیسی......‘‘
یہ سوچتے ہوئے سوگندھی کا بوجھ ہلکا ہوگیا جیسے وہ کسی ٹھنڈے تالاب سے نہا دھو کر باہر نکلی ہے۔ جس طرح پُوجا کرنے کے بعد اس کا جسم ہلکا ہوجاتا تھا اُسی طرح اب بھی ہلکا ہوگیا تھا۔ گھر کی طرف چلنے لگی تو خیالات کا بوجھ نہ ہونے کے باعث اس کے قدم کئی بار لڑ کھڑائے۔
اپنے مکان کے پاس پہنچی تو ایک ٹیس کے ساتھ پھر تمام واقعہ اُس کے دل میں اُٹھا اور درد کی طرح اس کے روئیں روئیں پر چھا گیا ...... قدم پھر بوجھل ہوگئے اور وہ اس بات کو شدّت کے ساتھ محسوس کرنے لگی کہ گھر سے بُلا کر، باہر بازار میں، منہ پر روشنی کا چانٹا مار کر، ایک آدمی نے اس کی ابھی ابھی ہتک کی ہے۔ یہ خیال آیا تو اس نے اپنی پسلیوں پر کسی کے سخت انگوٹھے محسوس کیے جیسے کوئی اسے بھیڑ بکری کی طرح دبا دبا کر دیکھ رہا ہے کہ آیا گوشت بھی ہے یا بال ہی بال ہیں ...... اس سیٹھ نے ...... پر ماتما کرے ... سوگندھی نے چاہا کہ اُس کو بددُعا دے مگر سوچا، بددُعا دینے سے کیا بنے گا ...... مزا تو جب تھا کہ وہ سامنے ہوتا اور وہ اُس کے وجود کے ہر ذرّے پر اپنی لعنتیں لکھ دیتی ...... اس کے منہ پر کچھ ایسے الفاظ کہتی کہ زندگی بھر بے چین رہتا ......  کپڑے پھاڑ کر اُس کے سامنے ننگی ہوجاتی اور کہتی: ’’یہی لینے آیا تھا نا تُو؟ ...... لے، دام دِیے بنا لے جا اِسے ...... پر جو کچھ میں ہوں، جو کچھ میرے اندر چھُپا ہوا ہے، وہ تُو کیا، تیرا باپ بھی نہیں خرید سکتا......‘‘
انتقام کے نئے نئے طریقے سوگندھی کے ذہن میں آرہے تھے، اگر اُس سیٹھ سے ایک بار ...... صرف ایک بار ...... اس کی مُڈ بھیڑ ہوجائے تو وہ یہ کرے۔ نہیں، یہ نہیں، یہ کرے ...... یوں اس سے انتقام لے، نہیں یوں نہیں، یوں ...... لیکن جب سوگندھی سوچتی کہ سیٹھ سے اس کا دوبارہ ملنا محال ہے تو وہ ایک چھوٹی سی گالی دینے ہی پر، خود کو راضی کرلیتی ...... بس صرف ایک چھوٹی سی گالی، جو اُس کی ناک پر چپکو مکھّی کی طرح بیٹھ جائے اور ہمیشہ وہیں جمی رہے۔
اِسی اُدھیڑ بُن میں وہ دوسری منزل پر اپنی کھولی کے پاس پہنچ گئی۔ چولی میں سے چابی نکال کر تالا کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو چابی ہوا ہی میں گھوم کر رہ گئی۔ کُنڈے میں تالا نہیں تھا۔ سوگندھی نے کواڑ اندر کی طرف دبائے تو ہلکی سی چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ اندر سے کسی نے کنڈی کھولی اور دروازے نے جمائی لی۔ سوگندھی اندر داخل ہوگئی۔
مادھو مونچھوں میں ہنسا اور دروازہ بند کرکے سوگندھی سے کہنے لگا: ’’آج تو نے میرا کہا مان ہی لیا ...... صبح کی سیر تندرستی کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ہر روز، اس طرح صبح اُٹھ کر، گھُومنے جایا کرے گی تو تیری ساری سُستی دور ہوجائے گی اور وہ تیری کمر کا درد بھی غائب ہوجائے گا جس کی بابت تو آئے دن شکایت کیا کرتی ہے۔ وکٹوریا گارڈن تک تو ہو آئی ہوگی تُو؟ ...... کیوں؟‘‘
سوگندھی نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ مادھو نے جواب کی خواہش ظاہر کی۔ دراصل جب مادھو بات کیا کرتا تھا تو اُس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ سوگندھی ضرور اس میں حصّہ لے۔ اور سوگندھی جب کوئی بات کیا کرتی تھی تو یہ ضروری نہیں ہوتا تھا کہ مادھو اُس میں حصّہ لے ...... چونکہ کوئی بات کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ کچھ کہہ دیا کرتے تھے۔
مادھو بید کی کرسی پر بیٹھ گیا جس کی پشت پر اس کے تیل سے چپڑے ہوئے سر نے میل کا ایک بہت بڑا دھبّا بنا رکھا تھا، اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنی مونچھوں پر اُنگلیاں پھیرنے لگا۔
سوگندھی پلنگ پر بیٹھ گئی اور مادھو سے کہنے لگی: ’’میں آج تیرا انتظار ہی کررہی تھی۔‘‘
مادھو بڑا سٹپٹایا: ’’انتظار؟ ......تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں آج آنے والا ہوں۔‘‘
سوگندھی کے بھنچے ہوئے لب کھُلے، اُن پر ایک پیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی: ’’میں نے رات تجھے سپنے میں دیکھا تھا۔ اُٹھی تو کوئی بھی نہ تھا۔ سو، جی نے کہا: چلو کہیں باہر گھُوم آئیں ...... اور......‘‘
مادھو خوش ہو کر بولا: ’’اور میں آگیا ...... بھئی بڑے لوگوں کی باتیں بڑی پکّی ہوتی ہیں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے، دل کو دل سے راہ ہے ...... تو نے یہ سپنا کب دیکھا تھا؟‘‘
سوگندھی نے جواب دیا: ’’چار بجے کے قریب۔‘‘
مادھو کرسی پر سے اُٹھ کر سوگندھی کے پاس بیٹھ گیا۔’’ اور میں نے تجھے ٹھیک دو بجے سپنے میں دیکھا ...... جیسے تو پھُولوں والی ساڑی ...... ارے! بالکل یہی ساڑی پہنے، میرے پاس کھڑی ہے۔ تیرے ہاتھوں میں ... کیا تھا تیرے ہاتھوں میں؟ ... ہاں، تیرے ہاتھوں میں روپوں سے بھری ہوئی تھیلی تھی! تونے یہ تھیلی [وہ تھیلی؟] میری جھُولی میں رکھ دی اور کہا: ’’مادھو! تو چنتا کیوں کرتا ہے؟ ...... لے یہ تھیلی ...... ارے تیرے میرے روپے کیا دو ہیں؟‘‘ ...... سوگندھی تیری جان کی قسم! فوراً اُٹھا اور ٹکٹ کٹا کر اِدھر کا رخ کیا......کیا سناؤں بڑی پریشانی ہے! ...... بیٹھے بٹھائے ایک کیس ہوگیا ہے۔ اب بیس تیس روپے ہوں تو ...... انسپکٹر کی مٹھّی گرم کرکے چھٹکارا ملے ...... تھک تو نہیں گئی تو؟ لیٹ جا، میں تیرے پیر دبا دوں۔ سیر کی عادت نہ ہو تو تھکن ہو ہی جایا کرتی ہے ...... اِدھر میری طرف پیر کرکے لیٹ جا۔‘‘
سوگندھی لیٹ گئی۔ دونوں بانہوں کا تکیہ بنا کر وہ اُن پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور اُس لہجے میں جو اُس کا اپنا نہیں تھا، مادھو سے کہنے لگی: ’’مادھو، یہ کس موئے نے تجھ پر کیس کیا ہے؟ ...... جیل ویل کا ڈر ہو تو مجھ سے کہہ دے ...... بیس تیس کیا سو پچاس بھی ایسے موقعوں پر پولیس کے ہاتھ میں تھما دِیے جائیں تو فائدہ اپنا ہی ہے ...... جان بچی لاکھوں پائے ...... بس بس، اب جانے دے، تھکن کچھ زیادہ نہیں ہے ...... مٹھّی چاپی چھوڑ اور مجھے ساری بات سُنا ...... کیس کا نام سُنتے ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا ہے ...... واپس کب جائے گا تو؟‘‘
مادھو کو سوگندھی کے منہ سے شراب کی باس آئی۔ اُس نے یہ موقع اچھا سمجھا اور جھٹ سے کہا: ’’دوپہر کی گاڑی سے واپس جانا پڑے گا ...... اگر شام تک سب انسپکٹر کو سو پچاس نہ تھمائے تو ... زیادہ دینے کی ضرورت نہیں، میں سمجھتا ہوں پچاس میں کام چل جائے گا۔‘‘
’’پچاس! ‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی بڑے آرام سے اُٹھی اور اُن چار تصویروں کے پاس، آہستہ آہستہ گئی جو دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ بائیں طرف سے تیسرے فریم میں مادھو کی تصویر تھی۔ بڑے بڑے پھولوں والے پردے کے آگے، کرسی پر، وہ دونوں رانوں پر اپنے ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا۔ پاس ہی تپائی پر دو موٹی موٹی کتابیں دھری تھیں۔ تصویر اُترواتے وقت، تصویر اُتروانے کا خیال، مادھو پر اس قدر غالب تھا کہ اس کی ہر شے تصویر سے باہر نکل نکل کر گویا پکار رہی تھی: ’’ہمارا فوٹو اُترے گا! ہمارا فوٹو اُترے گا!‘‘ کیمرے کی طرف مادھو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فوٹو اترواتے وقت اسے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
سوگندھی کھلکھلاکر ہنس پڑی ...... اُس کی ہنسی کچھ ایسی تیکھی اور نوکیلی تھی کہ مادھو کے سوئیاں سی چبھیں۔ پلنگ پر سے اٹھ کر وہ سوگندھی کے پاس گیا۔’’ کس کی تصویر دیکھ کر تو اِس قدر زور سے ہنسی ہے؟‘‘
سوگندھی نے بائیں ہاتھ کی پہلی تصویر کی طرف اشارہ کیا جو میونسپلٹی کے داروغۂ صفائی کی تھی۔ ’’اِس کی ...... منشی پالٹی کے اِس داروغہ کی ...... ذرا دیکھ تو اِس کا تھوبڑا ...... کہتا تھا، ایک رانی مجھ پر عاشق ہوگئی تھی ...... اونہہ! یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی نے فریم کو اِس زور سے کھینچا کہ دیوار میں سے کیل بھی پلستر سمیت اُکھڑ آئی۔
مادھو کی حیرت ابھی دُور نہ ہوئی تھی کہ سوگندھی نے فریم کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ دو منزلوں سے یہ فریم نیچے زمین پر گرا اور کانچ ٹوٹنے کی جھنکار سُنائی دی۔ سوگندھی نے اُس جھنکار کے ساتھ کہا: ’’رانی بھنگن، کچرا اُٹھانے آئے گی تو میرے اِس راجا کو بھی ساتھ لے جائے گی۔‘‘
ایک بار پھر، اُسی نوکیلی اور تیکھی ہنسی کی پھوار سوگندھی کے ہونٹوں سے گرنا شروع ہوئی جیسے وہ اُن پر چاقو یا چھری کی دھار تیز کررہی ہے۔
مادھو بڑی مشکل سے مسکرایا، پھرہنسا: ’’ہی ہی ہی ...‘‘
سوگندھی نے دوسرا فریم بھی نوچ لیا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ ’’اِس سالے کا یہاں کیا مطلب ہے؟ ...... بھونڈی شکل کا کوئی آدمی یہاں نہیں رہے گا ...... کیوں مادھو؟‘‘
مادھو پھر بڑی مشکل سے مسکرایا اور پھر ہنسا: ’’ہی ہی ہی ...‘‘
ایک ہاتھ سے سوگندھی نے پگڑی والے کی تصویر اُتاری اور دوسرا ہاتھ اُس فریم کی طرف بڑھایا جس میں مادھو کا فوٹو جڑا تھا۔ مادھو اپنی جگہ پر سمٹ گیا جیسے ہاتھ اُس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک سیکنڈ میں، فریم کیل سمیت، سوگندھی کے ہاتھ میں تھا۔
زور کا قہقہہ لگا کر اُس نے ’’اونہہ‘‘ کی اور دونوں فریم ایک ساتھ کھڑکی میں سے باہر پھینک دیے۔ دو منزلوں سے جب فریم زمین پر گرے اور کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی تو مادھو کو ایسا معلوم ہوا کہ اُس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے ہنس کر اتنا کہا: ’’اچھا کِیا ...... مجھے بھی یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔‘‘
آہستہ آہستہ سوگندھی مادھو کے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’تجھے یہ فوٹو پسند نہیں تھا ...... پر میں پوچھتی ہوں، تجھ میں ہے ایسی کون سی چیز، جو کسی کو پسند آسکتی ہے ...... یہ تیری پکوڑا ایسی ناک، یہ تیرا بالوں بھرا ماتھا، یہ تیرے سُوجے ہوئے نتھنے، یہ تیرے مُڑے ہوئے کان، یہ تیرے منہ کی باس، یہ تیرے بدن کا میل؟ ...... تجھے اپنا فوٹو پسند نہیں تھا، اونہہ ...... پسند کیوں ہوتا، تیرے عیب جو چھپا رکھے تھے اُس نے......آج کل زمانہ ہی ایسا ہے، جو عیب چھُپائے وہی بُرا......‘‘
مادھو پیچھے ہٹتا گیا۔ آخر جب وہ دیوار کے ساتھ لگ گیا تو اس نے اپنی آواز میں زور پیدا کرکے کہا: ’’دیکھ سوگندھی! مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تونے پھِر سے اپنا دھندا شروع کیا ہے [کر دیاہے؟] ...... اب تجھ سے آخری بار کہتا ہوں...‘‘
سوگندھی نے اِس سے آگے مادھو کے لہجے میں کہنا شروع کیا: ’’اگر تونے پھِر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی۔ اگر تو نے پھر کسی کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر تجھے باہر نکال دوںگا ...... اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا ...... ہاں، کیا بھاڑا ہے اِس کھولی کا؟‘‘
مادھو چکرا گیا۔
سوگندھی نے کہنا شروع کیا: ’’میں بتاتی ہوں ...... پندرہ روپے بھاڑا ہے اِس کھولی کا ...... اور دس روپے بھاڑا ہے میرا ...... اور جیسا تجھے معلوم ہے، ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ ان ساڑھے سات روپیوں میں مَیں نے ایسی چیز دینے کا وچن دیا تھا، جو میں دے ہی نہیں سکتی تھی اور تو ایسی چیز لینے آیا تھا جو تُو لے ہی نہیں سکتا تھا ...... تیرا میرا ناتا ہی کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ بس یہ دس روپے تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے تھے، سو ہم دونوں نے مل کر ایسی بات کی کہ تجھے میری ضرورت ہوئی اور مجھے تیری ...... پہلے تیرے اور میرے بیچ میں دس روپے بجتے تھے، آج پچاس بج رہے ہیں۔ تو بھی ان کا بجنا سُن رہا ہے اور میں بھی اُن کا بجنا سن رہی ہوں ...... یہ تو نے اپنے بالوں کا کیا ستیاناس کر رکھا ہے؟‘‘
یہ کہہ کر سوگندھی نے مادھو کی ٹوپی، انگلی سے ایک طرف اُڑادی۔ یہ حرکت مادھو کو بہت ناگوار گزری۔ اس نے بڑے کڑے لہجے میں کہا: ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے مادھو کی جیب سے رومال نکال کر سونگھا اور زمین پر پھینک دیا۔ ’’یہ چیتھڑے، یہ چِندیاں ......اُف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھا کے باہر پھینک اِن کو......‘‘
مادھو چلّایا : ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے تیز لہجے میں کہا: ’’سوگندھی کے بچے! تو آیا کس لیے ہے، یہاں؟ ...... تیری ماں رہتی ہے اِس جگہ جو تجھے پچاس روپے دے گی؟ یا تو کوئی ایسا بڑا گبرو جوان ہے جو میں تجھ پر عاشق ہوگئی ہوں ...... کتّے، کمینے، مجھ پر رعب گانٹھتا ہے! میں تیری دبیل ہوں کیا؟ ...... بِھک منگے، تو اپنے آپ کو سمجھ کیا بیٹھا ہے؟ ...... میں پوچھتی ہوں تو ہے کون؟ ...... چوریا گٹھ کُترا؟ ...... اِس وقت تو میرے مکان میں کرنے کیا آیا ہے؟ ...... بلاؤں پولیس کو؟ ...... پونے میں تجھ پر کیس ہو نہ ہو، یہاں تو تجھ پر ایک کیس کھڑا کر [ہی؟] دوں۔‘‘
مادھو سہم گیا۔ دبے ہوئے لہجے میں وہ صرف اِس قدر کہہ سکا ’’سوگندھی، تجھے کیا ہوگیا ہے۔‘‘
’’تیری ماں کا سر ...... تو ہوتا کون ہے مجھ سے ایسے سوال کرنے والا ...... بھاگ یہاں سے، ورنہ ......‘‘ سوگندھی کی بلند آواز سُن کر اُس کا خارش زدہ کتّا جو سوکھے ہوئے چپلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا، ہڑ بڑا کر اٹھا اور مادھو کی طرف منہ اُٹھا کر بھونکنا شروع کردیا۔ کتّے کے بھونکنے کے ساتھ ہی سوگندھی زور زور سے ہنسنے لگی۔
مادھو ڈر گیا۔ گری ہوئی ٹوپی اُٹھانے کے لیے وہ جھُکا تو سوگندھی کی گرج سنائی دی: ’’خبردار ......! پڑی رہنے دے وہیں ...... توجا! تیرے پونا پہنچتے ہی میں اِس کو منی آرڈر کردوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اور زور سے ہنسی اور ہنستی ہنستی بید کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اُس کے خارش زدہ کتّے نے بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ سیڑھیاں اُتار کر، جب کتّا اپنی ٹنڈ منڈ دُم ہلاتا سوگندھی کے پاس واپس آیا اور اُس کے قدموں کے پاس بیٹھ کر کان پھڑ پھڑانے لگا تو سوگندھی چونکی ...... اُس نے اپنے چاروں طرف ایک ہول ناک سنّاٹا دیکھا ...... ایسا سنّاٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اُسے ایسا لگا کہ ہر شے خالی ہے ...... جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی، سب اسٹیشنوں پر مسافر اتار کر، اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے ...... یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہوگیا تھا، اُسے بہت تکلیف دے رہا تھا۔ اس نے کافی دیر تک اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ وہ ایک ہی وقت میں بے شمار خیالات اپنے دماغ میں ٹھونستی تھی مگر بالکل چھلنی کاسا حساب تھا: اِدھر دماغ کو پُر کرتی تھی، اُدھر وہ خالی ہوجاتا تھا۔ 
بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اُس کو اپنا دِل پر چانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اُس نے اپنے خارش زدہ کُتّے کو گود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر، اُسے پہلو میں لٹا کر سوگئی۔