منگل، 30 جنوری، 2018
پیر، 29 جنوری، 2018
بدھ، 24 جنوری، 2018
رقیب سے ! از فیض احمد فیض
رقیب سے !
آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی اُلفت میں بھُلا رکھی دُنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سُود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی ، وہ رخسار ، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گِنواؤں تو گِنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جُز ترے اور سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے ، دُکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رُخِ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بِلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتواں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عُقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بِکتا ہے بازار میں مزدُور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہُو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
اتوار، 21 جنوری، 2018
ہفتہ، 20 جنوری، 2018
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں از منیر نیازی
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اُسے آواز دینی ہو اُسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
گھر بنانا چاہتا ہوں از منیر نیازی
گھر بنانا چاہتا ہوں
سر وادی سینا
سر وادی سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت
اے دیدہ بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے
گلزار ارم پرتو صحرا عدم ہے
پندار جنوں
حوصلہ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
اے دیدہ بینا
پھر دل کو مصفا کرو اس لوح پہ شاید
مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہی
تائید ستم مصلحت مفتی دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
اور سنو
کہ شاید یہ نور صیقل ہے اس صحیفے کا حرف اول
جو ہر کس و ناقص زمیں پر
دل گدایان اجمعیں پر اتر رہا ہے فلک سے اب کے
سنو کہ سر پہ لم یزل کے ہمی تمہی بندگان بے بس
علیم بھی ہیں خبیر بھی ہیں
سنو کہ ہم بے زبان و بے کس بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں
وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ
وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حِکم کے سر اُوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اور راج کرے گی خلقِ خُدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
امریکہ۔ جنوری۱۹۷۹ء